0
Friday 13 Jul 2018 16:33
کشمیر میں غیر یقینی سیاسی صورتحال کی کیفیت برقرار ہے

مسئلہ کشمیر حل نہیں کیا گیا تو یہ عالمی جنگ کا باعث بن سکتا ہے، ایڈووکیٹ طارق حمید قرہ

مسئلہ کشمیر کا حل دونوں ممالک کے حق میں ہے
مسئلہ کشمیر حل نہیں کیا گیا تو یہ عالمی جنگ کا باعث بن سکتا ہے، ایڈووکیٹ طارق حمید قرہ
طارق حمید قرہ کا تعلق مقبوضہ کشمیر کے شہر خاص سرینگر سے ہے۔ ایڈووکیٹ طارق حمید قرہ بھارتی پارلیمنٹ کے ممبر بھی رہ چکے ہیں۔ طویل مدت تک جموں و کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی سے وابستہ رہے، گذشتہ سال پارٹی کے بھاجپا کیساتھ سیاسی اتحاد کیوجہ سے ناراض ہوکر کانگریس میں شامل ہوگئے۔ وہ پہلی بار 2002ء میں مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ 2005ء سے 2008ء تک مذکورہ اسمبلی میں ہی وزیر مالیات، وزیر قانون، وزیر ماحولیات اور وزیر سیاحت وغیرہ پر فائز رہے۔ 2016ء میں Standing Committee on Water Resources کے ممبر رہے۔ اسلام ٹائمز کے نمائندے نے طارق حمید قرہ سے ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: کشمیر کے حوالے سے بھارتیہ جنتا پارٹی کی پالیسی کیا رہی ہے اور مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے بھاجپا کو کیا رول نبھانا چاہیئے۔؟
طارق حمید قرہ:
ہمارا بی جے پی کو مشورہ یہ ہے کہ وہ کشمیر کو ووٹ حاصل کرنے کی مشین بنانا چھوڑ دے۔ حالات کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بی جے پی کشمیر میں آئندہ برس ہونے والے پارلیمانی انتخابات سے دھماکہ خیز صورتحال پیدا کرنے کے درپے ہے، اس طرح کا عمل بھارت کے قومی مفادات کے برعکس ہے۔ میں سول سوسائٹی گروپوں اور دانشوروں کو سلام پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے مودی کی سربراہی والی حکومت کو کشمیر پالیسی کا جائزہ لینے کی بار بار صلاح دی ہے۔ صرف میں ہی نہیں بلکہ بی جے پی کے اپنے لوگ بھی جموں کشمیر میں بحالی امن کے لئے مذاکراتی عمل کی ضرورت پر بات کرتے ہیں۔ ہمارا بھاجپا حکومت کو مشورہ ہے کہ وہ پاکستان سے مذاکرات کرے اور اگر بھاجپا کو یہ لگ رہا ہے کہ مذاکراتی عمل اور دہشتگردی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتی، تو جنگ کرنے سے انہیں کون سی طاقت روک رہی ہے۔ مجھے لگ رہا ہے کہ بات چیت واحد راستہ ہے اور قومی مفاد میں فوری طور پر بات چیت کا سلسلہ شروع کیا جائے۔
 
اسلام ٹائمز: مقبوضہ کشمیر کو حاصل خصوصی درج ’’دفعہ 35 اے‘‘ کے خاتمے کی سازشوں کے بارے میں کیا کہنا چاہیں گے۔؟
طارق حمید قرہ:
جی بالکل ’’آرٹیکل 35 اے‘‘ کو ختم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اس آئینی شق کو ختم کرنے سے جموں و کشمیر کے تمام حقوق بھی ختم ہو جائیں گے۔ آئینی شق 35 اے کے تحت جموں و کشمیر کو الگ ایک منفرد پہچان اور مقام حاصل ہے، لیکن اس شق کو ختم کرنے سے نہ صرف جموں و کشمیر میں اسٹیٹ سبجیکٹ سرٹیفکیٹ کے حقوق سلب ہوں گے بلکہ جموں و کشمیر کی اپنی شناخت بھی ختم ہو جائے گی۔ جب میں پی ڈی پی کے ساتھ وابستہ تھا تو میں نے پارٹی لیڈرشپ کو ان تمام خدشات سے آگاہ کیا تھا کہ بھاجپا کے ساتھ اتحاد کرنے سے مقبوضہ کشمیر کو سنگین خمیازہ بھگتنا پڑسکتا ہے، لیکن پی ڈی پی اُس وقت اقتدار کے مزے لوٹنے میں مصروف تھی۔

اسلام ٹائمز: کیا پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے بھاجپا کیساتھ حکومتی اتحاد کر کے عوامی مینڈیٹ کیساتھ دھوکہ دہی کا کام انجام نہیں دیا۔؟
طارق حمید قرہ:
بالکل اس بات میں کوئی شک نہیں ہے۔ یہ حکومتی و سیاسی اتحاد عوام کے ساتھ ایک کھلا دھوکہ تھا۔ یعنی عوامی مفادات کو پی ڈی پی نے یکسر مسترد کیا تھا اور بھاجپا کے سامنے ہر ایک معاملے پر سرنڈر کیا تھا۔ پی ڈی پی و بھاجپا کے درمیان جموں و کشمیر کی خصوصی پوزیشن کو ختم کرنے کے لئے ایک خفیہ سازشی اتحاد بھی ہوا تھا۔ یہ ایک قانون ہے کہ جو کسی کو دھوکہ دیتا ہے، اسے دھوکہ ملتا ہے۔ بھاجپا نے پی ڈی پی کا ساتھ چھوڑ کر اسے سبق سکھایا، ایسا ہونا ہی تھا۔ اب پی ڈی پی کھوکھلے نعرے لگا کر اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنا چاہتی ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ مسئلہ کشمیر کا دائمی حل کس چیز میں مضمر سمجھتے ہیں۔؟
طارق حمید قرہ:
دیکھیئے مسئلہ کشمیر حل نہیں کیا گیا تو یہ عالمی جنگ کا باعث بن سکتا ہے، اس لئے ضروری ہے کہ امن کے قیام کے لئے کوششیں کی جائیں۔ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ امن کے قیام کے لئے یکجا ہوکر کوشش کی جائے۔ مجھے دکھ پہنچتا ہے، جب میں کشمیری عوام کو تکلیف میں مبتلا دیکھتا ہوں۔ مسئلہ کشمیر ایک مسلمہ حقیقت ہے، جس کو سب نے تسلیم کیا ہے۔ مسئلہ کشمیر ایک مسئلہ ہے، جس کا حل دونوں ممالک کے حق میں ہے۔ جتنا یہ مسئلہ تعطل کا شکار ہوگا، اتنا ہی مسائل کی تعداد بڑھ جائے گی۔ ترقی کے میدان میں اقتصادی طور پر ہماری ریاست پچاس سال پیچھے ہے، جس کو طاقت کے بل پر دبایا نہیں جا سکتا ہے۔ کشمیری لوگ ستر سال سے مار کھا رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: اب جبکہ بھاجپا و پی ڈی پی و سیاسی اتحاد ٹوٹ گیا اور کشمیر میں گورنر راج نافذ کر دیا گیا ہے، کشمیر کی صورتحال کیا ہے۔؟
طارق احمد قرہ:
گورنر راج کے بعد کشمیر میں غیر یقینی سیاسی صورتحال کی کیفیت برقرار ہے۔ کشمیر میں ممکنہ طور نئی حکومت کے حوالہ سے قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہے۔ کشمیر میں سیاسی سرگرمی بڑھتی نظر آرہی ہے۔ جہاں محبوبہ مفتی سے ناراض پی ڈی پی کے کچھ باغی ممبران بی جے پی میں شامل ہونے کی خبریں گشت کر رہی ہیں، وہیں ایک نئی سیاسی پارٹی کے معرض وجود میں آنے کے آثار بھی نظر آرہے ہیں۔ پارٹی کے کئی ایسے لیڈروں نے نئے راستے تلاش کرنا شروع کر دیئے ہیں کہ جن کا پارٹی کے ساتھ اقتدار کا واحد رشتہ تھا۔ ایسے میں کل کیا ہوگا، کشمیر اور کشمیریوں کے لئے اہمیت کا حامل ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 737537
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش