QR CodeQR Code

کیا فوج شجر ممنوعہ ہے

1 Sep 2014 18:34

اسلام ٹائمز: ملک میں جب بھی عوام ظالم حکمرانوں اوراس استحصالی نظام کے خلاف سڑکوں پر آئیں تو یہ نام نہاد جمہوری راہنما یہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ اس صورت حال کے پیچھے فوج ہے اگر مثال کے طور پر یہ بات مان بھی لی جائے کہ ایسی کسی تحریک کے پیچھے افواج پاکستان کی رضا شامل ہے تو اس میں کیا مضائقہ ہے۔ اگر ملک کے اندر حقیقی جمہوریت نہ ہو ظلم و بربریت کا بازار گرم ہو، لا قانونیت اور اقربا پروری اپنے عروج پر ہو۔ انتخابات میں کھلے عام دھاندلی کی جائے، ملک کے حساس اور اہم قومی اداروں کے خلاف زبانیں کھل رہی ہوں جس سے ملک مخالف قوتوں کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہو اس صورت حال کے خلاف عوام سڑکوں پر آ جائیں تو انھیں احتجاج سے روکا جائے اوران سے ان کا جمہوری حق چھینا جائے، نہتے مظاہرین پر لاٹھی چارج، آنسو گیس اور فائرنگ کر کے ان کے خون سے ہولی کھیلی جائے تو کیا فوج خاموش رہے؟


تحریر: علامہ سبطین شیرازی

قیام پاکستان سے لے کر آج تک وطن عزیز کے اندر کبھی ایسی فضا بننے نہیں دی گئی جس سے ملک مستحکم ہو، معاشی خوشحالی آئے اور عوام کے مسائل حل ہوں اس کی وجہ فوج نہیں یہ سیاست دان ہیں۔ فوج ملک کا ایک وفادار خیرخواہ اور محافظ ادارہ ہے جب بھی ملک میں کوئی ہنگامی صورت حال پیدا ہوئی پاک فوج نے قربانیوں کے باب رقم کیے۔ ماضی کے زلزلے ہوں یا سیلاب کی صورت حال فوج کا کردار ہمیشہ لائق تحسین رہا ہے ملک کے اندر دہشت گردی انتہا پسندی فرقہ واریت کے پیچھے جو عوامل کار فرما ہیں ان میں فوج کا کوئی کردار نہیں رہا بلکہ فوج نے ہمیشہ دہشت گردی انتہا پسندی کے خلاف اقدامات کیے۔ آج بھی فوج کے جوان مادر ملت کی حفاظت کے لیے جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔ ہمارے ملک کے نااہل سیاست دان جمہوریت کے نام پر عوام کو ہمیشہ دھوکا دیتے رہے اور سب نے مل کر اس ملک کو لوٹا ملک کمزور ہوتا گیا اور یہ سیاسی اجارہ داری قائم کرنے والے چند خاندان ترقی کرتے چلے گئے، آج ان کے اساسوں کا اگر اندازہ لگایا جائے تو عقل دنگ رہ جاتی ہے ان کے آباؤ اجداد کے مالی حالات کیا تھے اور آج یہ سیاستدان کتنے بڑے سرمایہ دار اور جاگیر دار بن چکے ہیں۔ ان کرپٹ حکمرانوں کے لیے ہمیشہ فوج ہی ایک چیلنج بنی رہی کیونکہ یہ ملک کو بیچنا چاہتے ہیں جبکہ فوج ملک کو بچانا چاہتی تھی جب بھی اس ملک میں مارشل لاء لگا تو ان سیاست دانوں نے خود مارشل لاء کو دعوت دی۔

تاریخ شاہد ہے کہ جتنی ترقی فوجی حکومتوں کے دوران ہوئی ان نام نہاد جمہوری حکومتوں کے دور میں نہیں ہو سکی۔ ان سیاست دانوں نے ہمیشہ اپنے عزیز و اقارب اور اپنے پارٹی کے لوگوں کو نواز کر ایک تفریق اور خلیج موجود رکھی، ایک دوسرے کے خلاف صف بستہ رہے۔ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے رہے اور بڑھ چڑھ کر اس ملک کو لوٹتے رہے جب بھی ان حکمرانوں کو کوئی مشکل پیش آئی اور حالات ان کے قابو سے باہر ہوئے تو انھوں نے خود فوج کو دعوت دی جب وہ وقت ٹل گیا تو پھر فوج کے خلاف ہی زبانیں کھولنے لگے۔ میں عوام الناس سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ جمہوریت کیوں صحیح ہے اور آمریت کیوں غلط ہے اگر تو صرف ان ناموں میں کوئی نام اچھا اور کوئی اچھا نہیں تو پھر غورکرنا پڑے گا کہ ایسا کیوں ہے۔

دراصل مارشل لاء اور فوجی حکومت کے خلاف منفی پراپیگنڈا کرکے اور دنیا کے جمہوری ملکوں کی ترقی کا ذکر کرکے پاکستانی کے عوام کے دلوں میں یہ بات ڈال دی گئی ہے کہ جمہوریت عوام کے لیے بہتر ہے جبکہ فوجی حکومت اچھی نہیں ہے حالانکہ یہ تاثر اس لحاظ سے درست نہیں ہے کہ پاکستان کے اندر ابھی تک وہ جمہوریت نہیں ابھر سکی جو اس وقت مغربی ممالک میں موجود ہے یہاں ہمیشہ سیاسی آمریت ہی رہی جو فوجی حکومت سے ہزار ہا درجہ بدتر ہے فوجی حکومت اس لیے بہتر ہے کہ فوج کے کوئی سیاسی مفادات نہیں ہوتے اور ان کا ڈسپلن قابل ذکر ہوتا ہے جس طرح آرمی کے اندر ایک مضبوط اور مستحکم نظام موجود ہے فوجی دور حکومت میں اسی طرح پورے ملک میں ایک مضبوط اور مستحکم فضا قائم ہو جاتی ہے۔ چور راستے بند ہو جاتے ہیں اور ملک ترقی کرتا ہے ایک منفی پہلو یہ کہ دیگر جمہوری ممالک اس ملک کو غیر مستحکم مملکت سمجھتے ہیں تو اس ابھام کو بھی فوجی حکومتوں نے دور کیا کہ جب ملک کے اندر سیاسی فضا بہتر ہو گئی تو انھوں نے انتخابات کے ذریعے سیاسی لوگوں کو حکومت کرنے کا موقع دیا لیکن یہ تجربہ بھی ناکام ہی رہا کہ ان غیر ذمہ دار بددیانت اور مفاد پرست سیاست دانوں نے کبھی بھی اپنے ماضی سے سبق نہیں سیکھا۔ آج پھر ملک میں وہی پرانی صورت حال پیدا ہو چکی ہے مجھے بتایا جائے کہ جب ملک میں خانہ جنگی کی صورت حال پیدا ہو جائے اور سیاست دان اپنی کرسی بچانے کی خاطر عوامی حقوق اور ملکی مفادات کو داؤ پر لگادیں تو پھرفوج کا کردار کیا بنتا ہے؟

یہ افواج پاکستان کسی دشمن ملک کی افواج نہیں کہ ان سے رابطہ نہ کیا جائے اور یہ کہ جو فوج سے رابطہ کرے وہ جمہوری نہیں اور جو ان کرپٹ حکمرانوں کا اتباع کرے اور اس ظالم نظام کا ساتھ دے وہ جمہوری ہے یہ ایک غلط روش چل نکلی ہے۔ ہمارے ملک میں فوج کا کردار ایک محب وطن اور جمہوریت پسند قوت کے طور پر سامنے آنا چاہیئے۔ فوج کو غیر جمہوری اقدام کی حوصلہ شکنی اور جمہوری کوششوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیئے۔ ایک طرف یہ صورت حال ہے کہ جب بھی ملک پر کوئی مشکل آئے کوئی آفت ٹوٹے کوئی لا اینڈ آرڈر کی صورت حال پیدا ہوتو فوج کی طرف رجوع کیا جاتا ہے جب کہ دوسری طرف فوج ہی کو شجر ممنوعہ قرار دیا جاتا ہے، ملک میں جب بھی عوام ظالم حکمرانوں اوراس استحصالی نظام کے خلاف سڑکوں پر آئیں تو یہ نام نہاد جمہوری راہنما یہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ اس صورت حال کے پیچھے فوج ہے اگر مثال کے طور پر یہ بات مان بھی لی جائے کہ ایسی کسی تحریک کے پیچھے افواج پاکستان کی رضا شامل ہے تو اس میں کیا مضائقہ ہے۔ اگر ملک کے اندر حقیقی جمہوریت نہ ہو ظلم و بربریت کا بازار گرم ہو، لا قانونیت اور اقربا پروری اپنے عروج پر ہو۔ انتخابات میں کھلے عام دھاندلی کی جائے، ملک کے حساس اور اہم قومی اداروں کے خلاف زبانیں کھل رہی ہوں جس سے ملک مخالف قوتوں کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہو اس صورت حال کے خلاف عوام سڑکوں پر آ جائیں تو انھیں احتجاج سے روکا جائے اوران سے ان کا جمہوری حق چھینا جائے، نہتے مظاہرین پر لاٹھی چارج، آنسو گیس اور فائرنگ کر کے ان کے خون سے ہولی کھیلی جائے تو کیا فوج خاموش رہے؟





خبر کا کوڈ: 407761

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/fori_news/407761/کیا-فوج-شجر-ممنوعہ-ہے

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org