0
Sunday 27 May 2018 23:30

شریف خاندان کے سیاسی اختتام کی جو کسر پانامہ سے رہ گئی تھی وہ مریم نواز کے فل اسٹاپ اور کامے نے نکال دی ہے، ظفر حیات قریشی

شریف خاندان کے سیاسی اختتام کی جو کسر پانامہ سے رہ گئی تھی وہ مریم نواز کے فل اسٹاپ اور کامے نے نکال دی ہے، ظفر حیات قریشی
پاکستان تحریک انصاف پنجاب کے رہنماء اور امیدوار ممبر قومی اسمبلی حلقہ این اے 92، ریٹائرڈ آئی جی پولیس، ایڈیشنل ڈی جی ایف آئی اے پاکستان، ایم ڈی پولیس فاؤنڈیشن آف پاکستان میاں ظفر احمد قریشی نے ریٹائرمنٹ کے بعد عمران خان کو اپنا کپتان بنایا۔ انکے ساتھ موجودہ سیاسی صورتحال، فاٹا کے انضمام اور آئندہ قومی انتخابات کے متعلق انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز: موجودہ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ نواز شریف اور انکی فیملی کیخلاف احتسابی عمل بدنیتی پر مبنی ہے اور یہ پری پول ریگنگ ہے، آئندہ الیکشن کی شفافیت کس طرح ممکن ہے۔؟
ظفر حیات قریشی:
سیاست دانوں بالخصوص مسلم لیگ نون کے رہنماؤں اور حکمرانوں کے قول و فعل کے تضاد کا ترازو اب ٹوٹنے والا ہے، جس طرح انصاف کا بول بالا آج کل عدالتیں کر رہی ہیں اور عوامی بنیادی سہولتوں کا تذکرہ جس طرح عوام خود کر رہی ہے، وہ واقعی قابلِ تعریف ہے۔ کچھ سیاسی مہرے احتسابی عمل کی سیڑھیاں اتر رہے ہیں اور دکھی ہیں، جو چڑھ رہے ہیں، وہ خوفزدہ ہیں۔ اس لتھڑے ہوئے کرپشن میں ملوث لوگ عوام سے کہتے ہیں کہ ہم سے سیاسی انتقام لیا جا رہا ہے مگر جب سے عدالتوں نے کمرکس کر انصاف کا بول بالا کیا ہے، دارالحکومت کے اندر اور باہر سے خوف طاری ہے۔ سیاست دان بے مقصد تصادم کے شادیانے بجا رہے ہیں اور اقتدار کی دوڑ ہے کہ ہاتھ سے نہ نکل جائے، روز جلسے ہوتے ہیں، تمام پارٹیوں کے لیڈر کبھی بھی اپنی تقاریر میں یہ نہیں کہتے کہ ماضی میں اقتدار ہونے کے باوجود قوم کو لالی پاپ دیا گیا، بلکہ یہ کہہ کر جان چھڑا رہے ہیں، کہ ہمیں تو یہ انعامات ورثے میں ملے ہیں۔ جہاں تک بات ہے نواز شریف کی، جو کسر پانامہ سے رہ گئی تھی، وہ مریم نواز کے فل اسٹاپ اور کامے نے نکال دی ہے۔ ہم مضبوط اداروں والی سوسائٹی چاہتے ہیں، پاکستان میں سیاست نہیں، مافیا کے خلاف جہاد ہے، ہم ایسا معاشرہ چاہتے ہیں، جہاں ادارے مضبوط ہوں، یہ مافیا کے گاڈ فادر کے خلاف جہاد ہے، کرپشن کے کینسر نے معاشرے کو کھوکھلا کر دیا ہے، عوام اس کرپٹ مافیا کیخلاف اپنا فیصلہ دے چکے ہیں، فقط اس دفعہ نواز شریف کو مرضی کا ایمپائیر دستیاب نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: عمران اپنا 100 روزہ پروگرام پیش کر رہے ہیں اور دوسری طرف یو این او کی رپورٹس بتا رہی ہیں کہ کے پی جنوبی پنجاب سے بھی پیچھے ہے، کیا ووٹر پی ٹی آئی کے منصوبوں کو خاطر میں لائینگے۔؟
ظفر حیات قریشی:
ترقی سے متعلق یو این ڈی پی کی رپورٹ 2005ء سے 2013ء تک کی تھی۔ بہت سی رپورٹیں آئیں، جن میں ہم ٹاپ پر تھے، اگر ہماری غلطیاں اچھالتے ہو تو بھلائیاں بھی اٹھاؤ۔ جو خود چور، ڈاکو اور کرپٹ ہوتے ہیں، وہ دوسرے کو بھی وہی سمجھتے ہیں، مخالفین کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی نے کیا کیا ہے، الیکشن میں پتہ چل جائے گا کہ تحریک انصاف نے کیا کیا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت نے صوبے کے اداروں کو ٹھیک کیا ہے، حکمران نظام ٹھیک کرنے نہیں آتے، پرانی ڈگر پر چلتے رہتے ہیں، مخالفین کو نظام ٹھیک کرنا نہیں آتا، روز بیانات دیتے ہیں، ان سیاستدانوں کے لئے دعا کرتا ہوں کہ اللہ ان کے خیالات بدل دے۔ لیکن ایک بات اور بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ کے پی کے پر دہشت گردی کے اثرات باقی صوبوں سے زیادہ ہیں، اس سلسلے میں پولیس ریفارمز سمیت بہت سارے اقدامات ایسے ہیں، جن کی وجہ سے اب صورتحال بہتر ہے۔

اسلام ٹائمز: نواز شریف نے اپنی دختر کی عدالت میں پیشی پر افسوس کا اظہار کیا ہے، ہمارے معاشرے میں بھی اسے قبول نہیں کیا جاتا، آپ کیا کہیں گے۔؟
ظفر حیات قریشی:
اپنی بیٹی کو اس اسٹیج پہ پہنچانے والے خود نواز شریف ہیں، کس نے کہا تھا کہ کرپشن کریں اور لوٹا ہوا مال اپنی اولاد کے نام پہ رکھیں، ابھی بھی مریم نواز نے کہا ہے کہ میرے ایک ارب کے قریب اثاثے ہیں، دوسرا یہ کہ سیاسی جلسوں میں وہ کہتی ہیں کہ میں ایک عظیم لیڈر کی بیٹی ہوں، عدالت میں بیان دیتی ہیں کہ میں مریم صفدر ہوں، اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ اپنی پہچان چھپا رہی ہیں، یا عوام کو اور قانون کو دھوکہ دینے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اب انکی چوری پکڑی گئی ہے، یہ اب پریشان ہیں، نواز شریف میچ کے دوران جب باری لیتے تھے، تو اپنے امپائر کھڑے کرتے تھے، جبکہ مریم نواز جے آئی ٹی میں سوال کرنے نہیں، بلکہ جواب دینے گئیں۔ میں نواز شریف کو اڈیالہ جیل میں دیکھ رہا ہوں۔ نون لیگ نے عدلیہ، فوج اور جے آئی ٹی کو بدنام کرکے متنازعہ بنانے کا منصوبہ بنایا ہوا ہے، انہوں نے ماضی میں سپریم کورٹ پر حملہ کیا، اگر (ن) لیگ نے اس بار سپریم کورٹ پر حملہ کیا تو پوری قوم باہر نکلے گی۔ نواز شریف کو جب محسوس ہوا کہ انکا سیاسی مستقبل خطرے میں ہے تو وہ اپنے بیٹوں کو میدان لانا چاہتے تھے، لیکن انہوں نے الٹا اپنے باپ کو پھنسا دیا، اس لئے وہ خود اپنی بیٹی کو سیاست میں لائے، حالانکہ اس سے پہلے باپ بیٹی کے درمیان کیپٹن صفدر کی وجہ سے دوری تھی، اب وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی معاشرتی اقدار کیخلاف ہے۔ یہ بات کوئی تو کہہ سکتا ہے، لیکن دوسروں کی بیٹیوں کو عدالتوں اور جیلوں کے چکر لگوانے والے نواز شریف کو نہیں کہنا چاہیے۔

اسلام ٹائمز: گذشتہ الیکشنز میں بھی پی ٹی آئی نے سوشل میڈیا کے بل بوتے پر دعوے کئے کہ عمران خان جیتیں گے، لیکن نتیجہ بالکل برعکس تھا، کیا اس دفعہ اگر پی ٹی آئی نہیں جیت پاتی تو نتائج قبول کرینگے۔؟
ظفر حیات قریشی:
عام انتخابات میں رائے دہندگان نہ صرف اپنے پسند کی سیاسی پارٹی کو منتخب کریں گے، بلکہ ان انتخابات میں یہ فیصلہ بھی ہوگا کہ ہماری نوجوان نسل کے مسائل کے حل کے لئے کیا لائحہ عمل طے کیا جائے گا، کیونکہ ملکی تاریخ کا یہ پہلا موقع ہے، جبکہ 18 سے 35 سال کی عمر والے نوجوانوں کی تعداد اتنی زیادہ ہوگئی ہے، اس لئے یہ توقع کی جا رہی ہے کہ اس پارٹی کو سب سے زیادہ اکثریت ملے گی، جس کی طرف یہ نوجوان راغب ہوں گے۔ اس مرتبہ ووٹ کے لئے رجسٹر کئے جانے والے 46 ملین (چار کروڑ ساٹھ لاکھ) ووٹرز کی عمر 18 سال سے 35 سال کے درمیان ہے، جبکہ ووٹروں کی مجموعی تعداد 105.96 ملین ہے، جو اندازاً گیارہ کروڑ کے لگ بھگ بنتی ہے۔ ان میں سے 17.44 ملین (ایک کروڑ چوہتر لاکھ) ووٹروں کی عمر اٹھارہ سے 25 سال کے درمیان ہے، جو کہ پہلی مرتبہ حق رائے دہندگی استعمال کریں گے، ان میں زیادہ تر وہ ہیں، جو موجودہ حکمران سیاست دانوں کی وعدہ خلافیوں سے نالاں ہیں۔ 26 سے 35 سال کی عمر کے ووٹروں کی تعداد سب سے زیادہ یعنی 29.99 ملین یعنی تین کروڑ کے لگ بھگ ہے، جو کہ باقاعدہ رجسٹرڈ ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر غربت اور بے روزگاری کا شکار ہیں، جو معاشرے میں کوئی مثبت تبدیلی وقوع پذیر نہ ہونے پر مایوسی کے حصار میں ہیں۔ اگر ہم 2013ء کے انتخابات سے کوئی سبق سیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ زیادہ تر رجسٹرڈ ووٹر پولنگ تک نہیں پہنچے تھے۔ اس دفعہ ہر حال میں وہ پولینگ اسٹیشن پہ آئیں گے۔ نوجوان ووٹر چاہتے ہیں کہ ملک کے پسماندہ علاقوں کو تعمیر وترقی کی دوڑ میں شامل کیا جائے، لہٰذا وہ افراد اپنے ووٹ کا استعمال زیادہ دانش مندی سے کریں گے، تاکہ انھیں اپنے جمہوری فرائض کی کماحقہ ادائیگی کے لئے دباؤ ڈال سکیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ نوجوانوں کی سیاسی اور معاشرتی زندگی میں موثر شمولیت جمہوریت میں ناگزیر ہے۔

اسلام ٹائمز: کچھ سیاسی قوتوں کیجانب سے مخالفت کے باوجود فاٹا بل منظور ہوگیا ہے، یہ بھی اسی پارلیمنٹ سے ہوا جسے عمران خان غیر موثر قرار دے چکے ہیں، کیا یہ ایک اور یوٹرن تھا۔؟
ظفر حیات قریشی:
یہ بات خوش آیند ہے، پارلیمنٹ کی بالادستی پر سب کا اتفاق ہے، یہ کسی ایک شخص، کسی ایک سیاسی جماعت، حکومت یا اپوزیشن کی مشترکہ کوشش کا ہرگز نتیجہ نہیں، بلکہ ذمے دار جمہوری قوتوں، مذہبی جماعتوں، سول سوسائٹی، دانشوروں، سینیئر صحافیوں اور علاقے کی ابھرتی ہوئی نوجوان نسل کی بے لوث جدوجہد، طرز استدلال اور فاٹا کے عوام سے قومی یکجہتی کا آئینہ دار ہے۔ فاٹا بل کی منظوری سے پارلیمنٹ کا وقار بحال ہوا ہے، قومی اسمبلی نے اس دن یہ بھی ثابت کیا ہے کہ سیاست امکانات کی سائنس بھی ہے اور حسب موقع آرٹ بھی، بشرطیکہ ایشو کی اہمیت سارے پارلیمنٹیرینز کے پیش نظر ہو۔ حقیقت میں فاٹا بل کی منظوری عہد استعمار اور نوآبادیاتی تاریخ کے تابوت میں آخری کیل ہے۔ یہ جشن مسرت ہے، جو فاٹا عوام کے ساتھ ساتھ اہل وطن بھی مناتے ہوئے ایک نئے احساس سے سرشار ہونگے۔ اس اعلان اور فیصلہ کو دیر آید درست آید کے تناظر میں دیکھا جائے، تو تمام سیاسی قوتوں کی مشترکہ فتح ہے۔ یوں متحارب اور محاصرہ میں چومکھی لڑنے والی حکمراں جماعت نے میعاد مکمل کرتے ہوئے اپنا وعدہ نبھایا ہے، پارلیمنٹ فاٹا عوام کی امنگوں کی ترجمانی کی، آج پاکستان کی بہت بڑی جیت ہوئی ہے۔

قبائلی علاقوں میں جب پاکستانی قانون کا اطلاق ہوگا تو اس میں مشکلات آئیں گی، فاٹا بل منظور کرکے قبائلی عوام کا دیرینہ مطالبہ پورا کر دیا گیا ہے۔ بلاشبہ منتخب اراکین کی رواداری، صبر و تحمل اور سیاسی بصیرت بھی کام آئی ہے، کام مکمل نہیں ہوا، ابھی فاٹا کی جمہوری، سیاسی اور اقتصادی تشکیلات کے ہفت خواں طے کرنا باقی ہیں، تیشہ فرہاد کی ضرورت ہے، اس سنگلاخ علاقے میں جدید ترین مواصلاتی، بلدیاتی، سماجی اور تعلیمی سہولتوں کا جال بچھایا جائے۔ صحت، تفریح، روزگار، رہائش اور طرز زندگی میں بنیادی تبدیلیوں کے لئے ذہنی اور فکری فضا تیار کی جائے، مسئلہ صرف حصول انصاف کے لئے عدلیہ تک رسائی کا نہیں ہے بلکہ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کو مل کر فاٹا کیلے فنڈز مہیا کرنے کا مالیاتی میکنزم تیار کرنا ہوگا۔ فاٹا نے دہشتگردی کے درد ناک ادوار بھگتے ہیں، ہزاروں گھرانے دربدر ہوئے، دہشتگردی کی آگ سلگا کر اپنوں کو تباہی سے دوچار کیا گیا۔ پاک فوج کو دہشتگردوں کا صفایا کرنے کا فری ہینڈ ملا تو دنیا نے دیکھا کہ کیسے بے رحم ماسٹر مائنڈ فاٹا سے راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوئے، آج فاٹا میں دہشتگردی سے متاثرہ خاندانوں کی بحالی کا بیشتر کام مکمل ہوچکا ہے، انفرااسٹرکچر بچھانے کی رفتار مزید تیز ہونی چاہیے، امن بحال ہوا ہے، اہل فاٹا کے بدن پر امریکی ڈرون حملوں کے جتنے زخم ہیں، سیاست دانوں نے مل کر اسی کشادہ دلی اور خلوص نیت کے ساتھ ان کے اندمال کی صورت نکالنی ہے۔ درحقیقت فاٹا اصلاحات پر مکمل عملدرآمد کے لئے غیر معمولی اقدامات ناگزیر ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ بھی سمجھتے ہیں کہ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی کی جگہ کوئی سیاستدان کتاب لکھتے تو انہیں غدار قرار دے دیا جاتا۔؟
ظفر حیات قریشی:
کوئی بھی ملک اور قانون سے بالاتر نہیں، آرمی چیف کی طرف سے ایک زبردست اور بروقت اقدام کیا گیا ہے، عسکری قیادت نے یہ واضح پیغام دیا ہے کہ اگر پاک فوج کا کوئی سابق افسر بھی ملکی مفاد کے خلاف کوئی بات کرے گا تو اس کے خلاف بھی کارروائی ہوگی۔ کتاب پر فوج کو تحفظات ہیں، اس لئے مذکورہ کتاب پر کسی قسم کی غیر محتاط خیال آرائی سے اس وقت تک اجتناب بہتر ہے، جب تک جنرل (ر) اسد درانی اس ضمن میں جی ایچ کیو کو اپنی وضاحت نہ پیش کر دیں، کیونکہ کتاب حساس موضوعات کا احاطہ کئے ہوئے ہے، اس کے مندرجات منظر عام پر آچکے ہیں۔ اس انفارمیشن ایکسپلوژن کے عہد میں کسی متنازعہ کتاب کا ناقدانہ جائزہ نہ لینا قرین مصلحت نہیں ہے، تاہم ملکی سلامتی، جنوبی ایشیا کے غیر معمولی حالات اور خطے میں کثیر جہتی مسائل اور ایشوز کی نزاکت اور حساسیت کے پیش نظر کچھ انتظار کیا جائے تو صائب بات ہوگی، جنرل اسد کی وضاحتوں سے پتہ چلے گا کہ کن ناگزیر و ناگفتہ حالات اور محرکات کے باعث وہ اس مشترکہ کتاب کی اشاعت پر راضی ہوئے، کیا انھوں نے اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لئے عسکری حفظ مراتب سے پیشگی اجازت لی تھی۔؟ جبکہ تحقیقاتی رپورٹرز کے ملکی ذرائع بھی یہ نہ بتا سکے کہ ایسی کوئی کتاب آرہی ہے، جو پاک بھارت خفیہ ایجنسیوں کے دو سابق سربراہان کی فکری، عسکری اور سراغ رسانی کے انتہائی حساس معاملات پر گفتگو کا نچوڑ ہوگی اور پاک بھارت تنازعات اور خطے کے دیگر ایشوز پر باہم متحارب و حریف سابق اسپائی ماسٹرز اپنے ملک سے دور استنبول، کھٹمنڈو اور بنکاک میں ملاقاتوں اور بات چیت کو ضبط تحریر میں لاکر پاک بھارت سیاسی و عسکری حلقوں کے لئے خود کتاب کو ایک سوالیہ نشان بنا دیں گے۔
خبر کا کوڈ : 727724
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش