0
Thursday 10 May 2018 15:32

ٹرمپ کے اقدامات سے امریکہ کا اعتماد مجروح ہوا اور ایران کی اخلاقی برتری ثابت ہوگی، عمران خان

ٹرمپ کے اقدامات سے امریکہ کا اعتماد مجروح ہوا اور ایران کی اخلاقی برتری ثابت ہوگی، عمران خان
ملک کے مایہ ناز اور مقبول ترین سیاسی لیڈر، چیئرمین پاکستان تحریک انصاف، عمران خان نے پانامہ کیس کے حوالے سے اپنی زندگی کی طویل ترین اننگز مکمل کر لی ہے۔ آئندہ قومی انتخابات سے پہلے جوڑ توڑ سمیت موجودہ سیاسی صورتحال اور علاقائی و بین الاقوامی تناظر میں خطے و ملک کی مجموعی صورتحال کے متعلق اسلام ٹائمز کیساتھ انکا مختصر انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: وزیراعظم نے چیئرمین نیب کو قومی اسمبلی میں طلب کرکے احتساب کی خواہش کا اظہار کیا ہے، آپکے خیال میں اسکی کیا وجوہات ہیں۔؟
عمران خان:
یہ دراصل چاہتے یہ ہیں کہ مئی کا مہینہ ختم ہونے سے پہلے نیب قوانین میں تبدیلی کر لیں، جو آسان نہیں ہوگا، کیونکہ نواز شریف کیخلاف ہونے والی تحقیقات کی وجہ سے یہ حواس باختہ ہوچکے ہیں، نیب بہت اچھا کام کر رہا ہے، نیب کے چیئرمین سے تحقیقات کے بہانے نواز شریف کیخلاف ہونیوالی تحقیقات کو روکنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے تہیہ کیا ہوا ہے کہ عدلیہ اور نیب کو کام کرنے سے روکا جائے، ہم اداروں کے آزادانہ کام کرنے کے حامی ہیں، انہوں نے چوری چھپانے کیلئے پہلے بھی اسی طرح کے ہتھکنڈے استعمال کئے ہیں، اب بھی کر رہے ہیں۔ وزیراعظم کو شرم آنی چاہیے کہ چوروں کیخلاف ہونیوالی تحقیقات کی بجائے احستاب کرنیوالے ادارے کو دباؤ میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر نیب سیاسی انتقام کا ادارہ تھا تو انہیں پہلے ہوش کیوں نہیں آیا۔ اب کہتے ہیں کہ یہ پری پول دھاندلی ہے۔ انہوں نے ہمیشہ دھاندلی کی ہے، اب انہیں موقع نہیں مل رہا، اس لئے واویلا کر رہے ہیں۔ یہ اداروں اور انصاف کی فراہمی کے عمل میں رکاوٹ بن رہے ہیں، انہیں کسی بھی لحاظ سے حکمرانی کا حق حاصل نہیں ہے۔ انہیں پاکستان سے زیادہ اپنے مفادات عزیز ہیں، ایک دشمن ملک میں پیسہ منی لانڈرنگ کے ذریعے منتقل ہوا ہے، اسکی تحقیقات کیون نہیں ہونی چاہیں، ضرور ہونی چاہیں۔

اسلام ٹائمز: اسلام آباد میں امریکی سفارتکاروں نے پاکستانیوں کو کچل دیا، دوسری طرف پاکستانی سفارتکاروں کیخلاف پابندیاں سخت کر دی گئی ہیں، پاکستان کو کیا کرنا چاہیے۔؟
عمران خان:
ہمیں ہوش کے ناخن لیتے ہوئے سوچنا چاہیے، پاکستان کو امریکہ کا غلام بنا دیا گیا ہے، اب ہمیں اس سے نکلنا ہوگا، میں یہ پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ امریکہ پاکستان کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرتا ہے اور ٹرمپ تو پاکستان سے متعلق بھارت کی زبان بول رہے ہیں۔ امداد کے نام پہ ہم نے پاکستان کو گروی رکھ دیا ہے، امریکہ کی چھوٹی سی امداد پاکستان کو بہت مہنگی پڑی اور امریکی جنگ میں شرکت پر پاکستان کو 70 ہزار جانوں کا نقصان اٹھانا پڑا، امریکی امداد ہمارے نقصانات کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ پاک امریکہ تعلقات میں سب سے اہم کڑی افغانستان ہے، ٹرمپ افغانستان کی تاریخ نہیں سمجھ پا رہے ہیں، افغانستان کا مسئلہ فوجی طاقت سے حل کرنے کا فارمولا ہمیشہ ناکام رہا، پاکستان افغانستان میں امن چاہتا ہے، کیونکہ افغانستان میں امن پاکستان کے مفاد میں ہے۔ یہی بات امریکہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے، ورنہ نہ کبھی امن قائم ہوگا، نہ ہی حالات اور تعلقات درست سمت اختیار کرینگے۔ ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ماضی میں پاکستان کی بیرون ممالک عزت تھی، ایوب کے دور میں پاکستان کو عزت سے دیکھا جاتا تھا، لیکن آج اس ملک کے وزیراعظم کو امریکہ کے صدر کے ساتھ بات کرنے کی ہمت نہیں ہے، سفارت کار تو دور کی بات ہے، ہمارا وزیراعظم امریکہ میں داخلے کیلئے تلاشیاں دیتا پھرتا ہے، اس سے ملک کی نیک نامی پہ حرف آتا ہے، ہمیں ہر صورت میں اس صورتحال سے نکلنے کی ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ ایران سے متعلق ایٹمی ڈیل سے امریکہ کی علیحدگی کو کس طرح دیکھتے ہیں اور اسکے کیا اثرات ہونگے۔؟
عمران خان:
بغیر کسی اشتعال کے معاہدے سے علیحدگی ایک پاگل پن ہے، امریکہ سمیت پوری دنیا میں اس کی مخالفت کی جا رہی ہے، یورپی یونین نے بھی اس کی مخالفت کی ہے، پھر یہ کہ ایران جب تک این پی ٹی میں ہے، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ایٹمی ہتھیار بنائے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کی نیت اور مقصد کچھ اور ہے، جو کچھ ٹرمپ کہہ رہے ہیں وہ نہیں ہے۔ خود ٹرمپ نے یہ کہا ہے کہ اس معاہدے کی رو سے کچھ شقیں ایک عرصے کے بعد غیر موثر ہو جائیں گیں اور ایران کیخلاف امریکہ کا اثر و رسوخ ختم ہو جائیگا، اس سے امریکہ کا اصلی چہرہ سامنے آگیا ہے، نہ وہ معاہدوں کی پابندی کرتے ہیں، نہ وعدوں پر عمل کرتے ہیں، کیونکہ جب ایک بین الاقوامی معاہدہ ہوتا ہے تو توقع کی جاتی ہے کہ اعتماد کی فضاء پیدا ہوگی، لیکن انحراف کی صورت میں امریکہ کا ناقابل اعتماد ہونا واضح ہوا ہے، اس وجہ سے بھی اس کے اثرات بہت زیادہ منفی ہونگے۔ یہ معاہدے ریاست کے معاہدے ہوتے ہیں، آپ یہ کہہ سکتے کہ یہ کسی اور حکومت نے کیا تھا، مجھے پسند نہیں تو میں اسے ختم کر رہا ہوں، اس طرح دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ یہ ذہنیت پوری دنیا کیلئے کس قدر خطرناک ہوسکتی ہے، یہ ٹرمپ کی بنیادی غلطی ہے، لیکن اس سے ایران کی اخلاقی برتری ثابت ہوگی، اچھی بات یہ ہے کہ ایران اور ایرانی قیادت نے کسی قسم کے دباؤ کو قبول نہین کیا، ہر ملک کو اپنی آزادی اور عزت عزیز ہوتی ہے، یہ ہمارے لئے بھی ایک مثال ہے۔ امریکہ کا طرزعمل تو سب پر واضح ہے، لیکن ایران نے ہمیشہ اچھی مثال قائم کی ہے، اس سے ان ممالک کو بھی سوچنا چاہیے، جو اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں، سارا فساد اسرائیل اور امریکہ کی وجہ سے ہے، ہمیں بھی روس، چین اور ایران کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانا چاہیے۔

اسلام ٹائمز: جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کا نعرہ اور پی ٹی آئی کیطرف سے الیکشن سے قبل اسکی حامی بھرنے سے متعلق کہا جا رہا ہے کہ یہ موقع پرستی ہے، اس سے سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔؟
عمران خان:
پاکستانی سیاست میں ایک چیز بڑی واضح طور پر نظر آتی ہے کہ الیکشن سے پہلے جس پارٹی کی مقبولیت بہت زیادہ ہوتی ہے، اس کے متعلق یہ تاثر ہوتا ہے کہ یہی حکومت بنائے گی، مختلف سیاستدان اسی کا رخ کرتے ہیں، یہی بات ہمارے مخالفین کو ہضم نہیں ہو رہی۔ جنوبی پنجاب صوبے کے متعلق ہماری کوئی دو رائے نہیں ہیں، میں بڑی شدت سے اسکا حامی ہوں، ہم نے جو معاہدہ کیا ہے، ہم اس کے پابند ہیں۔ وعدہ پورا کرینگے، میں تو خود کہہ چکا ہوں کہ اگر میں وعدے سے مکروں تو مجھے تحریک انصاف کا چیئرمین رہنے کا کوئی حق نہیں۔ میرے خیال میں پاکستان کی ترقی اور لوگوں کی خوشحالی کیلئے یہ بڑا ضروری ہے، اس کے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے، پنجاب کی آبادی اتنی زیادہ ہے کہ دوسرے صوبوں کے ساتھ توازن ہی برقرار نہیں رہتا۔ ویسے بھی لوگوں میں احساس محرومی دن بدن بڑھ رہا ہے، جب سارا بجٹ یا نصف سے زیادہ بجٹ آپ صرف لاہور پہ لگا رہے ہیں، تو اس کے منفی اثرات سے بچنے کیلئے اقدام کی ضرورت ہوگی، ورنہ لوگوں کے اندر بڑھتی ہوئی بے چینی سے نقصان ہوگا۔

اسلام ٹائمز: دوسری جماعتوں کیطرح آپ نے بھی منشور پیش کیا ہے، اسکو کس طرح پورا کرینگے، پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کسی نے اپنے نعروں کو عملی جامہ نہیں پہنایا۔؟
عمران خان:
ہمارے ہاں پسماندگی اور مسائل کی بنیادی وجہ ناانصافی ہے، یہ نظام نہ چلنے کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ظلم کا نظام رائج ہے اور یورپ میں ترقی کی وجہ یہ ہے کہ وہاں عدل و انصاف کا نظام ہے، ہم مزدوروں، خواتین سمیت تمام مظلوموں کو ظلم کے نظام سے نجات دلائیں گے۔ ہم پاکستان میں ظلم ختم کرنے کیلئے جہاد کریں گے، کیونکہ جس ملک میں ظلم کا نظام ہوتا ہے، وہاں سے اللہ کی برکت اٹھ جاتی ہے، باقی چیزیں اسکے ذیل میں آتی ہیں، یہ ہم نے ثابت بھی کیا ہے، پانامہ کیس اور اس کے نتیجے میں حکمران طبقے کا احتساب پہلی دفعہ ہو رہا ہے، اسی طرح جہاں محسوس ہوا کہ ہمارے اپنے لوگوں نے بدعنوانی کی ہے، انکے خلاف ایکشن لیا ہے، یہ کوئی دوسری پارٹی کرنے کیلئے تیار ہے۔ اسی طرح میں نے گذشتہ الیکشن میں بھی کہا تھا کہ میرا سب کچھ اس ملک میں ہوگا، میں اسی ملک میں جیوں گا اور اسی ملک میں مروں گا، میرا پیسہ اس ملک میں رہے گا اور اسے کسی دوسرے ملک یا بیرون ملک بینک میں منتقل نہیں کروں گا، اب بھی اس پہ قائم ہوں۔
خبر کا کوڈ : 723617
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش