0
Saturday 14 Jul 2018 11:19
پنجاب کیطرح گلگت بلتستان میں بھی تحریک انصاف سے اتحاد ہوسکتا ہے

گلگت بلتستان میں نیشنل ایکشن پلان کا استحصال ہو رہا ہے، حاجی رضوان

آئینی حیثیت کے معاملے پر متفقہ بیانیے کی تشکیل ابتدائی مرحلے میں ہے، ابھی منزل دور ہے
گلگت بلتستان میں نیشنل ایکشن پلان کا استحصال ہو رہا ہے، حاجی رضوان
حاجی رضوان مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے رہنما اور رکن قانون ساز اسمبلی ہیں، انکا تعلق نگر سے ہے، حاجی رضوان سیاست میں آنے سے پہلے مختلف نجی اور حکومتی اداروں میں اہم عہدے پر تعینات رہے۔ 2015ء کے عام انتخابات سے چند ماہ پہلے تک وہ فیملی پلاننگ آف گلگت بلتستان کے پروگرام منیجر کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے، بعد میں ایم ڈبلیو ایم کے پلیٹ فارم سے اپنی سیاست کا آغاز کیا اور عام انتخابات میں نگر سے بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے، اسلام ٹائمز نے حاجی رضوان سے گلگت بلتستان کے اہم امور خصوصاً سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنماﺅں، کارکنوں کا نام فورتھ شیڈول میں ڈالنے کے بعد پیدا ہونیوالی صورتحال پر خصوصی گفتگو کی ہے، جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)
 
اسلام ٹائمز: آل پارٹیز کانفرنس میں مشترکہ بیانیے کی تشکیل پر اتفاق ہوا، یہ بیانیہ کیا ہوسکتاہے۔؟
حاجی رضوان: دیکھیں بیانیہ تو ابھی طے نہیں ہوا لیکن یہ بات طے ہوگئی ہے کہ گلگت بلتستان کے جتنے باشندے ہیں، جتنی پارٹیاں ہیں، ہم سب مل کر مجموعی مفادات اور مجموعی بیانیے پر متفق ہو جائیں گے، ابھی مزید پراسیس ہونا ہے، ابھی منزل دور ہے۔ اے پی سی میں چار آپشنز پر غور کیا گیا۔ پہلا آپشن یہ ہے کہ گلگت بلتستان کی اکثریتی رائے پانچواں آئینی صوبہ کے حق میں ہے، مطلب وفاق گلگت بلتستان کو پانچواں آئینی صوبہ بنائے، جس طرح ملک کے دیگر صوبے ہیں، گلگت بلتستان کے عوام کی اکثریت بھی پانچویں آئینی صوبے کے حق میں ہے۔ دوسرا آپشن یہ ہے اگر پانچواں آئین صوبہ بنانے کی راہ میں کوئی آئینی، قانونی رکاوٹ ہے، مسئلہ کشمیر کے تناظر میں اقوام متحدہ کی قرارداد کا معاملہ رکاوٹ ہے تو اس صورت میں آزاد کشمیر طرز کا سیٹ اپ دیا جائے۔ اس صورت میں اقوام متحدہ کی قراردادوں پر بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا اور کوئی آئینی یا قانونی رکاوٹ بھی سامنے نہیں آئیگی۔
 
تیسرا آپشن یہ ہے کہ ان دونوں آپشنز سے بہتر مقبوضہ کشمیر کا سیٹ اپ ہے، جس طرح ہندوستان نے اپنے آئین کے آرٹیکل 370 میں ترمیم کرکے جو بااختیار سیٹ اپ مقبوضہ کشمیر کو دیا ہوا ہے، اسی طرح پاکستان بھی اپنے آئین میں ترمیم کرکے مقبوضہ کشمیر طرز کا سیٹ اپ گلگت بلتستان کو دے، اس سیٹ اپ میں گلگت بلتستان کی اپنی آئین ساز اسمبلی ہو، ہمیں قانون ساز اسمبلی نہیں چاہیے، آئین ساز اسمبلی دی جائے۔ اے پی سی میں چوتھا آپشن یہ بھی زیر غور آیا کہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی اکائی الگ الگ ہو، لیکن کونسل مشترکہ ہو۔ اس آپشن کے تحت گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کا اپنا اپنا سیٹ اپ ہوگا، لیکن کونسل مشترکہ ہوگی اور کونسل میں دونوں کی برابر نمائندگی ہو، اس آپشن کے تحت گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں دوریوں کا خاتمہ ہوگا، قربتیں بڑھیں گی۔
 
لیکن گلگت بلتستان کے عوام اور سیاسی و مذہبی پارٹیوں کی اکثریتی رائے پہلے اور دوسرے آپشن کے حق میں ہے، چونکہ گلگت بلتستان کے عوام نے اپنے زور بازو پر آزادی حاصل کی ہے اور 16 دن تک ایک الگ ریاست بھی رہ چکا ہے، لیکن اسلامی نظریہ اور کلمہ لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر پاکستان کے ساتھ الحاق کیا ہے، اس لئے گلگت بلتستان کو ملک کا پانچواں آئینی صوبہ بنایا جائے، اگر یہ ممکن نہیں ہے تو آزاد کشمیر طرز کا سیٹ اپ دیا جائے۔ غالباً پہلا مطالبہ برقرار ہے، لیکن حکومت پاکستان کی آسانی کیلئے کشمیر طرز کے سیٹ اپ کا مطالبہ کیا گیا ہے، چونکہ مختلف پارٹیوں کی آراء مختلف ضرور ہے، لیکن خطے کو زیادہ سے زیادہ حقوق دینے کیلئے مقبوضہ کشمیر طرز کے سیٹ اپ پر بھی غور کیا جاسکتا ہے، تاہم عوام کی اکثریت پانچویں آئینی صوبے کے حق میں ہے۔
 
اسلام ٹائمز: اے پی سی میں بعض وفاقی پارٹیوں نے شرکت نہیں کی، آخر کیوں۔؟
حاجی رضوان: چونکہ یہ کانفرنس عوامی ایکشن کمیٹی نے بلائی تھی، اس لئے جو وفاقی پارٹیاں ہیں، ان کے نزدیک عوامی ایکشن کمیٹی کی حیثیت کم تر ہے، وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کی پارٹی وفاق اور صوبوں میں موجود ہیں تو کوئی بھی اے پی سی بلانے کا زیادہ حق ان کو ہے، یہاں تھوڑا انا کا مسئلہ آڑے آیا ہے، چھوٹے بھائی کی دعوت دی ہے تو بڑے بھائی کو قبول کرنی چاہیے، ایسی کوئی بات نہیں تھی، ان کو شامل ہونا چاہیے تھا، چاہے اے پی سی کوئی بھی بلائے۔ لیکن یہاں ایک بات طے ہے کہ آئینی حیثیت کے معاملے پر باقی پارٹیاں بھی اتفاق رائے رکھتی ہیں۔ جہاں تک مسلم لیگ نون کا تعلق ہے، وہ اس وقت گلگت بلتستان میں رولنگ پارٹی ہے، انہوں نے کانفرنس میں متوقع مشکل ماحول کے پیش نظر شرکت نہیں کی۔
 
اسلام ٹائمز: آغا سید علی رضوی کو فورتھ شیڈول میں شامل کرنیکے معاملے کو پارٹی کیسے دیکھ رہی ہے، کیا لائحہ عمل ہوگا۔؟
حاجی رضوان: شیڈول فورتھ نیشنل ایکشن پلان کا ایک اہم جزو ہے، ایکشن پلان کا مقصد قومی سلامتی اور پاکستان کی بقاء ہے، لیکن گلگت بلتستان میں مجھے جو لگ رہا ہے کہ شیڈول فورتھ کو سیاسی بنیادوں پر استعمال کیا جا رہا ہے، اگر کسی بھی پارٹی کے فرد یا عہدیدار نے ریاست کیخلاف بات کی ہو، وفاق پاکستان، آئین پاکستان کیخلاف کوئی تقریر کی ہو، ملک کی سالمیت و بقاء کیخلاف کوئی عمل کیا ہو تو ان کیخلاف بلا امتیاز کارروائی ہونی چاہے، یہ ہمارا موقف ہے اور یہ بالکل واضح ہے، لیکن ایک بات میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اگر کسی نے کسی بھی ادارے کے فرد یا پالیسی سے اختلاف کیا ہو اور وہ اختلاف رائے رکھتا ہو تو یہ ان کا جمہوری، آئینی اور قانونی حق ہے، کسی فرد یا پالیسی کے کسی جزو سے اختلاف کا حق ملک کا آئین دیتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ گلگت بلتستان میں نیشنل ایکشن پلان کا استحصال ہو رہا ہے، ہمیں لگ رہا ہے کہ فورتھ شیڈول کا استعمال سیاسی بنیادوں پر ہو رہا ہے، اس لئے ضروری ہے کہ اپیکس کمیٹی اس معاملے پر فوری اور سنجیدگی سے غور کرے، کیونکہ فورتھ شیڈول کے سیاسی استعمال سے جو لاوا اس وقت پک رہا ہے، اس کی دوگنی قیمت چکانا پڑسکتی ہے۔
 
اس وقت شیڈول فورتھ میں تمام مکاتب فکر کے افراد اور شخصیات کو شامل کیا گیا ہے، میں نے پہلے ہی کہا کہ اگر کسی نے ملک کی سالمیت اور آئین پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے تو ان کیخلاف ضرور کارروائی ہونی چاہیے، لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو ہم اس شیڈول کو مسترد کرتے ہیں اور شدید مذمت کرتے ہیں۔ سید علی رضوی کے معاملے کو ہم دیکھ رہے ہیں، ہم جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کن دفعات کی بنیاد پر ان کو شیڈول فورتھ میں شامل کیا گیا اور کن وجوہات کی بنیاد پر ثابت کرنا ہوگا کہ سید علی رضوی اور دیگر افراد نے کونسی تقریر کی ہے یا کونسا عمل کیا ہے کہ جس کی بنیاد پر انہیں شیڈول فورتھ میں ڈالا گیا ہے۔ سید علی رضوی سب سے زیادہ محب وطن ہیں، وہ حقوق کی بات کرتے ہیں، گلگت بلتستان کے حقوق کا دفاع کرتے ہیں، مظلوموں کی آواز سنتے ہیں اور عوام کیلئے قربانی دیتے ہیں۔ اگر یہ ان کا قصور ہے تو ہم اس شیڈول فورتھ کو مسترد کرتے ہیں۔
 
اسلام ٹائمز: پنجاب میں ایم ڈبلیو ایم اور پی ٹی آئی میں کافی ہم آہنگی پائی جاتی ہے، کیا یہ ہم آہنگی گلگت بلتستان میں بھی ممکن ہے۔؟
حاجی رضوان: یہ الیکشن ہماری پارٹی کیلئے ایک ٹیسٹ کیس ہے، پنجاب میں بعض حلقوں میں پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد ہوا ہے، ویسے بھی یہ مقولہ مشہور ہے کہ سیاست میں چونکہ کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی، ایم ڈبلیو ایم کی سیاست کا محور پاکستان کی بقاء اور سالمیت ہے، گلگت بلتستان کے مستقبل کے حالات دیکھیں گے، پی ٹی آئی یا کسی بھی جماعت کے ساتھ اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا فیصلہ پارٹی کی قیادت کرے گی۔ ہم نے دیکھنا ہے کہ پی ٹی آئی کا منشور اور مقصد عوام کے کس حد تک مفاد میں ہے اور ہمارے منشور سے کس حد تک مطابقت رکھتا ہے۔ یہاں معاملہ صرف پی ٹی آئی کا نہیں ہے، کوئی بھی پارٹی ہو اور جس کا منشور ایم ڈبلیو ایم کے منشور و مقصد کے ساتھ مطابقت رکھتا ہو تو ان کے ساتھ اتحاد کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
 
اسلام ٹائمز: ایم ڈبلیو ایم، ایم ایم اے میں شامل کیوں نہیں ہوئی، وجوہات کیا ہیں۔؟
حاجی رضوان: ہمیں پہلے یہ دیکھنا ہے کہ ایم ایم اے کا منشور کیا ہے، ایم ڈبلیو ایم کی اولین ترجیح پاکستان کی بہتری اور ملک میں مذہبی رواداری کا فروغ ہے اور اس کیلئے جس پارٹی سے اتحاد کرنا پڑے، ہم تیار ہیں، لیکن جہاں تک ایم ایم اے کا تعلق ہے، اس کے بارے میں فیصلہ مرکزی قیادت نے کرنا ہے اور مرکزی قیادت ہی بہتر جانتی ہے کہ کس کے ساتھ اتحاد کرنا ہے۔ میری ذاتی رائے میں ایم ایم اے میں شامل نہ ہونے کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ چونکہ ایم ڈبلیو ایم مکمل مذہبی جماعت نہیں ہے، یہ کسی خاص گروہ یا مسلک تک محدود نہیں ہے، اس جماعت میں پاکستان کے تمام مکاتب فکر کے افراد شامل ہوسکتے ہیں اور ہر طبقہ فکر کے لوگ آسکتے ہیں، ایم ایم اے پر خاص مذہبی جماعتوں کا لیبل لگا ہوا ہے، اس لیبل سے بچنے کیلئے قیادت نے اس میں شامل نہ ہونے کا فیصلہ کیا ہوگا۔
 
اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ اپنی پوری کابینہ کے ہمراہ لاہور میں نااہل وزیراعظم کے استقبال کیلئے پہنچے، سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال کیا گیا، اس پر کیا کہیں گے۔؟
حاجی رضوان : دیکھیں، حفیظ الرحمن اس وقت صوبے کا چیف ایگزیکٹو ہے، وہ مکمل اتھارٹی رکھتے ہیں، ان کو چاہیے کہ وہ سرکاری وسائل کا قانونی استعمال کریں، پارٹی اور اپنے نجی معاملات کیلئے سرکاری  وسائل کا استعمال جرم ہے، جس طرح وزراعلیٰ نے سابق وزیراعظم کے استقبال کیلئے سرکاری وسائل کا استعمال کیا ہے، اس کی شدید مذمت کرتا ہوں، اس پر ہم خاموش نہیں رہیں گے، چونکہ یہ وسائل عوام کی امانت ہیں، اس لئے یہ عوام کے ساتھ خیانت ہے، جس کیخلاف اسمبلی میں بھی آواز اٹھائیں گے۔ اپنی پارٹی کیلئے کام کرنا، نواز شریف سے محبت رکھنا، استقبال کرنا ان کا حق ہے، لیکن اس کیلئے سرکاری وسائل کا استعمال غیر قانونی ہے۔ حکومتی وسائل عوام کی امانت ہے، وزیراعلیٰ کو چاہیے کہ سرکاری وسائل کو عوام پر خرچ کریں، نہ کہ اپنی پارٹی پر۔
خبر کا کوڈ : 737821
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش