0
Monday 30 Apr 2018 23:55
وفاق میں اعلٰی ترین سطح پر غور ہونیکے باوجود جی بی کے عوام کو مزید محرومیوں کی جانب دھکیلنا دانشمندی نہیں ہوگی

اصلاحات کے نام پر گلگت بلتستان کیساتھ مذاق ہو رہا ہے، ہم یہ قبول نہیں کرینگے، شیخ مرزا علی

جب عوام کے حقوق غصب ہو رہے ہوں، خالصہ سرکار کے نام پر عوام سے زمینیں چھن جائیں تو حکومت کیخلاف تحریک عدم اعتماد لازمی امر ہے
اصلاحات کے نام پر گلگت بلتستان کیساتھ مذاق ہو رہا ہے، ہم یہ قبول نہیں کرینگے، شیخ مرزا علی
شیخ مرزا علی اسلامی تحریک گلگت بلتستان کے جنرل سیکرٹری ہیں، گلگت سے تعلق رکھتے ہیں، اسلامی تحریک پاکستان کے پالیسی سازوں میں شمار ہوتے ہیں، گلگت بلتستان کے گذشتہ انتخابات میں اپوزیشن جماعتوں میں سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے میں ان کا مرکزی کردار رہا، مفاہمتی پالیسی کے تحت گلگت بلتستان کے کئی اہم مسائل حل کئے، اسلامی تحریک کو گلگت بلتستان میں متعارف کرانے اور اسے مضبوط کرانے میں بھی اہم کردار ادا کیا، اتحاد امت کے داعی ہیں، گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے معاملے کو ہر فورم پر اٹھاتے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے گلگت بلتستان کیلئے عنقریب دیئے جانیوالے اصلاحاتی پیکج اور دیگر امور پر ان سے خصوصی گفتگو کی، جو قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان انتظامی سیٹ اپ ملنے والا ہے، لیکن سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات کے برعکس جی بی کو پارلیمنٹ میں نمائندگی نہ دینے کا فیصلہ کیا گیا، اب قومی اداروں میں بطور مبصر نمائندگی حاصل ہوگی۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ مبصر نمائندگی کیا گلگت بلتستان کے عوام کی محرومیوں کے ازالے کا باعث بنے گی۔؟ مجوزہ اصلاحات سے آپ کس حد تک مطمئن ہیں۔؟
شیخ مرزا علی:
سرتاج عزیز کی سفارشات کسی حد تک معقول تھیں، ان کو دبا کر دوسری سفارشات میں بطور مبصر نمائندگی دینے کی باتیں ہو رہی ہیں، اس کا عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا، آئینی اصلاحات کے نام پر گلگت بلتستان کے ساتھ مذاق ہو رہا ہے، ہم یہ قبول نہیں کریں گے۔ حکومت مبصر کی آڑ میں ٹیکس نافذ کریگی اور این ایف سی میں آبادی کے تناسب سے بجٹ دینے کی کوشش کریگی۔ اس سے بمشکل چار پانچ ارب روپے ملیں گے، ہم 1994ء سے پانچویں آئینی صوبے کا مطالبہ کرتے ہوئے آرہے ہیں، ہمارا موقف بالکل واضح ہے کیونکہ گلگت بلتستان کے عوام نے خود سے آزادی حاصل کرکے غیر مشروط طور پر پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا، بعد میں معاہدہ کراچی کے نتیجے میں خطہ متنازعہ ہوگیا۔ عالمی حالات کے تناظر میں اگر آئینی صوبہ ممکن نہیں تو خطے کی متنازعہ حیثیت کو باقاعدہ تسلیم کرکے متنازعہ حیثیت کے مطابق سیٹ اپ دیا جائے۔ یہ حقیقت ہے کہ یہ خطہ متنازعہ ہے لیکن حکومت نہ متنازعہ حیثیت تسلیم کر رہی ہے اور نہ ہی آئینی صوبہ بنانے کے حق میں ہے۔ ٹیکس بھی لگانا چاہتی ہے اور آئینی حقوق بھی نہیں دے رہی۔ بین الاقوامی حالات کے تناظر میں عالمی رائے عامہ ہموار ہونے تک گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت کو باقاعدہ تسلیم کر کے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق سیٹ اپ اور حقوق دیئے جائیں۔

اسلام ٹائمز: اب اسلامی تحریک پاکستان کا اگلا لائحہ عمل اور بنیادی مطالبہ کیا ہوگا۔؟
شیخ مرزا علی:
وفاقی کمیٹی ایک بہت بڑی پیشرفت تھی، اس سے پہلے خطے کی آئینی حیثیت پر اتنے بڑے فورم پر غور نہیں ہوا تھا۔ پہلی مرتبہ اعلٰی ترین سطح پر غور ہوا، بڑے بڑے لوگوں نے مشاورت کی، سرمایہ صرف ہوا یہ ایک ٹرننگ پوائنٹ تھا، کیونکہ دیوار برلن گر سکتی ہے، شمالی اور جنوبی کوریا آپس میں مل سکتے ہیں تو مسئلہ کشمیر بھی حل ہو سکتا ہے۔ اس کے باوجود بھی خطے کی آئینی حیثیت پر پیشرفت نہ ہونا بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آئینی صوبہ کشمیر کاز پر پاکستان کے موقف کی تقویت کا باعث بنے گا، کیونکہ گلگت بلتستان کی وجہ سے مسئلہ کشمیر پہلے کی نسبت زیادہ اجاگر ہوا ہے، حکومت سٹینڈ لیتی اور گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کا تعین کرتی تو مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا موقف زیادہ مضبوط ہوتا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ امریکہ نے آنکھیں دکھانا شروع کر دی ہیں، بھارت کی دشمنی اور بھی بڑھ گئی ہے، گلگت بلتستان جو سی پیک کا مرکز ہے، ایسی صورتحال میں عین موقع پر عوام کو مزید محرومیوں کی جانب دھکیلنا دانشمندی نہیں ہوگی۔

ہمارا مطالبہ ہے کہ چونکہ یہ علاقہ اب متنازعہ ہے تو بین الاقوامی حالات کے تناظر میں مسئلہ کشمیر پر عالمی رائے عامہ ہموار ہونے تک سٹیٹ سبجیکٹ رول کو بحال کرتے ہوئے علاقے کی متنازعہ حیثیت کو تسلیم کیا جائے، اگر کوئی ملکی یا بین الااقوامی مجبوری ہے تو ان مجبوریوں کے ختم ہونے تک خطے کی متنازعہ حیثیت کو واضح کیا جائے۔ ابھی ہم دیکھیں گے کہ قومی سلامتی کمیٹی میں مجوزہ ڈرافٹ پیش ہوگا تو وہاں پر کیا پیشرفت ہوتی ہے، اس کے بعد ہم اپنے لائحہ عمل کا اعلان کرینگے۔ ہمیں اب متنازعہ حیثیت کے تناظر میں داخلی خود مختاری چاہیئے، اب ہمارا مطالبہ اختیارت کی بجائے داخلی خودمختاری ہوگا۔ اصلاحاتی پیکج کے باقاعدہ اعلان کے بعد ہم اس کو دیکھیں گے، اس کے بعد آل پارٹیز کانفرنس بلائیں گے، ایک اور چیز جو میں دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے منتخب نمائندے اسمبلی قراردادوں کے برخلاف پی آئی اے کرایوں میں اضافے کے معاملے کو اٹھا رہے ہیں اور انہیں اسمبلی کی توہین قرار دے رہے ہیں، لیکن اس سے پہلے 3 قراردادیں آئینی صوبے کے حق میں منظور کی جا چکی ہیں، تو یہ قراردادیں بھی موضوع بحث کیوں نہیں؟۔ کیا ان قراردادوں کی بھی خلاف ورزی نہیں ہو رہی؟ یہ بھی اسمبلی کی توہین نہیں ہے۔؟

اسلام ٹائمز: صوبائی حکومت کی کارکردگی سے کس حد تک مطمئن ہیں؟ کیا تحریک عدم اعتماد آ سکتی ہے۔؟
شیخ مرزا علی:
اس وقت گلگت بلتستان میں کرپشن، اقرباء پروری اور میرٹ کی پامالی انتہاء کو پہنچ چکی ہے۔ اقرباء پروری اور من پسند افراد کو نوازنے کے ریکارڈ توڑے جا رہے ہیں۔ پولیس کی بھرتیوں میں ہیرا پھیری کی گئی۔ ریسکیو 1122 میں میرٹ پر آنے والوں کو ویٹنگ لسٹ میں رکھا گیا، بعد میں انہیں دوبارہ مشتہر کیا گیا۔ جب لوگوں کے حقوق غصب ہو رہے ہوں، خالصہ سرکار کے نام پر عوام کو بےگھر کیا جا رہا ہو، لوگوں کی ملکیتی زمینیں چھن جائیں تو ایسی صورتحال میں تحریک عدم اعتماد آنا لازمی امر ہے۔

اسلام ٹائمز: تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر آپکی پارٹی تقسیم نظر آرہی ہے، اسمبلی میں موجود ممبران میں ہم آہنگی نظر نہیں آتی، اسمبلی کے باہر بھی بعض رہنماﺅں کے بیانات میں تضاد پایا جاتا ہے، تو کیا اسلامی تحریک وزیراعلٰی کیخلاف تحریک عدم اعتماد کا حصہ بن سکتی ہے۔؟
شیخ مرزا علی:
دیکھیں اس وقت اسمبلی میں ہم کمزور ہی سہی لیکن سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی ہیں، تحریک عدم اعتماد لانے کا حق سب سے پہلے ہماری پارٹی کو حاصل ہے، کیونکہ ہمارے ممبران کی تعداد بھی سب سے زیادہ ہے اور اپوزیشن لیڈر بھی ہمارا ہے، باقی جو لوگ عدم اعتماد کی باتیں کر رہے ہیں، ان میں پہلے تو کوئی حقیقت ہی نہیں، یہ اخباری بیانات اور بیان بازی کی حد تک ہے، عملی طور پر کوئی وجود ہی نہیں، تاہم یہ حقیقت ہے کہ اپوزیشن لیڈر ہونے کے ناتے ہم زیادہ حق رکھتے ہیں کہ عدم اعتماد لائیں۔ باقی جو ہمارے ممبران کے موقف کی جہاں تک بات ہے، وہ ان کی ذاتی رائے ہے، پارٹی نے ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا، نہ ہی ابھی تک کسی نے کوئی رابطہ کیا۔ ہمارے منتخب اراکین سے نہ ہی پارٹی کے لیڈران سے۔ گذشتہ ماہ پیپلزپارٹی کے بعض رہنماﺅں نے اسلام آباد میں ہمارے مرکزی قائدین سے رابطے کئے تھے، تاہم ابھی تک ہم نے کوئی فیصلہ نہیں کیا، لیکن میں بتانا چاہتا ہوں کہ کسی بھی معاملے پر پیشرفت کیلئے رابطے بڑھانے ہوتے ہیں، مشاورت ہوتی ہے، خالی بیان بازی اور اخباری تراشوں سے تحریک نہیں آ سکتی، نہ ہی کامیاب ہوگی۔

اسلام ٹائمز: لینڈ ریفارمز کمیشن سے کیا توقعات ہیں؟ زمینوں کے حوالے سے اسلامی تحریک سے مشاورت ہوئی ہے کہ نہیں۔؟
شیخ مرزا علی:
لینڈ ریفارمز کمیشن بھی یکطرفہ نظر آرہا ہے، کسی بھی اسٹیک ہولڈر سے مشاورت نہیں کی گئی، یہاں تک کہ قانون ساز اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سے بھی نہیں پوچھا گیا، یہ کمیشن مشکوک نظر آرہا ہے، ہم انتظار کر رہے ہیں کہ کمیشن کیا سفارشات مرتب کرتا ہے۔ اس کے بعد معاملے کو دیکھیں گے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ یہاں دو، دو قوانین نافذ ہیں، ایک خطے میں دو قوانین حکومت کی کمزوری کی نشانی ہے۔ ایک ڈویژن میں معاہدے کے تحت زمینیں عوام کی ملکیت قرار دی گئیں، دوسرے علاقوں کیلئے الگ قانون بتایا جا رہا ہے۔ یہ معاہدے تو سب کے ساتھ ہو سکتے ہیں، قوانین کا نفاذ یکساں ہونا چاہیئے، اس قسم کے معاہدے دوسرے ڈویژن کے عوام کے ساتھ بھی تو ہو سکتے ہیں۔ حکومت کو زمینیں درکار ہیں تو عوام کی ملکیت تسلیم کرتے ہوئے معاوضہ دے کر حاصل کرے۔
خبر کا کوڈ : 721608
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش