0
Saturday 21 Jul 2018 23:06
مسلم لیگ نون پاکستان کی تقدیر بدلنے کی قابلیت رکھتی ہے

ایران کا داعش کیخلاف پاکستان کیساتھ ملکر کام کرنا لائق تحسین ہے، کرنل (ر) طاہر حسین مشہدی

ایم کیو ایم اب وہ نہیں رہی جو پہلے ہوا کرتی تھی
ایران کا داعش کیخلاف پاکستان کیساتھ ملکر کام کرنا لائق تحسین ہے، کرنل (ر) طاہر حسین مشہدی
کرنل (ر) طاہر حسین مشہدی کا تعلق کراچی سے ہے، وہ 1967ء میں پاکستان آرمی سے وابستہ ہوئے۔ طاہر حسین مشہدی ایک بہت ہی اچھے کالم نگار بھی ہیں اور حالاتِ حاضرہ پر گہری نگاہ رکھتے ہیں۔ اسکے علاوہ سینیٹ آف پاکستان میں متحدہ قومی موومنٹ کے پارلیمانی لیڈر بھی رہے ہیں، جمشید ٹاؤن کراچی کے میئر بھی رہ چکے ہیں، 2006ء میں یہ سینیٹ میں آئے، 2012ء میں دوبارہ منتخب ہو کر سینیٹ میں رہے۔ مارچ میں ایم کیو ایم سے مستعفی ہو کر گذشتہ دنوں پاکستان مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کی۔ اسلام ٹائمز کے نمائندے نے ان سے خصوصی گفتگو کی، جو قارئین کے پیشِ خدمت ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: آپ ایم کیو ایم کے سینیئر رہنماؤں میں سے تھے، ایم کیو ایم چھوڑ کر مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کیوں اختیار کی۔؟
کرنل (ر) طاہر مشہدی:
دیکھیں جی پہلی بات تو یہ ہے کہ ایم کیو ایم اب وہ نہیں رہی، جو پہلے ہوا کرتی تھی۔ اب ایم کیو ایم کسی اور کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے۔ ایک وقت تھا جب متحدہ عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرتی تھی، اس کا مقصد صرف یہی ہوتا تھا کہ اپنے لوگوں کی خدمت کی جا سکے، لیکن دیکھتے ہی دیکھتے حالات تبدیل ہوتے گئے، عام عوام کے مسائل حل نہیں ہو رہے تھے، ان کی آواز دب گئی تھی۔ اس کے علاوہ بھی ایم کیو ایم میں بہت سے مسائل کھڑے ہوگئے تھے، ایم کیو ایم لندن اور ایم کیو ایم پاکستان دو الگ الگ سیٹ اپ سامنے آگئے، دونوں عوام کی خدمت کام کے بجائے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے لگ گئے اور اسوقت ایم کیو ایم پاکستان میں بھی بہت سی گروپ بندیاں سامنے آئیں۔ متحدہ وہ پارٹی نہیں رہی، جیسے پہلے ایک نام ہوا کرتا تھا، بچگانہ حرکتیں شروع ہوگئیں۔ ایسی صورتحال میں کوئی بھی اچھا سیاستدان، ایک مخلص سیاستدان جو عوام کیلئے کام کرنا چاہتا ہو، وہ رہنا پسند نہیں کرتا۔ میں نے ایم کیو ایم سے استعفٰی بہت پہلے دیدیا تھا، اس کی وجہ صرف یہی تھی کہ ایم کیو ایم عوام کے مسائل سے ہٹ کر ایک دوسرے سے الجھنے میں لگ گئی تھی۔

جہاں تک مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کی بات ہے تو مسلم لیگ (ن) پاکستان کی سب سے بڑی جماعت ہے، عوامی مینڈیٹ ان کے ساتھ ہے۔ ایک بہت پاور رکھنے والی جماعت ہے اور سب سے بڑی بات کہ عوام کے ساتھ مخلص ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے ہمیشہ پاکستان کی خاطر کام کیا ہے، چاہے وہ سی پیک ہو، بجلی کی پیداوار ہو، معاشی ترقی ہو یا صحت کی سہولیات ہوں، سب سے بہتر کام مسلم لیگ (ن) کا ہے۔ آپ سندھ کا حشر دیکھ لیں، نہ پانی ہے نہ بجلی، سندھ کو تو چھوڑیں آپ کراچی کو دیکھیں اتنے اتنے سال یہاں حکومت کرنے والی جماعتیں پانی کا مسئلہ حل نہ کرسکیں، بڑے مسائل انہوں نے خاک حل کرنے ہیں؟ خیبر پختونخوا کی بھی کچھ اسی طرح کی صورتحال ہے۔ آج اگر پنجاب کے لوگ خوشحال ہیں اور وہاں عوام کو ہر طرح کی سہولیات میسر ہیں تو اس کی وجہ مسلم لیگ (ن) ہے اور پورے پاکستان کی تقدیر بدلنے کی قابلیت بھی مسلم لیگ (ن) رکھتی ہے۔

اسلام ٹائمز: زیادہ تر پارٹی چھوڑنے والے رہنما پی ٹی آئی میں شریک ہوئے، کیا آپکو عمران خان کے نظریئے نے متاثر نہیں کیا۔؟
کرنل (ر) طاہر حسین مشہدی:
جو لوگ پی ٹی آئی میں شامل ہوئے ان کا اپنا کوئی نظریہ نہیں تھا، ان کو شُہرت چاہیئے تھی، ان لوگوں نے دیکھا کہ اب پی ٹی آئی کی مارکیٹ ویلیو بڑھ گئی ہے تو انہوں نے وہاں جانا مناسب سمجھا۔ جب وہ دیکھیں گے کہ اب تحریک انصاف کی ویلیو میں کمی آگئی ہے تو وہ کسی اور جماعت کی طرف رخ کریں گے، ایک طرح سے ان کو سیاسی مہاجر ہی سمجھ لیں، جو اپنا خیمہ کبھی کہاں تو کبھی کہاں لگا لیتے ہیں۔ عمران خان کا نظریہ کوئی نیا نہیں ہے، اسی طرح کے نظریئے بہت سننے کو ملے، لیکن عمل کسی نے نہیں کیا۔ خیبر پختونخوا حکومت کے کرپشن کے کیسیز آہستہ آہستہ کھل رہے ہیں اور انہوں نے کے پی میں کوئی شاندار کارکردگی بھی نہیں دکھائی، انہیں ایک موقع ملا تھا کہ خود کو ثابت کریں، اپنی کارکردگی عوام کے سامنے لائیں، لیکن وہ ناکام رہے، پی ٹی آئی حکومت نے صوبے میں کوئی ایسا کام نہیں کیا، جس کی بنیاد پر عمران خان پر اعتماد کیا جا سکے یا انکی کارکردگی سے متاثر ہوا جا سکے۔

اسلام ٹائمز: الیکشن سے متعلق کچھ جماعتیں شفاف انتخابات کے انعقاد پر انگلیاں اٹھا رہی ہیں اور کچھ نگران سیٹ اپ کو جانبدار قرار دے رہی ہیں، اس حوالے سے آپ کیا کہیں گے۔؟
کرنل (ر) طاہر حسین مشہدی:
پاکستان کی سیاسی جماعتیں ہمیشہ سے یہی کہتی آئی ہیں کہ نگران سیٹ اپ جانبدار ہے، اسٹیبلشمنٹ فلاں کو آگے لا رہی ہے، ادارے اس کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ الزام تراشی پاکستانی سیاست کا حصہ ہے اور اس الزام تراشی کی وجہ سے سیاست سے سنجیدگی ختم ہوگئی ہے۔ اگر پچھلے ادوار میں دیکھا جائے تو سیاسی جماعتیں اپنا منشور سامنے رکھ کر بات کرتی ہوتی تھیں کہ ہمارا منشور یہ ہے آپ ہمیں ووٹ دیں۔ لیکن اب یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں چور ہے میں سچا ہوں، یہ زیادہ کرپشن کرتا ہے، میں کم کرتا ہوں، یعنی ایک دوسرے پر الزام لگا کر عوام کو لولی پاپ دیا جاتا ہے۔ یہاں پر میں ایک بات واضح کرتا چلوں کہ جس کسی کو بھی موقع ملتا ہے، وہ اپنی استطاعت کے مطابق کرپشن کرتا ہے۔ سیاسی جماعتیں جو یہ کہہ رہی ہیں کہ فلاں جانبدار ہے یا ماحول ہمارے مخالف ہے، جب بچہ امتحان دیتا ہے تو اسے پتہ ہوتا ہے کہ میرا نتیجہ کیا آنے والا ہے، جب نتیجہ اس کے برعکس آتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ Examiner بہت سخت تھا، پیپر چیک کرنے والے نے نمبر کم دیئے، میں نے جواب تو ٹھیک لکھے تھے پھر پتہ نہیں ایسا کیوں ہوا، سیاسی جماعتوں کی بھی کچھ اسی طرح کی صورتحال ہے، یہ سب بہانے ہوتے ہیں اپنا ملبہ کسی اور پر ڈالنے کیلئے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ کسی جماعت نے اگر کام کیا ہے تو اسے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، نتیجہ اس کے حق میں ہوگا، پریشان وہ لوگ ہو رہے ہیں اور الزام لگا رہے ہیں، جنہوں نے کام نہیں کیا۔ اب وہ نتیجہ آنے سے پہلے خوف کا شکار ہیں اور شور مچا رہے کہ فلاں جانبدار ہے۔

اسلام ٹائمز: کراچی کے مسائل کا ذمہ دار آپ کسے سمجھتے ہیں، ایم کیو ایم یا پھر پیپلز پارٹی۔؟
کرنل (ر) طاہر حسین مشہدی:
کراچی کے مسائل کی ذمہ دار ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی ہیں۔ ان کے اختلافات کی وجہ سے عوام بیچاری مسائل میں پھنستی چلی جا رہی ہے۔ ان جماعتوں کے Selective ممبران نے اپنی جیبیں بھریں اور عوام کو Lolly Pop تھما دیا، آپ دیکھیں کہ سب سے زیادہ کرپشن سندھ میں ہوتی ہے، جہاں عوام پر 0.2 فیصد بجٹ لگتا ہے اور باقی کا 99.8 فیصد حکام کی جیبوں میں جاتا ہے۔ جیسے جیسے یہاں کی آبادی میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے، پہلے کی نسبت کراچی کے مسائل بھی زیادہ ہوتے جا رہے ہیں۔ کے الیکٹرک کی کارکردگی دیکھیں عوام بیچاری بجلی کیلئے ترس گئی ہے۔ 20، 20 گھنٹے لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے، عوام کو پینے کا پانی نہیں مل رہا، حتٰی کہ پیسوں سے بھی عوام کو پانی نہیں مل رہا۔ ٹینکر مافیا بلیک میں پانی بیچ رہا ہے۔ ایم کیو ایم کے رہنما چاہتے ہیں کہ پانی ہمارے علاقوں میں سپلائی ہو، پیپلز پارٹی کہتی ہے کہ ہمارے علاقے میں پانی پہلے پہنچے، انہی اختلافات کی وجہ سے کراچی کے مسائل حل ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ جب تک کوئی بہترین کارکردگی والی اور تجربہ کار حکومت سندھ کی باگ ڈور نہیں سنبھال لیتی تب تک یہ مسائل ایسے چلتے رہیں گے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں داعش کا فتنہ بڑھ رہا ہے، جسکے پیشِ نظر ایران، پاکستان، روس اور چائنہ نے ملکر اسکے خلاف حکمت علمی بنانیکا فیصلہ کیا ہے، کیا پاکستان کسی کے دباؤ میں آئے بغیر ان ممالک کیساتھ ملکر داعش کا خاتمہ کرسکے گا۔؟
کرنل (ر) طاہر حسین مشہدی:
داعش پاکستان میں پہلے کی نسبت کافی حد تک مضبوط ہوچکی ہے اور وہ بھرپور طریقے سے اپنے قدم جما رہی ہے۔ داعش نے گراؤنڈ ورک بہت پہلے ہی شروع رکھا تھا۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں موجود شدت پسند تنظیموں نے انہیں گراؤنڈ پیش کیا، جس کی بنیاد پر انہوں نے اپنے کام کو آگے بڑھایا۔ پہلے ہمارے ادارے یہ کہتے تھے کہ داعش یہاں موجود نہیں، لیکن اب حقائق سب کے سامنے آچکے ہیں۔ بلوچستان میں ہونے والا حملہ پورے پاکستان کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ یہی وہ وقت ہے کہ داعش کے خلاف کارروائیاں تیز کر دینی چاہیئیں۔ جہاں جہاں داعش کے سپورٹرز اور ان کے افراد موجود ہیں، انہیں پہلی فرصت میں انجام کو پہنچا دینا چاہیئے۔ جہاں تک ایران کی بات ہے داعش کے خلاف ملکر کام کرنے کی تو یہ ایک بہت ہی خوش آئند بات ہے، کیونکہ داعش صرف پاکستان کیلئے ہی نہیں بلکہ تمام اسلامی ممالک کیلئے خطرہ ہے۔ ایران نے پاکستان کا ساتھ دینے کیلئے جو قدم بڑھایا ہے اس پر وہ لائق تحسین ہے۔ یہاں پہلا حق سعودی عرب کا بنتا تھا کہ وہ پاکستان کا ساتھ دے، کیونکہ ہم نے ہر مشکل وقت میں سعودی عرب کا ساتھ دیا، جبکہ ان جیسے ممالک کی وجہ سے ایران کے ساتھ تعلقات کبھی مضبوط نہیں کئے۔

ہمارا بلوچستان ایران کے صوبہ بلوچستان سے ملتا ہے، ایران کے بلوچوں میں کچھ علیحدگی پسند ہیں اور وہاں پہلے سے موجود کئی تنظیمیں علیحدگی کیلئے کام کر رہی تھیں، سب سے بڑا نام عبدالمالک ریگی تھا جسے ایرانیوں نے پاکستان کی مدد سے گرفتار کر لیا تھا، بہرحال یہ ایک الگ بحث ہے۔ داعش اگر پاکستان میں مزید بڑھتی ہے تو یہ ایران کیلئے بھی بہت بڑا خطرہ ہے اور سی پیک کو بھی خطرہ ہے، روس ویسے ہی امریکہ کی پالیسیوں کے خلاف ہے، یعنی یہ کہہ دیا جائے کہ داعش کا پاکستان میں بڑھنا ان تمام ممالک کیلئے درِد سر ہے۔ جہاں تک امریکہ کے دباؤ کی بات ہے تو پاکستان اب سمجھ چکا ہے کہ امریکہ کے ساتھ رہ کر کبھی بھی ترقی نہیں کی جا سکتی۔ پاکستان کو خود مختار ہونا پڑے گا اور آئندہ دہشتگردی کے خلاف بنائے جانے والے منصوبے پر عمل کرنا پاکستان کے لئے پہلی ترجیح ہونی چاہیئے۔ ابھی بھی وقت ہے کہ اس فتنے کو جڑ سے ختم کر دینا چاہیئے، نہ صرف پاکستان سے بلکہ افغانستان سے بھی، کیونکہ داعش کے بڑے بڑے کیمپ افغانستان میں موجود ہیں اور پاکستان ہی کی مدد سے یہ ممالک افغانستان میں بھی داعش کے خلاف کارروائیاں سرانجام دے سکتے ہیں۔ پاکستان کو چاہیئے کہ اپنی عوام کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے اس فتنے کے خلاف جنتا ہوسکے کام کرے، نہ صرف پاکستان کے اندر بلکہ افغانستان میں بھی اسے ختم کرنے کی کوشش کرے۔
خبر کا کوڈ : 739283
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش