0
Tuesday 22 May 2018 20:44

کشمیر میں ظلم و خون خرابہ بند کرکے بامعنٰی مذاکرات کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں، مولانا غلام محمد

کشمیر میں ظلم و خون خرابہ بند کرکے بامعنٰی مذاکرات کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں، مولانا غلام محمد
مولانا غلام محمد پرے مقبوضہ جموں و کشمیر کے لاوے پورہ سرینگر سے تعلق رکھتے ہیں، وہ برصغیر کی معروف تنظیم ’’جماعۃ التبلیغ‘‘ سے وابستہ ہیں، وہ پچھلے 28 سالوں سے سرینگر کی ایک جامع مسجد ’’مسجد امام اعظم (رہ)‘‘ میں امام جمعہ کے فرائض انجام دے رہے ہیں، وہ عربی، فارسی اور اردو زبانوں پر خاصی مہارت رکھتے ہیں اور مطالعہ قرآن و حدیث و تفاسیر پر عبور حاصل ہے، مولانا غلام محمد پرے مقبوضہ کشمیر میں پچھلے چالیس سالوں سے دین حق کی تبلیغ و ترویج کا کام کر رہے ہیں، انکے والد بھی ایک جید عالم دین گزرے ہیں، جنکے زیر سایہ انہوں نے پرورش پائی، وہ اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے وادی کشمیر کے اطراف و اکناف میں فعال کردار نبھائے ہوئے ہیں اور ملت کے تمام مسائل کا حل امت کے اتحاد میں دیکھتے ہیں، اسلام تائمز کے نمائندے نے مولانا غلام محمد سے ایک نشست کے دوران خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: کٹھوعہ سانحہ کا صدمہ، اس پر بھارتی عدالت عالیہ کیجانب سے صادر احکامات کو ہندو انتہا پسندوں کیجانب سے ٹھکرائے جانے پر آپکا تجزیہ جاننا چاہیں گے۔؟
مولانا غلام محمد پرے:
دیکھیئے آصفہ آبروریزی و بہیمانہ قتل سانحہ کے ملزموں کے تئیں ہندو انتہا پسند، مسلم مخالف و انسان دشمن طاقتوں نے ایک بار پھر بھارت میں رہ رہنے والے اٹھارہ کروڑ سے زائد مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں پر واضح کیا کہ ہندوستان میں ان کا مال و جان قطعی طور محفوظ نہیں ہے۔ انسانیت کو شرمسار کرنے والا آصفہ قتل کیس اور مندر کے اندر اس دلدوز سانحہ کو انجام دینے والے افراد کے تئیں ہمدردی جتلانا اپنے آپ میں ایک بڑی دہشتگردی ہے۔ اب کٹھوعہ میں پیش آنے والے عصمت ریزی اور قتل معاملے پر جس طرح سے سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سنایا ہے، اس سے ان ہندو انتہا پسند جماعتوں کی حوصلہ شکنی ہوئی ہوگی، جو اس کو مذہب اور صوبے کی سیاست میں تبدیل کرنا چاہتے تھے۔

اسلام ٹائمز: مقبوضہ  کشمیر میں کشت و خون کا نہ تھمنے والا سلسلہ جاری ہے، اس مسئلہ کا دائمی حل کیا ہوسکتا ہے۔؟
مولانا غلام  محمد پرے:
دیکھیئے بیان با زیاں کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے، اس لئے عملی اقدامات اٹھانے کی سخت ضرورت ہے۔ کشمیر میں جاری کشت و خون کی لہر سے لوگ گھٹن محسوس کر رہے ہیں، لہٰذا اب وقت آچکا ہے کہ وسیع تر مفادات کو مدنظر رکھ کر مسئلے کے مستقل حل کے لئے بات چیت کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں، تاکہ برصغیر کے پائیدار امن کے لئے اور انسانیت کی بقاء کے لئے راہ ہموار ہوسکے۔ کشمیر کے اندر جس طرح کے حالات بنے ہوئے ہیں، اس کی ذمہ داری اس ہٹ دھرم پالیسی کا نتیجہ ہے، جو کئی دہائیوں سے برسر اقتدار پارٹیوں نے اختیار کر رکھی ہے۔ اب ظلم کا جادو سر چڑھ کے بول رہا ہے، جس کے توڑ کے لئے ایک مضبوط لائحہ عمل ترتیب دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز: کشمیر بھر میں ماہ مقدس رمضان میں بھی مزاحمتی قائدین کی گرفتاریاں، عام شہریوں پر قدغن اور ساتھ ہی ساتھ ہلاکتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے، اس پر آپکی تشویش جاننا چاہیں گے۔؟
مولانا غلام محمد پرے:
دیکھیئے، ایسے واقعات کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ ایسے میں ہم اقوام عالم پر زور دیتے ہیں کہ وہ کشمیر میں ہو رہی ہلاکتوں کے سلسلے کو ختم کرنے کے لئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے مسئلہ کشمیر کے پرامن اور مستقل حل کے لئے بھارت پر دباؤ ڈالیں۔ ہمارا ماننا ہے کہ برصغیر میں قیام امن تب ہی ممکن ہے، جب بھارت اور پاکستان اپنے آپسی اختلافات کو دور کرکے ایک منظم اور متحرک حکمت عملی اختیار کرکے جموں کشمیر مسئلے کا حل نکالنے کے لئے کوششیں کریں۔ کشمیر میں جس طرح سے انسانی حقوق کی پامالیاں ہر دن ہو رہی ہیں، اس سے نوجوانوں کے اندر بہت غصہ ابھر رہا ہے، جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ قوم کا بڑا اثاثہ ایک پڑھا لکھا نوجوان ہوتا ہے، اگر یہ نوجوان تشدد کی بھینٹ چڑھائے جائیں تو سوالات لازماََ اٹھیں گے اور ان سوالات کا جواب بر سر اقتدار لوگوں کو دینا پڑے گا۔

اسلام ٹائمز: فلسطینیوں پر حالیہ اسرائیلی مظالم اور عالم اسلام کی انتشاری کیفیت کو آپ کن الفاظ میں بیان کرنا چاہیں گے۔؟
مولانا غلام محمد پرے:
فلسطین میں نہتے مسلمانوں پر اسرائیلی جارحیت قابل مذمت ہے۔ آج پوری دنیا میں اسلام دشمن قوتیں متحد ہو کر مسلمانوں کے خلاف غاصبانہ پالیسی اختیار کئے ہوئے ہیں، جس کی تازہ ترین مثال فلسطین میں پچاس سے زائد بے گناہ اور معصوم و نہتے لوگوں کی اسرائیلی افواج نے جانیں لے کر تاریخ میں رقم کر لی۔ ایک طرف یہ طاقتیں نت نئی سازشیں رچا کر مسلمانوں کو آپسی اختلافات میں الجھا کر عالمی سطح پر مسلمانوں کی طاقت کو توڑ کر کمزور کر رہے ہیں، دوسری طرف مختلف بہانے تلاش کرکے مسلمانوں کی اہم تنصیبات اور مقدس مقامات کو توہین کے درپے لگے ہوئے ہیں، وہیں پر مختلف ممالک میں غاصبانہ قبضہ جما کر آئے روز بے گناہ اور معصوم لوگوں کی جانیں لے کر فلسطین جیسے ممالک اور ریاستوں کو مقتل بنا کر رکھا ہے۔ غرض یہ کہ عالم اسلام اس وقت سخت ترین مراحل سے گزر رہا ہے اور امتحانی نوعیت کے اندر ملت کا اتحاد انتہائی مؤثر ہتھیار کی حیثیت رکھتا ہے۔ مسلم دنیا کا اکثریتی حکمرانی طبقہ صہیونی اور سامراجی قوتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے بجائے ان کی آلہ کاری میں اپنی عافیت سمجھ بیٹھے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانانِ عالم شدید درد و کرب میں مبتلا ہیں۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے خالق حقیقی کی طرف اس ماہِ مقدس میں رجوع کرکے امن کی بحالی اور عالم اسلام کی بقاء کے لئے دعائیں مانگیں۔

اسلام ٹائمز: دنیا کیلئے اسلامی نظام حیات کی اہمیت و ضرورت پر آپکی نگاہ جاننا چاہیں گے۔؟
مولانا غلام محمد پرے:
 اسلامی نطام کی بہت زیادہ اہمیت و افادیت اور ضرورت ہے، جہاں تک اسلام کا تعلق ہے تو یہ مکمل نظام حیات ہے، بدقسمتی سے مسلمان بکھرتے جا رہے ہیں اور کم و حقیر مفادات کی خاطر یہ سب کچھ ہو رہا ہے، فروعات کو سامنے رکھ کر ہم آپس میں دست بہ گریباں ہو رہے ہیں، اسلام کے بنیادی اصولوں اور تعلیمات و احکامات سے ہم صرف نظر کرتے گئے، جس کی وجہ سے دیگر ازموں نے ہمیں دھوکہ دیا۔ آج بھی اسلام ماہ تاباں اور روز روشن کی طرح ہمارے سامنے ہے، لیکن ہم اس سے فیض یاب نہیں ہونا چاہتے، اسلامی نظام کا متبادل کوئی نظام نہیں ہوسکتا، جمہوری نظام میں ہزاروں عیب و نقائص موجود ہیں۔ اسلامی نظام ہماری تمام ضروریات کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔

اسلام ٹائمز: ایسے تشویشناک دور میں اتحاد اسلامی کی ضرورت و اہمیت جاننا چاہیں گے۔؟
مولانا غلام محمد پرے:
 دیکھیئے مضبوط و مستحکم فکر رکھنے والے افراد کو اتحاد اسلامی کے حوالے سے آگے آنا چاہیے، اس راستے میں مشکلات ہیں، تکالیف ہیں، دشمن ہماری طاق میں بیٹھے ہوئے ہیں، اس راہ میں جان و مال کو خطرہ لاحق ہے، لیکن کام عظیم ہے۔ اس پُرفتن دور میں اتحاد اسلامی کے لئے کوشش کی اشد ضرورت ہے اور یہ کوشش ضرور ثمرآور ثابت ہوگی۔
خبر کا کوڈ : 726660
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش