5
0
Saturday 17 Aug 2013 03:58

دریا کے دو کنارے

دریا کے دو کنارے
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@yahoo.com
 

تاریخ کی ورق گردانی اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس سے بند دماغوں کو کھولنے اور جامد شخصیتوں کو حرکت دینے میں مدد ملتی ہے۔ اربابِ دانش جانتے ہیں کہ تاریخ مطالعے کی نہیں بلکہ تجزیہ و تحلیل کی چیز ہے۔ باالفاظِ دیگر تاریخ حفظ کرنے کے بجائے تطبیق کرنے کی شئ ہے۔ اگر انسان میں تجزیہ و تحلیل اور تطبیق کرنے کی صلاحیت نہ ہو تو اس کی تاریخی معلومات فقط یاداشتوں کا مجموعہ کہلاتی ہیں اور اگر انسان تجزیہ و تحلیل اور تطبیق کے فن سے آشنا ہو تو تاریخ عبرتوں کا چراغ اور مستقبل کے لئے قطب نما کی حیثیت رکھتی ہے۔

اقوام کی تاریخ ایک طلاطم خیز دریا کی مانند بہتی ہے اور اس کے دونوں کناروں پر دو مختلف دنیائیں آباد ہوتی ہیں۔ اس کے ایک کنارے پر وفادار اپنا لنگر ڈالے رکھتے ہیں اور اس کے دوسرے کنارے پر غدار اور دشمن خیمہ زن رہتے ہیں۔ عقلمند قومیں اپنی نئی نسلوں کو صرف وفاداروں کی معرکہ آرائیوں سے آگاہ نہیں کرتیں بلکہ غداروں کی تباہ کاریوں سے بھی باخبر کرتی ہیں۔ یوں تو دریا کے دو مستقل کناروں کی مانند وفادار اور غدار ہمیشہ ایک دوسرے کے مدمقابل رہتے ہیں لیکن ملت پاکستان نے دریا کے ان دو کناروں کا مشاہدہ 1988ء اور 1989ء میں بخوبی کیا۔

قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی (رہ) کی شہادت کے بعد بے نظیر بھٹو، نواز شریف، آفتاب شیرپاو اور چوہدری شجاعت حسین نے اس خونِ ناحق کو چھپانے کے لئے جو کیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں اور وقتاً فوقتاً تجزیہ و تحلیل کی صورت میں منظرِ عام پر آتا رہتا ہے، البتہ ملت جعفریہ کی مظلومی کا ایک سیاہ ورق ایسا بھی ہے جسے ملت کے داخلی غداروں نے رقم کیا ہے اور اسے بھی منظر عام پر لانے کی اشد ضرورت ہے۔ اس امر کی ضرورت اس لئے بھی ہے کہ دور کوئی سا بھی ہو، حکومت کوئی سی بھی ہو اور حکمران جو بھی ہو، ہماری نوجوان نسل جب بھی غداروں سے ٹکرائے تو گھبرائے نہیں۔

یہ 2 نومبر 1989ء کا وہ سیاہ ترین دن تھا جس روز فضل حق کو سپریم کورٹ نے رہا کر دیا تھا۔ فضل حق سمیت ہر چھوٹے بڑے شیطان کو اچھی طرح معلوم تھا کہ اس کے بعد ملت جعفریہ مزید مشتعل ہوجائے گی، چنانچہ حکومت نے اہل تشیع کی صفوں میں بکاو قسم کے روایتی شیعوں کو خریدنے کا کاروبار شروع کر دیا۔ سرکاری خزانے کا منہ کھول دیا گیا، لالچی و موقع پرست افراد کی تجوریاں بھرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا اور کئی لوگوں کو سرکاری ملازمتوں کے وعدے دیئے گئے۔ اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لئے کئی لوگ سرکاری ایجنسیوں کے آگے دم ہلانے لگے اور ان دم ہلانے والوں میں ایک بڑا نام "باوا نفیس الحسن آف قصور" کا تھا۔" باوا صاحب" نے کئی مرتبہ اپنے اخباری بیانات میں فضل حق کو بے گناہ قرار دیا اور بالاخر وہ اس سلسلے میں شیزان ہوٹل لاہور میں پریس کانفرنس کرنے پر اتر آئے۔

تحریک نفاذ فقہ جعفریہ اور آئی ایس او کے جوانوں کو اس کی خبر ہوئی تو انہوں نے "باوا اینڈ کمپنی" کو آڑے ہاتھوں لیا۔ صحافیوں کی موجودگی میں "چھترول" کی گئی اور بکاو شیعوں کو گھسیٹ کر مال روڈ پر لایا گیا۔ بعض عینی شاہدین کے مطابق انہیں لاہور کی سب سے مصروف ترین شاہراہ مال روڈ پر "مرغا"بنا دیا گیا۔ اس کے بعد مرغوں کی جامہ تلاشی لی گئی تو نذیر حسین شاہ نامی ایک صاحب کی جیب سے وزیراعلٰی پنجاب کے نام ایک درخواست نکلی۔ یہ درخواست نذیر حسین شاہ کے بیٹے نے اے ایس آئی بھرتی ہونے کے لئے وزیراعلٰی پنجاب کو لکھی تھی۔ پروگرام کے مطابق فضل حق کے حق میں پریس کانفرنس کرنے کے بعد وزیراعلٰی پنجاب نے اس درخواست پر تقرری کا حکم صادر کرنا تھا۔ پٹائی اور چھترول کے بعد ملت جعفریہ کے ذمہ داروں نے جب ہوٹل کی انتظامیہ سے اس پریس کانفرنس کے انتظامات کے بارے میں پوچھ گچھ کی تو پتہ چلا کہ اس پریس کانفرنس کی بانی وزارت اطلاعات و نشریات پنجاب تھی۔ [1]

وہ دور گزر گیا، لیکن اس طرح کے واقعات اس بات پر گواہ ہیں کہ ہر دور میں ہماری ملت کے درمیان عمر ابن سعد جیسے مفاد پرست اور غدار موجود رہے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ عقلمند قومیں اپنی نئی نسلوں کو صرف وفاداروں کی معرکہ آرائیوں سے آگاہ نہیں کرتیں بلکہ غداروں کی تباہ کاریوں سے بھی باخبر کرتی ہیں۔ وفادار اور غدار تاریخ کے دریا کے دو مستقل مگر مخالف کنارے ہیں۔ حالات جیسے بھی ہوں "ناخدا" کے لئے دونوں کناروں پر نگاہ رکھنی ضروری ہے اور تاریخ کی ورق گردانی اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس سے بند دماغوں کو کھولنے اور جامد شخصیتوں کو حرکت دینے میں مدد ملتی ہے۔
--------------------------------------------------------------------------------
[1] استفادہ از قتیل سحر ص ۲۱۲ و بعض عینی شاہدین سے گفتگو
خبر کا کوڈ : 293216
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United States
Good
Iran, Islamic Republic of
ملت جعفریہ کی مظلومی کا ایک سیاہ ورق ایسا بھی ہے جسے ملت کے داخلی غداروں نے رقم کیا ہے اور اسے بھی منظر عام پر لانے کی اشد ضرورت ہے۔
United States
بہت خوب نذر بھائی
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔۔۔ ہمیں اپنے ماضی کو آئینہ بنا کر اس میں مستقبل کا نقشہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔۔۔
یقیناً یہ میر جعفر اور میر صادق ہی ہوتے ہیں جو امت کے زوال کا سامان فراھم کرتے ہیں۔۔ ورنہ غیروں میں اتنی جرات کہاں؟
عباس حسینی
Iran, Islamic Republic of
vip:.:.عقلمند قومیں اپنی نئی نسلوں کو صرف وفاداروں کی معرکہ آرائیوں سے آگاہ نہیں کرتیں بلکہ غداروں کی تباہ کاریوں سے بھی باخبر کرتی ہیں۔
Iran, Islamic Republic of
حالات جیسے بھی ہوں "ناخدا" کے لئے دونوں کناروں پر نگاہ رکھنی ضروری ہے۔
ہماری پیشکش