0
Friday 15 Jun 2018 14:23

آنیوالے انتخابات میں کسی مخصوص امیدوار کی حمایت نہیں کرتے، علامہ عابد حسینی

ہماری پالیسی کسی سے ٹکر لینے پر مبنی نہیں بلکہ جائز حقوق کے حصول پر مبنی ہے، جسے ہم جاری رکھے ہوئے ہیں
آنیوالے انتخابات میں کسی مخصوص امیدوار کی حمایت نہیں کرتے، علامہ عابد حسینی
علامہ سید عابد حسین الحسینی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ وہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ اور اسکے بعد تحریک جعفریہ میں صوبائی صدر اور سینیئر نائب صدر کے عہدوں پر فائز رہنے کے علاوہ ایک طویل مدت تک تحریک کی سپریم کونسل اور آئی ایس او کی مجلس نظارت کے رکن بھی رہے ہیں۔ 1997ء میں پاکستان کے ایوان بالا (سینیٹ) کے رکن منتخب ہوئے، جبکہ آج کل علاقائی سطح پر تین مدارس دینیہ کی نظارت کے علاوہ تحریک حسینی کے سرپرست اعلٰی کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے پاراچنار، نیز بین الاقوامی صورتحال کے حوالے سے علامہ عابد الحسینی کیساتھ ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا ہے، جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: علامہ صاحب! یوم القدس جلوس سے پہلے ایک افواہ پھیلی تھی کہ چار خودکش حملہ آوروں کا ہدف پاراچنار ہے اور یہ کہ وہ قدس کے جلوس کو نشانہ بنائینگے۔ اسکی حقیقت کیا تھی۔؟
علامہ عابد حسینی:
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اسکی کئی ایک وجوہات ہوسکتی ہیں۔ جلوس سے پہلے ہماری نظر یہ تھی کہ شاید جلوس کو ناکام بنانے کے لئے یہ پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے، چونکہ اس سے پہلے بھی بلکہ ہر سال جلوس سے پہلے اسی طرح کا پراپیگنڈہ ایک معمول بن چکا ہے۔ لہذا ہمارا خیال یہی خیال تھا، لیکن جب جلوس سے پہلے اور جلوس کے دوران فوج کے حفاظتی اقدامات کا مشاہدہ کیا۔ نہ صرف پاراچنار بلکہ پاک افغان سرحد خرلاچی اور شورکو میں کڑی نگرانی کو دیکھا۔ یہی نہیں بلکہ جلوس سے تین روز قبل سرحد کی بندش کا مشاہدہ کیا۔ حالانکہ سرحد کی ایک گھنٹے کے لئے بندش سے کروڑوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ اسی طرح ٹل، صدہ اور پاراچنار کے اطراف میں سکیورٹی کے فول پروف انتظامات، حتی کہ ہیلی کاپٹروں کو آمادہ دیکھ کر کافی حد تک یقین ہوگیا کہ دشمن نے پاراچنار، خصوصاً یہاں پر فلسطین کے حق اور اسرائیل کے خلاف بلند ہونے والی آواز کو دبانے کے لئے یہ سازش تیار کی گئی تھی، جو ہمارے رضاکاروں نیز پاک فوج کی مقامی قیادت کے تدبر سے ناکام ہوگئی، جس کے لئے ہم انکے شکر گزار ہیں۔

اسلام ٹائمز: گذشتہ روایات کے برخلاف اس مرتبہ آپکی تنظیم نے سرکاری اداروں کا بے حد شکریہ ادا کیا، کیا سرکار کے حوالے سے آپکی پالیسی تبدیل ہوگئی۔؟
علامہ عابد حسینی:
ہماری پالیسی وہی ہے، ہم اپنے حقوق کے حصول سے ایک انچ پیچھے ہٹنے والے نہیں۔ ہم نے جلسے میں اپنے حقوق کی بات بھی کی۔ قراردادوں میں بھی تمام مسائل کو اٹھایا اور بعض اداروں کے تعاون کا شکریہ بھی ادا کیا۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ اس سے پہلے ہماری جائز آواز سنی نہیں جاتی تھی۔ اس مرتبہ بلکہ گذشتہ ایک سال سے ہمارے ہر جائز مطالبے کو غور سے سنا گیا، اکثر پر عمل کرایا گیا۔ اس سے قبل ہمیشہ دیگر اقوام کے حقوق کی بات کی جاتی تھی۔ ہمیشہ پاراچنار سے بے دخل شدہ افراد کی بحالی کی بات کی جاتی تھی، جبکہ اس مرتبہ انکے ساتھ ساتھ 35 سال قبل صدہ سے بے دخل ہونے والے طوری قبائل کی بحالی کے لئے بھی برابر اقدامات اٹھائے گئے۔ اسی طرح ہمارے دیگر اہم مطالبات، مثلاً تنگی، لنڈیوان، شورکی اور بالش خیل کے حوالے سے تحفظات کو بھی دور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان تمام مسائل کا تفصیل کے ساتھ مولانا یوسف حسین کو علم ہے۔ کرم کی سطح پر مسائل میں کسی بھی پیشرفت سے اکثر وہی مجھے مطلع کرتے ہیں۔ اگر آپکو اس حوالے سے مزید تفصیل حاصل کرنے خواہش ہو تو یوسف آغا سے رابطہ کرسکتے ہیں۔ الغرض ہماری پالیسی خواہ مخواہ کسی سے ٹکر لینے پر ہرگز مبنی نہیں بلکہ جائز حقوق کے حصول پر مبنی ہے، جسے ہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: خودکشوں کے حوالے سے آپکو کچھ علم ہے کہ اسکی پلاننگ کہاں تیار ہوئی تھی، کس طرف سے آنیوالے تھے۔؟
علامہ عابد حسینی:
پاراچنار میں دھماکے کرانے والوں میں سے اکثریت کا تعلق مقامی غیر طوری قبائل سے ہوتا ہے، جنکا حکومت کو بھی پوری طرح سے علم ہے۔ تاہم اس مرتبہ مولانا یوسف حسین صاحب سے فوجی مسئولین نے جو ذکر کیا تھا۔ اسکے مطابق دو خودکش حملہ آور خرلاچی کے ساتھ ہمارے سرحدی علاقے ڈنڈہ پٹھان میں کسی مہمان خانے میں ٹھہرے تھے، جبکہ دیگر دو خوست میں قیام پذیر تھے۔ چنانچہ قدس سے تین دن پہلے جب بارڈر سیل کیا گیا تو یہاں آنے کی انکی امید قطع ہوگئی، لہذا انکا منصوبہ ناکام ہوگیا۔

اسلام ٹائمز: قدس جلسے کے اجتماع میں آپ نے ایک دعویٰ کیا، کہ اگر فلسطین کو اہل تشیع کے حوالے کیا جائے اور وہاں نعرہ حیدری کو شعار بنایا جائے تو اسرائیل کبھی بھی تجاوز نہیں کرسکے گا۔ یہ ایک دعویٰ ہے یا حقیقت ہے۔؟
علامہ عابد حسینی:
یہ تو ایک حقیقت ہے۔ اس وقت پوری دنیا اہل تشیع کی طاقت سے خائف ہے۔ اسرائیل کی آنکھوں میں اس وقت صرف ایران اور اسکے اتحادی ممالک ہی کھٹکتے ہیں۔ امریکہ کی نظریں اس وقت ایران، عراق، لبنان، یمن اور شام پر مرکوز ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل انہی ممالک کو اپنی سالمیت کے لئے خطرہ تصور کرتے ہیں، جبکہ دیگر ممالک کے ساتھ امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات آقا اور غلام کی حیثیت میں ہیں۔ خصوصاً عرب ممالک تو انکے نوکر نہیں بلکہ چاکر ہیں اور وہ انہیں اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں، جبکہ لبنان میں حزب اللہ، عراق میں حشد الشعبی اور شام میں مدافعان حرم نے انکی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں۔ ابھی ایک ماہ قبل شام پر حملے کے جواب میں اسرائیل کو جب سینکڑوں میزائلوں کا نشانہ بنایا گیا تو انکی آنکھیں کھل گئیں اور اسرائیل نے روس کو ثالث بناتے ہوئے ایران اور ان تنظیموں سے اپنی سالمیت کی بھیک مانگی۔ ان تنظیموں خصوصآ ایران اور شامی افواج نے دوٹوک انداز میں کہا کہ آئندہ اسرائیل کی جانب سے کسی بھی حملے کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔

اسلام ٹائمز: پاراچنار سے جو جوان شام جاکر لڑتے ہیں، انکے حوالے سے آپکا کیا موقف ہے۔؟
علامہ عابد حسینی:
اس مسئلے کے دو پہلو ہیں۔ ایک تو یہ کہ 2010ء کے بعد ہزاروں کی تعداد میں اہلیان پاراچنار کو صرف شیعہ ہونے کے جرم میں عرب امارات سے نکال کر انکی معیشت کو تباہی سے دوچار کیا گیا، حالانکہ امارات میں لاکھوں کی تعداد میں غیر مسلم حتی کہ بھارت کے ہندو برسر روزگار ہیں۔ انہیں کچھ نہیں کہا گیا۔ صرف پاراچنار کو نشانہ بنایا گیا اور حیرانگی کی بات تو یہ کہ ہماری حکومت وقت نے بھی اس حوالے سے کوئی سفارتی کردار ادا نہیں کیا۔ شاید انکی رضایت ہی سے انہوں نے یہ قدم اٹھایا ہو۔ چنانچہ جب یہ ہزاروں لوگ بیروزگار ہوگئے تو ان میں سے جو دولتمند تھے، انہوں نے آسٹریلیا، ملائیشیا اور انڈونیشیا کا رخ کیا تو کچھ نے یورپ کا۔ اس دوران سینکڑوں لوگ سمندری لہروں کی نذر ہوکر ڈوب گئے، جنکی لاشیں بھی نہیں مل سکیں اور کچھ دیگر جو نسبتاً کم متمول تھے، انہوں نے روزگار کی تلاش میں مسقط، کویت اور سعودی عرب کا رخ کیا، جبکہ انتہائی غریب طبقے نے ایران اور عراق کا رخ کیا اور وہاں پر وہ دیہاڑی کرکے اپنے خاندان کا پیٹ پالنے میں مصروف ہوگئے۔ اسی دوران شام میں القاعدہ، النصرہ اور داعش نے سر اٹھا لیا اور انکی جانب سے مقدس مزارات پر حملوں کی خبریں سن کر انکے دل میں بی بی زینب سلام اللہ علیھا کے مزار کی دفاع کا ولولہ جوش کھانے لگا۔ چنانچہ وہاں سے بعض لوگ سیدھے شام گئے۔ وہاں کچھ تنخواہ پر جبکہ کچھ رضاکاروں کی حیثیت سے اس فورس میں شامل ہوگئے۔ جو بی بی زینب سلام اللہ علیھا کے نام سے منسوب ہے اور زینبیوں کہلاتے ہیں۔

ان میں سے بعض کے پیش نظر شاید صرف تنخواہ ہوگی، تاہم اکثر ایسے ہیں جنکے پیش نظر بی بی زینب سلام اللہ علیھا کے مزار کا دفاع ہے۔ چنانچہ انہیں یہ موقع ہماری حکومت نے ہی فراہم کیا ہے۔ اگر وہ انکی خاطر اماراتی حکومت سے مذاکرات کرتے یا وہاں سے آنے کے بعد انکے لئے متبادل بندوبست کرتے تو انہیں وہاں جانے کا موقع شاید میسر ہی نہ ہوتا۔ باقی ایک بات میں اپنی طرف سے کرتا ہوں۔ جوانوں کی بات نہیں کرتا، انکے ذھن میں کیا ہے؟ جبکہ خود میرا تو یہ عقیدہ ہے کہ اگر سفری موانع نہ ہوں، نیز زینبیوں کے قواعد و ضوابط میری عمر، جو کہ اس وقت 70 سال ہے، سے مانع اور متصادم نہ ہوں، تو بندہ بذات خود جاکر وقت کے ان یزیدوں (داعش کے دہشتگدوں) کے خلاف لڑے گا اور بی بی کے حرم کے دفاع کی خاطر اپنی جان دے گا۔ خیال رہے کہ فقط یہی نہیں بلکہ جہاں کہیں بھی، اہلبیت رسول علیھم السلام کے مزارات کو خطرہ ہو، خواہ وہ مکہ یا مدینہ ہو، عراق یا ایران ہو، مصر یا شام ہو۔ شیعہ جاکر انکی خاطر اپنی جانوں نذرانہ پیش کریں گے۔

اسلام ٹائمز: علامہ صاحب، سیاست کے میدان میں باقاعدہ طور پر قدم کب رکھا۔؟
علامہ سید عابد حسینی:
دیکھیں، بندہ 1980ء کے بعد سے جب ایران سے آکر مدرسہ جعفریہ میں مدرس اور بعد پرنسپل کے عہدے پر فائز ہوا، کرم کی سیاست میں سرگرم عمل ہوں۔ اس زمانے میں مرکزی جامع مسجد میں دن کو جماعت کراتا رہا اور 1981ء میں پہلی مرتبہ نماز جمعہ کی ابتداء کی۔ اس دوران شہید عارف حسین الحسینی بھی ساتھ تھے۔ ہم نے ملکر اہلیان کرم کے حقوق کے لئے کام کیا۔ قدس جلوس بھی وہیں سے نکالتے رہے۔ تاہم قائد شہید کی شہادت کے بعد اور آپس میں اختلافات کی وجہ سے مدرسہ جعفریہ چھوڑنا پڑا اور رہبر معظم کے نام سے الگ مدرسہ کا قیام عمل میں لایا تو 1991ء میں قدس جلوس کا پروگرام بند ہوگیا تو اگلے سال پہلی مرتبہ قریبی ساتھیوں کے ساتھ اپنے مدرسے سے قدس جلوس کا آغاز کرکے امام خمینی کے حکم کو زندہ رکھا۔ اسکے علاوہ 1990ء میں پہلی مرتبہ ہم نے انتخابات میں صرف اس نیت سے حصہ لیا کہ اپنا بندہ لاکر پارلیمنٹ کی سطح پر اپنے مسائل کو حل کروائیں، چنانہ پہلی مرتبہ اس حلقے سے اپنے نمائندے کو کامیاب کرایا۔ حالانکہ اس سے پہلے ایف آر میں ملک صاحبان کی اکثریت کی وجہ سے انتخابات میں وہ جیت جاتے تھے۔ تاہم ہماری وہ آرزو پوری نہ ہوسکی۔ اسکے بعد بندہ جب تحریک کا مرکزی نائب صدر بن گیا، تو ہم نے کرم کی سطح پر دو مرتبہ اپنا امیدوار (حاجی کمال حسین) سامنے لائے، جو کہ ہار گیا۔ چنانچہ سیاست سے ہمارا واسطہ جو ہے، وہ اہلیان کرم کے حقوق کا حصول ہے۔

اسلام ٹائمز: آنیوالے انتخابات میں کسی خاص امیدوار کی حمایت کرینگے یا غیر جانبدار رہینگے۔؟
علامہ سید عابد حسینی:
2002ء یا 2003ء میں ہونے والے انتخابات کے بعد ہم نے اپنا فیصلہ بالکل بدل دیا ہے، کیونکہ ہماری یعنی علماء کی شمولیت نے مسائل کو حل کرنے کی بجائے مزید الجھا دیا، قوم میں تلخیاں بلکہ دشمنیاں پیدا ہوگئیں۔ چنانچہ اسکے بعد سے ہم نے اپنی پالیسی تبدیل کر لی اور آج تک اسی پالیسی پر گامزن ہیں اور گامزن رہیں گے۔ آنے والے انتخابات کے حوالے سے مختلف امیدواروں نے رابطہ کیا ہے۔ اور حمایت مانگی ہے، جبکہ میں نے دوٹوک انداز سب پر واضح کر دیا ہے کہ ہم کسی ایک امیدوار کی حمایت نہیں کریں گے۔ کیونکہ اس سے بدمزگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ چنانچہ ہمارا یہ اعلان ہے کہ کسی بھی امیدوار کی حمایت نہیں کرتے۔ عوام سے بھی یہ گزارش کرتے ہیں کہ اگر کسی امیدوار کی جانب سے ایسا کوئی پروپیگنڈہ سننے میں آیا تو وہ جھوٹا ہوگا۔ چنانچہ عوام کسی پروپیگنڈے میں نہ آئیں بلکہ اپنا ضمیر استعمال کرتے ہوئے اپنی مرضی کے امیدوار کو ووٹ دیں۔
خبر کا کوڈ : 731679
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش