0
Monday 23 Jul 2018 15:33

پاکستانیو! پاکستان کو ووٹ دو

پاکستانیو! پاکستان کو ووٹ دو
تحریر: ثاقب اکبر
 
25 جولائی 2018ء کو پاکستان میں گیارہویں عام انتخابات منعقد ہو رہے ہیں۔ ان انتخابات کو پاکستان کے اندر اور باہر نہایت اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ پوری دنیا کا میڈیا اس پر مرتکز نظر آتا ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے بھارت کو ان انتخابات سے کچھ خاص دلچسپی پیدا ہوگئی ہے۔ دن رات اس کے ٹی وی چینلز اس پر اپنی رپورٹیں اور تجزیے پیش کر رہے ہیں۔ پاکستان کا میڈیا بھی جس انداز سے ان انتخابات کے حوالے سے مہم چلائے ہوئے ہے نیز پروگرام اور تجزیے پیش کر رہا ہے، وہ ماضی سے کچھ سوا معلوم ہوتے ہیں۔ پاکستان کے انتخابات اس مرتبہ اس لحاظ سے بھی اہم ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ نون جو ایک طویل عرصے سے وقفے وقفے سے حکمران چلی آرہی ہے، کے قائد ان دنوں پس دیوار زنداں ہیں اور افسوناک امر تو یہ ہے کہ ان پر مالی بددیانتی کا جرم ثابت ہوگیا ہے، ان کی بیٹی مریم اور داماد کیپٹن صفدر بھی اڈیالہ جیل میں ان کے ساتھ ہیں، اگرچہ ان کے حامی ان کی گرفتاری کو سیاسی رنگ دے کر پیش کر رہے ہیں۔ چنانچہ پاکستان مسلم لیگ نون کی انتخابی مہم کی قیادت میاں محمد شہباز شریف کے ہاتھ میں ہے۔ جو پارٹی کے مجبوراً نئے صدر بنائے گئے ہیں۔ اسے پاکستان کی سیاست میں نہایت اہم واقعہ قرار دیا جانا چاہیے۔
 
پاکستان کے انتخابات اس مرتبہ اس لحاظ سے بھی اہم ہیں کہ پاکستان کی ایک اور اہم حکمران پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی اپنے نئے قائد کے ساتھ معرکہ انتخابات میں اتری ہے۔ پاکستان بھر میں بلاول بھٹو زرداری اس پارٹی کی مہم کی قیادت کر رہے ہیں۔ ان کے جلسے اور ریلیاں بی بی کا بیٹا بلاول، بھٹو کا نواسہ بلاول کے نعروں سے گونج رہی ہیں۔ ان کے والد جو 2008ء سے 2013ء تک بے نظیر بھٹو کی المناک شہادت کے بعد پاکستان کے صدر رہے، ان دنوں زیادہ تر حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی بیشتر سیاسی سرگرمیاں زیر زمین ہیں اور تھوڑی بہت بالائے زمین بھی دکھائی دیتی ہیں۔ بلاول بھٹو کی پھوپھو فریال تالپور جو گذشتہ کئی برسوں سے ہر جلسے اور میٹنگ میں اپنے بھتیجے کے ساتھ سائے کی طرح نظر آتی رہیں، ان دنوں ریلیوں اور جلسوں میں دکھائی نہیں دے رہیں۔ یقینی طور پر بلاول میں ایک نیا اعتماد نظر آرہا ہے۔
 
پاکستان کے انتخابات میں اس مرتبہ تحریک انصاف کا غلغلہ کچھ زیادہ ہی معلوم ہوتا ہے اور بیشتر تجزیہ کار ان انتخابات میں اس کی کارکردگی کو گذشتہ تمام انتخابات کی نسبت بہتر قرار دے رہے ہیں۔ سیاسی پیشگوئیوں کے ماہرین کے نزدیک انتخابات کے بعد تحریک انصاف سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرے گی۔ اس پارٹی کو پاکستان میں تبدیلی کی علامت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ خود تحریک انصاف کی قیادت کا بھی یہ دعویٰ ہے کہ وہ پاکستان کو تبدیل کر دے گی۔ ان کے نزدیک یہ تبدیلی کرپشن کے خاتمے، اداروں کی اصلاح اور اچھی حکمرانی سے عبارت ہے۔ ان کے مطابق یہ وہ خصوصیات ہیں جو انہیں ماضی کے حکمرانوں سے مختلف بناتی ہیں۔ اگرچہ وہ اپنے لئے خیبر پختونخوا میں اپنی کارکردگی کو بنیاد بناتے ہیں، تاہم جب تک مرکز میں وہ اپنی کارکردگی سے پاکستان کے عوام کو مطمئن نہیں کرتے، ان کے دعووں کو دعووں سے زیادہ کہنا قبل ازوقت ہے۔ البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت نے پاکستان کی عوام کو ایک نئے شعور اور عزم سے ضرور ہم آہنگ کیا ہے۔ انتخابات میں اس وقت اور بھی کئی ایک اہم پارٹیاں شرکت کر رہی ہیں۔ شاید متحدہ مجلس عمل جو پانچ مذہبی جماعتوں پر مشتمل اتحاد ہے، ان میں زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ خاص طور پر اپنے ماضی کے پیش نظر جب یہ اتحاد 2002ء کے انتخابات میں ایک دوسرا بڑا سیاسی گروپ بن کر سامنے آیا تھا اور اس اتحاد کی حکومت خیبر پختونخوا میں قائم ہوئی تھی۔ قومی اسمبلی میں مولانا فضل الرحمن اس اتحاد کی طرف سے قائد حزب اختلاف منتخب ہوئے تھے۔

اس اہم تاریخی موقع پر ہم پاکستان کے عوام سے ایک ہی گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ اے پاکستانیو! پاکستان کو ووٹ دینا۔ یہ گزارش ہم مندرجہ ذیل پہلوﺅں کو سامنے رکھتے ہوئے کر رہے ہیں۔
1۔ ماضی میں بعض پارٹیوں کی علاقائی اور لسانی بنیاد پر انتخابی حکمت عملی نے پاکستان کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ کسی علاقے میں کسی پارٹی کے موثر ہونے پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں اور نہ کسی زبان بولنے پر ہم اعتراض کرسکتے ہیں۔ پاکستان کے سارے علاقے اور تمام زبانیں ہمیں عزیز ہیں، لیکن ان بنیادوں پر نفرتوں کا کاروبار کرنا اور ایک علاقے کے لوگوں کو دوسرے علاقوں کے لوگوں سے متنفر کرنا، ایک زبان بولنے والوں کو دوسری زبان بولنے والوں کے سامنے صف آراء کرنا، ہم درست نہیں جانتے۔ اس سے ایسا کرنے والے بھی کمزور ہوتے ہیں اور ملک بھی کمزور ہوتا ہے۔ ہم سب کی طاقت ایک ملک اور ایک قوم کی صورت میں ہی ہوسکتی ہے۔ اگر کوئی علاقہ دوسرے علاقوں کی نسبت پسماندہ ہے تو اسے ضرور ترجیحاً توجہ کی ضرورت ہے۔ یہی بات ہم کسی خاص زبان بولنے والوں کے لئے بھی کہہ سکتے ہیں۔
 
2۔ بدقسمتی سے ماضی میں فرقہ پرست عناصر بھی منتخب ہو کر اسمبلیوں میں پہنچتے رہے ہیں، اب بھی ایسے افراد جن کا ماضی دہشت و وحشت سے عبارت ہے اور جو دین و مذہب کے نام پر شدت و حدت میں اضافے کا باعث بنتے رہے ہیں، انتخابی دوڑ میں شامل ہوگئے ہیں۔ ایسے عناصر بھی ان میں موجود ہیں، جو ابھی چند روز پہلے تک کالعدم جماعتوں کے عنوان سے پہچانے جاتے تھے، آج انہوں نے نئے عنوان رکھ لئے ہیں، حکومت نے ایک طرح سے ان پر پابندیاں ختم کر دی ہیں، ان میں سے بعض کو فورتھ شیڈول سے نکال دیا گیا ہے اور انتخاب لڑنے کے لئے کھلا چھوڑ دیا ہے۔ بہت سے لوگ بہادر شاہ ظفر کے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں:
کیا چل سکے گا ہم سے کہ پہچانتے ہیں ہم
تو لاکھ اپنی چال کو ظالم بدل کے چل
ہمیں خاص طور پر ان افراد کے بارے میں توجہ دلانا ہے، جو تکفیر کے علمبردار رہے ہیں۔ انہی عناصر نے اس ملک میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کئے رکھا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کی سینیٹ کے بعض جید سیاسی راہنماﺅں نے متوجہ کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر ایسے چند لوگ منتخب ہو کر قانون ساز اداروں میںپہنچ گئے تو ہمارا کیا بنے گا۔ اس درجے پر سامنے آنے والی تشویش کو ابھی تک حکومت اور متعلقہ اداروں نے توجہ نہیں دی۔ ہم تمام پاکستانیوں سے یہ گزارش کریں گے کہ وہ ایسے افراد کو ووٹ دیں، جو سارے پاکستانیوں سے محبت رکھتے ہوں، آئین اور قانون کی بالادستی کو تسلیم کرتے ہوں، اتحاد امت پر ایمان رکھتے ہوں اور پاکستان کی اقلیتوں کے لئے بھی آئینی حقوق کے احترام کے قائل ہوں۔
 
ایک اور امر افسوس کے ساتھ قابل ذکر ہے اور وہ یہ کہ ماضی میں چند حکمرانوں نے اپنے غیر ملکی آقاﺅں کی خوشنودی کے لئے یا بزعم خویش اپنے اقتدار کے تحفظ کے لئے بعض ایسے فیصلے کئے، جن کے منحوس اثرات سے ابھی تک یہ ملک باہر نہیں آسکا۔ بعض اہم پارٹیوں کے راہنماﺅں کے مفادات پاکستان سے باہر موجود ہیں۔ ان سے ہم توقع نہیں کرسکتے کہ وہ ہر صورت میں اپنے مفادات کو نظرانداز کرکے پاکستان کے مفادات کو ترجیح دیں گے، کیونکہ اس مسئلے میں ہم پاکستانی پہلے سے زخم خوردہ ہیں۔ لہٰذا ہم اپنے اہل وطن سے محبت کے ساتھ درخواست کرنا چاہیں گے کہ وہ ان افراد کو ووٹ دیں جو ہر فیصلے میں پاکستان کو اولیت دیں اور کسی قسم کی بیرونی ڈکٹیشن قبول نہ کریں۔ یہ ڈکٹیشن چاہے مغرب سے آتی ہو، چاہے مشرق سے، کسی غیر مسلم ملک کی طرف سے آتی ہو یا کسی مسلمان ملک کی طرف سے۔ پاکستان کے فیصلے پاکستان میں اور پاکستان کے عوام کے مفاد میں ہونا چاہئیں۔ کسی دوسرے ملک یا بیرونی شخصیت کے مفاد میں فیصلہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ووٹ ڈالتے ہوئے ہم ہر پارٹی کے ماضی کا بھی جائزہ لیں اور اس کی خارجہ پالیسی کو بھی پیش نظر رکھیں۔ وقت آگیا ہے کہ ہم ایک قوم بننے کے لئے ووٹ دیں، ہم پاکستان کو مستحکم کرنے کے لئے ووٹ دیں، ہم پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے لئے ووٹ دیں، یعنی ہم پاکستان کو ووٹ دیں۔
خبر کا کوڈ : 739774
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش