0
Sunday 29 Apr 2018 23:58
دہشتگردی کی تمام کڑیاں کسی نہ کسی طرح امریکہ، مغربی ممالک اور وہابیت سے ملتی ہیں

تمام عالم اسلام کو سعودی اسرائیل تعلقات کے خطرے کے حوالے سے سوچنا چاہیئے، مولانا صاحبزادہ افتخار احمد عباسی

سعودی عرب قبلہ اول بیت المقدس کو اسرائیل کی گود میں ڈالنا چاہتا ہے
تمام عالم اسلام کو سعودی اسرائیل تعلقات کے خطرے کے حوالے سے سوچنا چاہیئے، مولانا صاحبزادہ افتخار احمد عباسی
مولانا صاحبزادہ افتخار احمد عباسی جمعیت علمائے پاکستان (نورانی) کی مرکزی شوریٰ و مجلس عاملہ کے رکن و سندھ کے سینیئر نائب صدر ہیں، انکا تعلق اندرون سندھ کے ضلع نواب شاہ سے ہے۔ انہوں نے تنظیمی فعالیت کا آغاز جمعیت علمائے پاکستان سے کیا، 1992ء سے جے یو پی سے وابستہ ہیں، وہ جے یو پی کی صوبائی مجلس شوریٰ کے بھی رکن ہیں، وہ سندھ کے نائب صدر بھی رہ چکے ہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ خطیب و امامت کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے مولانا صاحبزادہ افتخار احمد عباسی کیساتھ مختلف موضوعات پر ایک مختصر نشست کی، اس موقع پر ان کیساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز: سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے اس اعتراف کہ سرد جنگ کے زمانے میں امریکہ و مغرب کی ہدایت پر سعودی فنڈنگ سے وہابیت کو پوری دنیا میں پھیلایا گیا، کے حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
مولانا صاحبزادہ افتخار احمد عباسی:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔۔۔۔۔
اب یہ حقیقت سب کے سامنے آشکار ہوچکی ہے کہ مغرب نے سعودی عرب کے ساتھ مل کر وہابیت کو پیدا کرکے دنیا میں پروان چڑھایا، سعودی عرب نے مغربی ممالک کے کہنے پر وہابیت کے فروغ کیلئے فنڈنگ کی، آج سے کئی دہائیوں پیچھے چلے جائیں تو جتنی بھی دہشتگرد تنظیمیں ملیں گی، انہیں مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے کی غرض سے، مغرب سمیت دنیا بھر میں مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے کی غرض سے، عالم اسلام کو بدنام کرنے کی غرض سے بنایا گیا تھا، لیکن جب ان دہشتگرد تنظیموں نے زور پکڑا تو خود امریکہ و مغرب نے انہیں ختم کرنے کی کوشش کی، پاکستان اور پاکستان سے باہر کئی ایسی دہشتگرد تنظیمیں ہیں، جو بنائی انہوں نے خود ہیں، لیکن جب یہ تنظیمیں خود ان کے گلے پڑنے لگیں تو انہیں ختم کرنے لگے، وہابیت بھی اسی طرح ہے، آج جب سعودی ولی عہد نے یہ اعتراف کر لیا کہ ہم نے مغرب کے کہنے پر وہابیت کو پروان چڑھایا، فنڈنگ کی، لیکن اب اسے ختم کر رہے ہیں، خصوصاً جب امریکی صدر ٹرمپ نے سعودی عرب کا دورہ کیا، جن سے سعودی عرب کے معاملات و تعلقات انتہائی گہرے ہوتے جا رہے ہیں، اسی لئے اب انہوں نے وہابیت کو ختم کرنے کی باتیں و کوششیں شروع کر دی ہیں۔ اب اس حقیقت میں کسی قسم کا کوئی شک باقی نہیں رہ گیا کہ وہابیت کو انہوں نے شروع کیا اور اب ختم بھی وہی کروانا چاہ رہے ہیں، جس مقصد کیلئے وہابیت پیدا کی گئی تھی، شاید اب وہ مقصد ختم ہوچکا ہے، اسی لئے یہ وہابیت کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا یہ سچ ہے کہ پاکستان و عالمی سطح پر دہشتگردی میں ملوث دہشتگرد گروہوں کا تعلق وہابیت سے ہے۔؟
مولانا صاحبزادہ افتخار احمد عباسی:
مغربی دنیا نے اسلام اور مسلمانوں کی یکجہتی کو نقصان پہچانے کیلئے ان دہشتگرد تنظیموں کو بنایا، ان دہشتگرد تنظیموں کو یہ ہدف دیا گیا کہ مسلمان ہو کر، مسلمانوں کے اندر جا کر عالم اسلام میں فرقہ واریت پھیلانی ہے اور ان کو ایک دوسرے کا دشمن بنانا ہے، دہشتگردی کے تمام کڑیاں کسی نہ کسی طرح امریکہ، مغربی ممالک اور وہابیت سے ملتی ہیں، داعش نے شام اور عراق میں زیادہ تر حملے اہل تشیع پر کئے ہیں، جبکہ اہلسنت و دیگر پر بھی حملے کئے ہیں، اس کا تعلق بھی وہابیت سے ہے، اسی طرح پاکستان میں کالعدم دہشتگرد تنظیمیں بھی شیعہ کافر کے نعرے لگاتی ہیں، پاکستان میں داعش کو تحریک طالبان کی مکمل حمایت حاصل ہے، ابو خلیل نامی ٹی ٹی پی کے ایک گرفتار دہشتگرد نے غیر ملکی خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے تسلیم کیا تھا کہ ہمارا تحریک طالبان کا داعش کے ساتھ قریبی تعلق ہے، کراچی سمیت ملک کے کئی حصوں میں داعش نے تحریک طالبان کے ساتھ تعاون بھی کیا ہے، مدد بھی کی ہے، ابو خلیل نے واضح الفاظ میں بتایا کہ ہمیں تحریک طالبان کو شام میں داعش کا ایک سرغنہ عبدالعزیز پاکستان میں ہدایات دیتا ہے، داعش، تحریک طالبان پاکستان سمیت ان تمام بڑی چھوٹی کالعدم دہشتگردوں تنظیموں کا تعلق بھی وہابیت سے ہے اور یہ نعرہ بھی وہابیت کا ہی لگاتے ہیں، جبکہ انہیں امریکہ اور مغربی ممالک کی بھرپور سپورٹ حاصل ہے۔

اسلام ٹائمز: سعودی اسرائیل تعلقات کے حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
مولانا صاحبزادہ افتخار احمد عباسی:
کئی سال پہلے جب ڈنمارک میں نبی کریمؐ کے حوالے سے گستاخانہ خاکے شائع کئے گئے تھے، ہم نے اس وقت کھل کر ایک بات کہی تھی کہ سعودی عرب و دیگر بڑے اسلامی ممالک نبی کریمؐ کی ناموس کی حفاظت کیلئے بیان کیوں نہیں دے رہے، اس وقت بھی سعودی عرب کا کوئی بیان نہیں آیا، ناموس رسالت پر خاموشی پر اس وقت ہم کہہ چکے تھے کہ یہ سارے ممالک امریکہ، اسرائیل، یہودیوں کے غلام ہیں، یہ لوگ صرف نام کے مسلمان ہیں، یہ لوگ امریکی اسرائیلی یہودی غلامی میں مسلم و غیر مسلم کی تمیز ختم کرنے کے درپے ہیں، یہ اسلام کو یہودیت اور عیسائیت کے ساتھ ایک سطح پر کھڑا کرنا چاہتے ہیں، لہٰذا آج سعودی عرب اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ تعلقات اس نہج پر لے کر جا رہا ہے کہ وہابیت کے ساتھ ساتھ دین اسلام کا خاتمہ بھی کر دیا جائے، لہٰذا ہم سب کیلئے سعودی اسرائیل تعلقات انتہائی تشویش کا باعث ہیں، سعودی عرب کا اسرائیل، امریکہ اور انکی اسلام مخالف پالیسیوں کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کر چلنا ہم سب کیلئے خطرے کا باعث ہے، تمام عالم اسلام کو سعودی اسرائیل تعلقات کے خطرے کے حوالے سے سوچنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: سعودی اسرائیل تعلقات کے مسئلہ فلسطین اور آزادی بیت المقدس پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔؟
مولانا صاحبزادہ افتخار احمد عباسی:
حرمین شریفین کی وجہ سے اسلام کا مرکز کہلانے والا ملک اگر اسلام مخالفین کی گود میں بیٹھ جائے گا تو مقبوضہ فلسطین کو کون آزاد کروائے گا، اطلاعات تو یہ ہیں کہ اسلام و مسلمان مخالف فعال گروہوں اور تنظیموں کو سعودی عرب سپورٹ کر رہا ہے، یعنی سعودی عرب مسلمانوں کا پیسہ مسلم نسل کشی کیلئے دے رہا ہے، جب سعودی عرب جیسے ملک کی اسرائیل نوازی کا یہ عالم ہے تو ہم قبلہ اول بیت المقدس کو کس طرح آزاد کروا سکتے ہیں، ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ سعودی عرب قبلہ اول بیت المقدس کو اسرائیل کی گود میں ڈالنا چاہتا ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں داعش کے خطرے کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
مولانا صاحبزادہ افتخار احمد عباسی:
2017ء میں پاکستان میں تقریباً 350 سے 375 دہشتگرد حملے ہوئے، جن میں ایک محتاط اندازے کے مطابق آٹھ نو سو لوگ جاں بحق ہوئے، جن میں سانحہ صفورا، سانحہ سہون، کوئٹہ میں دہشتگردی سمیت داعش کے کھاتے میں سات آٹھ حملے ہیں، جس کے نتیجے میں ڈیڑھ سو سے زائد افراد جاں بحق ہوئے، داعش ذمہ داریاں بھی قبول کرچکی ہے، اسلام آباد، کراچی، لاہور، ملتان سمیت ملک کے کئی شہروں میں داعش کی چاکنگ کی جا چکی ہے، اس سے پاکستان میں داعش کے خطرے کے حوالے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے، اس سے زیادہ خطرناک بات تو یہ ہے کہ حکومت پاکستان میں داعش کے وجود سے انکاری ہے، ہم کیا سوچیں کہ کیا ہماری حکومت داعش سے ڈرتی ہے، کیا ہماری حکومت داعش سے مقابلہ نہیں کرسکتی، یا تو حکومت یہ کہے کہ داعش پاکستان میں آئی تھی، لیکن ہم نے ان کو تہس نہس کر دیا ہے، لہٰذا حکومت کی جانب سے داعش کی ملک میں موجودگی سے انکار انتہائی خطرناک ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا وجہ ہے کہ حکومت پاکستان میں داعش کے وجود سے انکاری نظر آتی ہے۔؟
مولانا صاحبزادہ افتخار احمد عباسی:
جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ یا تو حکومت داعش سے ڈرتی ہے، یا پھر یہ کہ پاکستان میں ایسی مذہبی جماعتیں ہیں، جو سیاسی طور پر کام کرتی ہیں، انہیں سیاسی جماعتوں کے قائدین کے کسی نہ کسی طرح سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور داعش سے تعلقات ہیں، ان جماعتوں کے ایوان کے اندر نمائندگان موجود ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ حکومت ان کے آگے گھٹنے ٹیکتی ہے کہ اگر ہم پاکستان میں داعش کے وجود کو تسلیم کرینگے اور پھر داعش کے خلاف کارروائیاں کرینگے تو اسمبلیوں میں موجود ہمارے لوگوں کو خطرہ ہوگا، شاید حکومت ان لوگوں کی مجبوریوں کی وجہ سے خاموش ہے۔

اسلام ٹائمز: ایوانوں میں داعش اور اس جیسی دیگر دہشتگرد تنظیموں کے حمایتی اور ہمدردوں کی موجودگی ملک و قوم کیلئے خطرناک نہیں۔؟
مولانا صاحبزادہ افتخار احمد عباسی:
ہمارے ایوانوں کے اندر بڑی تعداد میں مذہبی سیاسی جماعتوں کے افراد اور علمائے کرام موجود ہیں، لیکن وہ آج تک داعش اور طالبان کے خلاف قراردادیں نہیں لاسکے، یہ سیاسی مذہبی جماعتیں اسلام کا نعرہ تو لگاتی ہیں، لیکن انہوں نے کبھی داعش اور طالبان کے خلاف نعرہ نہیں لگایا، وہ سیاسی جماعتیں جو اسلام کے نام پر ووٹ نہیں لیتی ہیں، انہوں نے ملک میں ہونے والے دہشتگردی کے سانحات پر طالبان، داعش و دیگر دہشتگرد تنظیموں کے خلاف بھرپور طریقے سے احتجاج کیا، لیکن اسلام کے نام پر ووٹ لینے والی سیاسی مذہبی جماعتوں نے طالبان، داعش و دیگر دہشتگرد تنظیموں کے خلاف کوئی احتجاج نہیں کیا، ہم سمجھتے ہیں کہ ایوان میں موجود مذہبی سیاسی جماعتیں طالبان، داعش و دیگر دہشتگرد تنظیموں کی ہمدرد و حمایتی ہیں اور داعش اور تحریک طالبان کے خلاف کارروائی نہیں کرنے دے رہیں۔

اسلام ٹائمز: ایوانوں میں ہی دہشتگردوں کے حمایتی موجود ہوں تو پھر داعش جیسے خطرے کا تدارک کیسے ممکن ہے۔؟
مولانا صاحبزادہ افتخار احمد عباسی:
ملک میں دہشتگردوں اور دہشتگردی کے خلاف افواج پاکستان تو اپنا کردار ادا کر رہی ہیں، لیکن اگر ریاست فوج سے تعاون نہ کرے، اگر ریاست ہی دہشتگردوں سے ملی ہوئی ہو تو فوج اپنے ہی لوگوں پر تو حملہ نہیں کرسکتی نا، اپنے ملک میں فوج اپنے لوگوں کو تو نہیں ماریگی، جب فوج دہشتگردوں کے ساتھ ملکی افراد کو ہی بیٹھا دیکھے گی تو پھر فوج کیا کریگی، ایوان میں بیٹھے مثبت لوگوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، آئندہ عام انتخابات میں عوام کو بھی اپنا اہم کردار ادا کرنا ہوگا، عوام کو انہیں جماعتوں اور ان کے نمائندوں کو منتخب کرنا ہوگا، جن جماعتوں نے ببانگ دہل داعش، طالبان و ان جیسی دیگر دہشتگرد تنظیموں کے خلاف آواز حق بلند کی ہے، جمعیت علمائے پاکستان و دیگر جماعتوں کے حقیقی نمائندوں کو ایوان میں لانا ہوگا، تاکہ ایوان کو داعش و طالبان کے ہمدردوں اور حمایتیوں سے پاک کیا جا سکے اور فوج اور عوام مل کر ملک بھر سے دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینک سکیں، اس طرح ان شاءاللہ جلد ایک پاکستان داعش، تحریک طالبان و ان جیسی دیگر دہشتگرد تنظیموں کے ناپاک وجود سے پاک ہو جائیگا، لیکن اگر عوام نے اہل نمائندگان کو منتخب کرکے ایوانوں میں نہیں بھیجا تو اس کے منفی اثرات ملک کے ساتھ ساتھ خود عوام پر بھی پڑینگے۔
خبر کا کوڈ : 721365
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش