3
0
Monday 21 May 2018 13:58
مشکلات اور مصائب آئی ایس او کیلئے سد راہ نہیں بنے بلکہ ان سے نکھار پیدا ہوا

مشکلات کے باوجود میدان عمل میں موجودگی کا سب سے بڑا راز آئی ایس او کا خط ولایت پر برقرار رہنا ہے، انصر مہدی

ضروری ہے کہ ہم ٹیکنالوجی کے میدان میں ملک کیلئے باعث فخر بنیں
مشکلات کے باوجود میدان عمل میں موجودگی کا سب سے بڑا راز آئی ایس او کا خط ولایت پر برقرار رہنا ہے، انصر مہدی
امامیہ طلبہ کے میر کارواں فیصل آباد ڈویژن سے تعلق رکھتے ہیں۔ 1991ء میں جھنگ میں پیدا ہوئے، انصر مہدی نے ابتدائی تعلیم جھنگ سے حاصل کی، یونٹ میں ذمہ داری انجام دی، 2012ء میں امامیہ اسکاوٹنگ میں ڈویژنل سطح پر فرائض انجامم دیئے اور اسکے بعد 2013ء ڈپٹی چیف اسکاوٹ رہے، 2014ء میں مرکزی امامیہ چیف اسکاوٹ رہے، اسوقت سرگودہا یونیورسٹی میں بی ایس سی انجنیئرنگ کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، لاہور میں ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کے مرقد پر منعقد ہونیوالے آئی ایس او پاکستان کے سالانہ مرکزی کنونشن میں انہیں سال 2018ء کیلئے مرکزی صدر منتخب کیا گیا ہے، اس سے قبل 2015ء اور 2016ء میں دو سال تک مرکزی جنرل سیکرٹری کی ذمہ داری پہ خدمات انجام دیتے رہے ہیں، یونیورسٹی سطح پر تقریری مقابلہ میں حصہ لیتے ہیں اور شوتو کان کے کھلاڑی ہیں۔ مارشل آرٹس کے کئی مقابلوں میں حصہ لے چکے ہیں۔ آئی ایس او پاکستان کے یوم تاسیئس کی مناسبت سے انصر مہدی کا اسلام ٹائمز کیساتھ انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: امامیہ طلبہ کے جس قافلے نے 47 سال قبل اپنے سفر کا آغاز کیا، آج وہ منزل کے کتنا قریب پہنچا ہے؟ کیا آئی ایس او کا سفر درست سمت میں جاری ہے۔؟
انصر مہدی:
آئی ایس او کی منزل تو اسلامی معاشرے کا قیام ہے، اسلامی معاشرہ مکمل اپنی روح کیساتھ اسی وقت قائم ہوگا، جب وقت کے امامؑ ظہور فرمائیں گے۔ آئی ایس او کا prime focus ظہور امام زمان علیہ السلام کیلئے زمینہ سازی ہے، تاکہ ظہور میں تعجیل ہو اور اس زمینہ سازی میں افراد سازی سب سے اہم کام ہے۔ ہماری منزل اسلامی معاشرے کا قیام ہے اور اس کے لئے آئی ایس او افراد سازی کر رہی ہے۔ اسی ضمن میں نوجوانوں کو تعلیمات قرآن اور سیرت محؐمد و آلؑ محؐمد سے روشناس کروانا، انکی دینی و اخلاقی تربیت کا سامان بہم پہنچانا، روحانی اقدار کو فروغ دینا، معاشرے میں بامقصد عزاداری کا فروغ اور اسی طرح کے دیگر امور، جو افراد سازی اور تعجیل ظہور امامؑ کیلئے مقدمہ فراہم کرتے ہیں۔ تاکہ ایک الٰہی اور اسلامی معاشرے کا خواب ہورا ہوسکے۔ آئی ایس او اپنی تاسیئس سے لیکر آج تک اسی کیلئے کوشاں ہے، آئی ایس او کی سمت بھی یہی ہے اور منزل بھی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ولایت فقہیہ کے زیر نگرانی آئی ایس او یہ خدمت احسن طریقے سے انجام دے رہی ہے اور دیتی رہے گی۔
 
اسلام ٹائمز: اس طویل عرصے میں امامیہ طلبہ کو کن دشوار گذار راہوں سے گذرنا پڑا ہے، ان نشیب و فراز کو کس طرح بیان کرینگے۔؟
انصر مہدی:
یہ سوال کہ امامیہ طلبہ کے اس کاروان کو کن مرحلوں اور دشوار راہوں سے گزرنا پڑا، جب لاہور میں چھوٹے چھوٹے گروہوں اور انجمنوں کو ضم کرکے ایک مرکزی تنظیم بنائی گئی، 1972ء میں جب آئی ایس او کی بنیاد رکھی گئی تو تھوڑے ہی عرصے میں یعنی 1980ء تک قریب قریب پورے ملک میں پھیل چکی تھی، اس وقت سے اب تک آئی ایس او بہت سارے مراحل سے گزری، مشکلات بھی رہیں، کئی نشیب و فراز بھی دیکھے تنظیم نے، کچھ مشکلات اپنوں کی طرف سے تھیں اور دشمنان اسلام اور دشمنان اہلبیتؑ کی طرف سے تو یہ تنظیم کسی صورت میں قابل قبول نہیں تھی۔ ملت کے جوانوں کو ایک شعور، اجتماعی سوچ اور فکر عطا کر رہی تھی، دشمن کیلئے یہ برادشت نہیں ہوسکا، بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ اس شعور، فکر اور الٰہی معاشرے کے قیام کیلئے ہونے والی جدوجہد کو ختم کیا جائے۔ لیکن یہ آئی ایس او کا طرہ امتیاز ہے کہ ہمیشہ ظالموں کو للکارا ہے اور مظلوموں کیلئے آواز بلند کی ہے۔ اسی لئے ظالم قوتوں کی نظروں میں آئی ایس او ہمیشہ کھٹکتی رہی ہے، اسی لئے شروع دن سے آج تک یہ کوششیں جاری ہیں کہ آئی ایس او کو اصل مقصد و ہدف سے ہٹایا جائے، اسکو کمزور کیا جائے یا اس کو ختم کیا جائے۔ نئی نسل کو جہاں سے نئی سوچ مل رہی ہے، اسکی راہیں مسدود ہو جائیں، وہ ایک روایتی ڈگر کے مسلمان اور عزادار و شیعہ بن کے رہیں، خود اسلام حقیقی اور عالم اسلام کے مسائل کیساتھ گہرا تعلق نہ ہو بلکہ گوشہ نشین ہی رہیں۔ اسکے علاوہ اپنے ہی لوگوں کے ذریعے آئی ایس او کیخلاف محاذ ہیں، تہمتوں کے ذریعے، بے بنیاد بہتان لگا کر تنظیم کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں، لیکن الحمد اللہ آئی ایس او میں کام کرنیوالے افراد ذاتی اغراض کو پس پشت ڈال کر اخلاص کیساتھ خدا کی رضا کیلئے مصروف عمل رہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس میں برکت ڈال دیتے ہیں، بدخواہوں کے عزائم کامیاب نہیں ہوتے، جس شجرہ طیبہ کی بنیاد 1972ء میں رکھی گئی، آج وہ تن آور درخت بن چکا ہے، ملک و ملت کی خدمت میں پیش پیش ہے اور ان شاء اللہ رہیگا۔

اسلام ٹائمز: گذشتہ چار دہائیوں کی محنت کا ثمر کیا ہے؟ جس انقلاب کا نعرہ لگا کر آئی ایس او اٹھی آج وہ انقلاب کہاں ہے۔؟
انصر مہدی:
یہ بات ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ انقلاب کوئی ایسی چیز نہیں جو فوری طور پر یا کم عرصے کے اندر وقوع پذیر ہو جائے۔ بالخصوص پاکستان جیسی سرزمین پر۔ آج اگر ہم معاشرے میں دیکھیں، جو بامقصد عزاداری کا انعقاد ہو رہا ہے، نوجوان نسل میں اسلامی اقدار کی جھلک نظر آتی ہے، میں سمجتھا ہو آئی ایس او نے اپنے نصب العین یعنی تعلیمات قرآن اور سیرت محمدؐ و آلؑ محمدؐ کے مطابق نوجوان نسل کی زندگی استوار کرنے کیلئے انہیں ان تعلیمات سے روشناس کروایا، نوجوان نسل کی دینی اور اخلاقی تربیت کی۔ اگر ماضی میں جھانک کر دیکھیں تو یہ وہ چیزیں ہیں، جو پاکستان معاشرے میں آئی ایس او کی تاسیئس سے قبل یا ابتدائی دنوں میں بھی نہیں نظر آتی ہیں، آہستہ آہستہ یہ ہوا کہ جب کوئی باشرع اور باریش نوجوان نظر آتا تو لوگ سمجھ جاتے کہ یہ آئی ایس او کا نوجوان ہے، آئی ایس او کی وجہ شعائر اسلام کو فروغ ملا، یہ آئی ایس او کے نوجوانوں کی پہچان بن گئیں۔ آئی ایس او نے پاکستان میں اسلامی اصولوں کے مطابق نوجوان نسل کی اس طرح تربیت کی ہے، جس طرح ایک ماں اپنے بچوں کو پروان چڑھاتی ہے۔ یہ ایک صورت ہے انقلاب کی، جس کے مظاہر پاکستانی معاشرے میں جا بجا موجود ہیں۔

اسی طرح ملت کے مختلف اداروں اور مختلف ادوار میں قومی کاز کیلئے کام کرنیوالی جماعتوں اور کوششوں میں آئی ایس او کے پروردہ افراد نے نمایاں طور پر اپنا کردار ادا کیا ہے اور کر رہے ہیں۔ یہی انقلاب کی ایک صورت ہے کہ وہ معاشرہ  کہ جہاں  علماء کی کمی بھی تھی اور علماء کو سنا بھی کم جاتا تھا، آج اسی معاشرے میں علماء کی طرف رغبت کا کلچر پروان چڑھ چکا ہے، یہ ایک تبدیلی ہے۔ اسی طرح، اس سے بڑھ کر حقیقی اسلامی رہبری اور پاکستانی معاشرے میں ولایت فقہیہ کا پرچار بھی آئی ایس او کا اعزاز ہے۔ لیکن جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے کہ حقیقی انقلاب تو اسلامی معاشرے کا قیام ہے، جو اصل انقلاب ہے، جو امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کے بعد وقوع پذیر ہوگا، یہ اس کے مقدمات فراہم ہو رہے ہیں، آئی ایس او روز اول سے اسی راستے پر کاربند ہے، یہی آئی ایس او کا نعرہ ہے، آج ہمارے معاشرے میں بیداری ہے، لوگ مظلوموں کیساتھ کھڑے ہیں، ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید نے جو سوچ دی اور دنیا کے ظالم اور انکے سرپرست کیخلاف جو مردہ باد کا نعرہ لگایا، آج وہی نعرہ یعنی مردہ باد امریکہ، مردہ اسرائیل، مردہ باد ہندوستان، لگانے والی کئی آوازیں اور بھی آئی ایس او کیساتھ شامل ہوچکی ہیں۔

اسلام ٹائمز: مشکلات، مصائب اور رکاوٹیں انسان کیلئے سد راہ بن جاتی ہیں، امامیہ نوجوان کے عزم و ارادے کہاں تک متاثر ہوئے، تنظیم کو اس سفر میں سابقین اور ملت تشیع سے کسطرح کا تعاون درکار ہے۔؟
انصر مہدی:
یہ بات درست ہے کہ آئی ایس او کا سفر آسان نہیں رہا، آئی ایس او نے بہت ساری مشکلات برداشت کی ہیں، ملک و ملت کی خاطر بہت ساری قربانیاں دی ہیں، شہداء بھی دیئے ہیں، اس سرزمین پر اپنی قوم کی تعمیر کیلئے اپنا لہو دیا ہے آئی ایس او کے جوانوں نے، تو یہ سفر آسان نہیں تھا۔ لیکن اس سفر میں مشکلات اور مصائب آئی ایس او کے نوجوانوں کیلئے سد راہ نہیں بنے بلکہ کاموں میں نکھار پیدا ہوا ہے، روز اول سے ہی آئی ایس او کا نعرہ "ہے ہماری درسگاہ، کربلا کربلا ہے۔" آئی ایس او کے نوجوان اپنی اصلاح یعنی خود سازی اور معاشرے کی اصلاح یعنی معاشرہ سازی کیلئے جب نکلتے ہیں تو ان کے ذہن میں موجود ہوتا ہے کہ ہم کربلا کے راستے کے راہی ہیں اور کربلا مشکلات و مصائب کا نام ہے اور ہمیں مشکلات و مصائب برداشت کرنے ہیں۔ الحمد اللہ جس دور میں بھی آئی ایس او کیلئے مشکلات پیدا ہوئیں، اتنا ہی کام میں نکھار پیدا ہوا ہے، اتنا ہی عزم و ارادے میں مضبوطی آئی ہے، تنظیم کا اتنے لمبے عرصے شدید مشکلات کے باوجود اپنا وجود برقرار رکھنا اس چیز کی دلیل ہے کہ یہ مشکلات اور مصائب رکاوٹ نہیں بنے بلکہ آئی ایس او کے نوجوانوں نے انکا مردانہ وار مقابلہ کیا ہے۔ انہوں نے ثقافتی یلغار کا مقابلہ ہے، استکبار کی سازشوں کا مقابلہ ہے، ہر اس تیر کو جو دشمن کی جانب سے ہماری قوم کی جانب چلایا جاتا ہے، آئی ایس او کے نوجوان اپنے سینے پہ کھاتے ہیں، اس قوم کے بچوں کی تربیت کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں۔

اس کام میں، اس جدوجہد میں اپنی قوم اور سابقین کا تعاون رہا بھی ہے، آئندہ بھی اس کی ضرورت برقرار رہیگی، سابقین کی رہنمائی ہمیشہ درکار ہوتی ہے، جن لوگوں نے اس پلیٹ فارم پہ کام کیا اور تجربات سے گذرے ہیں، وہ آئیں اور نوجوانوں کیساتھ مل کر انہیں اس سے مستفید کرتے رہیں، معاونت کریں، اس الہٰی کام میں مدد کریں، ہمارا جو بڑا ہدف ہے، جو منزل ہے اس کو پاسکیں۔ ملت تشیع کیلئے ضروری ہے کہ علماء کیساتھ ارتباط اور ولایت فقہیہ سے تمسک کو مضبوط بنائیں، یہ الہٰی اور اسلامی معاشرے کی طرف قدم بڑھانے کیلئے ضروری ہے۔ دوسرا یہ کہ ہماری قوم اپنے بچوں کو آئی ایس او میں شامل ہونے کی تلقین کرے، تاکہ نئی نسل کی تربیت ہو اور اس معاشرے کی اصلاح کا سبب بن سکیں، تاکہ وقت کے امام علیہ السلام کے ظہور کی زمینہ سازی ہو، تاکہ جب امامؑ ظہور فرمائیں تو انکی نصرت و تائید کیلئے وافر افرادی قوت میسر ہو، ایک اسلامی اور مہدوی معاشرہ تشکیل پاسکے۔

اسلام ٹائمز: موجودہ زمانے میں بدلتے ہوئے حالات کیساتھ معاشرے اور طلبہ کی ضروریات کیا ہیں اور آئی ایس او اس میں کیا کردار ادا کر رہی ہے۔؟
انصر مہدی:
فی زمانہ پاکستان کی نوجوان نسل بالخصوص طلبہ کئی عناوین سے اپنے آپ کو آمادہ کرنے کی ضرورت ہے، ملک و قوم کی بہتری کیلئے سب سے زیادہ اپنی تعلیم پر توجہ دیں اور اپنے شعبے میں سب سے عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کریں، اپنے شعبے میں کمال تک جائیں، علم و تحقیق کے میدان میں آگے بڑھیں، تاکہ ہمارا ملک سائنسی میدان میں، علمی میدان میں خود انحصاری کی منزل کو پا سکے، ٹیکنالوجی کے میدان میں ملک کیلئے باعث فخر بنیں۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ علم و تحقیق اور سائنس کے میدان میں بنیادی اور بڑا کام کرنے والے مسلمان ہی ہیں، انہی کی خدمات کو سامنے رکھتے ہوئے محنت کریں، غیروں کی تقلید کی ضرورت نہیں، لیکن آج ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم تعلیمی میدان میں پیچھے رہ گئے ہیں، مغرب کی اندھی تقلید کی بجائے، ہمیں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنا ہے، اس کے لئے تعلیم کی طرف توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے۔ دور حاضر کا پاکستانی نوجوان نہ صرف اپنے ملک پاکستان کی امید ہے بلکہ عالم اسلام اور دین اسلام کی بھی امید ہے، اس لئے دین کا بول بالا کرنے کی ذمہ داری بھی نوجوانوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ تعلیمی ترقی کیساتھ ساتھ اپنی دینی، اخلاقی اور روحانی تربیت پر بھی توجہ دیں، تعلیمات قرآن اور سیرت اہلبیتؑ سے روشناس ہوں۔ یہی وہ نوجوان ہیں جو اس ملک، ملت اور امت مسلمہ کی امید ہیں۔ آئی ایس او نے ہمیشہ طلبہ کی تعلیم، دینی روحانی اور اخلاقی تربیت کی تمام جہات کو مدنظر رکھا ہے۔ اپنے پرگرام اور سرگرمیوں کو اسی انداز میں انجام دیا ہے، 1972ء سے اب تک ان میں اضافہ ہو رہا ہے اور بہتری آ رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: انقلاب اسلامی اور خط ولایت سے تمسک آئی ایس او کا امتیاز ہے، موجودہ بین الاقوامی صورتحال کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
انصر مہدی:
آئی ایس او پاکستان روز اول سے ہی انقلاب اسلامی اور ولایت فقہیہ سے وابستہ ہے، آئی ایس او کی کامیابی کا راز شہداء کی قربانیاں اور ولایت فقہیہ سے تمسک ہے۔ تمام تر مشکلات کے باوجود میدان عمل میں موجودگی کا سب سے بڑا راز آئی ایس او کا خط ولایت پر برقرار رہنا ہے۔ یہی آئی ایس او کا امیتاز ہے، ولایت کی تائید ہی سے معاشرے میں نوجوان نسل کو پروان چڑھا رہے ہیں۔ موجودہ بین الاقوامی حالات میں جہاں بھی نظر دوڑائیں، خداوند متعال نے مکتب اہلبیتؑ اور اہلبیتؑ کے چاہنے والوں کو سرفراز فرمایا ہے، ہر جگہ اور ہر معاملے میں فتح نصیب فرمائی ہے۔ شام، جہاں وقت کے استعمار نے تمام تر طاقت کیساتھ اپنی سازش کامیاب بنانے کی کوشش کی وہاں مقاومت کی فتح ملی ہے، اسی طرح عراق، لبنان کے حالیہ انتخابات میں حزب اللہ کو کامیابی ملی ہے، بحرین میں اٹھنے والے بیداری کی لہر ہے، یمن کے لوگوں کی اپنے ملک کی حفاظت اور حقوق کیلئے بلند کی جانے والے تحریک ہے، نائجیریا میں جناب ابراہیم زکزکی ہیں، یہ سب کامیابیاں ہیں۔ آج مکتب اہلبیتؑ کے چاہنے والے بہت مضبوط ہیں اور استعمار انکے رعب اور دبدبہ سے خائف ہے۔ یہ تاریخ کا خاص دور ہے، یہ مستقبل میں بڑھے گا، یہی پیش خیمہ ہوگا وقت کے امامؑ کے ظہور کا۔

اسلام ٹائمز:  آئی ایس او کے 47 ویں یوم تاسیئس کی مناسبت سے نوجوانوں اور امامیہ طلبہ کے نام کیا پیغام دینگے۔؟
انصر مہدی:
نوجوان ہی اس ملک کی امید ہیں، نوجوان ہی اس مکتب کی امید ہیں، یہی وہ نوجوان ہیں، جن کے جسموں کے اندر توانائی موجود ہے، اگر ان توانائیوں کو صیحح سمت دی جائے تو یہ اس مکتب اور دین کی ترویج کیلئے کام آسکتی ہیں، معاشرے کو الہٰی معاشرہ بنانے میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔ آج نوجوانوں کیلئے سب سے اہم چیز خود سازی ہے، ماہ رمضان خود سازی کے عنوان سے بے مثال مہینہ ہے، ایک نعمت ہے ہر شخص کیلئے۔ دوسری چیز معاشرے میں موجود دیگر افراد تک پیغام کو پہنچانا بہت اہم ہے۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس شجرہ طیبہ کے پیغام اور ثمرات سے مستفید ہوں، زیادہ لوگوں کی زندگیوں میں تبدیلی آئے، اس طرح منزل قریب آئے گی، سفر جلدی طے ہوگا۔ ہمارے زمانے کی سب سے بڑی ضرورت اپنے امامؑ اور انکے نائب ولی فقہیہ کیساتھ ارتباط ہے، ہمارے امامؑ اور انکے نائب ہم سے کیا چاہتے ہیں، انہیں ہم سے کیا امیدیں ہیں، یہ جاننا ضرروی ہے، مطالعہ کریں، رہبر معظم کی ویب سائٹ کے ذریعے آگاہ رہیں، ہم صرف اسی صورت میں بہترین کردار ادا کرسکتے ہیں، جب ہمیں معلوم ہو کہ ہم نے کیا کردار ادا کرنا ہے۔ امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کی تعجیل کی دعا کیساتھ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم امامؑ کے ظہور کی زمینہ سازی کیلئے اپنی زندگیاں وقف کریں۔

ان لوگوں کی طرح کردار ادا کریں، جنہوں نے اپنی زندگیاں قربان کیں اور اپنے حصے کا کردار ادا کیا، جیسے شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی، شہید ڈاکٹر قیصر سیال، شہید علی ناصر صفوی اور تمام تر شہداء شہید تنصیر حیدر بخاری، شہید راجہ اقبال حسین، سب کو یاد رکھنا ہماری ذمہ داری ہے۔ آج کا دن یہ تقاضا کرتا ہے کہ یوم تاسیئس کے موقع پر شہداء کے لہو کیساتھ تجدید عہد کریں، شہداء کے اس بابرکت خون کیساتھ، جنہوں نے امام حسین علیہ السلام کے راستے پر، کربلا کے راستے پر، ائمہ معصومین علہیم السلام کے راستے پر چل کر دکھایا، اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، ہم اس راستے پر مضبوطی سے کاربند رہیں گے، انکے امور اور کام انکی شہادت کے بعد رکیں گے نہیں، بلکہ اگر ہمارے جسم میں موجود خون کی ضرورت پڑی، قوم کیلئے اور اس معاشرے کی اصلاح کیلئے، معاشرے کو مہدوی معاشرہ بنانے کیلئے، وقت کے امامؑ کی نصرت کیلئے، تو اہم اپنا لہو دینے کیلئے بھی تیار ہیں۔ خداوند متعال تمام شہداء بالخصوص شہید علامہ عارف حسین حسینی کے درجات بلند فرمائے، جو ہماری نسلوں کیلئے سرمایہ حیات ہیں، جو آئی ایس او کیلئے شفیق باپ کی حیثت رکھتے تھے، جنہوں پدرانہ شفقت سے آئی ایس او کے نوجوانوں کی تربیت کا اہتمام کیا، آج تک وہ اثرات موجود ہیں، اللہ تعالیٰ ہمیں ان شہداء کے راستے پر گامزن رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔
خبر کا کوڈ : 726277
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

SNH
Pakistan
انصر ٹھیک نہیں۔ یہ لفظ عین پر پیش کے ساتھ عنصر ہے۔
انصر صیغہ امر یعنی حکم اور فعل ہے۔ فعل کا استعمال نام میں رائج نہیں بلکہ غلط ہے۔
Iran, Islamic Republic of
شاید اسمش انصار المهدی است...؟
شاید اسمش مهدی است...فقط...
شاید چیز دیگه.....
نباید به لفظ گیر داد....
Iran, Islamic Republic of
ماشاءاللہ۔ خدا آئی ایس او کے نوجوانوں کی توفیقات خیر میں دن دگنا اور رات چوگنا اضافہ فرمائے۔
ہماری پیشکش