0
Saturday 26 May 2018 16:56
پاکستان میں ہر نئی جماعت پر اسٹیبلشمنٹ کی چھاپ لگا دی جاتی ہے

بلوچستان عوامی پارٹی میں فرد واحد کے فیصلے مسلط نہیں ہونگے، جام کمال خان

سیاسی جماعت کسی کی جاگیر نہیں ہونی چاہیئے
بلوچستان عوامی پارٹی میں فرد واحد کے فیصلے مسلط نہیں ہونگے، جام کمال خان
جام کمال خان بلوچستان عوامی پارٹی کے صدر اور سابق وفاقی وزیر پیٹرولیم و قدرتی وسائل ہیں۔ وہ سابق وزیراعلٰی بلوچستان جام محمد یوسف کے بڑے صاحبزادے ہیں۔ وہ یکم جنوری 1973ء کو بلوچستان کے علاقے لسبیلہ میں پیدا ہوئے۔ اس سے قبل وہ دو مرتبہ ضلع لسبیلہ کے ناظم بھی رہ چکے ہیں۔ گذشتہ 2013ء کے عام انتخابات میں این اے 270 سے قومی اسمبلی کی نشست جیتنے میں کامیاب ہوئے اور وفاقی وزیر برائے پیٹرولیم و قدرتی وسائل منتخب ہوئے۔ اپریل 2018ء کو مسلم لیگ (ن) اور اپنی وزارت سے مستعفی ہوکر بلوچستان عوامی پارٹی میں شامل ہو گئے اور مذکورہ جماعت کے صدر منتخب ہوئے۔ جام کمال خان سے بلوچستان عوامی پارٹی کی تشکیل نو اور آئندہ لائحہ عمل سے متعلق ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ایک مختصر انٹرویو کیا، جو قارئین کیلئے پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: بلوچستان عوامی پارٹی سے متعلق یہ قیاس آرائیاں عام ہیں کہ یہ اسٹیبلشمنٹ‌ کی بنائی گئی نئی جماعت ہے۔؟
جام کمال خان:
پاکستان میں بننے والی ہر نئی جماعت پر اسٹیبلشمنٹ کی چھاپ لگا دی جاتی ہے، پاک فوج ہمارے ملک کا اہم ادارہ ہے۔ دنیا بھر کے ممالک اپنے افواج کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، لیکن ہمارے فوج کے ساتھ تعلقات کو غلط رنگ دے کر پیش کیا جاتا ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی پورے ملک کیلئے ایک تبدیلی کا سبب بنے گی۔ بلوچستان کے حالات ملک کے باقی صوبوں سے مختلف ہیں، بلوچستان میں انسرجنسی رہی ہے اور یہاں امن و امان کو بہتر بنانے کیلئے پاک فوج کے افسران کے ساتھ مشاورت کیلئے ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں، جو کہ ایک اچھا عمل ہے۔ فوج ملک کا ایک اہم ادارہ ہے اور ہمارا ان کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے۔ ہماری ملاقاتیں زیادہ حالات کی وجہ ہوتی ہیں، اس لئے الزامات لگائے جاتے ہیں کہ جی یہ اسٹیبلشمنٹ کے لوگ ہیں، جو کہ ایک المیہ ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ کی جماعت میں بلوچستان کی اور کون کونسی اہم سیاسی شخصیات کے شامل ہونے کا امکان ہے۔؟
جام کمال خان:
نواب ذوالفقار مگسی کا پورا خاندان ہمارے ساتھ ہے۔ میر ظفراللہ جمالی سے فی الحال پارٹی کے حوالے سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ بلوچستان اسمبلی، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے بیشتر ارکان ہماری جماعت میں پہلے سے ہی شامل ہیں اور آئندہ عام انتخابات کے قریب آتے مزید سیاسی شخصیات شامل ہوں گی۔ پشتونخوامیپ سے بھی بہت سے لوگ ہماری جماعت میں جلد شامل ہوں گے۔ ہماری جماعت کسی سے ڈائریکشن نہیں لے گی۔ بلوچستان عوامی پارٹی میں شامل تمام ارکان کا سیاسی بیک گراؤنڈ ہے اور ان کا اپنا ذاتی ووٹ بینک ہے۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان عوامی پارٹی کا سیاسی منشور کیا ہے۔؟
جام کمال خان:
ہمارے منشور میں عوامی فلاح و بہبود اور ترقی شامل ہے، جو عوام کے مفادات کی بھرپور ترجمانی کرتا ہے۔ تعلیم و صحت سمیت بنیادی سہولیات عوام کو فراہم کرنا شامل ہیں۔ خوشحال نوجوانوں کا پروگرام بھی پارٹی منشور کا حصہ ہے۔ ہمارا پہلا مقصد نوجوان کو بہترین اور اعلٰی تعلیم دینا ہے، جن کا شعور اہم منصوبوں سمیت ملکی معیشت اور سیاست پر رہے۔ اس کے علاوہ بلوچستان کی سیاست میں خواتین کی شراکت داری بڑی حد تک ہے، ہم خواتین کو مزید مواقع فراہم کریں گے۔ خواتین کا معاشرے میں اہم کردار ہے، جو گھر سے لیکر معاشرے میں ہر جگہ تبدیلی لا سکتی ہے۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان عوامی پارٹی اور دیگر جماعتوں میں واضح فرق کیا ہو گا۔؟
جام کمال خان:
سیاسی جماعت کسی کی جاگیر نہیں ہونی چاہیئے، جس کا تجربہ ہمیں زیادہ ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا کہ ہماری جماعت کے فیصلوں میں تمام ارکان کی مشاورت شامل ہوتی ہے۔ بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کو آپ دیکھیں، خاص کر نیشنل پارٹی کو دیکھ لیں، جہاں فیصلے پہلے کئے جاتے ہیں اور بعد میں دوسرے اس پر اپنی رائے دیتے ہیں، مگر ہماری جماعت اس کے برعکس ہے۔ ہماری جماعت دیگر روایتی سیاسی یا مذہبی جماعتوں‌ کی طرح فرد واحد کے فیصلہ پر نہیں چلے گی، بلکہ ہم اپنی جماعت میں‌ شامل ہر فرد کی رائے کا احترام کریں‌ گے اور اپنے تمام فیصلے باہمی صلاح و مشورے سے کرینگے۔ آج پاکستان میں نظریہ کی سیاست ختم ہو چکی ہے۔ عوام نعروں اور نظریہ کی بجائے اپنے مسائل کا حل چاہتی ہے۔ پچھلی کئی دہائیوں سے بلوچستان کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔ ہم وفاقی جماعت سے تعلق کے باوجود نمبر گیم کا حصہ نہیں رہے۔

مسلم لیگ (ن) سمیت کسی بھی بڑی جماعت میں بلوچستان کے منتخب نمائندوں کو اہمیت نہیں دی گئی۔ ہماری پارٹی کے اہم منشور میں بلوچستان کے عوام کے مسائل کو حل کرنا شامل ہے، گورننس کو بہتر کرینگے۔ اکثر یہ باتیں کی جاتی ہیں کہ بلوچستان کے نمائندوں کے پاس کوئی پلان نہیں، جس پر کام کیا جاسکے۔ بلوچستان میں 70 فیصد فنڈز ضائع ہو جاتے ہیں۔ ہم بہترین حکمت عملی مرتب کرتے ہوئے ایسے معاملات کو اِن ہاوس بہتر کریں‌ گے۔ بلوچستان کے مسئلے کو صحیح معنوں میں ایڈریس کریں گے۔ پارٹی بنانے کا مقصد بھی یہی تھا کہ ہم بہتر انداز میں بلوچستان کے مسائل کو حل کرسکتے ہیں، اس لئے دوستوں نے محسوس کیا کہ نئی جماعت کی بنیاد رکھی جائے۔ اس طرح ہم نے اپنی جماعت بنائی۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان عوامی پارٹی کو چلانے کے لئے مالی امداد کون فراہم کرے گا۔؟
جام کمال خان:
ہماری جماعت میں ایسی شخصیات شامل ہیں، جو مالی حوالے سے بہترین پوزیشن رکھتے ہیں۔ ہم پہلے خود پارٹی میں سرمایہ کاری کریں‌ گے، پھر دوسرے مرحلے میں ورکرز اور قائدین ملکر اس عمل کو آگے بڑھائیں گے۔ پہلے پارٹی عہدیداران جو سینیٹرز، ایم پی ایز، ایم این ایز ہیں، وہ مالی حوالے سے کردار ادا کریں‌ گے۔ پھر نچلی سطح سے اوپر تک فنڈنگ کا ایک ڈھانچہ ترتیب دیں گے، کیونکہ پارٹی بالکل کسی فنڈنگ کے بغیر نہیں چل سکتی۔

اسلام ٹائمز: آپ کی جماعت کے رہنماء اور وزیراعلٰی بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو صاحب کیوں ہمیشہ وفاق سے فنڈز کی کمی کا شکوہ کرتے رہتے ہیں۔؟
جام کمال خان:
وفاق کا بجٹ پانچ ہزار ارب روپے پی ایس ڈی پی بنتا ہے، جبکہ بلوچستان کو صرف 320 ارب روپے ملتے ہیں۔ 320 ارب روپے بھی پرانے اسکیمات کیلئے ہیں۔ آج جب کچھی کینال اور پٹ فیڈر کینال جیسے منصوبوں کا ذکر کیا جا رہا ہیں، یہ منصوبے دس سال پرانے ہے اور یہی رقم ان پر خرچ ہونے جا رہی ہے۔ جب ہم بلوچستان کی پسماندگی کی بات کرتے ہیں تو بلوچستان کو ایک ہزار ارب روپے دینے چاہیئے، جو بلوچستان کا حق بھی بنتا ہے۔ اگر یہ رقم بلوچستان کو ملتی تو آج بلوچستان کا نقشہ کچھ اور ہی ہوتا۔

اسلام ٹائمز: آپ نے مسلم لیگ (ن) سے کیوں علیحدگی اختیار کی۔؟
جام کمال خان:
اب پاکستان سے فرد واحد کی سیاست کا خاتمہ ہوتا جا رہا ہے۔ جس طرح یورپ اور امریکہ میں پارٹی کے نمائندوں کی اہمیت زیادہ ہے، اسی طرح یہاں بھی ہونا چاہیئے۔ میں مسلم لیگ (ن) میں تو شامل تھا اور مجھے وزارت بھی دی گئی، لیکن مجھے اختیارات نہیں تھے۔ بلوچستان کے مسائل کے حوالے سے میری رائے کو اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔ ہمارے یہاں سیاسی جماعتوں کے نمائندگان کو کوئی پوچھتا تک نہیں، لیکن پاکستان میں اب تبدیلی آ رہی ہے اور اس کا آغاز ہم نے کر دیا ہے، جو ملک بھر میں پھیلے گی۔

اسلام ٹائمز: سردار صالح بھوتانی کے ساتھ آپ کے تعلقات کس نوعیت کے ہیں۔؟
جام کمال خان:
سردار صالح بھوتانی اور ہم ایک ہی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ صلاح و مشورہ کرکے چلیں گے اور ایک ہی جماعت سے انتخاب لڑیں گے۔

اسلام ٹائمز: کیا اس بات کا امکان ہے کہ آنے والے انتخابات میں آپ کی جماعت صوبے کے کسی اور سیاسی جماعت میں ضم ہو جائے۔؟
جام کمال خان:
بلوچستان عوامی پارٹی کسی جماعت میں ضم نہیں ہو گی۔ ہماری تو خواہش ہے کہ بلوچستان کی دیگر سیاسی جماعتیں ہماری جماعت میں ضم ہو جائیں۔
خبر کا کوڈ : 727430
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش