0
Friday 27 Apr 2018 18:12
بلوچستان میں بدامنی کا مقابلہ تعلیم اور روزگار کے حصول سے کیا جاسکتا ہے

ماضی کے برعکس بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں میں وفاق سے متعلق لچک آگئی ہے، سعید احمد ہاشمی

مسلم لیگ اپنے ذاتی مفادات کے حصول میں مصروف ہے
ماضی کے برعکس بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں میں وفاق سے متعلق لچک آگئی ہے، سعید احمد ہاشمی
سعید احمد ہاشمی نوزائیدہ سیاسی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنماء ہیں۔ اس سے قبل وہ مسلم لیگ (ن)، مسلم لیگ (ق) اور دیگر قومی سیاسی جماعتوں کیساتھ بھی وابستہ رہے ہیں۔ گرائمر اسکول کوئٹہ سے سینیئر کیمرج کا امتحان پاس کیا اور انجینئرنگ یونیورسٹی سے بی ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ زمانہ طالبعلمی سے ہی سیاسی میدان میں موجود رہے ہیں۔ پہلی مرتبہ 1985ء کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشست کیلئے حصہ لیا، لیکن کامیابی نہیں ملی۔ بعدازاں 1988ء میں اسلامی جمہوری اتحاد کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لیا اور پی بی تھری سے رکن بلوچستان اسمبلی منتخب ہوئے۔ اسکے بعد چار مرتبہ رکن اسمبلی منتخب ہوتے رہے۔ 2006ء میں ایوان بالا (سینیٹ) کے رکن منتخب ہوئے۔ صوبہ بلوچستان میں حالیہ دنوں میں نواب ثناء اللہ زہری کیخلاف پیش ہونیوالی تحریک عدم اعتماد میں بھی پیش پیش رہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے سیاسی منشور اور آئین سمیت مستقبل کے لائحہ عمل کے حوالے سے اسلام ٹائمز نے سعید احمد ہاشمی سے خصوصی گفتگو کی ہے، جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: آپ گذشتہ پانچ سالوں سے سیاسی منظر نامے سے غائب تھے اور اچانک جب بلوچستان کی سیاست میں‌ دوبارہ آئے تو سابق وزیراعلٰی بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری کیخلاف تحریک عدم اعتماد لانے والی ٹیم میں مرکزی کردار ادا کیا۔؟
سعید احمد ہاشمی:
میں political hibernation پر تھا۔ جہاں تک تحریک عدم اعتماد کی بات ہے تو ہمارا گروپ ایک مضبوط سیاسی گروپ ہے، جو ہمیشہ سے مختلف حکومتوں کے خلاف ڈٹتا آیا ہے۔ ہم حکومتوں کے خلاف عدم اعتماد کی تحاریک کی ہیٹ رک کرچکے ہیں۔ 1993ء میں میر تاج محمد جمالی صاحب وزیراعلٰی بلوچستان تھے۔ ہمارے ساتھیوں کو ان سے تحفظات تھے، تو ہم نے ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی۔ یہ تحریک کامیاب رہی اور ہمارے گروپ کے نواب ذوالفقار علی مگسی وزیراعلٰی بلوچستان بن گئے۔ اس کے بعد سردار اختر مینگل سے نظریاتی اختلافات پیدا ہوگئے۔ ہم نے ان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک چلائی اور میر جان محمد جمالی وزیراعلٰی بن گئے۔ ہم نے بلوچستان کے عوام کے حقوق کیلئے ہمیشہ ہراول دستے کا کردار ادا کیا ہے۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان عوامی پارٹی کا انتخابی نشان کیا ہوگا۔؟
سعید احمد ہاشمی:
اس سے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا، کیونکہ ہماری جماعت نے ان چیزوں کو ابھی تک فائنل نہیں کیا۔ ہم ایک ایسا سمبل ڈھونڈنا چاہتے ہیں، جو بلوچستان کی حقیقی معنوں میں نمائندگی کرسکے۔ انتخابی منشور کے بنیادی نکات کو جلد ہی فائنل کریں گے۔ ہماری کوشش ہے کہ دیگر جماعتوں کی طرح ہمارا منشور روایتی اور کاپی پیسٹ نہ ہو، جس کے لئے ہماری ٹیم کام کر رہی ہے۔ ہماری ٹیم زیادہ تر نوجوانوں پر مشتمل ہے، جو کہ انتہائی پرعزم ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ اس جماعت کو صوبہ بلوچستان کی حد تک محدود رکھنا چاہتے ہیں۔؟
سعید احمد ہاشمی:
فی الحال تو ہم نے بلوچستان سے پہلا قدم اٹھایا ہے۔ ہم سب سے پہلے عوام کا رسپانس دیکھیں گے اور اس کے بعد ہی دیگر صوبوں سے متعلق فیصلہ کریں گے۔

اسلام ٹائمز: صوبہ بلوچستان میں زیادہ تر قوم پرستانہ سیاست ہوتی ہے، ایسے ماحول میں آپ اپنے مستقبل کو کیسا دیکھتے ہیں۔؟
سعید احمد ہاشمی:
ایک بنیادی بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی میں جو افراد شامل ہوئے ہیں یا ہو رہے ہیں، ان کا اپنا سیاسی حلقہ اور عوامی سپورٹ ہے۔ ہماری جماعت میں وہ افراد زیادہ تر شامل ہیں، جو فیڈرلسٹ ہیں۔ پہلے بھی یہ سیاسی رہنماء اسی سوچ کیساتھ سیاست کرتے آئے ہیں اور مستقبل میں بھی ایسا ہی کریں گے۔ ہماری جماعت کا مقصد بھی وفاق سے اپنے حقوق حاصل کرنا ہے۔ لہذا ان افراد نے صرف اپنا پلیٹ فارم بدلا ہے۔ بلوچستان میں ایک بیانیہ عام تھا کہ یہاں کے لوگ وفاق سے مایوس ہوچکے تھے۔ میں خود پندرہ سال تک مسلم لیگ (ن) کا جنرل سیکرٹری رہا ہوں۔ اس لیڈر شپ سے میرا تعلق بہت رہا ہے۔ میں خود اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ مرکزی قیادت ہمارے نقطہ نظر کو نہیں‌ سمجھتی، بلکہ وہ بلوچستان کے موقف کو سمجھنا ہی نہیں چاہتے تھے۔ جب آپ کو یہاں کے مسائل سننے کا شوق ہی نہ ہو تو آپ کو کیا بتایا جائے۔؟ اس لئے ہم نے فیصلہ کیا کہ ایک ایک فرد کی آواز وفاق تک نہیں پہنچ سکتی، بلکہ ہمیں مشترکہ طور پر اپنے موقف کو وفاق کے سامنے رکھنے کی ضرورت ہیں۔ اسی وجہ سے ہم نے بلوچستان عوامی پارٹی کی تشکیل سے پہلا مرحلہ طے کر لیا ہے۔

اسلام ٹائمز: سی پیک منصوبے کے حوالے سے کیا کہنا چاہیں گے۔؟
سعید احمد ہاشمی:
بلوچستان کی اپنی ایک خاص اہمیت ہے، جو وقت گزرنے کیساتھ ساتھ مزید اہمیت اختیار کر رہا ہے، جسکی ایک اہم وجہ سی پیک ہے۔ اگر اسلام آباد بلوچستان کو آبادی کے تناسب سے دیکھے گا تو پھر بلوچستان کو اس کا حق کبھی نہیں مل پائے گا۔ این ایف سی ایوارڈ میں یہ لوگ بات کرتے ہیں کہ آپ کی آبادی صرف پانچ فیصد ہے، حالانکہ پسماندگی اور دور دراز علاقے ہونے کی وجہ سے اسے مزید فنڈز کی ضرورت ہیں۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان کے حقوق کی بات تو اس سے قبل گذشتہ حکومتیں اور قوم پرست جماعتیں بھی کرچکی ہیں، اس لحاظ سے آپ میں اور دوسروں میں کیا فرق رہا۔؟
سعید احمد ہاشمی:
بلوچستان کو وہ اہمیت نہیں دی گئی، جو دینی چاہیئے تھی۔ اس جماعت کے پلیٹ فارم سے حقیقت پر مبنی بات کہنے میں آسانی ہوگی۔ اس سے پہلے جو جماعتیں یہاں پر موجود تھی، انہیں وفاق سے قید و بند کا سامنا ہوتا تھا۔ اب ہم بلوچستان کی بات زیادہ موثر انداز اور آزادی کیساتھ کرسکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: ماضی میں سینیٹ کا رکن ہونیکی حیثیت سے آپ نے بلوچستان کی نمائندگی کس طرح کی تھی۔؟
سعید احمد ہاشمی:
میں نے بلوچستان کے حقوق سے متعلق آواز بلند کی، لیکن جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ وفاق کو میری باتوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ میں ایک تلخ حقیقت بتاؤں کہ اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے افراد کی ترجیحات میں بلوچستان شامل نہیں۔ خود کو قومی سطح کی جماعتیں کہنے والوں نے آج تک بلوچستان میں حقائق جاننے کی کوشش نہیں کی۔ عمران خان، زرداری اور نواز شریف سمیت کسی سے بھی پوچھیں، وہ بلوچستان کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ ان میں سے کوئی ایک مجھے پشین اور مستونگ کا فرق بتا دیں، میں سیاست چھوڑ کر گھر بیٹھ جاؤں گا۔ جب ان کی دلچسپی کا عالم یہ ہو تو آپ خود سمجھ لیں کہ وہ مسائل کیا حل کریں‌ گے۔

اسلام ٹائمز: آئندہ عام انتخابات میں آپ کتنی نشستوں سے حصہ لیں گے۔؟
سعید احمد ہاشمی:
اس کا فیصلہ کسی ایک فرد نے نہیں کرنا، بلکہ بلوچستان عوامی پارٹی کے تمام فیصلے باہمی مشاورت سے ہوں گے۔ آئندہ انتخابات میں ہمارا ہدف یہ ہوگا کہ سادہ سی اکثریت حاصل کی جائے۔ اگر کہیں ہمیں دوسری سیاسی جماعتوں سے اتحاد کرنا پڑا تو اس حوالے سے بھی مشاورت ہوگی۔

اسلام ٹائمز: کن جماعتوں کیساتھ آپ الائنس کرینگے۔؟
سعید احمد ہاشمی:
سیاست امکانات کی دنیا کا نام ہے۔ آپ کو ہر جماعت کی بات سننی ہوگی۔ ہم سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی جانب جا سکتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ہم مکران ڈویژن میں کسی سے اتحاد کریں، کوئٹہ اور لورلائی میں کسی اور جماعت کیساتھ۔ مختصراً یہ کہ اس حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔

اسلام ٹائمز: آپ نے ژوب کا ذکر نہیں کیا۔ کیا جعفر مندوخیل صاحب بھی آپکی جماعت میں آئیں گے۔؟
سعید احمد ہاشمی:
ہنستے ہوئے! وہ بھی آجائیں گے، انہوں نے کہاں جانا ہے۔ ہمارے دروازے تمام سیاسی اکابرین اور عام عوام کیلئے کھلے ہوئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: سیاسی جماعتیں الیکشن کے وقت ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے پر اکثر اختلافات کا شکار ہوتی ہیں، اس حوالے سے آپکی جماعت کا طریقہ کار کیا ہوگا۔؟
سعید احمد ہاشمی:
گذشتہ دنوں آپ نے عمران خان صاحب کی پریس کانفرنس دیکھی ہوگی۔ جس میں انہوں نے کہا کہ 20 اراکین اسمبلی کو سینیٹ انتخابات میں دھاندلی کے الزام میں نکال دیا گیا ہے، جبکہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آئندہ انتخابات میں وہ خود ٹکٹس تقسیم کریں گے۔ جو جماعت تبدیلی کی باتیں کر رہی ہیں، وہاں بھی ڈکٹیٹرشپ موجود ہے۔ کم از کم بلوچستان عوامی پارٹی میں کسی ایک شخصیت کی بادشاہی نہیں ہوگی۔ ٹکٹوں کی تقسیم کا معاملہ پارلیمانی بورڈ کرے گا۔

اسلام ‌ٹائمز: آپکو اس جماعت میں کونسا عہدہ دیئے جانیکا امکان ہے۔؟
سعید احمد ہاشمی:
مجھے جو بھی عہدہ دیا گیا، میں اپنی ذمہ داری بھرپور انداز میں نبھانے کی کوشش کرونگا۔ اس حوالے سے گیارہ مئی کو مکمل تفصیلات سامنے آجائیں گی۔

اسلام ٹائمز: آپ گذشتہ تین عشروں سے بلوچستان کی سیاست کے شاہد ہیں، کیا یہاں سیاسی رویوں میں تبدیلی آئی ہے کہ نہیں۔؟
سعید احمد ہاشمی:
اس حوالے سے مختلف پہلوؤں پر غور کرنے کی ضرورت ہیں۔ میرے خیال میں بلوچستان کی علاقائی سیاست میں تبدیلی آچکی ہے۔ بلوچستان کی مقامی قوم پرست سیاسی جماعتوں کی قیادت میں وفاق سے متعلق لچک آگئی ہے۔ پہلے یہ لچک موجود نہیں‌ تھی۔ دوسری جانب بلوچستان اسمبلی میں قانون سازی پر جو توجہ دینی چاہیئے، وہ نہیں دی جا رہی۔ یہاں کی جماعتیں اب قومی دھارے میں آنا چاہتی ہیں، جو کہ ایک مثبت بات ہے۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں، مذہبی سیاسی جماعتیں اور قومی سیاسی جماعتیں، سب کا بلوچستان کے حقوق سے متعلق ایک ہی نعرہ ہے۔ اگر منزل ایک ہے تو راہیں الگ کیوں ہیں۔؟
سعید احمد ہاشمی:
بلوچستان کی جو قوم پرست سیاسی جماعتیں ہیں، جب وہ بلوچستان کے حقوق کی بات کرتی ہیں تو انکا مطلب صرف اپنا حلقہ انتخاب ہوتا ہے۔ چاہے یہ قوم پرست جماعتیں شمالی بلوچستان سے تعلق رکھتی ہوں یا جنوبی بلوچستان سے۔ یہی صورتحال مذہبی جماعتوں کی بھی ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی میں واضح فرق یہی ہے کہ جب ہم بلوچستان کے حقوق کی بات کرتے ہیں تو اس میں شیرانی سے لیکر جیوانی تک، پورا بلوچستان آتا ہے۔ ہم کسی ایک فرقے یا قوم کی بات نہیں کرتے، بلکہ پورے بلوچستان میں آباد تمام اقوام کے حقوق کی بات کرتے ہیں۔ ہمیں بلوچستان میں نفرتوں کو ختم کرنا ہے۔ یہاں جو تقسیم در تقسیم کی پالیسی اپنائی گئی ہے، اسے ختم کرنا ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ نے مسلم لیگ کی سیاست کو کیوں چھوڑ دیا۔ کیا انکے مفادات بھی ذاتی نوعیت کے تھے۔؟
سعید احمد ہاشمی:
مسلم لیگ تقسیم در تقسیم ہوئی ہے۔ مسلم لیگ کی سوچ پاکستان کے عوام کی خوشحالی اور مضبوط پاکستان تھا، لیکن مسلم لیگ اپنے ذاتی مفادات کے حصول میں مصروف ہوگئی۔ جس دن مسلم لیگ نے عوامی خوشحالی کی سوچ کو چھوڑ دیا، اس دن سے ہم نے مسلم لیگ کو چھوڑ دیا۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان میں لوکل اور سیٹلر آبادی کا مسئلہ گذشتہ ایک دہائی سے شروع ہوا ہے، اس سے متعلق کیا کہیں گے۔؟
سعید احمد ہاشمی:
بلوچستان میں بہت سارے قبائل آباد ہیں، جو مختلف زبانیں بولتے ہیں۔ یہاں باہر سے بھی بہت سارے لوگ آئے۔ ایک مرحلے پر جب یہاں کے مقامی قبائل کی شناخت کا مسئلہ آیا تو گورنر نے ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا کہ جو بھی قومی دستاویزات بنائے گا، اس کے قبیلے کا سردار اس کی شناخت کیلئے سرٹیفیکٹ دے گا۔ اسی طرح ڈپٹی کمشنر بھی ایک سرٹیفیکٹ دینے لگا، جسے لوکل سرٹیفیکیٹ کا نام دیا گیا۔ ظاہر ہے کہ سعید ہاشمی کی شناخت کوئی قبائلی سربراہ نہیں کرتا، اس لئے اس نے آئینی راستہ اختیار کیا، جو ڈومیسائل سرٹیفیکیٹ کا تھا۔ آئینی طور پر ڈومیسائل سرٹیفیکیٹ ہی ہے، مگر لوکل سرٹیفیکیٹ بھی ساتھ ساتھ چلتا رہا اور اس نے بھی قانونی شکل اختیار کر لی۔ 70ء کی دہائی میں سیٹلر کا لفظ ایجاد ہوا، جس سے تفریق کی بنیاد پڑ گئی۔ کچھ دوستوں نے اسے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنا شروع کر دیا، جسے وقت نے ثابت کیا کہ ٹھیک نہیں۔ اس سے یہ حضرات آئیسولیٹ ہو کر رہ گئے اور جسے آپ انسرجنسی کہتے ہیں، اس میں اردو اور پنجابی بولنے والوں کو کچھ لوگ پنجاب کے ایجنٹ تصور کرنے لگے۔ دوسری جانب دیکھئے کہ پچھلے سو سالوں میں بلوچستان کی آبادی بہت بڑھ گئی ہے۔ مختلف قبائل اور زبان کے لوگ باہر سے آکر یہاں آباد ہوئے ہیں، لیکن صرف پنجاب والوں کو سیٹلر کہا جاتا ہے، جو کہ افسوسناک ہے۔ اس چیز کا علاج تعلیم ہے اور وقت کیساتھ ساتھ بہتر ہو جائے گی۔ 1970ء میں مجھے مرحوم نواب خیر بخش مری کے ساتھ کوئٹہ سے اسلام آباد جانے کا اتفاق ہوا۔ ہم ٹرین کے ذریعے سفر کر رہے تھے۔ مجھے اسلام آباد میں کام تھا اور انہیں کمیونسٹ پارٹی کی دعوت پر چین جانا تھا، جو بھٹو صاحب کو دی گئی تھی۔ میں نے ایک رات اور ایک دن مسلسل ان سے سیاسی مباحثے کئے، جس میں یہ بات بھی شامل تھی کہ میں اس سرزمین کا اتنا ہی فرزند ہوں، جتنا نواب مری۔ اس بات سے نواب خیر بخش مری نے بھی اتفاق کیا۔ آج اس بات پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے کہ بعض لوگ اپنی سیاست کی خاطر لوگوں کو تقسیم کرتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان میں جاری بدامنی کا مسئلہ گذشتہ ایک دہائی سے حل نہیں ہوپا رہا، اسکی کیا وجوہات ہیں۔؟
سعید احمد ہاشمی:
انسرجنسی کے موضوع پر ایک طویل بحث ہوسکتی ہے، لیکن ایک بات واضح ہے کہ اس کا حل تعلیم اور روزگار ہے۔ بلوچستان میں بندوق کو بہت مرتبہ استعمال کیا گیا، لیکن اب تعلیم کو ایک موقع دینا چاہیئے۔ بندوق کی سیاست نے جو کرنا تھا، کر لیا۔ اب سول سوسائٹی کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے۔ اس حوالے سے سیاسی قائدین، علماء کرام، والدین سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ اندرونی دشمن کا مقابلہ یکجتہی و اتفاق سے کرنا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان میں کرپشن سے متعلق آپکی جماعت کی کیا پالیسی ہوگی۔؟
سعید احمد ہاشمی:
میری جانب سے واضح حروف میں لکھیں کہ اگر اللہ تعالٰی نے ہمیں کامیابی دی اور بلوچستان عوامی پارٹی کی حکومت بنی تو کرپشن کیخلاف ہماری زیرو ٹالرینس پالیسی ہوگی۔ کرپشن کسی بھی صورت میں ناقابل برداشت ہوگی۔ کرپشن کرنے والے کابینہ اراکین کو ایک دن بھی برداشت نہیں کیا جائے گا۔ سیاسی لوگوں پر ماضی میں جو داغ لگے، ہم اسے صاف کرنے کی کوشش کریں گے۔ آغاز حقوق بلوچستان پیکیج کے ڈرافٹ کی تیاری میں میرا کردار تھا۔ درست ہے کہ اس پر صحیح معنوں میں‌ عملدرآمد نہیں ہوا، مگر ہماری جماعت اس پر عملدرآمد کی پوری کوشش کرے گی۔
خبر کا کوڈ : 720709
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش