QR CodeQR Code

اسٹیٹ سبجیکٹ رول کو 1974ء میں بھٹو نے ختم کیا

حالات کا تقاضا ہے کہ گلگت بلتستان کو اپنا ایک آئین دیا جائے، حسنین سینگے

23 Aug 2014 00:47

اسلام ٹائمز: ڈاکٹر حسنین سینگے سیرنگ نے "اسلام ٹائمز" کیساتھ گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک متنازعہ علاقہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کے آئینی نظام کو گلگت بلتستان میں نافذ نہیں کیا جا سکتا یہاں تک کہ پاکستان کا پینل آف کرائمنل کوڈ یا پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ بھی یہاں نافذ کرنا غیر قانونی ہے۔ پاکستان، گلگت بلتستان کا انتظام ایک صدارتی فرمان کے ذریعے چلاتا ہے جس کی مدت صدر پاکستان کی مدت کے ساتھ یعنی پانچ سال میں ختم ہو جاتی ہے۔ چنانچہ ہر پانچ سال بعد اس آرڈیننس کی تجدید نئے صدر کے ذریعے کرنی پڑتی ہے۔ یہ پاکستان کی مجبوری ہے اور جب تک گلگت بلتستان کو ایک آئینی نظام نہیں مل جاتا اس مجبوری کو برداشت کرنا پڑے گا۔ بین الاقومی قوانین برائے انسانی حقوق کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ آرڈیننس گلگت بلتستان کے ساتھ ایک نا انصافی ہے۔


حسنین سینگے سیرنگ کا تعلق گلگت بلتستان کی وادی شگر سے ہے۔ اسوقت انسٹیٹیوٹ فار گلگت بلتستان اسٹیڈیز کے صدر کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہے ہیں جو امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں قائم ہے۔ یہ ادارہ گلگت بلتستان میں ہونے والی سیاسی، معاشی، معاشرتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں پر تحقیق کرتا ہے اور مقامی لوگوں، آب و ہوا اور وسائل پر تغیرات کا جائزہ لیتا ہے۔ اسلام ٹائمز نے آپ سے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے حوالے ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے جو اپنے محترم قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: آپ کو گلگت بلتستان کے ایشوز پر غیر معمولی دسترس حاصل ہے اور واشنگٹن میں گلگت بلتستان اسٹڈیز کے سربراہ بھی ہیں، آپ کی نگاہ میں گلگت بلتستان، بلتستان کی سیاسی حیثیت اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق کیا ہے اس سلسلے میں یو این چارٹر کو بھی آپ انگریزی میں ہی کوڈ کر سکتے ہیں۔؟
حسنین سینگے: گلگت بلتستان ایک متازعہ علاقہ ہے۔ انڈیا اور پاکستان دونوں اس پر دعویٰ کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اس علاقے کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ استصواب رائے کے ذریعے ہونا ہے جس میں گلگت بلتستان کے لوگوں کی رائے پوچھی جائے گی۔ اس کے لیے کچھ طریقہ کار وضع کیا گیا ہے جس کے تحت مندرجہ ذیل شرائط پر عملدرآمد ہونا باقی ہے۔
1۔ گلگت بلتستان اقوام متحدہ کے ذریعے انکی زیرنگرانی ایک بااختیار علاقہ ہوگا۔ گلگت میں لوکل اتھارٹی کا قیام ہوگا۔ مظفر آباد میں بھی ایک لوکل اتھارٹی کا قیام ہو گا۔
2۔ یو این او کی زیرنگرانی مقامی ملیشیاء کا قیام جو اندرونی سکیورٹی سنبھالے گی۔
3۔ پاکستان کی فوج اور شہریوں کی گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سے بےدخلی اسی طرح انڈیا کو بھی جموں کشمیر اور لداخ سے بھارتی افواج کو نکالنا پڑے گا۔ باوجود اس کے کہ دونوں ملکوں نے ان شرائط کو مانا اور قراردادوں پر دست خط کئے مگر عملی طور پر کام نہیں کر سکے۔ الغرض یہ مسئلہ جمود کا شکار ہے۔ 1972ء میں شملہ معاہدہ کیا گیا جس کے تحت دونوں ملکوں نے دو طرفہ طور پر اس مسئلے کو حل کرنا تھا مگر اس پر بھی پیشرفت نہ ہو سکی۔ یو این کی اس سلسلے میں قرارداد کی عبارت کچھ یوں ہے جو آپ کو پیش کر رہا ہوں:  


اسلام ٹائمز: آپ مسئلہ کشمیر کو گلگت بلستتان سے کس حد تک مربوط سمجھتے ہیں۔؟

حسنین سینگے: ہندوستان کی تقسیم برطانیہ کی حکومت سے منظور شدہ ایک قانون کے تحت کی گئی جس کا نام انڈیا انڈیپنڈینس 1947ء ہے۔ یہ قانون 18 جولائی 1948ء کو پاس ہوا۔ اس قانون کے تحت برطانوی انڈیا اور ریاستوں جن کی تعداد 560 سے زائد تھی کو انڈیا اور پاکستان میں تقسیم کیا گیا۔ جب یہ قانون پاس ہوا اس وقت گلگت بلتستان مہاراجہ کشمیر ہری سنگ کی تحویل میں تھا۔ برطانیہ کی حکومت نے اس قانون کے پاس ہونے کے وقت جس جس ریاست کا جو حدود اربعہ تھا اس کو قبول کیا جس کے تحت گلگت بلتستان، ریاست جموں اور کشمیر کے اس حدود اربعہ کو انڈیا اور پاکستان دونوں نے قبول کیا۔ یو این کی قراردادوں کے مطابق 15 اگست 1948ء کو جموں و کشمیر کی جو شکل تھی اور جو حدود اربعہ تھا اس کو ریاست کا حتمی رقبہ قرار دیا گیا۔ البتہ یو این نے گلگت کو آزاد کشمیر سے الگ ایک لوکل اتھارٹی کے طور پر اعلان کیا اور مقامی آبادی کو خودمختاری دی۔ اب پاکستان کی سرکاری پوزیشن بھی یہ ہے جس کی وجہ سے پاکستان کے آئین میں ترمیم کر کے گلگت بلتستان کو شہری حقوق نہیں دیئے جا سکے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ گلگت بلتستان کو اپنا ایک آئین دیا جائے جو مسئلہ کشمیر کے حل تک مقامی آبادی کی ضرورتوں کو پورا کرے۔ دوسری طرف انڈیا کا آئین گلگت بلتستان کو اپنا حصہ مانتا ہے۔ اس نے کشمیر اسمبلی میں گلگت بلستتان کے لیے ممبر شپ دے رکھی ہے۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان دونوں کے لیے پارلیمنٹ میں ایک سیٹ بھی ہے۔ انڈیا کے آئین کے مطابق اگست 1947ء کو جموں کشمیر کا جو بھی حدود اربعہ تھا وہ ہندوستانی علاقہ ہے۔ انڈیا کا کہنا ہے کہ انڈیا آزادی ایکٹ 1947ء نے ریاست کے حکمرانوں کو انڈیا یا پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کا حق دیا اور اس قانون کے تحت مہاراجہ نے جموں و کشمیر کو ہندوستان کے ساتھ الحاق کیا۔ چنانچہ اے جے کے اور گلگت بلتستان دنوں انڈیا کے علاقے ہیں۔ یاد رہے کہ بلتستان 1947ء میں لداخ کی ایک تحصیل تھا جو تحصیل اسکردو کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ انڈیا چائنہ کے قبضے میں اکسی چین، شنکسگام، راسکام اور اغل پر بھی دعوی کرتا ہے جو 1947ء میں جموں و کشمیر کے قبضے میں تھے۔ پاکستان ان تمام دعوں کو رد کرتا ہے اور انڈیا کو کشمیر پر ایک قابض ملک قرار دیتا ہے۔ یہاں یہ بات واضح ہے کہ دونوں ملکوں کی ایک رضا مندی کے بغیر مسئلہ کشمیر حل نہیں ہو سکتا، جو گلگت بلتستان کی عوام کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔
 
اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان کو جو موجودہ سیٹ اپ دیا ہوا ہے اس سلسلے میں آپ کی کیا رائے ہے کیا یہ سیٹ اپ بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے دیا گیا ہے یا کچھ اور ہے۔؟
 حسنین سینگے: ایک متنازعہ علاقہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کے آئینی نظام کو گلگت بلتستان میں نافذ نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں تک کہ پاکستان کا پینل آف کرائمنل کوڈ یا پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ بھی یہاں نافذ کرنا غیر قانونی ہے۔ پاکستان گلگت بلتستان کا انتظام ایک صدارتی فرمان  کے ذریعے چلاتا ہے جس کی مدت صدر پاکستان کی مدت کے ساتھ یعنی پانچ سال میں ختم ہو جاتی ہے۔ چنانچہ ہر پانچ سال بعد اس آرڈیننس کی تجدید نئے صدر کے ذریعے کرنی پڑتی ہے۔ یہ پاکستان کی  مجبوری ہے اور جب تک گلگت بلتستان کو ایک آئینی نظام نہیں مل جاتا اس مجبوری کو  برداشت کرنا پڑے گا۔ بین الاقومی قوانین برائے انسانی حقوق کے حوالے سے  دیکھا جائے تو یہ آرڈیننس گلگت بلتستان کے ساتھ ایک ناانصافی ہے۔ یو این او نے ہمیں  اپنے علاقے اور وسائل پر حکمرانی کا اختیار دیا ہے ان حالات میں گلگت بلتستان  کونسل کا اسلام آباد میں قیام  ہونا اور اس کو ہمارے وسائل، مذہب، لسانیت، علاقائی تشخص اور راہداری،  تجارتی راستوں پر قانون سازی کا حق دینا گلگت بلتستان کے ساتھ ناانصافی ہے اور یو این او کی قرارداد کی خلاف ورزی ہے۔ یو این او کی  قراردادیں پاکستان کو ہمارے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کا حق نہیں دیتیں۔ وزارت امور کشمیر و  گلگت بلتستان کو گلگت بلتستان کے اندرونی معاملات میں دخل انداری بند کرنی چاہیئے۔ گلگت میں موجود اسمبلی کو آئین سازی کا حق دے کر کونسل کے اختیارات اس کو منتقل کرنے چاہیئیں۔ گلگت بلتستان کی اسمبلی کو اقوام متحدہ سے براہ راست مالی امداد حاصل کرنے کا اختیار ہونا چاہیئے۔ مسئلہ کشمیر کے حل ہونے تک گلگت بلتستان کو ایک عارضی صوبائی نظام ملنا چاہیئے۔ گلگت اور اسکردو میں ہائی کورٹ جبکہ گلگت میں سپریم کورٹ کا قیام  عمل میں لانا چاہیئے۔ مختصر گلگت بلتستان کو ایک ایسا نظام چاہیئے جو  فعال ہو۔
 
اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان سے اسٹیٹ سبجیکٹ رول کو ختم کرنے میں کس کا ہاتھ ہے اور کیا اسے ختم کرنے کے لیے بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کی گئی ہے، نہیں تو اسے دوبارہ بحال کرنا چونکہ عوام کے حق میں ہو تو کیا اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں۔؟
حسنین سینگے: اسٹیٹ سبجیکٹ رول جموں و کشمیر کے ڈوگرہ مہاراجہ کے قوانین میں سے ایک ہے، جس کے تحت  پشتنی باشندوں کی شہریت اور اموال پر تصرف و ملکیت کی تشریح کی گئی ہے۔ یہ قانون 1972ء میں پاس ہوا اس قانون کے تحت انڈیا پاکستان یا کسی اور ملک یا علاقے کا شہری جموں اور کشمیر لداخ اور گلگت بلتستان میں زمین نہیں خرید سکتا اور نہ ہی شہریت حاصل کر سکتا ہے۔ اس قانون کے ذریعے باہر کے لوگوں کو مقامی معاملے میں دخل انداری کرنے سے روکا جا سکتا ہے۔ اس قانون  کے تحت شہریت کی درجہ بندی کی گئی ہے اور باہر کے لوگوں کے لیے مقامی وسائل اور مالی امور میں دخل اندازی کے قوائد تشکیل دئیے گئے ہیں۔ مختصراََ یہ قانون مقامی لوگوں کو بلا تفریق تحفظ فراہم کرتا ہے اور گلگت بلتستان پر مقامی لوگوں کو حق ملکیت و تصرف کی ضمانت دیتا ہے۔ اس قانون کو 1974ء میں پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار بھٹو  نے ختم کیا۔ میرے نزدیک گلگت بلتستان کے لوگوں پر ہونے والے قانونی مظالم میں یہ سب سے بڑا ظلم ہے اس قانون کو توڑ کر یہاں کے لوگوں کو کمزور کیا گیا۔ باہر کے لوگوں کو لا کر آباد کیا گیا اور ایک منصوبے کے تحت یہاں مذہبی فسادارت کروائے گئے۔ باہر کے لوگوں کے ذریعے یہاں کے اخلاقی تشخص پر حملہ کیا گیا اور مقامی آبادی کو اقلیت میں  بدلنے کی کوشش کی گئی۔ ان اقدامات سے یہاں کے لسانی اور ثقافتی تشخص کو نقصان پہنچا۔ میرے نزدیک گلگت بلتستان میں ایس ایس آر ختم کرنا اور غیرقانونی آبادکاری پالیسی کو جاری رکھنا ایسے ہی ہے جیسے کہ اسرائیل فلسطین میں غیر قانونی آبادی بنا رہا ہے۔ یو این او کی قرارداروں کے مطابق پاکستان کو ایس ایس آر کو زائل کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ گلگت بلتستان آج بھی متنازعہ علاقہ ہے اور ایس ایس آر آج بھی اس پر لاگو ہوتا ہے۔ گلگت بلتستان اسمبلی کو آئین سازی کا اختیار دے کر اس قانون کی تجدید کی جا سکتی ہے۔ اس قانون کی جلد تجدید ہونی چاہیئے ورنہ ہم اپنے ہی علاقے میں  غلام بن جائیں گے آج اگر فلسطین کے حالات دیکھ کر ہمیں کچھ سبق سیکھنا ہے تو ایس ایس آر کو بحال کرنے کے لیے تمام لوگوں کو متحد ہونا پڑے گا۔ (جاری ہے)


خبر کا کوڈ: 406173

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/interview/406173/حالات-کا-تقاضا-ہے-کہ-گلگت-بلتستان-کو-اپنا-ایک-آئین-دیا-جائے-حسنین-سینگے

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org