QR CodeQR Code

علامہ سید غلام رضا نقوی کی رہائی! ہوشیار باش

13 Nov 2014 20:57

اسلام ٹائمز: اس تحریر کے ذریعے میری علامہ سید غلام رضا نقوی سے بھی التجاء ہے کہ خدارا حکومت کے کرنے کے کاموں کو اپنے ذمے مت لیجئے۔ دہشتگردوں، قاتلوں اور فسادیوں کا خاتمہ یا انھیں قرار واقعی سزائیں دینا حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ آپ اگر عدالتی نظام میں کوئی سقم دیکھتے ہیں یا یہ دیکھتے ہیں کہ حکومت آپکے قاتلوں کو قرار واقعی سزا نہیں دیتی تو اسکا حل بندوق اٹھا کر خود سے سزا کا اجراء کرنا نہیں بلکہ اس حکومت اور نظام کیخلاف سیاسی جدوجہد کرنا ہے، تاکہ نظام کی بہتری کے سبب ملک کا قانون اور عدلیہ درست راہ پر گامزن ہو۔ آپکو یقیناً ملک سے بہت سے ہتھیار اٹھانے والے مل جائیں گے، تاہم یہ عسکریت پسندی کسی طرح بھی ملک اور ملت کے مفاد میں نہیں ہوگی۔۔۔ میں آپکو وقت کے امام (عج) کا واسطہ دے کر استدعا کرتا ہوں کہ اپنے ہر بیان اور عمل میں انتہائی محتاط رویہ اپنایئے، تاکہ آپکی ملت پرامن زندگی گزار سکے۔


تحریر: قسور عباس برقعی

مکتب تشیع سے تعلق رکھنے والی کالعدم جماعت سپاہ محمد کے سربراہ علامہ سید غلام رضا نقوی کی سعودی حمایت یافتہ نواز حکومت کے دور میں رہائی کوئی چھوٹا واقعہ نہیں ہے۔ وہ لوگ جو مشرق وسطٰی کے حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں، اس رہائی کو ان حالات سے جدا کرکے نہیں دیکھ سکتے۔ اس میں شک نہیں کہ علامہ سید غلام رضا نقوی کو بے جرم و خطا قید رکھا گیا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی مانند کئی ایک افراد آج بھی پاکستانی جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ اس سے بھی انکار نہیں کہ ان افراد کو فی الفور رہا کیا جانا چاہیے۔ تاہم یہ کار خیر ایک سعودیہ نواز حکومت کے ہاتھوں انجام پائے گا، جس کا انچ انچ سعودیہ اور بحرین سے ملنے والی امداد میں ڈوبا ہوا ہے، کبھی سوچا بھی نہیں جاسکتا۔
 
اگر کوئی کہے کہ علامہ غلام رضا نقوی کو عدالت نے باعزت بری کیا تو انتہائی دست بستہ عرض ہوں کہ گذشتہ اٹھارہ سال یہ عدالتیں کہاں تھیں۔ یہ عدالتیں اگر چند ماہ میں محرم علی کو ملزم سے مجرم بنا کر پھانسی کی سزا سنا سکتی ہیں اور اس پر عمل کروا سکتی ہیں تو علامہ غلام رضا نقوی کے مقدمے کو چلانا اور انھیں باعزت بری کرنا ان کے لئے مشکل نہ تھا۔ حالیہ ماڈل ٹاؤن لاہور کا واقعہ اور اس کے بعد دھرنوں کے سلسلہ میں لاہوری عدلیہ کے احکامات لوگوں کے ذہنوں میں یقیناً تازہ ہوں گے۔ کبھی کنٹینر لگانا خلاف قانون تھا تو کبھی دھرنے کرنا آئین کے خلاف۔ اگر توہین عدالت نہ ہو تو کہنے دیجئے کہ اسی عدلیہ نے پہلی مرتبہ گلو بٹ کو باعزت بری کر دیا تھا۔ حکومت کے دوبارہ پکڑنے پر عدلیہ کو پتہ چلا کہ نہیں حاکم کچھ اور چاہتے ہیں۔ تب جا کر عدلیہ نے گلو بٹ کو گیارہ سال کی سزا سنائی۔ موضوع پر رہنے اور اپنی جان خلاصی کے لئے میں اس معاملے کو یہیں پر چھوڑتا ہوں۔
 
علامہ غلام رضا نقوی پاکستان میں ان چند مذہبی راہنماؤں میں سے ہیں جو عسکریت پسندی کے قائل ہیں۔ وہ سیاسی جدوجہد کے بجائے مسلح جدوجہد کو مسائل کا حل سمجھتے ہیں۔ اپنی اسی فکر کے سبب انھوں نے اٹھارہ سال قید و بند کی صعوبتیں کاٹیں۔ اٹھارہ سالہ جیل کی زندگی ان کے ارادوں کو متزلزل نہ کرسکی اور آج وہ اپنی رہائی کے بعد ایک مرتبہ پھر ملک میں مسلح جدوجہد کے نعرے لگا رہے ہیں۔ علامہ غلام رضا نقوی کی ایک انفرادیت یہ ہے کہ وہ واحد شیعہ راہنما ہیں جنھوں نے گولی کا جواب گولی سے دینے کا نعرہ لگایا تھا اور آج بھی لگا رہے ہیں۔
 
علامہ سید غلام رضا نقوی کی رہائی انصاف کے تقاضوں کے عنوان سے نہایت خوش آئند ہے، تاہم ملک میں فرقہ وارانہ فضا کے عنوان سے انتہائی تشویش ناک۔ آج سے قبل ملک میں جو بھی سنی راہنما یا کارکن قتل ہوا اسے اندھا قتل ہی تصور کیا گیا۔ زیادہ سے زیادہ یہ تھا کہ کچھ ادارے سپاہ محمد کے چند بھگوڑوں کے عنوان سے اس قتل کو شیعہ قوم کے سر تھوپنے کی کوشش کیا کرتے تھے، حالانکہ دوست و دشمن ہر کوئی جانتا ہے کہ سپاہ محمد نامی تنظیم اپنے قائدین کے قتل اور اسیری کے بعد فعال نہ رہ سکی تھی۔ لہذا کوئی بھی اس الزام کو کبھی بھی سنجیدہ نہ لیتا تھا اور نگاہیں اصل قاتلوں کو بہرحال ڈھونڈتی رہتی تھیں۔ علامہ سید غلام رضا نقوی کی رہائی اور ان کے مسلح جدوجہد کے نعروں نے ماسٹر مائنڈز کی یہ مشکل بھی رفع کر دی۔ اب مشکل نہیں رہا کہ کوئی سنی راہنما مارا جائے اور اس کا قتل علامہ غلام رضا نقوی اور ان کی تنظیم اور نتیجتاً شیعہ قوم کے سر تھوپ دیا جائے۔ دوسری جانب داعش نام کی تنظیم کو بھی ملک میں بڑھاوا دینے کی کوششیں جاری ہیں۔
 
داعش ہو یا شیعہ قوم کی کوئی مسلح تنظیم، ان کے اخلاص پر شبہ نہیں، مسئلہ تو ان کے فہم کا ہے۔ شیعہ مسلح تنظیم جس کے متوقع طور پر آئندہ سربراہ علامہ غلام رضا نقوی ہوں گے اور داعش جس کا سربراہ ملک اسحق ہوگا، بڑے ہی اخلاص سے ایک دوسرے کے خلاف مارو مارو کے نعرے لگائیں گے۔ مارنے کا کام یہ کریں یا کوئی اور شیعہ مرے گا تو داعش، سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کے ذمے اور سنی مرے گا تو غلام رضا نقوی کے ذمے۔ قتل چاہے کسی کا بھی ہو آخر کار دوسرے مکتب کے ذمے۔ یوں ملک میں فرقہ واریت دن دگنی رات چگنی ترقی کرے گی۔ 

علامہ غلام رضا نقوی صاحب کے مسلح جدوجہد اور مارو مارو کے نعروں سے ممکن ہے متحارب گروہ پر تھوڑی بہت دھاک بیٹھے اور وہ لوگ خوفزدہ ہوں کہ ماریں گے تو مرنا بھی پڑے گا، تاہم تاریخ فرقہ واریت بتاتی ہے کہ یوں کبھی بھی فرقہ واریت کی آگ ٹھنڈی نہیں ہوئی بلکہ مزید بھڑکی ہی ہے، کیونکہ ایک ظاہری دشمن کے علاوہ ایک باطنی دشمن بھی ہے، جو جلتی پر تیل ڈال کر بہت خوش ہوتا ہے۔ اس قتل و غارت میں براہ راست طور پر اس کا کوئی نقصان نہیں ہے۔ شیعہ مرے یا سنی دونوں کا قتل اس کے مفاد میں ہے۔ کوئی سنی کو دھمکائے یا شیعہ کو، اس کے مقاصد کے عین مطابق ہے۔ اس بدامنی اور بے چینی کی فضا میں اسے کھل کھیلنے کا بھرپور موقع ملتا ہے۔ یہی کچھ ہم نے عراق اور شام میں مشاہدہ کیا۔ لہذا نواز دور میں یہ رہائی غور کرنے والوں کے لئے نشان عبرت ہے۔

مذہبی و سیاسی تنظیمیں جو ملک میں کسی بھی مکتب کے لئے فعال ہیں، کے لئے بھی یہ لمحہ فکریہ ہے، کیونکہ جب ملک میں ایک مرتبہ فرقہ وارانہ آگ بھڑکے گی تو اس کے شعلے ان تنظیموں کو بھی اپنی لپیٹ میں لیں گے۔ ممکن ہے یہ آزادیاں انہی تنظیموں کی سرگرمیوں کو محدود کرنے اور ان پر کالعدم کی مہر لگانے کے لئے ظہور میں آئی ہوں۔ فرقہ واریت کو کنٹرول کرنے کے عنوان سے پہلے بھی ہم نے سیاسی و مذہبی جماعتوں پر پابندیوں کا مظاہرہ دیکھا ہے۔ اہلسنت والجماعت اور اسلامی تحریک اسی مظاہرے کا نتیجہ ہیں۔
 
اس تحریر کے ذریعے میری علامہ سید غلام رضا نقوی سے بھی التجاء ہے کہ خدارا حکومت کے کرنے کے کاموں کو اپنے ذمے مت لیجئے۔ دہشتگردوں، قاتلوں اور فسادیوں کا خاتمہ یا انھیں قرار واقعی سزائیں دینا حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ آپ اگر عدالتی نظام میں کوئی سقم دیکھتے ہیں یا یہ دیکھتے ہیں کہ حکومت آپ کے قاتلوں کو قرار واقعی سزا نہیں دیتی تو اس کا حل بندوق اٹھا کر خود سے سزا کا اجراء کرنا نہیں بلکہ اس حکومت اور نظام کے خلاف سیاسی جدوجہد کرنا ہے، تاکہ نظام کی بہتری کے سبب ملک کا قانون اور عدلیہ درست راہ پر گامزن ہو۔ آپ کو یقیناً ملک سے بہت سے ہتھیار اٹھانے والے مل جائیں گے، تاہم یہ عسکریت پسندی کسی طرح بھی ملک اور ملت کے مفاد میں نہیں ہوگی۔۔۔ میں آپ کو وقت کے امام عج کا واسطہ دے کر استدعا کرتا ہوں کہ اپنے ہر بیان اور عمل میں انتہائی محتاط رویہ اپنایئے، تاکہ آپ کی ملت پرامن زندگی گزار سکے۔


خبر کا کوڈ: 419428

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/fori_news/419428/علامہ-سید-غلام-رضا-نقوی-کی-رہائی-ہوشیار-باش

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org