0
Thursday 17 May 2018 02:41
سی پیک میں ہمارے نام پر اربوں ڈالر لئے جا رہے ہیں لیکن جی بی کو صدقے کے برابر بھی حصہ نہیں دیا گیا

آئینی صوبہ نہیں بننا تو گلگت بلتستان کو کشمیر طرز کا سیٹ اپ دیا جائے، الیاس صدیقی

نون لیگ نے پاکستان میں انتشار کی کیفیت پیدا کی، جی بی میں خالصہ سرکار کے نام پر یہی صورتحال پیدا کی جا رہی ہے
آئینی صوبہ نہیں بننا تو گلگت بلتستان کو کشمیر طرز کا سیٹ اپ دیا جائے، الیاس صدیقی
الیاس صدیقی مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے ترجمان ہیں، سیاست کا آغاز مشرف دور میں قاف لیگ کے پلیٹ فارم سے کیا۔ 2015ء کے گلگت بلتستان کے عام انتخابات سے پہلے ایم ڈبلیو ایم میں شمولیت اختیار کی۔ گلگت بلتستان کے اہم ایشوز پر گہری نظر رکھتے ہیں اور ہمیشہ سرگرم رہتے ہیں، اسی وجہ سے انہیں ایم ڈبلیو ایم کا ترجمان مقرر کیا گیا، پارٹی کی ترجمانی انتہائی بہتر انداز میں کرتے ہیں۔ گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے بارے میں عوام میں ایک بے چینی کی کیفیت پائی جاتی ہے، اس تناظر میں اسلام ٹائمز نے ان سے گلگت بلتستان کے اہم معاملات پر گفتگو کی ہے، جو قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: مسئلہ کشمیر کی وجہ سے گلگت بلتستان کا مکمل آئینی صوبہ بننا ناممکن نظر نہیں آرہا، کیا یہ بہتر نہیں کہ عوام مطالبہ کریں کہ کسی عبوری پیکج کی بجائے آزاد کشمیر یا مقبوضہ کشمیر طرز کا سیٹ اپ دیا جائے، کیونکہ یہ کسی بھی صدارتی آرڈر کے تحت وجود میں آنیوالے پیکج سے قدرے بہتر ہے اور کئی حلقوں کا مطالبہ بھی ہے۔؟
الیاس صدیقی: بالکل یہی مطالبہ ہوچکا ہے، پچھلے دنوں جو جلسہ یہاں گلگت میں ہوا، اس میں اہل تشیع کی طرف سے یہی مطالبہ کیا گیا، جبکہ اس سے پہلے یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ اہل تشیع والے صوبے سے پیچھے نہیں ہٹتے جبکہ اہل سنت والے کشمیر طرز کا سیٹ اپ اور کشمیر کے ساتھ الحاق کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اب اہل تشیع نے بھی آزاد کشمیر طرز کے سیٹ اپ کا مطالبہ کیا ہے۔ اب ایک متفقہ مطالبہ سامنے آیا ہے اور یہ ہونا بھی چاہے، عوام کا متفقہ مطالبہ یہ ہے کہ ہمیں آزاد کشمیر طرز کا سیٹ اپ دیا جائے یا مقبوضہ کشمیر طرز کا۔ اگر اس کو بھی سنجیدہ نہ لیا جاتا ہے تو سب کے علم میں ہونا چاہیے کہ اب جو گلگت بلتستان ہے، وہ 1947ء والا گلگت بلتستان نہیں رہا، لوگ باشعور ہوچکے ہیں، اللہ کے فضل سے گلگت بلتستان کا لیٹریسی ریٹ پورے ملک سے زیادہ ہے، پھر کہیں ایسی آواز نہ اٹھے کہ ہمیں نہ کشمیر طرز کا سیٹ اپ چاہیے اور نہ ہی پانچوں صوبہ، ہمیں اپنی الگ شناخت دی جائے۔ ہم پاکستان کے ساتھ وفادار ہیں، ہم نے غیر مشروط طور پر سب کچھ پاکستان کے حوالے کیا ہے۔ ہم اس دن سے ڈرتے ہیں کہ کہیں یہ آواز نہ اٹھے کہ ہمیں آزادی دی جائے، اس حوالے سے یہاں پاکستان کے مقتدر قوتوں کو چاہیے، حساس معاملے کو حکومت کی صوابدید پر نہ چھوڑا جائے، کیونکہ اس حکومت پر سنگین غداری کے الزامات لگ رہے ہیں اور مقدمات بن رہے ہیں۔ اس وقت پاکستانیت مسلم لیگ نون کے حوالے سے مشکوک ہے، ایسی صورت میں ایک مشکوک پارٹی کی حکومت کے ہاتھوں علاقے کی تقدیر کا فیصلہ چھوڑنا مقتدر قوتوں کی سب سے بڑی کمزوری ہوگی۔

اسلام ٹائمز: سیاسی نمائندوں کیجانب سے سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات پر زور دیا جا رہا ہے، جسکے تحت گلگت بلتستان عبوری آئینی صوبہ بنے گا، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نمائندگی ملے گی، تو کیا یہ عبوری آئینی صوبہ عوام کیلئے قابل قبول ہوگا۔؟
الیاس صدیقی:
اس پر ہمارا موقف یہ ہے کہ جو بھی دیدیں، یہاں تک کہ پانچواں صوبہ ہی دیں، سوال یہ ہے کہ ہم سے پوچھے بغیر کیوں دیتے ہو؟ مجھ سے پوچھا جائے فیصلہ میرا ہو رہا ہے۔ ہم سے پوچھا جائے کہ کیا آپ پانچویں صوبے کیلئے راضی ہیں یا کوئی اور سیٹ اپ چاہیے، کیا سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات پر اتفاق کرتے ہیں؟ ہم سے پوچھے بغیر ہماری ہی تقدیر کا فیصلہ کرنے والے کون ہوتے ہیں، میرا فیصلہ ہو رہا ہے تو مجھ سے پوچھ کر ہونا چاہیے۔ جب تک عوام سے براہ راست مشاورت نہیں کی جاتی اور ان کی خواہشات معلوم نہیں کی جاتیں، تب تک کسی بھی پیکج یا سیٹ اپ کا فائدہ نہیں ہوگا۔

 اسلام ٹائمز: سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات کو نکال باہر کرنے میں کس کا ہاتھ ہوسکتا ہے،؟ بعض حلقے وزیراعلٰی کا نام لے رہے ہیں۔؟
الیا س صدیقی:
نواز شریف کے بیان سے واضح ہوچکا ہے کہ اس میں ان لوگوں کا ہاتھ ہے، جو پاکستان کو مستحکم دیکھنا نہیں چاہتے، جو پاکستان میں انارکی پھیلانا چاہتے ہیں، انہیں کا ہاتھ ہے۔ ظاہر ہے وزیراعلٰی مسلم لیگ نون کے پے رول کا آدمی ہے، جو کچھ وہاں سے کہا جائے گا، اس کو من و عن تسلیم کریگا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایک محلاتی سازش مجھے اس لئے نظر آتی ہے کہ گلگت بلتستان کے اندر نون لیگ کی حکومت کا قیام ایک ناممکن چیز تھی، جسے ممکن بنا دیا گیا، ان سے کام لینا تھا، کیونکہ آنے والے دنوں میں گلگت بلتستان میں مسلم لیگ نون کا کوئی وجود ہی نہیں ہوگا۔ وزیراعلٰی کا ہاتھ ہونا بعید از قیاس نہیں۔

اسلام ٹائمز: زمینوں کا معاملہ کیا ہے؟ گمبہ سکردو میں آغا علی رضوی نے دھرنا دیا ہوا ہے۔ اب تک حکومت نے کہاں کہاں زمینوں پر قبضہ کیا ہے خالصہ سرکار کے نام پر؟
الیاس صدیقی:
کئی جگہوں پر زمنیوں کی اندرون خانہ الاٹمنٹ ہوئی ہے، مقپون داس، چھلمس داس کو اداروں کے نام کر دیا گیا ہے۔ برمس میں خالصہ سرکار کے نام پر زمین کا ایک ٹکڑا ہے اور ایک قبرستان کی زمین ہے، یہ بھی مختلف اداروں کے نام الاٹ ہوچکی ہے۔ سکردو چھومک میدان کا معاملہ سب کے سامنے ہے۔ صرف یہ ہے کہ عوامی مزاحمت کا خوف ہے، اس کی وجہ سے اس پر قبضہ نہیں کیا جاسکا۔ یہ سب کچھ خطے میں انارکی پھیلانے کیلئے کیا جا رہا ہے، جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ ملک میں اس وقت نون لیگ نے انتشار کی کیفیت پیدا کی ہوئی ہے۔ نواز شریف کا غیر زمہ دارانہ بیان انتہائی حساس ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کے اندر ایک انتشار کی سی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ یہاں گلگت بلتستان میں خالصہ سرکار کا معاملہ بھی انتہائی حساس ہے، اس وقت مجھے لگتا ہے کہ مسلم لیگ نون والے پاکستان بھر میں فساد برپا کروانا چاہتے ہیں، گلگت بلتستان میں زمینوں کے حساس معاملے کو چھیڑ کر بے یقینی کی کیفیت پیدا کرنا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، اس سے سوائے انارکی کے اور کچھ ہونا نہیں۔

باقی خالصہ سرکار کے نام پر زمینوں پر قبضہ کسی کے بس میں نہیں ہے اور نہ ہی عوام یہ کرنے دینگے۔ اب اس کیخلاف عوام احتجاج کر رہے ہیں، دھرنے دیئے جا رہے ہیں، ہم مزاحمت کر رہے ہیں۔ پچھلے دنوں چھلمس داس پر قبضہ کرنے کی کوشش پر لوگ آئے تھے اور دھرنا دیا گیا تھا، دو دن بعد حکومت نے ایک معاہدہ کیا کہ جناب اس داس کے بارے میں عدالت میں ایک کیس چل رہا ہے، جب تک اس کا فیصلہ نہیں ہوتا، وہاں سرکار کی طرف سے تعمیرات ہوگی اور نہ ہی عوام کی طرف سے۔ اس پر لوگ گھروں کو چلے گئے۔ اس کے علاوہ بھی سکردو میں زمینوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کل ہی کی بات ہے کہ آغا علی رضوی نے گمبہ سکردو میں دھرنا دیا ہوا ہے۔ یہ جو خالصہ سرکار کے نام پر ہمیں قانونی پیچیدگیوں میں الجھایا جا رہا ہے، یہ اس لئے ہو رہا ہے کہ ان کو خوف ہے کہ عوام کو الجھا کر نہ رکھا گیا تو کہیں ایسی تحریک نہ چلے کہ عدم اعتماد کے بغیر ہی حکومت کو جانا پڑے اور یہ عین ممکن ہے۔

اسلام ٹائمز: سابقہ اور موجودہ حکومت میں کیا فرق ہے؟ کیا کوئی کام بھی ہو رہا ہے یا صرف دعوے ہی ہیں۔؟
 الیاس صدیقی:
پیپلزپارٹی کے مقابلے میں کچھ کام ہو رہا ہے، لیکن یہ ترقیاتی کام ہمارے مسئلے کا حل نہیں ہیں، ایک بندے کو جیل میں بند کرکے مخمل کے بستر پر سلایا جائے اور دن کو تمام اقسام کی مرغن غذائیں کھلائیں تو کیا وہ آزادی محسوس کرے گا؟ بنیادی چیز ہمارے حقوق کا ہے، ترقیاتی کاموں سے ہمیں بہلایا نہیں جا سکتا۔ آپ خود دیکھیں سی پیک جو یہاں سے گزر رہا ہے اور اربوں ڈالر لگائے جا رہے ہیں، سوال یہ ہے کہ سی پیک آخر ہے کیا؟ ہم ہی سی پیک ہیں، کیونکہ یہ ہمارا سینہ چیر کر گزر رہا ہے، ہم ہیں تو سی پیک ہے، ہمارے نام پر اربوں ڈالر لاہور اور پنجاب میں لگائے جا رہے ہیں، لیکن اس میں سے عشر و عشیر بلکہ میں یہ کہوں گا کہ صدقے کے برابر بھی کہیں ہمیں دیا گیا ہے۔؟
خبر کا کوڈ : 725474
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش