QR CodeQR Code

غزہ سے اسلام آباد تک، انقلابی شیعہ تیروں کی زد میں

20 Aug 2014 21:27

اسلام ٹائمز: مفتی جعفر حسین مرحوم کی رحلت کے بعد پاکستان میں اہل تشیع کی روایتی جدوجہد جمہوری، سیاسی، انقلابی قوت میں ڈھل گئی۔ اسی زمانے میں لبنان سے تعلق رکھنے والے علماء نے علامہ عباس موسوی شہید کی قیادت میں امام خمینی سے ملاقات کے بعد حزب اللہ کی بنیاد رکھی۔ پاکستان میں شیعہ حقوق، اتحاد بین المسلمین، فلسطین کی حمایت اور ولایت فقیہ کی منہج پر اسلامی جمہوریت کے نفاذ کی جدوجہد کرتے ہوئے، علامہ عارف حسین الحسینی شہید ہوگئے۔ علامہ عباس موسوی شہید اور علامہ عارف حسین حسینی کا راستہ اور منزل ایک تھی۔ اگر علامہ عارف حسین حسینی لبنان میں ہوتے تو وہی طرز عمل اور حکمت عملی اختیار کرتے جو حزب اللہ نے اختیار کی، اگر علامہ عباس موسوی پاکستان میں ہوتے تو ایسی ہی سیاست انجام دیتے جو شہید عارف حسینی نے انجام دی۔


تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ

وفاقی دارالحکومت کے حساس ترین قرار دیئے گئے علاقے ریڈ زون میں لبیک یاحسین علیہ السلام کی گونج نے ایک بار پھر مفتی جعفر حسین مرحوم کے دور کی یاد تازہ کر دی ہے۔ چار اور پانچ جولائی، 1980ء میں انہوں نے سابق صدر ضیاءالحق کے زکواۃ اور عشر آرڈیننس کے خلاف دارالحکومت میں لانگ مارچ کی کال دی تھی۔ تاریخ گواہ ہے کہ ضیاءالحق کی آمریت نے حسینی جذبوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے تھے۔ آج کا لانگ مارچ فقط اہل تشیع کے ساتھ روا رکھے جانے والے ناروا سلوک کیخلاف احتجاج تک محدود نہیں، بلکہ علامہ مفتی جعفر حسین کے وارث، وطن عزیز کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے والی ضیائی آمریت کی سیاسی باقیات کے ہاتھوں، ماڈل ٹاون لاہور میں شہید ہونے والے اہلسنت عاشقان رسول و آل رسول علہیم السلام کے خون کا حساب مانگنے آئے ہیں۔ ضیاءالحق نے اپنے انتقام کی آگ بجھانے کے لیے اہل تشیع کو اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا اور اہل سنت کو دیوار کیساتھ لگا دیا۔ مفتی جعفر حسین کی رحلت کے بعد، قائد شہید علامہ عارف حسینی نے، سرزمین پاکستان پر حسینیت کا پرچم بلند رکھا۔ کالعدم سپاہ صحابہ جیسے گروہ ضیاءالحق کے مذہبی وارث ٹھہرے اور ضیائی آمریت کا سیاسی ترکہ نواز شریف کے حصے میں آیا۔

مفتی جعفر حسین مرحوم کی رحلت کے بعد پاکستان میں اہل تشیع کی روایتی جدوجہد جمہوری، سیاسی، انقلابی قوت میں ڈھل گئی۔ اسی زمانے میں لبنان سے تعلق رکھنے والے علماء نے علامہ عباس موسوی شہید کی قیادت میں امام خمینی سے ملاقات کے بعد حزب اللہ کی بنیاد رکھی۔ پاکستان میں شیعہ حقوق، اتحاد بین المسلمین، فلسطین کی حمایت اور ولایت فقیہ کی منہج پر اسلامی جمہوریت کے نفاذ کی جدوجہد کرتے ہوئے، علامہ عارف حسین حسینی شہید ہوگئے۔ علامہ عباس موسوی شہید اور علامہ عارف حسین حسینی کا راستہ اور منزل ایک تھی۔ اگر علامہ عارف حسین حسینی لبنان میں ہوتے تو وہی طرز عمل اور حکمت عملی اختیار کرتے جو حزب اللہ نے اختیار کی، اگر علامہ عباس موسوی پاکستان میں ہوتے تو ایسی ہی سیاست انجام دیتے جو شہید عارف حسینی نے انجام دی۔ حزب اللہ نے لبنان کے شیعہ نشین علاقوں سے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا اور پورے عالم اسلام کے لیے ڈھال بن گئے۔ اسکی تازہ ترین مثال حماس اور اسرائیل کی جنگ میں حزب اللہ کا کردار ہے۔ اسی طرح پاکستان میں شہید عارف حسینی کی سیاسی جدوجہد نے پاکستان کے مسلکی رسوم و قیود میں محدود ماحول کو مثبت اور موثر انداز میں متاثر کیا۔ زمانہ جانتا ہے کہ دنیائے تشیع کے اجتماعی مزاج میں آنے والی یہ تبدیلی امام خمینی کی قیادت میں برپا ہونے والے اسلامی انقلاب کا ہی ایک جلوہ ہے۔ 

دنیائے تشیع میں حزب اللہ جیسے گروہوں کے کردار کو عالمی سامراجی قوتیں اپنے مفادات کے لیے خطرہ محسوس کرتی ہیں۔ جس طرح انقلاب اسلامی ایران نے دنیائے تشیع کو براہ راست متاثر کیا، اسکے براہ راست اثرات دوسرے مسالک کے مسلمانوں نے بھی قبول کرنا شروع کئے۔ دنیا کے شیعہ نشین علاقوں میں بالجبر سیاسی سرگرمیوں کو روکا گیا اور پاکستان میں شیعہ سنی مسلمانوں کو ایک دوسرے سے دور کرنے کے لیے تشدد اور قتل و غارت کے ہتھکنڈے استعمال کئے گئے۔ مولانا نورانی کی قیادت میں ملی یکجہتی کے لیے ہونے والی کوشش کے نتیجے میں سپاہ صحابہ، سپاہ محمد، تحریک جعفریہ، جمعیت علمائے اسلام، جمعیت علمائے پاکستان اور جماعت اسلامی ایک پلیٹ فارم پر جمع تو ہوگئیں، لیکن فرقہ وارانہ تناو برقرار رہا۔ جنرل مشرف کے دور میں سپاہ صحابہ، سپاہ محمد اور تحریک جعفریہ پر پابندی لگا دی گئی۔ سپاہ صحابہ کی کھوکھ سے جنم لینے والے دہشت گروہ لشکر جھنگوی اور ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں نے مساجد، امام بارگاہوں، مزاروں، درباروں اور بازاروں کو نشانہ بنایا۔ جماعت اسلامی جیسی قوتوں نے ایک طرف ملی یکجہتی کونسل جیسی مسلکی ہم آہنگی کی کوششیں شروع رکھیں، دوسری طرف پاکستان کے شیعہ سنی عوام پر طالبان اور لشکر جھنگوی کے ہر حملے ڈرون حملوں کا ردعمل کہہ کر اسکی حمایت بھی جاری رکھی۔ اسکی بہترین مثال فلسطین کے مسئلے پر سعودی عرب کا کردار ہے۔

قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی کی سرزمین، پاکستان اور شیعہ انقلابی قوت کے موجودہ تقاضے پورا کرنا ایسے ہی تھا جیسے بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ حزب اللہ اپنی ذمہ داریاں انجام دے رہی تھی۔ تکفیری دہشت گردوں اور منافق حکمرانوں کے ہاتھوں تباہ حال پاکستان میں، ایم ڈبلیو ایم کے رہنما کربلائے کوئٹہ پہنچے، پورے ملک میں بیداری کی لہر اٹھی، پاکستان کی انقلابی شیعہ، سنی قوت یکجا ہوئی۔ حزب اللہ کی طرح پاکستان کے شیعہ نشین علاقوں میں مجلس وحدت کا مضبوط کردار، پاکستان میں اہلسنت کی غالب اکثریت رکھنے والی معتدل مزاج آبادی کے لیے کشش کا باعث ہے۔ دوسری طرف علامہ ناصر عباس جعفری بھی کھلے دل سے اہلسنت مسلک سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے کردار کو تسلیم کرتے ہیں، انہوں نے کبھی اہل سنت کے تعاون کو حقیر نہیں جانا، بلکہ علمدار کربلا عباس علیہ السلام کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ جس طرح اہلسنت بھائیوں نے مشکل حالات میں ہمارا ساتھ دیا، ہم انکا احسان کبھی نہیں بھولیں گے اور وفا کریں گے۔ سچ کہوں تو یہ درد مندی اور مصنوعی خردمندی سے پاک، سچے دل سے نکلنے والی اس آواز میں بہت طاقت ہے۔ 

میں چند دفعہ منہاج القرآن کے دوستوں سے ملنے دھرنے میں گیا ہوں، منظر یہ ہے کہ جونہی ڈاکٹر طاہر القادری کے کارکن کسی علم بردار یا عمامہ پوشش کو دیکتھے ہیں تو بے ساختہ لبیک یاحسین علیہ السلام کے نعرے لگاتے ہیں اور کہتے ہیں یہ ہوتی ہے وفا اور وفا داری، جس طرح ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنے کارکنوں کو تنہا نہیں چھوڑا بلکہ انکے خون کا علم بنا کر شہر اقتدار تک لے آئے ہیں، اسی طرح راجہ ناصر عباس نے ہماری قیادت کو تنہا نہیں چھوڑا بلکہ ہر وقت ہمارے ساتھ ہیں، ہم بھی یہ احسان کبھی نہیں بھولیں گے، ہمیشہ وفا کریں گے۔ پاکستانی تکفیری دہشت گردوں کے سرغنہ مجلس وحدت مسلمین کو حزب اللہ کی ذیلی تنظیم قرار دیتے ہیں اور عالمی تکفیری دہشت گرد حزب اللہ کو کافر کہتے ہیں۔ حزب اللہ نے حماس کی خاطر اپنا سینہ پیش کیا ہے اور مجلس وحدت مسلمین نے اہلسنت پر ہونے والے مظالم کیخلاف احتجاج میں شریک ہے، غزہ سے اسلام آباد تک شیعہ انقلابی دشمن کے تیروں کی زد میں ہیں، لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ تکفیری دہشت گرد پاکستان کی مسلکی فضا کو مسموم کرنے میں کامیاب ہوجاتے، اگر مجلس وحدت مسلمین، پاکستان میں وہ کردار ادا نہ کرتی جو حزب اللہ نے غزہ میں ادا کیا ہے۔


خبر کا کوڈ: 405726

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/fori_news/405726/غزہ-سے-اسلام-آباد-تک-انقلابی-شیعہ-تیروں-کی-زد-میں

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org