1
Saturday 30 Jun 2018 23:32

تحریک انصاف اور مجلس وحدت مسلمین کا وقتی نہیں دائمی اتحاد ہے، انکے تحفظات دور کرینگے، فردوس شمیم

تحریک انصاف اور مجلس وحدت مسلمین کا وقتی نہیں دائمی اتحاد ہے، انکے تحفظات دور کرینگے، فردوس شمیم
کراچی سے تعلق رکھنے والے فردوس شمیم نقوی پاکستان تحریک انصاف کراچی کے صدر اور کراچی سے صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی ایس 101 میں پی ٹی آئی کے مضبوط انتخابی امیدوار ہیں، وہ کراچی میں پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کی انتخابی مہم کے بھی انچارج ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے عام انتخابات کے حوالے سے فردوس شمیم نقوی کیساتھ انکی رہائش گاہ پر ایک مختصر نشست کی، اس حوالے سے ان سے کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز: سب سے پہلے یہ بتائیں کہ الیکشن ہوتے نظر آرہے ہیں یا التوا کا شکار بھی ہوسکتے ہیں۔؟
فردوس شمیم نقوی:
میں نہیں سمجھتا کہ الیکشن کے انعقاد کو اب کوئی خطرہ ہے، الیکشن کا انعقاد کوئی سستی ایکسرسائز نہیں ہوتی، الیکشن کے انعقاد میں قومی خزانے کا بھی ایک بڑا حصہ خرچ ہوتا ہے اور اسی طرح الیکشن میں حصہ لینے والوں کا بھی بہت پیسہ خرچ ہوتا ہے۔ خدا نہ کرے کہ کوئی سانحہ ہو جائے، کوئی سیلاب، زلزلہ وغیرہ آجائے، کوئی بڑی شخصیت ٹارگٹ ہو جائے، تو اسکی وجہ سے التوا کا شکار ہوسکتا ہے، یا پھر ٹیکنیکل گراؤنڈ کے حوالے سے کل ایک اخبار کی رپورٹ تھی کہ الیکشن ایکٹ کی کچھ ضروریات ہیں، جو پوری نہیں ہو رہیں، لیکن اس کے لحاظ سے بھی الیکشن فقط چار پانچ دن تاخیر کا شکار ہوگا، اس سے زیادہ نہیں۔

اسلام ٹائمز: الیکشن کے منصفانہ، شفاف، آزادانہ، پُرامن انعقاد کے حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
فردوس شمیم نقوی:
آج تک کسی حکومت نے کہا ہے کہ ہم دھاندلی زدہ الیکشن کرائیں گے، دو تین وجوہات ہیں کہ لوگوں کو اعتماد نہیں آتا، ایک تو لوگ انتخابی مہم کو، پولنگ اسٹیشنز کو دیکھ کر یہ اندازہ لگا رہے ہوتے ہیں کہ ان کا کونسا امیدوار جیتے گا، لیکن جب اس کے برخلاف کوئی نتیجہ آتا ہے تو لوگوں کو اعتراض ہوتا ہے، بعض اوقات امیدواروں کے درمیان بہت سخت مقابلہ ہوتا ہے، حاصل کردہ ووٹوں کا تناسب بہت زیادہ ملتا جلتا ہے، اس میں تین، چار، پانچ فیصد ووٹوں کی دھاندلی بہت زیادہ معنی رکھتی ہے، یہ دھاندلی وہ جماعتیں کراتی ہیں، جو ماضی میں حکومت میں رہی ہیں یا پھر اس میں پولنگ اسٹاف ملوث ہوتا ہے کہ آپ نے پریزائڈنگ افسر کو خرید لیا، ریٹرنگ افسر کو خرید لیا، پاکستان میں جتنی کرپشن ہے، اس کے تناظر میں ہی سب ممکن ہے، اس کی روک تھام کا ایک ہی طریقہ تھا کہ ووٹنگ میں ایکٹرانک ووٹنگ مشینیں استعمال ہوتیں، جو کہ پاکستان میں ابھی تک متعارف نہیں کرائی گئی ہیں، جس طرح دنیا بھر میں الیکشن کے انعقاد کو شفاف بنانے کیلئے جو اقدامات اٹھائے جاتے ہیں، وہ ہمارے یہاں ابھی نہیں اٹھائے جاتے، اس وقت تک الیکشن پر ہمیشہ ہمیشہ سوالیہ نشان لگتا رہے گا، چاہے کوئی بھی جیتے یا کوئی بھی ہارے، لہٰذا پاکستان میں بھی الیکشن کو شفاف بنانے کیلئے ایسے اقدامات اٹھانے چاہیئے کہ خود عوام کہے کہ اب اس میں دھاندلی نہیں ہوسکتی۔ میں آپ کو موجودہ نظام کے اندر دس طریقے بتا سکتا ہوں، جس سے دھاندلی ہوسکتی ہے۔ یہاں تو موجودہ ووٹوں سے زیادہ تعداد میں ووٹ ڈالے جاتے ہیں، چونکہ کوئی چیلنج نہیں کرتا تو حکومت اسے نظرانداز کر جاتی ہے۔

اسلام ٹائمز: گذشتہ دنوں سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن سے قبل ہی سلیکشن ہوچکی ہے، عام انتخابات سے قبل وزیراعظم، وزیراعلٰی پنجاب سمیت 22 لوگوں کے نام پہلے منتخب کئے گئے ہیں، اس حوالے سے انہوں نے بریگیڈیئر عادل کا نام لیا، کیا کہیں گے اس حوالے سے۔؟
فردوس شمیم نقوی:
نگران سیٹ اپ کو چاہیئے کہ صاحبزادہ حامد رضا کو بلائے، ان سے ثبوت مانگے، اگر وہ ثبوت فراہم کرنے میں ناکام ہوتے ہیں، تو انہیں معافی مانگنی چاہیئے یا اگر ان کی بات صحیح ہے تو نگران حکومت کو ان کو بھی ہٹانا چاہیئے، جس کا صاحبزادہ حامد رضا نے نام لیا ہے، اس میں ملوث سیٹ اپ کو بھی ہٹانا چاہیئے۔ نااہل نواز شریف بھی باقاعدہ خلائی مخلوق کا نام لیکر یہ الزام لگا رہے ہیں، نواز شریف کی خلائی مخلوق سے مراد اسٹیبلشمنٹ ہے، اسٹیبلشمنٹ میں خاص طور پر فوج مراد ہے، فوج میں میرے خیال سے نواز شریف آئی ایس آئی کو ٹارگٹ کر رہے ہیں، آئی ایس آئی کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آئی آیس آئی الیکشن میں مداخلت کر رہی ہے، فیصلے وہ کر رہی ہے، جبکہ تین بار وزیراعلظم منتخب ہونے والی شخصیت کو تو یہ بات کہنا زیب ہی نہیں دیتا، کیونکہ انہوں نے اپنے تین ادوار میں ان معاملات کو صحیح کیوں نہیں کیا، اگر ایسی کچھ خرابی تھی تو۔ اب جب ان کے خلاف پاناما کیس میں ثبوت سامنے آگئے، جو کہ آئی ایس آئی نے ثابت نہیں کئے، تو اب وہ فوج کے خلاف ہوگئے، بھئی فوج یا آئی ایس آئی کا پاناما سے کیا تعلق۔ بہرحال صاحبزادہ حامد رضا کے بیان کا نوٹس لینا چاہیئے، کیونکہ اس قسم کے بیانات بعد میں بہت ملک و قوم کیلئے بہت نقصاندہ ثابت ہوتے ہیں، لوگوں کا اعتماد ختم ہو جاتا ہے۔

اسلام ٹائمز: کالعدم تنظیموں کے رہنماؤں کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
فردوس شمیم نقوی:
ایک سیاسی طور پر، ایک لسانی گروپ کے طور پر ایم کیو ایم بنی، انہوں نے انتہاء پسندانہ اقدامات اٹھائے، ملک دشمن اقدامات اٹھائے، جس پر حکومت نے اقدام کئے، ایجنسیوں نے اقدام کئے، الطاف حسین کو ایک طرف لگایا ہوا ہے، دوسری طرف ان کو آپریٹ کرنے کی اجازت دے رہے ہیں، ان میں سے لوگوں نے نام تبدیل کر لئے ہیں، الطاف سے برأت کا اظہار کرچکے ہیں، معاشرے میں وجود رکھتے ہیں، لیکن اگر آپ انہیں مکمل طور پر پیچھے دھکیل دے دیتے، دیوار سے لگا دیتے تو اس کے بعد کراچی میں جو بدامنی اور فساد ہوتا تو مشکلات پیدا ہو جاتیں، لہٰذا پہلے آپ نے بے نقاب کیا کہ دیکھو یہ پاکستان کے خلاف ہیں، کوئی مہاجر، اردو بولنے والا پاکستان مخالف نعرے لگانے کو تیار نہیں ہے، وہ کہنے پر مجبور ہوگیا کہ الطاف حسین غلط ہے، کوئی بھی الطاف کو صحیح نہیں کہتا، اسی طرح مذہبی انتہاء پسند عناصر کو بھی بے نقاب کرنا ہے، معاشرے میں ان کی قبولیت کو کم کرنا ہے، ختم کرنا ہے، جتنی ان کی معاشرے میں قبولیت کم ہوتی جائے گی، اتنے ہی یہ عناصر کم ہوتے جائیں گے، بعض اوقات بعض اقدامات ایسے عناصر کو بے نقاب کرنے کیلئے بھی ہوتے ہیں اور بعض اوقات کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں، جو اپنی قبر خود کھودتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: پاکستان بھر میں تحریک انصاف کن جماعتوں کیساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ اور انتخابی اتحاد کر رہی ہے۔؟
فردوس شمیم نقوی:
ہم اسٹیٹس کو (status quo) کی کسی جماعت کے ساتھ اتحاد نہیں کرینگے، یہ صورتحال ہم الیکشن کے بعد بھی رکھیں گے، الیکشن کے بعد اگر ہمیں کسی جماعت کی ضرورت پڑے گی تو ہم ان جماعتوں سے رابطہ کرینگے جو ہمارے ساتھ ہم آہندگی رکھتی ہیں یا جن کے اور ہمارے خیالات ملتے جلتے ہیں، اور اگر ان سے تعداد پوری نہیں ہوگی تو کسی اور طرف دیکھیں گے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ تحریک انصاف اپنے طور پر حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔

اسلام ٹائمز: مستقبل کی حکومت کو کیسے دیکھتے ہیں، مخلوط یا اتحادی حکومت بنے گی یا کوئی ایک جماعت اکیلے حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائیگی۔؟
فردوس شمیم نقوی:
میں سمجھتا ہوں کہ پچھلے پانچ سالوں میں پاکستانیوں کو ایک تجربہ ہوا ہے کہ چاروں صوبوں میں چار مختلف جماعتوں کی حکومتیں تھیں، قومی یکجہتی نہیں تھی، صوبائیت بڑھ گئی، جو لوگ قومی سوچ رکھتے ہیں، وہ آج بھی یہ سمجھتے ہیں کہ قومی جماعت کو ووٹ دینا چاہیئے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت پاکستان میں ایک ہی قومی جماعت رہ گئی ہے، وہ پاکستان تحریک انصاف ہے، جبکہ پیپلز پارٹی سندھ کی جماعت ہے، نواز لیگ پنجاب کی جماعت ہے۔ خیبر پختونخوا میں ہماری حکومت بنے گی، پنجاب میں بنے گی، سندھ میں اگر ہمیں اکثریت نہ ملی تو ہم کچھ کے ساتھ اتحاد کرینگے یا پھر پیپلز پارٹی کے علاوہ کسی اور کو سپورٹ کرینگے، کیونکہ ہم سمجھتے ہیں پیپلز پارٹی چوروں اور ڈاکوؤں کی جماعت ہے، ملک کو لوٹنے والی پیپلز پارٹی کو جتنا حکومت سے دور رکھا جائے، اتنا ملک و قوم کیلئے بہتر ہے، ان لیڈران کا احتساب ہونا ضروری ہے، ابھی تب ان کا احتساب نہیں ہوا ہے، جبکہ نواز لیگ کے بھی ایک لیڈر کا احتساب ہوا ہے، ابھی تو پورا سلسلہ باقی ہے، پاکستان میں جو جو اقتدار میں رہے ہیں، جنہوں نے بھی مال بنایا ہے، ان سب کا احتساب ہونا ہے۔

اسلام ٹائمز: مجلس وحدت مسلمین کیساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ یا انتخابی اتحاد کے حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
فردوس شمیم نقوی:
میرے لحاظ سے ہم ایم ڈبلیو ایم کے دوستوں کو ایک بات کہتے ہیں کہ آپ کا وجود اہم ضرور ہے، اگر آپ انتخابی سیاست میں نہ آئیں، ایم ڈبلیو ایم کو انتخابی سیاست میں نہیں آنا چاہیئے، آپ کو بنیادی طور پر شیعہ مسائل کے اوپر بطور ایک پریشر گروپ بننا چاہیئے اور اس کے ذریعے آپ ہر جماعت کو مجبور کریں کہ شیعہ حضرات آبادی کا تقریباً پچیس فیصد ہیں، آپ کو پچیس فیصد یا اس سے زیادہ شیعہ افراد کو میرٹ پر ٹکٹ دینا چاہیئے، ہر جماعت کو، جب تمام جماعتوں میں شیعہ نمائندگان ہونگے تو وہاں سے وہ شیعہ مسائل کے حل کیلئے کام کرینگے، لیکن ایک فقہ کی جماعت بن کر آپ کبھی بھی پاکستانی سیاست میں کامیاب نہیں ہوسکتے، فردوس شمیم نقوی پاکستانی ہے، شیعہ بھی ہے، لیکن فردوس شمیم نقوی اپنی سوچ پاکستانی رکھتا ہے۔

اسلام ٹائمز: بہرحال مجلس وحدت مسلمین انتخابی سیاست میں وارد ہے، تحریک انصاف کیساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ یا انتخابی اتحاد بھی تقریباً ہوچکا ہے، اب مزید آگے کے کیسے دیکھتے ہیں۔؟
فردوس شمیم نقوی:
ہم نے ایم ڈبلیو ایم کے ساتھ جو معاملات کئے ہیں، وہ اسی بنیاد پر کئے ہیں کہ ہم نہیں چاہتے کہ وہ تنہا ہو، ہم چاہتے ہیں کہ ایم ڈبلیو ایم قومی دھارے کی سوچ میں آئے، ہم امید رکھتے ہیں تحریک انصاف اور ایم ڈبلیو ایم کا یہ اتحاد وقتی نہیں ہے بلکہ دائمی اتحاد ہے، اب جب یہ دائمی اتحاد ہے تو ان کے جو بھی تحفظات ہیں، وہ دور کئے جائیں گے۔
خبر کا کوڈ : 734770
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش