QR CodeQR Code

شام سے بھی فلسطین کی حمایت منقطع کرنے کی کوشش کی جارہی ہے

یوم القدس ایک ایسا مرکز ہے جہاں تمام عالم اسلام متحد ہوسکتا ہے، مولانا مقصود الحسن قاسمی

2 Aug 2013 00:08

اسلام ٹائمز: امام کونسل آف انڈیا کے صدر کا ’’اسلام ٹائمز‘‘ کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں کہنا تھا کہ اسلامی جمہوری اسلامی ایران کی وجہ سے ہی مسئلہ فلسطین دنیا کے گوشے گوشے میں گونج رہا ہے، آج فلسطین کی بازیابی کے لئے جو بھی کام ہو رہا ہے وہ ایران کی کاوش اور قوت کی وجہ سے ہے، ایران پر پابندیاں عائد ہونے کے باوجود وہ فلسطین کاز کی مدد کر رہا ہے۔


مولانا مقصود الحسن قاسمی کا تعلق بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سے ہے، آپ 8 سال سے امام کونسل آف انڈیا کے صدر ہیں، امام کونسل آف انڈیا کے ساتھ کشمیر، اترانچل، دہلی، اترپردیش، ممبئی سمیت بھارت کی مختلف ریاستوں کے جید علماء کرام و مفتی عظام جڑے ہوئے ہیں، امام کونسل آف انڈیا کا قیام بھارت میں فعال علماء کرام کے درمیان ہم آہنگی اور ہم آواز بنانے کے لئے عمل میں لایا گیا ہے، مسلم نوجوانوں میں دینی تعلیم و ماڈرن ایجوکیشن کے لئے امام کونسل آف انڈیا کا اہم رول ہے، مولانا مقصود الحسن قاسمی اوکھلا نئی دہلی میں امام جمعہ والجماعت کے فرائض بھی انجام دیتے ہیں، موصوف نئی دہلی اور اس کے اطراف میں اہم دینی امور اور اتحاد و اتفاق بین المسلمین کے حوالے سے بہت ہی فعال ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں، اسلام ٹائمز نے مولانا مقصود الحسن قاسمی سے ملاقات کے دوران ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا جو قائین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: یوم القدس کی اہمیت کے حوالے سے جاننا چاہیں گے۔؟

مولانا مقصود الحسن قاسمی: بیت المقدس مسجد اقصیٰ تمام مسلمانوں کا قبلہ اول ہے، اس لئے عالمی اسلام کے بچے بچے کو بیت المقدس سے دینی عقیدت ہونا چاہیئے اور ہے، تو سب مسلمانوں کا جذباتی اور دینی لگاو قبلہ اول کے ساتھ ہونا چاہیئے اسی کا احساس امام خمینی (رہ) نے کرایا، یہ ایک بہت بڑی ابتداء اور بہت بڑا آغاز جو امام خمینی (رہ) نے کیا کہ انہوں نے یوم القدس کے لئے رمضان المبارک کے آخری جُمعہ جو جمعۃ الوداع ہے جو تمام دنوں میں سب سے بڑا دن ہے، جو جمعوں میں سب سے بڑا جمعہ ہے، اس کو یوم القدس کا نام دیا اور اس کی وجہ سے پوری دنیا میں مسلمان مساجد میں، اسلامی مراکز میں اور سڑکوں پر نکل کر بیت المقدس پر تقاریر کرتے ہیں، ریلیاں نکالتے ہیں اور فلسطینی مظلوموں کی ساتھ اظہار ہمدردی و اظہار یکجہتی کرتے ہیں اور صہیونیت و اسلام دشمن عناصر کے ساتھ اظہار نفرت کرتے ہیں، بیت المقدس کی اہمیت کو واضح کرتے ہیں اور اس کی بازیابی کے لئے آواز بلند کرتے ہیں، کسی طرح کی قربانی سے دریغ نہ کریں گے اس کا عہد کرتے ہیں، پوری دنیا میں یوم القدس کے دن قبلہ اول اور فلسطین کی آزادی کے لئے پرچم لہرائے جاتے ہیں، اس دن اسلام کا ایک نادر اور بے مثال نمونہ سامنے آتا ہے، دن بہ دن بیت المقدس کے بازیابی کے لئے زیادہ اثر اور زیادہ جوش و خروش دیکھنے کو ملتا ہے اور لوگ اس کاروان میں شامل ہوتے جارہے ہیں، لیکن یہ سب امام خمینی (رہ) کو کریڈت جاتا ہے۔
ہم سب کو امام خمینی (رہ) کے فرمان پر لبیک کہنا چاہیئے اور ہمیں اس آواز کو آگے بڑھانا ہوگا، اور آنے والے یوم القدس کو زور و شور کے ساتھ فلسطین اور بیت المقدس کے بازیابی کے لئے جو ہم سے بن پڑے گا کرنا چاہیئے، یہی ایک دائرہ ہے ایک مرکز ہے جہاں تمام عالم اسلام متحد ہو سکتا ہے، یہ وہ دن ہے جب تمام مسالک کے لوگ جمع ہو سکتے ہیں کیونکہ تمام مسلمانوں کا تعلق بیت المقدس سے ہے، فلسطین سے ہے، اسکو آزاد کرانا ہم سب کی دینی ذمہ داری ہے اور ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے، ہر کلمہ گو کی دینی ذمہ داری ہے کہ وہ بیت المقدس کی بازیابی کے لئے جدوجہد کرے۔

اسلام ٹائمز: کیا وجہ ہے کہ مسلمانوں کی کثیر تعداد کے باوجود اور بیت المقدس کی بازیابی مسلمانوں کی دینی ذمہ داری ہونے کے باوجود قبلہ اول کو مسلمان آزادی نہیں کرا پا رہے ہیں۔؟

مولانا مقصود الحسن قاسمی: اسکے عوامل صاف ظاہر ہیں کہ مسلمانوں کے اندر جو صہیونی طاقتیں ہیں وہ انتشار پھیلا رہی ہیں، وہ مسلک کے نام پر مسلمانوں میں انتشار ڈال رہی ہیں تو اس وجہ سے قدس کی آزادی کی تحریک طاقتور نہیں ہو رہی ہے، اس کا اثر زودتر نہیں ہو رہا ہے، اس کے علاوہ فلسطین کی آزادی کے جتنے بھی پشت پناہ ہوا کرتے تھے یا ہیں ان کو کچلا جا رہا ہے، جیسا کہ شام میں خانہ جنگی برپا کر دی گئی ہے، دیگر مسلم ممالک کے اندر خانہ جنگی برپا کی جا رہی ہے اور اس مقدس تحریک کو دبانے کے مختلف حربے آزمائے جا رہے ہیں، اور اس کے علاوہ نمام نہاد مسلمان غیروں اور اسلام دشمن عناصر کے ساتھ ساز باز کئے ہوئے ہیں، اسلامی ملک شام کے اندر بعض شرپسند مسلمان غیروں کے ساتھ ساز باز کئے ہوئے ہیں، جس عرب حکمران کو بھی اپنا اقتدار خطرے میں محسوس ہوتا ہے وہ انتشار و مسلکی اختلافات کو ہوا دینے لگتا ہے، اسی وجہ سے یہ تحریک اور فلسطین اور بیت المقدس ابھی تک آزاد نہیں ہوا اور بہت بڑی پیشرفت نہیں ہو پا رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: ملک شام کا ذکر آپ نے کیا، وہاں کے موجودہ حالات کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟

مولانا مقصود الحسن قاسمی: دیکھئے اگر ملک شام میں حکومت اور عوام کے درمیان بعض جزوی اختلافات پائے جا رہے ہوں تو وہاں مل بیٹھ کر ان مسائل کا حل نکلنا چاہیئے، پُرامن طور پر بات چیت ہونی چاہیئے، یہ کوئی طریقہ نہیں ہے کہ بندوقیں ہاتھ میں لے لو، ماں بہنوں کی عصمتیں تار تار کرو، اپنے ہی مسلمان بھائیوں پر گولیاں چلاﺅ، ان کے گلے کاٹو، مقدسات اسلامی کی بےحرمتی کرو، یہ بڑی عجیب اور قابل افسوس بات ہے، مسلمان چاہے کسی بھی مسلک کا ہو کسی بھی فرقہ کا ہو یہ تسلیم کرتا ہے کہ یہودی کبھی آپ کا دوست نہیں ہو سکتا لیکن یہاں تو روایت ہی بدل دی گئی ہے کہ صہیونی جو چاہتے ہیں مسلمان ان کے معاون و مددگار ثابت ہو رہے ہیں، سیریا میں اسی صف میں کچھ نام نہاد مسلمان کھڑے ہیں تو کیا اس بار حدیث کو بدل دیا گیا ہے کہ آج سے یہودی مسلمانوں کے دوست ہو گئے۔
بات صاف ہے کہ فلسطین کی حمایت ملک شام سے بھی منقطع کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، وہاں بھی قتل عام کیا جا رہا ہے، رمضان کا مہینہ ہے، رمضان تو ایک صبر اور ضبط کا مہینہ ہوتا ہے، یہ وحشی دین کہاں سے آ گیا کہ ماہ رمضان میں مقدسات اسلامی کی بےحرمتی کی جائے، جب میں ایران میں تھا تب صحابی رسول (ص) حجر بن عدی کی قبر کی بےحرمتی کی گئی تھی اس کے بعد مسلسل مقدسات کی توہین کی جا رہی ہے، نواسی رسول (ص) بی بی زینب (س) کے روضہ اقدس کی توہین کی گئی اور اب اصحاب رسول اکرم (ص) حضرت اویس قرنی اور حضرت عمار یاسر کے مزارات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، آخر یہ کس کی منشاء پر کیا جا رہا ہے اور کس کے مکروہ اہداف پورے کئے جا رہے ہیں، یہ مسلمانوں کا کام ہرگز نہیں ہو سکتا ہے یہ صہیونیت، اسلام دشمن، انسانیت دشمن عناصر کا کام ہے، مسلمان اور انسان کا کام ہرگز نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: عرب مملکتوں کی صہیونیت سے وابستہ مفادات کے بارے میں آپ کی رائے جاننا چاہیں گے۔؟
مولانا مقصود الحسن قاسمی: ان کا صرف اور صرف ایک ہی ہدف ہے وہ یہ کہ عرب مملکتیں اپنے ظالمانہ اور جابرانہ حکومتیں دائم رکھنا چاہتی ہیں، ان کی اَن ڈیموکریٹک سرکاریں جو ہیں وہ اس کو بچانے کے لئے دشمنان اسلام سے سازباز کئے ہوئے ہیں، ان سے ہاتھ ملائے ہوئے ہیں، اس کی بدلے میں وہ انکی شہنشاہت و بادشاہت کی حفاظت کر رہے ہیں اور اس کے بدلے میں یہ اُن کے آلہ کار بنے ہوئے ہے، اور اس بیچ تخت و تاج کے چکر میں مسلمان بھائیوں کے خون کی ہولیاں کھیلی جا رہی ہیں۔

اسلام ٹائمز: جمہوری اسلامی ایران کی فلسطین سے حمایت اور وابستگی، اس کے برعکس نام نہاد عرب حکمرانوں کی اس جانب بے اعتنائی کے بارے میں جاننا چاہیں گے۔؟
مولانا مقصود الحسن قاسمی: میں یہ مانتا ہوں کہ اسلامی جمہوری اسلامی ایران کی وجہ سے ہی مسئلہ فلسطین دنیا کے گوشے گوشے میں گونج رہا ہے، آج فلسطین کی بازیابی کے لئے جو بھی کام ہو رہا ہے وہ ایران کی کاوش اور قوت کی وجہ سے ہے، ایران پر پابندیاں عائد ہونے کے باوجود وہ فلسطین کاز کی مدد کر رہا ہے، ورنہ فلسطین کے پڑوسی ممالک گھاس اور کوڑے کی مانند ہیں، مسئلہ فلسطین کا زندہ ہونا سب سے زیادہ جمہوری اسلامی ایران کو ہی کریڈٹ جاتا ہے اور تمام مسلمانوں کو دُعا کرنی چاہیئے کہ اللہ جمہوری اسلامی ایران کی حفاظت کرے، اسے ترقی دے تاکہ وہ ایک سایہ بنے، چھایا بنے اور مسلمانوں کے لئے چھاتے کا کام کرے اور وہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد پیدا کرے اور پوری دنیا میں امن کا پیغام لے کر آگے بڑے، ایرانی قیادت نے یوم القدس کی بنیاد رکھی۔ فلسطین کا محور ہی بیت المقدس ہے تو اس لحاظ سے بیت المقدس کا جب ذکر ہوتا ہے تو یہ اسلامی عبادت کے طور پر ایک پہلو ابھر کر سامنے آتا ہے یہ کوئی ایسی تحریک نہیں ہے کہ جو فلسطین کی کوئی لبریشن فرنٹ ہو یا کوئی سیاسی تحریک ہو یہ تحریک ایک ایسی انقلابی تحریک و دینی تحریک ہے کہ جس میں اسلامی عبادت کا پہلو بھی ابھر کر سامنے آتا ہے۔


خبر کا کوڈ: 288944

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/interview/288944/یوم-القدس-ایک-ایسا-مرکز-ہے-جہاں-تمام-عالم-اسلام-متحد-ہوسکتا-مولانا-مقصود-الحسن-قاسمی

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org