0
Wednesday 28 Aug 2013 23:50

کرزئی کی چاپلوسی میں پوشیدہ مقصد پر نظر رکھی جائے۔۔۔!

کرزئی کی چاپلوسی میں پوشیدہ مقصد پر نظر رکھی جائے۔۔۔!
تحریر: تصور حسین شہزاد

وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے افغان صدر حامد کرزئی کے دورۂ پاکستان کے موقع پر ایک مرتبہ پھر پاکستان کے اس موقف کا اعادہ کیا ہے کہ پاکستان افغان عوام کے مفادات کا تحفظ چاہتا ہے اور ان کی مرضی و خواہشات کے مطابق افغانستان میں قیام امن کے لئے بھرپور کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔ افغان صدر کے ساتھ ملاقات کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب میں وزیراعظم نے کہا کہ دونوں ملکوں کے عوام کا مستقبل محفوظ بنانے کیلئے باہمی رابطوں کے فروغ کو یقینی بنانا ہوگا۔ نیٹو افواج کا افغانستان سے پرامن انخلا ہماری سب سے بڑی خواہش ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان امریکی انخلاء کے بعد اچھے تعلقات قائم رہنے سے خطے میں قیام امن کی کوششیں ثمر بار ہوسکتی ہیں۔ افغان صدر نے کہا کہ وہ بڑی امیدوں کے ساتھ پاکستان آئے ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ پاکستان طالبان کے ساتھ مذاکرات میں افغان حکومت کی مدد کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ شدت پسند ہمارے مشترکہ دشمن ہیں، جو دونوں ملکوں کے عوام اور سکیورٹی اداروں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ وہ پرامید ہیں کہ پاکستان انتہا پسندی کے خلاف لڑائی، افغانستان میں امن و مفاہمت اور افغان امن کونسل اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے لئے جو ممکنہ حد تک کرسکتا ہے ضرور کرے گا۔ اس ایجنڈے کے ساتھ ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔ مہمان صدر نے قیام امن کے لئے پاکستان کے کردار کی تعریف کی اور انتہا پسندی کے خلاف مشترکہ کوششوں پر زور دیا۔

افغان صدر حامد کرزئی نے اپنے پورے عہد صدارت میں پاکستان کے ساتھ اپنی معاندانہ پالیسی ایک تسلسل کے ساتھ چلائی اور اب جبکہ وہ اپنی دوسری مدت پوری کرکے اس منصب سے سبکدوش ہونے جا رہے ہیں تو وہ اس کوشش میں ہیں کہ افغانستان حکومت میں کسی نہ کسی طرح آئندہ بھی انہیں کوئی ایسا کردار مل جائے، جس سے وہ بعد از صدارت بھی اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھ سکیں۔ امریکہ و بھارت کی طرف سے مایوسی کے بعد ان کو پاکستان کا خیال آیا ہے، جس کیلئے انہوں نے ہمیشہ زہر افشانی کی، مگر کل وہ نواز شریف کو ’’پیارے بھائی‘‘ سے مخاطب کر رہے تھے، تو ان کی تلخ نوائی سے عاجز پاکستانی حکام ان کی شیریں بیانی کو حیرت سے دیکھ رہے تھے، لیکن پاکستان کے ساتھ ان کے ماضی کا رویہ کسی کی یاد سے محو نہیں ہو پا رہا۔

9/11 کے بعد دہشتگردی کی جنگ میں فرنٹ لائن سٹیٹ کا کردار ادا کرنے والے پاکستان میں دہشتگردی کی آگ کو ایک خوفناک الاؤ میں تبدیل کرنے والے حامد کرزئی کی آخری دموں پہ آئی حکومت کی جانب سے پاکستان کے ساتھ مشترکہ حکمت عملی اختیار کرکے قیام امن کی کوششوں کی خواہش آرزوئے ناتمام کے سوا کچھ نہیں کیونکہ حامد کرزئی ایک شاطر و چالاک سیاستدان ہیں، جنہیں امریکیوں نے بھی عملی طور پر ناقابل اعتبار قرار دے دیا ہے اور افغان طالبان تو پہلے ہی ان کے ساتھ مذاکرات کے لئے تیار نہیں، وہ تو امریکہ سے براہ راست مذاکرات کو ترجیح دے رہے ہیں۔ امریکہ بھی ان سے مذاکرات کے لئے افغان حکومت سے زیادہ دیگر ذرائع پر بھروسہ کر رہا ہے، کیونکہ دوحہ مذاکرات صدر کرزئی کے افغان طالبان کے دفتر پر ’’امارت اسلامی افغانستان کا رابطہ دفتر‘‘ کا بورڈ لگائے جانے پر سامنے آنے والے شدید ردعمل نے سبوتاژ کر دیئے تھے۔ ازاں بعد امریکہ و افغان طالبان کے درمیان سلسلۂ جنبانی کی تجدید کے لئے پاکستان نے اپنا کردار ادا کیا اور شنید ہے کہ نئے امریکی وزیر خارجہ کے لئے پاکستان کی عسکری قیادت نے افغان طالبان سے مل بیٹھنے کی سبیل پیدا کی۔

اس صورتحال سے پریشان حامد کرزئی پاکستان کی سیاسی قیادت سے اپنے مستقبل کے تحفظ کی ضمانت طلب کرنے کی آرزو لئے اسلام آباد چلے آئے ہیں کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ بھارت و امریکہ کی لاکھ کوششوں کے باوجود افغانستان میں نیا سیاسی منظر نامہ پاکستان کے بنا متشکل نہیں ہوسکتا۔ افغانستان میں بے شک حکمران طبقات پاکستان کے ساتھ شکر رنجی کا مظاہرہ کرتے چلے آ ئے ہوں، مگر دونوں ملکوں کے عوام رشتہ اخوت اسلامی کی مضبوط زنجیر میں جکڑے ہوئے ہیں، جسے زمانے کے سرد و گرم کبھی نہیں توڑ سکے۔ آج بھی پاکستان تیس لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین کی میزبانی ہے، لاکھوں کی تعداد میں افغان باشندے پاکستان میں آزاد زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ افغان طالبان کی اکثریت پاکستانی مدارس کی فارغ التحصیل ہے۔ ان طالبان کو افغانستان کی کثیر آبادی آج بھی اپنا نجات دہندہ تصور کرتی ہے اور کرزئی حکومت کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔

حامد کرزئی ایک ایسے سیاسی کردار ہیں، جنہیں اپنی کٹھ پتلی بناکر نچانے والے بھی ان پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں، ایسے میں پاکستان کے حکمران انہیں کیوں اور کس ایجنڈے کے تحت سر آنکھوں پر بٹھا رہے ہیں، سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہماری دانست میں میاں نواز شریف حکومت کو خطے کی بدلتی ہوئی صورت حال کا ادراک کرتے ہوئے ان لوگوں کے ساتھ روابط بڑھانے چاہئیں جو قیام امن کی کوششوں کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے بھرپور کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہوں۔ پاکستان حکومت اپنی حدود میں پنجابی طالبان کے ساتھ اعتماد سازی پیدا کرنے کے لئے جو کاوشیں کر رہی ہے، انہیں ثمر بار کرنے کے لئے ایسے مصالحت کنندگان کی خدمات درکار ہیں جو دونوں طرف کے طالبان کے لئے یکساں قابل احترام ہوں اور جن کی بات ٹالنا کسی کے بس میں نہ ہو۔ اس سارے عمل میں حکومت کو ایسے عناصر سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے جو قیام امن کی کوششوں کو اپنی مقصد برآوری کیلئے سبوتاژ کر دیتے ہیں، افغانستان صدر حامد کرزئی کا ماضی کا کردار انہیں اسی صف میں دکھایا ہے جو پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے والوں کی ہے۔ لہٰذا حکومت پاکستان کا ان کی شیریں بیانی کی سحر انگیزی سے بچ کر رہنا ہی مناسب ہوگا۔

افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء کے بعد وہاں پاکستان دوست یا پاکستان کے بہی خواہوں کیلئے اقتدار کی راہ ہموار کرنے میں عساکر پاکستان یا حکمران اشرافیہ کی حکمت عملی کیا ہونی چاہئے، اس کے بارے میں مقتدر قوتوں کا روڈ میپ مبینہ طور پر طے شدہ ہے، جسے رو بہ عمل لانے کیلئے جدوجہد جاری ہے۔ اندرون ملک ریاست کی رٹ منوانے کیلئے شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات اور طاقت کی آپشنز کھلی رکھنے کی حکمت عملی اس کا حصہ ہے۔ وزیراعظم کی طرف سے طاقت کے استعمال پر بھڑک اٹھنے والے عسکریت پسند اس قسم کے تنازعات مٹانے کی تاریخ سے نابلد ہیں اور نہیں جانتے کہ ریاست کبھی اپنی بالادستی سے دستبردار نہیں ہوسکتی اس لئے زیادہ مناسب بات یہی ہے کہ وہ اپنے رویے پر نظرثانی کریں اور موقع سے فائدہ اٹھا کر قیام امن کی کوششوں کو کامیابی سے ہمکنار کرانے کے لئے تعاون کریں۔ حزب اختلاف کی جانب سے حکومت کو قیام امن کے لئے ہر راستہ اختیار کرنے پر غیر مشروط تعاون کی یقین دہانی سے نان اسٹیٹ ایکٹرز کو صورتحال کی جتنی جلد سمجھ آ جائے، اتنا ہی ان کے حق میں بہتر ہو گا! ندائے عصر پر لبیک کہتے ہوئے حکومت اور حزب اختلاف کا ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے یک زبان ہونا خوش آئند ہے، جو بہتر مستقبل کی نوید مسرت ہے۔
خبر کا کوڈ : 296533
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش