0
Wednesday 23 May 2018 22:20
پی ٹی آئی نے مصلحت کو حق پر ترجیح نہیں دی

اگر میں نظریاتی نہ ہوتا تو ابھی تک پیپلز پارٹی میں رہتا، پی ٹی آئی کبھی جوائن نہ کرتا، ندیم افضل چن

صرف اور صرف عمران خان ہی پاکستان کی تقدیر بدل سکتے ہیں
اگر میں نظریاتی نہ ہوتا تو ابھی تک پیپلز پارٹی میں رہتا، پی ٹی آئی کبھی جوائن نہ کرتا، ندیم افضل چن
منڈی بہاوالدین سے تعلق رکھنے والے ندیم افضل چن پنجاب یونیورسٹی سے قانون میں گریجویٹ ہیں، سیاسی پس منظر رکھنے والے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں. حال ہی میں انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کو چھوڑ کر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی. 2008ء سے 2013ء تک پبلک اکاونٹس کمیٹی کے چیئرمین رہے، 2013ء کے قومی انتخابات میں سرگودھا سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 64 سے الیکشن میں حصہ لیا، اگرچہ کامیاب نہیں ہوئے، لیکن اس سے قبل اسی حلقہ سے رکن قومی اسمبلی کی حیثیت سے پارلیمنٹ میں ہمیشہ نمایاں رہے۔ اسلام ٹائمز نے ان سے خصوصی گفتگو کی، جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: آپ پیپلز پارٹی پنجاب کے جنرل سیکرٹری رہ چکے ہیں اور آپکا شمار جیالوں میں ہوتا تھا، کوئی یہ تصور نہیں کرسکتا تھا کہ آپ پارٹی کو چھوڑ دینگے، آخر کیا وجہ ہوئی کہ آپ نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرلی۔؟
ندیم افضل چن:
بسم اللہ! دیکھیں یہ بات سب پر واضح ہے کہ پیپلز پارٹی کا جو نظریہ تھا، اب وہ نظریہ ختم ہوچکا ہے، جو وہ دعوے کرتے تھے، وہ صرف دعوے ہی رہے۔ پیپلز پارٹی بےنظیر بھٹو دور میں تھی، جو پاکستان کیلئے اور غریبوں کیلئے سوچ رکھتی تھیں اور ان کی پالیسیاں پاکستان دوست تھیں، لیکن اب جب ہم نے دیکھا کہ پیپلز پارٹی اپنے ویژن سے، اپنے منشور سے پچھے ہٹ رہی ہے تو ہمیں ان سے کنارہ کشی اختیار کرنا پڑی۔ ہم یہاں عوام کی خدمت کیلئے آتے ہیں، ہمارا مقصد عوامی کی بھلائی کیلئے کام کرنا ہے، نہ کہ ہم پارٹی کے عہدے سنبھال کر بیٹھ جائیں۔ میں نے جب محسوس کیا کہ اب یہاں اس پارٹی میں رہ کر پاکستان اور اپنے حلقے کے عوام کی خدمت نہیں کرسکتا تو پھر مجھے فیصلہ لینا پڑا۔ میرا اپنا ووٹ بنک ہے، میرا پورا گھرانہ سیاسی ہے، ہماری سیاست میں اپنی پہچان ہے، جب ہم نے دیکھا کہ اب پیپلز پارٹی کے ساتھ گزارہ ممکن نہیں تو پھر فیصلہ لیا کہ پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی جائے۔ البتہ مجھے اس پہ خوشی ہے کہ میں ایک ایسی پارٹی کا حصہ بنا، جس کے قائد عمران خان ہیں اور وہ پاکستان اور عوام کے ساتھ مخلص ہیں، امانتدار ہیں، کرپٹ نہیں ہیں، صرف عمران خان اور ان کی پارٹی ہی ہے جو پاکستان کا مستقبل بہتر بنا سکتی ہے، پاکستان کی کھوئی عزت واپس دلا سکتی ہے۔

اسلام ٹائمز: تو کیا آپکی نظر میں تحریک انصاف ہی واحد جماعت تھی، جو پاکستان کی تقدیر بدل سکتی ہے۔؟
ندیم افضل چن:
دیکھیں الحمدللہ مجھے یقین ہے کہ صرف اور صرف عمران خان ہی ہیں، جو پاکستان کی تقدیر بدل سکتے ہیں، آپ نے دیکھ لیا ہوگا کہ کس طرح سے عمران خان نے سینیٹ الیکشن میں بکنے والے ارکان کے خلاف تاریخی فیصلہ دیا، انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ اس سے ہماری صوبائی حکومت کو خطرہ ہوگا، انہوں نے مصلحت کو حق پر ترجیح نہیں دی۔ اگر آپ باقی پارٹیوں کی نسبت تحریک انصاف کا موازنہ کریں تو فرق واضح نظر آئے گا۔ ایک وہ پارٹی ہے جو کرپٹ ہے اور اس کا سربراہ نااہل ہے، دوسری پارٹی ہے، جو اپنی جائیدادیں بچا رہی ہے اور سیاست میں ڈوبتی کشتی کو بچانے میں مصروف ہے، پی ٹی آئی کے علاوہ کوئی ایسی پارٹی نظر نہیں آتی، جس میں پاکستان کو بچانے کی تڑپ ہو۔ سب کو اپنے اپنے مفادات عزیز ہیں، عوام کی کسی کو فکر نہیں۔ تو لے دے کر صرف تحریک انصاف ہی بچتی ہے، جو پاکستان کی تقدیر بدل سکتی ہے۔

اسلام ٹائمز: بلاول بھٹو نے آپ سے متعلق کہا تھا کہ ندیم افضل چن صرف نظر آتے تھے، نظریاتی نہیں تھے، اس بارے آپ کیا کہیں گے، کیونکہ اگر انکے خیال میں آپ نظریاتی نہیں تھے تو پارٹی میں کیا کر رہے تھے۔؟
ندیم افضل چن:
دیکھیں میں جو کچھ ہوں، میری حیثیت کیا ہے، مجھے یہ کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں، میں نے اگر پیپلز پارٹی چھوڑی تو ظاہر ہے بلاول بھٹو کو دکھ ہوا ہوگا اور ان سے برداشت نہیں ہوا ہوگا، جو انکے منہ میں آیا، انہوں نے کہہ دیا۔ حقیقت میں دیکھیں تو بلاول زرداری صاحب کا اپنا کوئی نظریہ نہیں ہے، وہ وہی کچھ کہتے ہیں، جو ان سے کہنے کو کہا جاتا ہے۔ انہوں نے میرے بارے میں جو کچھ بھی کہا، وہ ان کی نظر ہوسکتی ہے، الحمدللہ پاکستان کی عوام، میرے حلقے کے لوگ مجھے اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں نظریاتی ہوں یا نہیں، اگر میں نظریاتی نہ ہوتا تو ابھی تک پیپلز پارٹی میں رہتا، پی ٹی آئی کبھی جوائن نہ کرتا۔

اسلام ٹائمز: اسوقت دیکھا جائے تو نواز شریف کی سیاسی پوزیشن بہت خراب ہے، لیکن اسکے باوجود بھی وہ بڑے بڑے عوامی جلسے کر رہے ہیں، کیا آپ سمجھتے ہیں نواز شریف کی پارٹی کو ہمدردی کا ووٹ ملے گا۔؟
ندیم افضل چن:
اس میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف اور ان کی پارٹی کی سیاسی پوزیشن بہت خراب ہے، عنقریب آپ دیکھیں کہ ان کا اسی الیکشن میں صفایا ہو جائے گا۔ جہاں تک بڑے بڑے جلسوں کی بات ہے تو عوام جلسوں میں آتی رہتی ہے، جلسے اس بات کی یقین دہانی نہیں کراتے کہ فلاں پارٹی جیتے گی۔ اسوقت نواز شریف کی پوری پوری کوشش ہے کہ خود کو مظلوم اور پاکستان کی عدلیہ اور اداروں کو ظالم قرار دیں، وہ بیچاری سیدھی سادی عوام کو لولی پاپ دینے کے چکر میں ہیں، لیکن عوام میں اب شعور آچکا ہے، عوام اب وڈیرہ ازم اور سرداری جیسے نظام پر لعنت بھیجتی ہے۔ حال ہی میں آپ نے دیکھا ہوگا کہ چینیوٹ جلسے کی ایک تصویر فیس بک پر وائرل ہوئی، اس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ نواز لیگ کا کیا حال ہوگیا ہے، شہباز شریف سٹیج پر اکیلے بیٹھے ہوئے ہیں اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ آگے ان کی حالت بد سے بد تر ہوتی جائے گی۔ اب ان کا سیاسی منجن نہیں بکنا، عوام ان کے جھوٹے وعدوں اور فریب میں نہیں آئے گی۔ ان کو اس الیکشن میں منہ کی کھانی پڑے گی۔

اسلام ٹائمز: نواز شریف نے ممبئی حملے سے متعلق جو کچھ کہا، آپکے خیال میں اس بیان کے پیچھے انکے کون سے مقاصد تھے۔؟
ندیم افضل چن:
نواز شریف پتہ نہیں کیسے پاکستان کا وزیراعظم منتخب ہوتا رہا، یہ تو کاروباری آدمی ہے، اس نے پاکستان میں صرف اور صرف اپنا کاروبار چکمایا اور منی لانڈرنگ کے ذریعے دولت باہر بھیجی۔ میں حیران ہوں اس بات پر کہ نواز شریف پاکستان کے خلاف پاکستان کے اداروں کے خلاف بات کر رہا ہے، یہ سب جانتے ہوئے بھی کہ انڈیا کے پاس اس واقعہ سے متعلق کوئی ثبوت نہیں، وہ صرف اور صرف انڈیا کو خوش کرنا چاہتا ہے، انڈیا میں ان کے کاروبار ہیں، انکا پیسہ وہاں پڑا ہے۔ نواز شریف بیرونی اسٹیبلشمنٹ کو خوش کرنا چاہ رہا ہے اور ان سے یہ امید لگائے بیٹھا ہے کہ بیرونی اسٹیبلشمنٹ اس کی کوئی مدد کرے گی۔ آپ نواز شریف کی ہٹ دھرمی کا اس سے اندازہ لگائیں کہ جب پاکستان نے انڈیا کے جاسوس کلبھوشن کو پکڑا اور اس نے اپنے تمام جرائم کا اقرار کیا تو اسوقت نواز شریف کے منہ سے ایک بات انڈیا کے خلاف نہیں نکلی۔ کیوں نہیں نکلی، یہ آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی، لیکن ممبئی حملوں پر وہ بول پڑے، بنا کسی ثبوت کے، اس سے صاف واضح ہو رہا ہے کہ نواز شریف کو پاکستان سے کتنی محبت ہے، پاکستان کے اداروں سے کتنی محبت ہے، نواز شریف اپنی نااہلی کا بدلہ پاکستان سے اس انداز میں لینا چاہتا ہے، وہ چاہتا ہے کہ پاکستان کے اداروں کو غلط ثابت کرے اور پوری دنیا میں اس بات کا ڈھنڈورا پیٹ سکے کہ دیکھو انہوں نے انڈیا کے ساتھ زیادتی کی اور میرے ساتھ بھی زیادتی کی، مجھے وزیراعظم کی کرسی سے اتار دیا۔

اسلام ٹائمز: حالیہ سینیٹ الیکشن میں جو کچھ ہوا، کیا آئندہ عام انتخابات میں بھی اسطرح کا ماحول دیکھنے کو ملے گا۔؟
ندیم افضل چن:
دیکھیں اسوقت جو پارٹیاں یا وہ ممبران اسمبلی جو پچھلے الیکشن میں جیت گئے، مگر کام نہیں کیا، تو مجھے پورا پورا یقین ہے، وہ جیتنے کیلئے عوام میں پیسوں کی بولیاں لگائیں گے، وہ عوام کو نوکریوں کا لالچ دیکر ورغلانے کی کوشش بھی کریں گے اور ہمیشہ کی طرح الیکشن کمیشن اور دیگر ادارے آنکھوں پر پٹی باندھے رہ جائیں گے۔ بدقسمتی ہے ہمارے ملک کی، ہمارے لوگوں کا ایسے سیاستدانوں سے پالا پڑا ہے، جو صرف اور صرف پیسے کے ذریعے عوام کو یرغمال بنانا جانتے ہیں، لیکن جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ اب عوام میں شعور آگیا ہے، امید کرتے ہیں کہ اب عوام کسی کے دھوکے نہیں آئے گی اور انتخابات میں ایسے افراد کی سازشوں کو ناکام بنائیں گے۔

اسلام ٹائمز: پی ٹی آئی میں دوسری پارٹیوں سے جو لوگ شامل ہوئے ہیں، ان کیوجہ سے پارٹی کو ٹکٹوں کی تقسیم میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، آپکے خیال میں پارٹی کیا فیصلہ کریگی؟ نئے آنیوالوں کو ٹکٹس جاری ہونگے یا پرانے امیدواروں کو راضی کیا جائیگا۔؟
ندیم افضل چن:
لوگ تیزی سے پی ٹی آئی کی طرف آرہے ہیں، عمران خان کو اپنا قائد تسلیم کر رہے ہیں، لیکن اس کے پیچھے کچھ کا مقصد اپنی عوام کی خدمت کرنا ہے اور کچھ کا صرف کرسی حاصل کرنا ہے، کیونکہ ابھی سب کو معلوم ہے کہ عمران خان کا جو امیج ہے، اس کے مطابق وہ جس کسی کو بھی پارٹی ٹکٹ دیں تو لوگ اس کو سپورٹ کریں گے۔ پارٹی قیادت اس حوالے سے واقعی مشکل میں ہے اور ان کیلئے میرٹ پر فیصلہ لینا یقیناً سخت ہے۔ پارٹی قیادت نے مشاورت کی ہے، مختلف اجلاس بھی منعقد ہوئے، لیکن اس حوالے سے ابھی تک کوئی واضح فیصلہ نہیں کیا گیا کہ کس کس کو ٹکٹس کی تقسیم کرنی ہے، کس کو نہیں، لیکن یہ بات سب پر واضح ہے پارٹی کے ٹکٹ صرف اور صرف میرٹ پر امیدواروں کو جاری ہوں گے، اس میں کوئی ذاتی پسندیدگی یا طرفداری شامل نہیں ہوگی، جو بھی فیصلہ ہوگا، وہ پارٹی کا منتخب بورڈ کرے گا۔
خبر کا کوڈ : 726897
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش