QR CodeQR Code

پاکستان کے عوام اور نیا پاکستان

7 Oct 2014 13:10

اسلام ٹائمز: ڈاکٹر طاہرالقادری کی حکمت عملی سے لگ رہا ہے کہ ایک عرصے سے عوام کو بیوقوف بنانے والی دونوں جماعتیں پیپلز پارٹی اور نون لیگ کا باب بند ہونے والا ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما بھی پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہو رہے ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد نون لیگ بھی زیرعتاب ہے اور ان کی کرپشن کے کھاتوں پہ کھاتہ کھلتا جا رہا ہے۔ جس سے عوام میں نون لیگ کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔


تحریر: تصور حسین شہزاد

پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے دھرنا سیاست کے ساتھ ساتھ جلسوں کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان عوامی تحریک کو بطور سیاسی جماعت میدان میں اُتارنے کا اعلان کیا ہے۔ علامہ طاہرالقادری نے عید کے بعد فیصل آباد اور لاہور میں احتجاجی جلسوں کا اعلان کرتے ہوئے انہیں ملک بھر میں پھیلانے کا بھی فیصلہ کیا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے اس فیصلے کو تمام سیاسی جماعتوں نے سراہا ہے۔ حتیٰ وہ جماعتیں جو نواز شریف کی کرپشن اور بدعنوانی کے باوجود جمہوریت کے لئے ان کی حمایت کر رہی تھیں، انہوں نے بھی ڈاکٹر طاہرالقادری کے اس فیصلے پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری جو بھی انقلاب لانا چاہتے ہیں وہ پارلیمنٹ میں آ کر لائیں۔

اس حوالے سے ڈاکٹر طاہرالقادری کے ماضی کے تجربات کی روشنی میں پاکستان عوامی تحریک اس سے قبل بھی 1990ء کے انتخابات میں حصہ لے چکی ہے، لیکن مشکل سے ہی صرف ایک سیٹ ہی حاصل کر پائی تھی۔ پاکستان عوامی تحریک نے پرویز مشرف کے دور میں ہونے والے الیکشن میں حصہ نہیں لیا، لیکن 2002ء کے الیکشن میں صرف ایک سیٹ کی روایت ہی برقرار رہی۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کی پاکستان عوامی تحریک نے ماضی میں اکیلے الیکشن میں حصہ لیا تھا، لیکن اس وقت پاکستان عوامی تحریک کی پوزیشن تبدیل ہوچکی ہے۔ اس وقت ڈاکٹر طاہرالقادری کے پیچھے سنی اتحاد کونسل، مجلس وحدت مسلمین اور مسلم لیگ قاف کھڑی ہیں۔ پاکستان میں سب سے زیادہ ووٹ بنک اہلسنت (بریلوی) حضرات کا ہے، خود ڈاکٹر طاہرالقادری بھی بریلوی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسی طرح دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ ووٹ بنک اہل تشیع کا ہے۔ پاکستان میں سنی بریلویوں کے بعد زیادہ آبادی اہل تشیع کی ہے۔

شیعہ ووٹ بنک بھی بنیادی طور پر 2 حصوں میں تقسیم ہے۔ ایک حصہ علامہ ساجد علی نقوی کے پیچھے جبکہ دوسرا، علامہ ناصر عباس جعفری کی قیادت میں مصروف عمل ہے۔ یوں غیرجانبدارانہ حلقوں کی رائے کے مطابق اہل تشیع کا زیادہ ووٹ بنک علامہ ناصر عباس جعفری کی قیادت میں چلنے کو ترجیع دیتا ہے۔ اس حوالے سے ماضی کے سیاسی کارزار کو دیکھا جائے تو اہل تشیع نے جس بھی سیاسی جماعت کی حمایت کی ہے، اسے بھاری منیڈیٹ ملا ہے۔ اہل تشیع نے تحریک جعفریہ کے پلیٹ فارم سے ایک بار پیپلز پارٹی اور ایک بار نون لیگ کو اقتدار کے ایوانوں میں پہنچایا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ دونوں جماعتوں نے شیعہ ووٹ بنک کو سیڑھی کے طور پر استعمال کیا اور اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ کر اہل تشیع کو فراموش کر دیا۔ اب وہ مایوس ووٹ بینک علامہ ساجد نقوی کی بجائے علامہ ناصر عباس جعفری کی قیادت میں سیاسی سفر شروع کرچکا ہے اور انہیں امید ہے کہ علامہ ناصر عباس جعفری جس کشتی پر بھی سوار ہوں گے، اس کا ناخدا انہیں تنہا نہیں چھوڑے گا، یہی وجہ ہے کہ علامہ ناصر عباس جعفری کی جانب سے ڈاکٹر طاہرالقادری کی حمایت کرنے پر عوامی تحریک کے دھرنے اور مارچ میں آدھے لوگ اہل تشیع ہیں۔

دوسری جانب سنی بریلویوں کا پلیٹ فارم سنی اتحاد کونسل بھی ڈاکٹر طاہرالقادری کےساتھ ہے۔ صاحبزادہ حامد رضا ڈنکے کی چوٹ پر دہشت گردوں کے سرپرستوں کو للکار رہے ہیں اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ کھڑے ہیں۔ پاکستان میں شیعہ اور سنی کے اس اتحاد کا جھکاؤ جس جماعت کی طرف ہوگا، اقتدار کے ایوانوں میں وہی پہنچے گی۔ اس بار پاکستان عوامی تحریک کی پوزیشن وہ نہیں جو 1990ء اور 2002ء میں تھی۔ اس وقت علامہ طاہرالقادری تنہا تھے، آج ان کے ساتھ شیعہ اور سنی مل کر کھڑے ہیں۔ ساتھ مسلم لیگ قاف کی حمایت بھی انہیں حاصل ہے۔ یوں پاکستان عوامی تحریک کی سیاسی پوزیشن پیپلز پارٹی اور نون لیگ سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں۔ شیعہ سنی کے اس اتحاد سے سیاسی قوتیں پریشان ہیں۔ اہل سنت کے اتحاد کے خلاف باقاعدہ منصوبہ بندی شروع کر دی گئی ہے۔ گذشتہ ہفتے مری میں وزیراعظم نواز شریف نے اہل سنت عمائدین کو بلایا اور انہیں سنی اتحاد کونسل کی افرادی قوت توڑنے کا ہدف سونپ دیا۔ اس سے پہلے بھی نون لیگ کی جانب سے سنی اتحاد کونسل کو توڑنے کے لئے ایک فارورڈ بلاک بنوایا گیا ہے۔

مذہبی قوتوں کی طاقت زائل کرنے کے لئے خفیہ اور واضح دونوں ہاتھ بھی سرگرم ہوگئے ہیں۔ ایک اخباری اطلاع کے مطابق شیعہ علماء کونسل کے سیکرٹری جنرل علامہ عارف واحدی نے انکشاف کیا ہے کہ عید کے بعد علامہ ساجد علی نقوی متحرک ہو رہے ہیں اور مولانا فضل الرحمن، مولانا سمیع الحق سمیت اہم رہنماؤں سے ملاقاتیں کریں گے اور ایم ایم اے کو دوبارہ فعال بنانے کے لئے کردار ادا کریں گے۔ علامہ ساجد علی نقوی کا اس وقت متحرک ہونا اور اہل سنت عمائدین کا مری میں نواز شریف سے ملاقات کرنا اس جانب واضح اشارہ ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی معرض وجود میں آنے والے قوت کو زائل کرنے کے لئے اختلافات کو ہوا دی جائے گی۔

نواز لیگ اس مشن میں کس حد تک کامیاب ہوتی ہے یہ بہت جلد واضح ہوجائے گا، لیکن ڈاکٹر طاہرالقادری کی حکمت عملی سے لگ رہا ہے کہ ایک عرصے سے عوام کو بیوقوف بنانے والی دونوں جماعتیں پیپلز پارٹی اور نون لیگ کا باب بند ہونے والا ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما بھی پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہو رہے ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد نون لیگ بھی زیرعتاب ہے اور ان کی کرپشن کے کھاتوں پہ کھاتہ کھلتا جا رہا ہے۔ جس سے عوام میں نون لیگ کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ زرداری کا پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی دولت نکالنے اور اسے بھاٹی چوک میں سرعام پھانسی دینے کے دعوے کرنے والوں نے اقتدار میں آکر انہیں گلے لگا لیا ہے۔ نون لیگ پر دہشت گردوں کی سرپرستی کا بھی الزام ہے۔ دونوں جماعتیں اب اپنے آپ کو سیاسی طور پر زندہ رکھنے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہی ہیں جبکہ ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان اپنے دھرنے کی بدولت قوم کو بیدار کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ اب عوام پروٹوکول کلچر کے خلاف باقاعدہ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں اور برسوں سے کرپشن، بدعنوانی، لوٹ مار اور استحصال کا شکار عوام نئے پاکستان میں داخل ہو رہے ہیں۔


خبر کا کوڈ: 413507

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/fori_news/413507/پاکستان-کے-عوام-اور-نیا

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org