0
Saturday 7 Jul 2018 19:57
داعش امریکہ کی پیداوار ہے

صوبائی اور وفاقی حکومت کی تشکیل میں اسٹیبلشمنٹ کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے، مفتی سید جانان

جو قوتیں نواز شریف اور انکے خاندان کو سیاست میں آگے لائیں تھیں آج انہوں نے ہی انہیں دیوار کیساتھ لگا دیا
صوبائی اور وفاقی حکومت کی تشکیل میں اسٹیبلشمنٹ کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے، مفتی سید جانان
مفتی سید جانان سید انور کے بیٹے ہیں، انکا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع ہنگو سے ہے۔ مفتی سید جانان کا شمار جمیعت علماء اسلام (ف) کے نظریاتی کارکنوں میں ہوتا ہے۔ وہ 2013ء سے 2018ء تک خیبر پختونخوا اسمبلی کا حصہ رہے۔ 2013ء میں الیکشن کمپین کے دوران انکی ریلی میں خودکش بم دھماکہ بھی کیا گیا، جس میں یہ معجزانہ طور پر بچ گئے اور معمولی زخمی ہوئے جبکہ دیگر 18 کے قریب افراد جاں بحق اور 40 زخمی ہوئے، جن میں 11 بچے بھی شامل تھے۔ اسلام ٹائمز کے نمائندے نے ان سے ملکی موجودہ سیاسی صورتحال اور دیگر مسائل پر خصوصی گفتگو کی، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: نواز شریف کیخلاف احتساب عدالت نے جو فیصلہ دیا ہے اس پر آپکا کیا موقف ہے۔؟
مفتی سید جانان:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم! دیکھیں نواز شریف کے خلاف کرپشن کے کوئی بھی واضح ثبوت نیب کو نہیں ملے، جان بوجھ کر نواز شریف کو دیوار کے ساتھ لگایا جا رہا ہے، پہلے اسے نااہل کیا گیا اور اب اس کے بعد قید کی سزا سنائی گی۔ عدالت نے جو فیصلہ دیا وہ پہلے سے سب پر واضح تھا کہ کیا فیصلہ آنے والا ہے، اس میں زیادہ حیران ہونے والی بات نہیں، جو قوتیں نواز شریف اور اس کے خاندان کو سیاست میں آگے لائیں تھی، آج انہوں نے اسے دیوار کے ساتھ لگا دیا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں یہ فیصلہ بہت پہلے آجانا چاہیئے تھا، پہلے کیوں آ جانا چاہیئے تھا، اس کی بھی ایک وجہ ہے، کیونکہ عین الیکشن کے دنوں میں جب نواز شریف اور اس کی بیٹی کو قید کی سزا سنائی گئی تو لوگوں کے دلوں میں نواز شریف کیلئے ہمدردی بڑھی ہے، اس سے وہ اور بھی زیادہ مظلوم لگنے لگے۔ پاکستان کی عوام کی یہ کمزوری ہے کہ وہ مظلوم کا ساتھ دیتی ہے۔

اگر آپ تاریخ میں دیکھیں کہ جب بینظیر بھٹو کو قتل کیا گیا تو اس کی ہمدردی میں پیپلز پارٹی کو ووٹ ملا، اس بنیاد پر کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، لوگوں نے ہمدردی دکھائی، کچھ اسی طرح کی صورتحال نواز شریف کے ساتھ بھی ہے، ایک طرح سے ان کو بھی سیاسی شہید کیا گیا ہے۔ میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اسی وجہ سے عوام مسلم لیگ (ن) کو اور زیادہ سپورٹ کریگی۔ معذرت کے ساتھ عدلیہ کا جو رویہ ہے، وہ یکطرفہ ہے، کیا حکومت میں رہتے ہوئے صرف اور صرف نواز شریف نے کرپشن کی ہے؟ نواز شریف سے زیادہ اور بھی بڑے بڑے ڈاکو، چور اور لٹیرے اب بھی بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیئے، نہ کہ صرف ایک فرد کو نشانہ بنا کر اس سے انتقام لیا جائے۔ نیب کے پاس ان افراد کے ناموں کی لمبی چوڑی لسٹیں موجود ہیں، ابھی تک ان پر کسی نے ہاتھ نہیں ڈالا، اداروں کو چاہیئے کہ ان افراد کے خلاف بھی کارروائی کریں اور سزا دیں جس کے وہ مستحق ہیں۔

اسلام ٹائمز: ایم ایم اے پر تنقید کی جا رہی ہے انہوں نے اسلام کی خاطر نہیں بلکہ اسلام آباد کی خاطر یہ اتحاد تشکیل دیا، کیا اس بار عوام مذہب کے نام پر سپورٹ کریگی۔؟
مفتی سید جانان:
جو لوگ اس طرح کی بیہودہ باتیں کرتے ہیں، وہ ایم ایم اے کی مقبولیت سے خوف کھا رہے ہیں، جن جماعتوں کا کام صرف اور صرف یہودی اور عیسائی ممالک کی خوشنودی ہو، ان سے اس طرح کی بات کی ہی توقع کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے خود اسلام کیلئے کوئی کام نہیں کیا اور اب چاہتے ہیں کہ کسی اور کو بھی اسلامی قانون نافذ نہ کرنے دیا جائے، پاکستان دنیا میں ایک اسلامی ریاست کے طور پر وجود میں آیا تھا، لیکن یہاں پر قبضہ صرف اور صرف مخالف طاقتیں کرکے بیٹھی ہیں، الحمدللہ عوام جانتی ہے کہ ایم ایم اے کس مقصد کیلئے تشکیل دی گئی اور اس کے مقاصد کیا ہیں، ایم ایم اے کا منشور کیا ہے اور ایم ایم اے کی ترجیح کیا ہے۔ ہمیں کسی کو وضاحت دینے کی ضرورت نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: متحدہ مجلس عمل نے سوات میں شہباز شریف کو سپورٹ کرنے کیلئے اپنا امیدوار دستبردار کر دیا، شہباز شریف کو سپورٹ کرنیکی کوئی خاص وجہ تھی۔؟
مفتی سید جانان:
شہباز شریف کو سپورٹ کرنے کا فیصلہ قیادت کا تھا، قیادت اسوقت دیکھ رہی ہے کہ کس کے ساتھ کہاں اور کس طرح سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنی ہے۔ کسے کہاں کھڑا کرنا ہے، کسے کہاں بٹھانا ہے، یہ سب قیادت کے ذمہ ہے۔ شہباز شریف کو سپورٹ کرنے کی وجہ جہاں تک مجھے سمجھ آئی ہے، وہ یہ ہے کہ شہباز شریف سوات سے پہلی بار الیکشن لڑ رہے ہیں، وہاں پر ان کو عوامی سپورٹ بھی بہت زیادہ ہے، کیونکہ وہاں کے لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ سوات کی حالت کو بدلیں گے، ان کے مقابلے میں سوات کے اندر ایم ایم اے کا جو امیدوار تھا، شہباز شریف یا پی ٹی آئی کے امیدوار کے مقابلے میں اس کا بھی اچھا خاصا ووٹ بینک تھا، اگر شہباز شریف اور ایم ایم اے کا جو امیدوار تھا، وہ الگ الگ لڑتے تو اس سے دونوں کا ووٹ تقسیم ہوتا اور یہودی پارٹی کے امیدوار کے جیتنے کے چانسز ہوتے، لیکن اب جیسے ہی ہمارے امیدوار نے شہباز شریف کے حق میں دستبرداری کی ہے، یہودی خان اور اس کی پارٹی کی نیند حرام ہوگئی ہے۔

اسلام ٹائمز: جسطرح باقی تمام پارٹیاں اپنی انتخابی مہم زور و شور سے چلا رہی ہیں، اسکے مقابلے میں ایم ایم اے کچھ ڈھیلی ڈھیلی نظر آرہی ہے، اسکی کیا وجہ ہے۔؟
مفتی سید جانان:
اس کی وجوہات اگر شروع سے دیکھیں تو اس میں یہ ہے کہ ایم ایم اے کی تشکیل دیر سے ہوئی، پھر صوبائی تنظیمی سیٹ اپ تشکیل دیا گیا اور اس کے بعد ضلعی سطح پر بھی اسی طرح کے ڈھانچے کھڑے کئے گئے، اس تمام تنظیمی ڈھانچے کے مکمل ہونے کے بعد امیدواروں کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا گیا، امیدواروں کو ہر طرح سے پرکھا گیا کہ کون سا امیدوار اس قابل ہے کہ اسے ایم ایم اے کا ٹکٹ جاری کیا جائے اور جیت یقینی بنائے۔ ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے بھی مشکلات درپیش تھیں، کیوںکہ ایم ایم اے میں مختلف مذہبی جماعتیں شامل ہیں تو ہر کسی کی کوشش رہی کہ زیادہ ٹکٹس ان کی جماعت کے امیدواروں کو جاری ہوں، تو ایک یہ پہلو بھی رہا کہ انتخابات کی تیاری میں تھوڑی دیر ہوگئی، لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انتخابی میدان میں ہم پیچھے رہ گئے، الحمدللہ ہم مقابلہ کرنے کی پوری اہلیت رکھتے ہیں۔

ابھی کچھ ہی دن پہلے میرا رابطہ ہوا اپنے قائد مولانا فضل الرحمٰن سے ہوا، انہوں نے کہا کہ انتخابی مہم الیکشن سے کچھ روز قبل بھرپور طریقے سے چلائیں گے، ہر شہر اور ہر دیہات میں جلسے بھی منعقد کریں گے، اس کے علاوہ فی الحال کارنر میٹنگز کا سلسلہ جاری ہے، لیکن بڑے جلسے الیکشن سے کچھ دن قبل دیکھنے کو ملیں گے۔ ایم ایم اے ایک مضبوط جماعت ہے، ہمیں کسی بھی طرح کا خوف نہیں ہے کہ فلاں جلسے کر رہا ہے تو ہم بھی کریں، ہمارا اپنا ووٹ بنک ہے، الحمدللہ ایم ایم اے نے 2002ء میں بھی صوبے میں اپنی حکومت بنائی تھی اور اس بار ہمیں پورا یقین ہے کہ خیبر پختونخوا میں حکومت ایم ایم اے کی ہوگی اور یہودیوں کے فرضی اسلام کے مقابلے میں حقیقی اسلام نافذ ہوگا۔

اسلام ٹائمز: کچھ جماعتیں الزام لگا رہی ہیں کہ نگران حکومت اور عدلیہ کسی خاص جماعت کیلئے راہ ہموار کر رہی ہے، اس حوالے سے آپکی جماعت کا کیا موقف ہے۔؟
مفتی سید جانان:
دیکھیں نگران حکومت ہو، عدلیہ ہو، یا الیکشن کمیشن، اس بار ان کا جھکاؤ واقعی ایک ہی پارٹی کی جانب زیادہ ہے، ان کی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح سے اپنی پسندیدہ جماعت کو اقتدار کی کرسی پر بٹھایا جائے، معذرت کے ساتھ صرف اس بار ہی نہیں بلکہ پاکستان کی تاریخ میں جب بھی الیکشن ہوئے اسی طرح کا رویہ اختیار کیا گیا، کسے آگے لانا ہے، کسے پیچھے کرنا ہے، کسے کون سی حکومت دینی ہے، صوبائی حکومت کی تشکیل ہو یا وفاقی حکومت کی اس میں اسٹیبلشمنٹ کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔ اگر پاکستان کو ترقی کی طرف بڑھانا ہے تو اس کیلئے عوامی رائے کو عزت دینی ہوگی، عوام کے منتخب کردہ امیدواروں کو کام کرنے دینا ہوگا، اگر ان کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی جائیں اور عوامی رائے کا احترام نہ کیا جائے، عوامی فیصلہ کو عزت نہ دی جائے تو پھر ملک وہیں کا وہیں رہے گا، آگے بڑھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

ہمیشہ سے پاکستان کے ووٹنگ سسٹم پر اور الیکشن کمیشن کے کردار انگلیاں اٹھتی رہی ہیں، جو جماعت ہارتی ہے وہ کہتی ہے کہ دھاندلی ہوئی، ہم بھی ایک بڑی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں اور سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ کون کسے سپورٹ کر رہا ہے اور کس طرح سے سپورٹ کر رہا ہے، ہم نے ہمیشہ کرپشن، ووٹوں کی ہیرا پھیری اور اس جیسے دیگر مسائل کے خلاف آواز بلند کی ہے، اگر اداروں کا عمل دخل انتخابات میں ہو تو پھر الیکشن کروانے کا کیا فائدہ؟ جسے مرضی ہو کرسی دے دو، یہاں پھر جمہوریت تو نہ ہوئی۔ اس لئے میری گزارش ہے تمام اداروں سے اور بالخصوص الیکشن کمیشن سے کہ اپنا کردار مشکوک نہ بنائیں، کسی ایک پارٹی کو سپورٹ نہ کریں، اپنے آپ کو ہر مسئلے سے غیر جانبدار رکھیں جو عوامی رائے کے خلاف ہو۔

اسلام ٹائمز: افغانستان میں داعش کے بڑھتے ہوئے فتنے کے بارے میں کیا کہیں گے۔؟
مفتی سید جانان:
داعش کا مسئلہ تمام اسلامی ممالک کا مسئلہ ہے، داعش Made by America ہے، ساری دنیا اس بارے میں جانتی ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے مل کر داعش کو پروان چڑھایا، تاکہ اس سے اسلامی ممالک میں تباہی پھیلائی جا سکے اور اسلامی ممالک کو دہشتگرد قرار دلوایا جا سکے، سب سے پہلے امریکہ سے روس کے خلاف طالبان کھڑے کئے، افغانستان سے لوگوں کو یہاں پاکستان میں جمع کیا گیا، ان کو تربیت دی گئی، یہاں پاکستانی قبائلیوں کو پرائی جنگ کا حصہ بنایا گیا، حتٰی یہاں تک کہ طالبان سکولوں میں آکر بچے لے جاتے تھے اور ان کو زبردستی اپنی تنظیم میں شامل کرتے تھے، اس سب کیوجہ سے بھی پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی ہوئی اور مسلم ممالک کی بھی بدنامی ہوئی کہ مسلمان سبھی دہشتگرد ہیں۔ اب داعش طالبان کے مقابلے میں کئی گناہ زیادہ طاقتور ہے، طالبان اور داعش کے اختلافات بڑے واضح ہیں، افغانستان کے اندر آپ دیکھیں تو داعش جن علاقوں میں ہے، وہاں طالبان موجود نہیں ہیں، جہاں طالبان ہیں، وہاں داعش نہیں ہے۔

امریکہ نے پورا زور لگا دیا اور کافی عرصے سے افغانستان میں اپنے اربوں ڈالر خرچ کئے، اپنا بہت بڑا سرمایہ ضائع کیا، اب امریکہ اگر یہاں سے خالی ہاتھ نکلتا ہے تو اس کیلئے باعث شرمندگی ہے کہ خالی ہاتھ کیسے نکلے، پوری دنیا اس پر تھوکے گی کہ خود کو سُپر پاور کہنے والا ملک یہاں اتنا عرصہ رہنے کے باوجود خالی ہاتھ لوٹا ہے، اب جبکہ امریکہ نے دیکھ لیا ہے کہ وہ یہاں اپنے مفادات کو حاصل کرنے میں بری طرح سے ناکام ہو رہا ہے تو اس نے یہاں داعش کی فیکٹریاں لگانا شروع کر دیں، افغانستان کو ایک اور طرح سے تباہ و برباد کرنے کی سازش تیار کرلی ہے۔ داعش کے مسئلے سے جان چھڑا کر افغانستان کیلئے بہت مشکل نظر آرہا ہے اور اس کے اثرات براہ راست پاکستان پر پڑیں گے، جو پاکستان کیلئے کسی مصیبت سے کم نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: شام کے مسئلے پر آپکی جماعت بہت پیش پیش رہی، مظاہرے بھی کئے، لیکن کشمیر اور فلسطین کے مسئلے پر کچھ خاص توجہ نہیں دی گئی، اسکی کیا وجہ ہے۔؟
مفتی سید جانان:
نہیں نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے، شام کا مسئلہ ہو یا فلسطین یا کشمیر کا ہر سطح پر جمیعت علماء اسلام نے آواز بلند کی ہے، وقت کے ظالموں کی نفی کی ہے اور مظلوموں کی حمایت کی ہے۔ ہمارے نزدیک تمام مسائل ایک جیسے ہیں، چاہے وہ شام کا مسئلہ ہو، کشمیر کا ہو یا فلسطین کا، ہمارے لئے سب برابر ہیں، تینوں جگہیں ہماری اپنی ہیں، ہمارا دل دکھتا ہے، بلکہ ہر مسلمان کا عالم اسلام کی اس حالت پر دل دکھتا ہے، ایسا ہرگز نہیں ہے کہ ہم کسی خاص ملک کے مسئلے پر توجہ دیتے ہیں اور باقیوں کو نظر انداز کرتے ہیں، نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے۔
خبر کا کوڈ : 736220
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش