0
Thursday 28 Jun 2018 00:35
ریحام خان اور حسین حقانی کے پیچھے رائیونڈ نیٹ ورک ہے

شریف خاندان کو اپنا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے، پنجاب سپیڈ دراصل کرپشن کا کوڈ ورڈ ہے، شاہ محمود قریشی

اقتدار کی باریاں لینے والوں کی صفوں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے
شریف خاندان کو اپنا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے، پنجاب سپیڈ دراصل کرپشن کا کوڈ ورڈ ہے، شاہ محمود قریشی
وائس چیئرمین 1956ء میں ملتان کے ایک بااثر، جاگیردار اور روحانی خاندان میں پیدا ہوئے، ایچی سن اور فورمین کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی اور اسکے بعد برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ اپنی سیاست کا آغاز 1985ء میں مسلم لیگ کے ساتھ کیا، عمران خان کے موجودہ وائس چیئرمین اسوقت نواز شریف کے ساتھی تھے۔ بعد ازاں، انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور پھر پاکستان تحریکِ انصاف میں جانے سے قبل یہ رفاقت توڑ دی۔ مذکورہ بالا دونوں جماعتوں سے وابستگی کے دوران وہ اہم عہدوں پر فائز رہے۔ تین بار، 1985ء، 88ء اور 90ء میں پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور وہ صوبائی وزیرِ خزانہ کے عہدے پر بھی فائز ہوئے، پی پی پی میں شمولیت کے بعد 1993ء میں رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہونے کے بعد، بینظیر بھٹو کے دوسرے دورِ وزارت عظمٰی میں بطور وزیرِ مملکت برائے پارلیمانی امور کابینہ کا حصہ بنے۔ 1997ء کے انتخابات میں انہیں اُس وقت کے نون لیگ کے امیدوار اور روایتی حریف جاوید ہاشمی نے شکست دی۔ بعد میں جاوید ہاشمی بھی پاکستان تحریکِ انصاف کا حصہ رہے۔ 2002ء کے عام انتخابات میں اسی نشست پر ایک مرتبہ پھر رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ اس سے قبل 2000ء سے 2002ء تک ملتان کے ضلع ناظم بھی رہے، لیکن عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا انتخاب لڑنے کیلئے انہوں نے عہدے سے استعفٰی دیدیا۔ 2006ء میں پارٹی نے ان کی خدمات کے پیشِ نظر پی پی پی پنجاب کا صوبائی صدر منتخب کیا۔ 2008ء کے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد انہیں وزارتِ عظمٰی کا مضبوط امیدوار تصور کیا جا رہا تھا، لیکن ان کے بجائے یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے اور قریشی کو وزارتِ خارجہ کا اہم قلمدان سونپ دیا گیا۔ 2008ء کے ممبئی حملے ہوں یا پھر ریمنڈ ڈیوس کیس، بطور وزیرِ خارجہ، قریشی کو عالمی تعلقات کے حوالے سے متعدد سفارتی بحرانوں کا بھی سامنا رہا۔ روحانی شخصیت کا درجہ رکھنے والے پی ٹی آئی کے یہ سیاسی ہیوی ویٹ اپنے انتخابی حلقے این اے 148 پر خاصا اثر رکھتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی میں مضبوط حیثیت کے مالک قریشی، ریمنڈ ڈیوس کو سفارتی استثنٰی دیئے جانے کے مخالف تھے۔ اس موقع پر اُن سے وزیرِ خارجہ کا قلمدان بھی واپس لے لیا گیا تھا۔ بعد میں یہ اختلافات بڑھتے بڑھتے اس حد تک پہنچے کہ انہوں نے قومی اسمبلی اور پارٹی رکنیت، دونوں سے استعفٰی دیدیا۔ پی پی پی سے علیحدگی کے بعد انہوں نے گھوٹکی میں ایک جلسہ منعقد کیا اور تحریکِ انصاف میں شمولیت کا اعلان کر دیا۔ پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی بدستور عمران خان کی جماعت میں ایک اہم سیاسی شخصیت ہیں۔ انکے ساتھ اسلام ٹائمز کا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: پی ٹی آئی نے تبدیلی کا نعرہ لگا کر پبلک کو نئے پاکستان کا خواب دکھایا، لیکن پورے پاکستان سے پرانے سیاستدانوں سے پارٹی کیوں بھر لی ہے۔؟
شاہ محمود قریشی:
پاکستان تحریک انصاف اپنے نعرے پہ قائم ہے، یہ نعرہ ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہے، یہ ہمارے نعرے کی سچائی کی دلیل ہے، آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ پرانے ساستدانوں نے بھی ہمیں جائن کیا ہے، لیکن ہمارا منشور اور نعرہ بدلا نہیں۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ قوم روایتی سیاست کو مسترد کر دے گی، نئے پاکستان کی سیاست کا آغاز ہوگیا ہے۔ سابقہ حکومتوں لوڈشیڈنگ سمیت تمام مسائل کے حل کا وعدہ کیا ناکام رہیں، اب ان سے لوگ مایوسی کا شکار ہیں۔ عام پاکستانی یہ چاہتے ہیں کہ صرف چہرے نہیں بلکہ نظام بدلا جائے تبھی حقیقی تبدیلی اور ملک میں ترقی و خوشحالی آ سکے گی۔ بے شمار سیاسی جماعتوں کے ہونے کے باوجود ملک کو ایک نئی سیاسی جماعت کی ضرورت ہے، جو عام انسانوں پر مشتمل ہو اور جو عوام کے حقیقی مسائل کو اجاگر کریں اور ان مسائل کے حل کے لئے زبانی کلامی نہیں، بلکہ عملی طور پر اقدامات کرے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے کارکنان غلط ہونے پر بھی اپنی جماعت کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ اب سیاسی جماعتوں کی قیادت بھی ایسے ہی لوگوں کو ترجیح دے رہی ہے جو چاپلوسی کر سکتے ہوں اور جھوٹی تعریفیں کر سکتے ہوں۔

اسلام ٹائمز: اس سب کے باوجود نظریاتی سیاست کی دعویدار تحریک انصاف نے متعدد جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو ٹکٹ دیئے ہیں، ووٹر اور ورکر دونوں مایوس ہونگے تو الیکشن میں کامیابی کیسے ممکن ہوگی۔؟
شاہ محمود قریشی:
مسلم لیگ اور پی پی پی جیسی جماعتوں نے تو حسب روایت لوٹوں کو اور جاگیرداروں کو ٹکٹ دیئے ہیں، جبکہ نظریاتی کارکنوں کو نظرانداز کیا۔ یہی تاثر پی ٹی آئی کے متعلق بھی ابھارا جا رہا ہے کہ تبدیلی کی دعویدار اور نظام کو بدلنے کی بات کرنے والی جماعت تحریک انصاف نے بھی اپنے نظریاتی اور مخلص کارکنوں کے بجائے جاگیرداروں، وڈیروں اور پیسے والوں کو اہمیت دی، ایسا نہیں ہے۔ جمہوریت کے نام پر حکمران رہنی والی سیاسی جماعتوں کی جانب سے موروثی سیاست کا جو کھیل کھیلا جا رہا ہے اس کو قوم کبھی معاف نہیں کرسکتی۔ اس کا حساب عوام الیکشن میں لیں گے اور لے رہے ہیں۔ ان سے پوچھنا چاہیے کہ کیا سیاسی جماعتیں ایک عام آدمی کو پارلیمنٹ میں کیوں نہیں بھیجتی؟ کیا ایک غریب، کسان یا مزدور کے پڑھے لکھے بچے  پارلیمنٹ کے ممبر نہیں بن سکتے۔؟

اسلام ٹائمز: جہانگیر خان ترین کے بعد پی ٹی آئی کے فواد چوہدری بھی نااہل ہوگئے ہیں، پارٹی میں گروپنگ کی خبریں بھی زیر گردش ہیں، آپس کے اختلافات سے پارٹی پوزیشن کمزور نہیں ہو رہی۔؟
شاہ محمود قریشی:
دیکھیں یہ جو کہا جا رہا تھا کہ پی ٹی آئی کو اسٹیبلشمنٹ کی تائید حاصل ہے، فواد چوہدری کیخلاف آنے والا فیصلہ اور کاغذات نامزدگی مسترد ہونا، کیا ثابت کرتا ہے، اس پر اپیل کرینگے، گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ جب آپ اس گیم میں ہوتے ہیں تو اس طرح کی رکاوٹیں ڈالی ہی جاتی ہیں، چوہدری صاحب کو پیغام آیا تھا کہ افتخار چودھری کے خلاف پریس کانفرنس نہ کریں بصورت دیگر رد عمل آئے گا اور آپ کے الیکشن پر اثر پڑے گا سو وہی ہوا، لیکن کوئی بات نہیں۔ عمران خان ہمارے لیڈر ہیں اور ان کے اوپر جو بھی بھونڈا قسم کا الزام لگائے گا اسے اس کا جواب ضرور ملے گا اور افتخار چودھری اور ان کی باقیات کے خلاف ہماری جدوجہد بھی جاری رہے گی۔ یہ جو فیصلہ آیا ہے اس کا بنیادی مقصد ہماری الیکشن مہم کو متاثر کرنا ہے کیونکہ اصل میں اس کے اندر کچھ ہے ہی نہیں۔ پہلے اس کیس کو معطل کیا گیا، پھر اس پر از خود نوٹس لیا گیا۔ اس سلسلے میں سپریم جوڈیشل کونسل سے بھی رجوع کر رہے ہیں، یہ جو جج صاحب ہیں عباد الرحمان لودھی، یہ افتخار چودھری کے چہیتے آدمی ہیں جن کو تعینات کیاگیا۔ یہ فیصلہ آئندہ دو تین روز میں واپس بھی لے لیا جائے گا کیونکہ اس کا کوئی میرٹ نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: افتخار چوہدری نے تو سیتا وائیٹ کیس پہ شکایت درج کروائی تھے، لیکن ریحام خان نے تو باقاعدہ کتاب لکھی ہے اور خواتین کو پی ٹی آئی قیادت سے شکایات رہی ہیں، اسکی کیا وجوہات ہیں۔؟
شاہ محمود قریشی:
ریحام خان کی کتاب سیاسی شعبدہ بازی ہے، انہیں سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔ ریحام خان ایک مہرہ ہیں، جنہیں سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے، کتاب قبل از وقت دھاندلی ہے، الیکشن کمیشن نوٹس لے، ایسی کتاب پر پابندی لگا دینی چاہئے، اس پوری سکیم کے پیچھے رائے ونڈ نظر آتا ہے۔ یہ نیٹ ورک اصل میں رائیونڈ نیٹ ورک ہے، حسین حقانی بھی شامل ہیں، ایف آئی اے سائبر ونگ اس معاملے کی تحقیقات کرے، کتاب میں جو باتیں کی گئیں اس پر قانونی کارروائی ہو سکتی ہے، کتاب میں جو باتیں ہیں وہ ان پر فوجداری پرچے ہونے ہیں، ریحام خان کو پاکستان، خاندانی نظام، کسی کی پرواہ نہیں۔ ریحام خان کی پست ذہنیت کا اندازہ کتاب سے ہوتا ہے، رائے ونڈ مافیا پہلے پی ٹی آئی خواتین اب عمران خان پر حملے کر رہی ہے۔ بنوں اپلیٹ ٹربیونل نے بھی سیتاوائٹ کیس میں عمران خان کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے۔ ریحام خان نے شہباز شریف سے پیسے لے کر کتاب لکھی ہے۔ اسحاق ڈار نے سیتا وائٹ معاملے میں پیسے خرچ کئے۔ یہ ہم سب نے دیکھ لیا ہے کہ عمران خان کیخلاف سازش رچائی گئی، اس سلسلے میں زیادہ تفصیل سے بات کرنے کی ضرروت بھی نہیں، عوامی سطح پہ لوگوں نے ان کہانیوں اور الزامات کو رد کر دیا ہے۔

اسلام ٹائمز: میاں شہباز شریف نے ایک بار پھر کراچی کو پیرس بنانیکا اعلان کیا ہے، لاہور کو ملک بھر کیلئے ترقی کا ماڈل بنا کر پیش کیا جا رہا ہے، پشاور کی ترقی کو بھی مثال کے طور پر عوام کے سامنے پیش کرینگے۔؟
شاہ محمود قریشی:
عوام جانتے ہیں کہ(ن) لیگ والے اپنے دورحکومت میں ترقی کے نام پر فرمائشی سروے کی جوسیریز چلاتے رہے ہیں، اس کا حقیقت سے دورکا بھی تعلق نہیں، پی ٹی آئی کی مقبولیت کی وجہ سے اقتدار کی باریاں لینے والوں کی صفوں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے اور انہیں اپنا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے، پنجاب سپیڈ دراصل کرپشن کا کوڈ ورڈ ہے۔ عوام (ن) لیگ والوں کی شعبدہ بازیوں سے ہرگز مرعوب نہیں ہوں گے بلکہ ان سے لوٹ مار اور کرپشن کاحساب لیں گے ۔لاہور میں حکمرانوں کی رہائشگاہوں کی جانب جانے والی شاہراہوں کی تعمیر کے سوا کہیں ترقی نہیں ہوئی ۔ عوام اب پل اور سڑکیں نہیں بلکہ اپنی ا ور اپنی آنے والی نسلوں کی آسودگی اور خوشحالی چاہتے ہیں، جو سابقہ حکمران انہیں دینے کیلئے تیار نہیں۔ پی ٹی آئی حکومت میں آنے کے بعد اپنی ترجیحات واضح کر چکی ہے، اس لئے اقتدار کی باریاں لینے والوں کو اپنا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے۔ اب وہ وقت آ گیا ہے جب چار دہائیوں تک اقتدار پر قابض رہنے والوں کا مستقبل تاریک اور عوام کاحقیقی معنوں میں روشن ہوگا۔
 
پاکستان کو مضبوط ہاتھوں کی ضرورت ہے۔ نئی سوچ بھی درکار ہے، کیونکہ پرانی باتوں اور پرانے فارمولوں سے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔ ہماری سوچ فرسودہ ہے۔ ہم پرانے رویوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ معاشرے میں نظم و ضبط نام کی کوئی چیز نہیں۔ ہمارے کام کرنے کے طریقے ڈھیلے ڈھالے ہیں۔ زندہ قوموں والی رَمق ہم میں نظر نہیں آتی۔ شہروں کی گندگی ہم خود اُٹھا نہیں سکتے۔ کہیں صفائی کا ٹھیکہ کسی چینی کمپنی کے پاس ہے تو کہیں یہ کام کوئی ترکی کمپنی سرانجام دے رہی ہے۔ کراچی کا تو خدا ہی حافظ ہے۔ وہاں حکمران جو اَب فارغ ہوئے ہیں اُن کی عبادت ایک ہی تھی، پیسوں کے بتوں کے سامنے سر جھکانا۔ پنجاب کے حکمران اور چیزوں میں لگے رہے اور کرپشن کی داستانیں رَقم کرکے چلے گئے۔ خود کے مال و زَر کا اتنا لمبا سلسلہ کہ لکھتے لکھتے ہاتھ تھک جائیں لیکن پبلک خزانے کو خالی و برباد کرکے چلے گئے۔ وہ لندن کے فلیٹ ہی دیکھ لیں جن کی تصاویر اخبار ڈیلی میل میں چھپی ہیں۔ ایسے ٹھاٹ باٹ تو دنیائے عرب کے بادشاہوں کے ہیں۔ سب حالات عیاں ہیں لیکن ہمت کی داد دیں کہ پوچھا جائے تو ہر چیز سے انکاری ہیں۔

اسلام ٹائمز: قومی احتساب بیورو کے چیئرمین نے کہا ہے کہ نیب ہیڈ کوارٹر کو بموں سے اڑانے کی دھمکی دی گئی ہے۔ آپکے خیال میں یہ دہشتگردی ہے یا اسکا تعلق سیاسی فیصلوں سے ہوسکتا ہے۔؟
شاہ محمود قریشی:
یہ قابل غور ہے کہ 70 سال کی تاریخ میں پاکستان میں پہلی بار کرپشن اور لوٹ مار کی تحقیقات کا آغاز ہوا ہے، جس کی وجہ سے نیب کا ادارہ خود خطرے میں پڑ گیا ہے۔ نیب اس وقت حسین نواز کو انٹرپول کے ذریعے گرفتار کرکے پاکستان لانے کی کوششوں میں ہے، لیکن ناجانے کیوں کچھ لوگ ملک میں ایسے ہیں جن کو نیب کی پھرتیاں کھٹک رہی ہیں۔ آخر کون نیب کو دھکمیاں دے رہا ہے؟ کیا نیب کوئی غلط کام کر رہی ہے؟ کیا پاکستانی عوام کو قومی اثاثوں کا حساب نہیں چاہئیے؟ کوئی بھی شخص جب گھر میں کوئی کام کرواتا ہے تو ایک ایک روپے کا حساب رکھتا ہے۔ کیا پاکستان ہمارا گھر نہیں اور ہمیں پاکستان میں ہونے والا کاموں کو حساب نہیں چاہئیے؟۔ یہ انکشاف انتہائی چونکا دینے والا اور اس اہم ادارے کو لاحق خطرات کی جانب واضح اشارہ ہے۔ اگرچہ یہ واضح نہیں کہ دھمکی کس نے دی؟ یہ کوئی دہشت گرد گروہ تھا یا نیب کے سرگرم تعاقب سے گبھرائے ہوئے قومی ڈاکوئوں میں سے کوئی، جو یقیناً اتنے طاقتور ہیں کہ ایک قومی ادارے اور اس کے کارکنوں کی سلامتی کے لیے مسائل پیدا کر سکیں۔

بہرکیف نیب کے چیئرمین کے خدشات متقاضی ہیں کہ اس قومی ادارے اور اس کے کلیدی عہدیداروں، علاوہ ازیں اس ادارے کے وہ تمام چھوٹے بڑے کارکن جو سنگین بدعنوانی کے مختلف مقدمات پر کام کر رہے ہیں، ان سب کی سکیورٹی فول پروف بنائی جائے۔ قومی احتساب بیورو کی سکیورٹی سے ذرّہ برابر کوتاہی نہیں برتی جانی چاہیے اور یہ ذمہ داری صرف انہی اداروں اور افراد کو سونپی جانی چاہیے جو ہنگامی حالات پر قابو پانے کی پوری پوری صلاحیت کے حامل ہوں۔ قومی احتساب بیورو کے دفاتر اور عدالتوں کے علاوہ الیکشن کمیشن بھی ان قومی اداروں میں شامل ہے جن کے لیے سکیورٹی کے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ اگرچہ ہماری سکیورٹی فورسز کی پُرعزم جدوجہد اور قابلِ ستائش قربانیوں کے نتیجے میں ہم اندرون ملک دہشت گرد عناصر کو منطقی انجام تک پہنچانے میں کامیاب رہے ہیں اور فی الوقت اندرون ملک امن و سلامتی کی صورتحال تسلی بخش ہے، تاہم اس خطے کی صورتحال بالخصوص اور مجموعی عالمی حالات بالعموم نشاندہی کرتے ہیں کہ دفاعی خدشات بدستور موجود ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا آئندہ انتخابات سکیورٹی مسائل کیوجہ سے متاثر یا ملتوی ہوسکتے ہیں۔؟
شاہ محمود قریشی:
آنے والے قومی انتخابات میں اب ایک ماہ سے بھی کم عرصہ باقی رہ گیا ہے، اس لیے قومی دفاع کے معاملات پر از سر نو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ عام انتخابات کے موقع پر اگر خدانخواستہ امن و سلامتی کے مسائل سامنے آئے، تو انتخابات کا شفاف انعقاد متاثر ہو گا، جس کے اثرات بہرحال جمہوریت پر بھی مرتب ہوں گے۔ پچھلے عام انتخابات میں ہم اس کا تجربہ کر چکے ہیں۔ سکیورٹی کے مسائل نے بعض سیاسی جماعتوں کے لیے انتخابات مشکل بنا دئیے تھے۔ کم از کم ان جماعتوں کا موقف یہی رہا ہے۔ مگر اس بار الیکشن کمیشن نے تمام امیدواروں کے لیے سکیورٹی انتطامات کا پیشگی حکم دے کر یہ واضح کر دیا ہے کہ قومی ادارے انتخابات کے بروقت، پُرامن، شفاف، منصفانہ، غیر جانب دارانہ اور دھاندلی سے پاک انعقاد کے لیے کس قدر سنجیدہ ہیں۔ پاک فوج کی جانب سے بھی حکومت اور الیکشن کمیشن کو ہر طرح کے تعاون کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔ ان انتظامات سے امید کی جاتی ہے کہ انتخابات کے موقع پر امن و امان کی صورتحال تسلی بخش رہے گی۔ سکیورٹی کے خصوصی انتظامات میں پولنگ سٹیشن کے علاوہ پولنگ عملے، انتخابی میٹریل اور بعد از پولنگ، تمام مواد کی باحفاظت ترسیل کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ انتخابات کے انعقاد کو جتنا وقت رہ گیا ہے، اس میں ان پہلوؤں پر غور و خوض کیا جائے تو شفاف اور غیر جانبدارانہ اور قابل بھروسہ نتائج والے انتخابات کا انعقاد یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 734108
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش