0
Sunday 22 Jul 2018 13:51
نگران حکومت کی جانبداری کیوجہ سے یہ الیکشن بدترین ہونگے

جسٹس شوکت صدیقی کے تحفظات کی تحقیقات نہ کروائی گئیں تو ملکی سلامتی خطرات سے دوچار ہو سکتی ہے، شہباز شریف

نواز شریف کا قصور ملک کو اندھیروں سے نکالنا، دہشتگردی خاتمہ ہے
جسٹس شوکت صدیقی کے تحفظات کی تحقیقات نہ کروائی گئیں تو ملکی سلامتی خطرات سے دوچار ہو سکتی ہے، شہباز شریف
سابق وزیراعلٰی پنجاب اور پاکستان مسلم لیگ نون کے صدر میاں محمد شہباز شریف 1951ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ کاروباری اور صنعتی گھرانے سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنماء 1985ء میں لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے چیئرمین رہے۔ 1988ء، 1990ء اور 1993ء میں پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1997ء میں پھر رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے اور وزیراعلٰی کا منصب سنبھالا۔ مشرف مارشل لاء کیوجہ سے 1999ء سے 2007ء تک سعودی عرب میں جلا وطن رہے۔ 2008ء اور 2013ء میں پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور وزارت اعلٰی کے منصب پہ فائز رہے۔ جولائی 2017ء میں نواز شریف کی نااہلی کے بعد پاکستان مسلم لیگ نون کے صدر منتخب ہوئے۔ ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کو سزا کے بعد الیکشن 2018ء کی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ سرگودہا میں انتخابی مہم کے سلسلے میں آمد کے موقع پر اسلام ٹائمز کیساتھ پی ایم ایل این کے صدر کا مختصر انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: بعض مبصرین نے سوال اٹھایا ہے کہ شہباز شریف جان بوجھ کے نواز شریف کے استقبال کیلئے ائیرپورٹ نہیں گئے، اسی لئے اڈیالہ جیل میں نواز شریف نے آپ کو اپنے کمرے میں داخل نہیں ہونے دیا، کیا یہ درست ہے؟
شہباز شریف:
میں ان سے ملا ہوں، ہماری ساری فیملی تھی، اس سے بڑا جھوٹ کیا ہو سکتا ہے، نواز شریف خود گرفتاری دینے کے لئے پاکستان واپس آئے ان کا حوصلہ ابھی تک بلند ہے اور وہ انتہائی پرعزم ہیں۔ تمام تر خطرات اور تحفظات کے باوجود مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز شریف نے وطن واپس آ کر گرفتاری دی ہے۔ یہ درست ہے کہ ان کی آمد پر ان سے یکجہتی کے اظہار کے لئے میری ریلی ایئرپورٹ تک تو نہ پہنچ سکی، لیکن اس ریلی میں شریک ہزاروں شرکاء کے جذبات اور احساسات نے ظاہر کردیا ہے کہ ان کے دل اپنی لیڈر شپ کے لئے دھڑکتے ہیں۔ باوجود احتساب عدالت سے ملنے والی سزا کے، لوگ نوازشریف کی طرف دیکھتے ہیں، لہٰذا دیکھنا پڑے گا کہ نواز شریف مریم نواز کی پاکستان آمد کے اثرات ملکی سیاست اور آنے والے انتخابات پر کیا ہوتے ہیں، نواز شریف کی آمد اور ان کے استقبال کے حوالے سے دو آراء ہو سکتی ہیں، لیکن ان کی جانب سے وطن واپسی کے جرأت مندانہ اقدام کے براہ راست اثرات پاکستانی سیاست پر ضرور ہونگے۔ ان اثرات سے کچھ قوتیں خوفزدہ ہیں، یہی وجہ ہے اس طرح کی بےبنیاد باتیں اور پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے، تاکہ غلط فہمیاں پیدا ہوں، لیکن ہمارے کارکن سیاسی داؤ پیچ جانتے ہیں، وہ ان باتوں کو سمجھتے ہیں، میں سمجھتا ہوں اب یہ بات پورا پاکستان جان چکا ہے کہ کے پی کے کو کھنڈر بنانے والوں کے پاس اور کوئی ایجنڈا نہیں، اور پاکستان مسلم لیگ نون کے علاوہ کوئی سیاسی قوت نہیں جو مستقبل میں پاکستان کو درپیش چیلنجز سے نکال سکتی ہو، انہیں پاکستان کی ترقی پسند نہیں اس لئے پاکستان کی واحد سیاسی قوت کو نشانہ بنا رہے ہیں، لیکن ہم پیچھے ہٹنے والے نہیں۔ عوام نظریاتی بنیاد پر ووٹ ڈالنے کے لئے تیار ہے، گالیوں اور سازشوں کے باوجود پنجاب میں (ن) لیگ کا ووٹ بینک نہیں توڑا جا سکا، اس لئے ایسی بے بنیاد باتوں کا سہارا لیا جا رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: گذشتہ انتخابات میں بھی ایک تجزیہ کار اور صحافی پنجاب کے نگران وزیراعلٰی تھے، جنہیں پی ٹی آئی نے تنقید کا نشانہ بنایا اور موجودہ نگران وزیراعلٰی پر آپکو اعتراضات ہیں، کیا یہ مثبت طرزعمل ہے؟
شہباز شریف:
حسن عسکری صاحب اس حوالے سے مشہور ہیں کہ انہیں نون لیگ سے اختلاف ہے، ہم نے شروع میں ہی انکی ؐمخالفت کی تھی، نواز شریف کی واپسی پہ ہی دیکھ لیں، نگران حکومت نے عملاً پریشان حکومت کا روپ دھار لیا تھا۔ لیکن لاہور میں بڑے پیمانے پر گرفتاریوں، کنٹینرز لگانے کے باوجود مسلم لیگ (ن) کے کارکن بڑی تعداد میں لوہاری گیٹ پہنچ گئے، یہ تو ہم نے دو تین روز میں مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کے اندر ایسی تحریک پیدا کر دی تھی کہ وہ تمام تر مشکلات اور رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے لوہاری چوک پہنچے۔ اس طرح دونوں محاذوں پر مسلم لیگ (ن) سرخرو رہی، نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کے عدالتی فیصلے کے سائے سرتسلیم خم کر کے خود کو گرفتاری کیلئے پیش کردیا، تو دوسری جانب ان کے استقبال اور ان سے یکجہتی کے اظہار کے لئے ریلی بھی کامیاب رہی۔ لیکن اس نگران سیٹ اپ نے پوری کوشش کی کہ لاہور میں مکمل خاموشی رہے، نہ صرف ہمارے کارکن مایوس ہوں بلکہ آئندہ انتخابات میں جتنا ہو سکے ہمیں نقصان پہنچایا جائے۔ یہ مکمل طور پر جانبدار ہیں۔ ہمارے کارکنوں کو کئی بہانوں سے گرفتار کیا گیا ہے تاکہ انتخابی مہم کو ناکام بنایا جا سکے، لیکن ان کے ارادے کامیاب نہیں ہو سکے، پورے پنجاب نہیں پورے ملک میں ہمارے کامیاب جلسے ہوئے ہیں، لوگ اپنے ہردلعزیز قائد کیساتھ ہیں۔ نگران سیٹ اپ کا کام شفاف الیکشن کروانا ہے، انتخابی عمل سے متعلق ہم نگران حکومت اور الیکشن کمیشن پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور الیکشن کو شفاف بنانے کیلئے ضروری ہے کہ میڈیا کو پولنگ اسٹیشن تک جانے نہ دیا جائے۔ ہم پولنگ اسٹیشن پر پریزائیڈنگ افسر کی اتھارٹی ہی مانتے ہیں، لہٰذا پولنگ اسٹیشن کی حدود میں جو شرائط رکھی گئی ہیں ان پر عمل درآمد کرایا جائے۔ نگران حکومت ہمارے مخالفین کو مکمل میدان فراہم کر رہی ہے، یہ پاکستان کی تاریخ کے بدترین الیکشن ہونگے، اس لحاظ سے۔

اسلام ٹائمز: آپ کا طرزعمل، نعروں اور بیانات کے حوالے سے میاں نواز شریف سے مختلف نظر آتا ہے، آپ انکے بیانیے کی تائید نہیں کرتے یا یہ طے شدہ سیاسی حکمت عملی ہے؟
شہباز شریف:
اس میں کوئی شک نہیں کہ ووٹ کو عزت دلوانے کیلئے جو قدم میاں نواز شریف نے اٹھایا ہے یہ ایک تاریخی کام ہے، اس سارے عمل کے بعد جو مسلم لیگ (ن) کی جماعت میں تبدیلی نظر آئے گی، وہ سیاسی طرز عمل ہے۔ اس بات میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ ووٹ کو عزت دینے کی ضرورت ہے۔ ایک جانب ہم نے  انتخابی مہم میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے تو دوسری جانب ہمارے بڑے بھائی سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز جیل میں ہیں، تو اس صورتحال میں یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم اس بیانیہ کے ساتھ کھڑے نہ ہوں، جو نواز شریف کا بیانیہ ہے اور حالات و واقعات اور خصوصاً نگران حکومت کے طرز عمل نے ہمیں اس سطح پر لا کھڑا کیا ہے کہ اب ہم دفاعی انداز اختیار کرنے کی بجائے جارحانہ طرز عمل اختیار کریں۔ ہمیں پتہ ہے کہ ہم انتخابی مہم کو احتجاجی مہم بنانے میں کامیاب رہے، تو اس کا یقیناً سیاسی فائدہ ہو گا اور خصوصاً اپنی جماعت کے کارکنوں کو متحرک فعال کر سکیں گے اور اس طرح، جماعت مزید مضبوط ہو گی، الیکشن میں ہماری پوزیشن بہتر ہوگی اور قومی سیاست میں بھی کردار نمایاں ہو گا۔ نواز شریف اور ان کی بیٹی کی گرفتاری حکومت اور ریاستی اداروں کیلئے یہ پیغام بھی ہے کہ ہم نے عدلیہ کے فیصلے کے سامنے سر تسلم خم کیا ہے، گرفتاری دے دی ہے، لہٰذا اب ملک کے اندر احتساب کا عمل ہو گا، تو سب کیلئے ہوگا۔ پانامہ کے دیگر ملزمان جن کی تعداد تقریباً ساڑھے چار سو کے قریب ہے، ان کے گرد بھی احتساب کا شکنجہ کیا جانا چاہیئے، احتساب کا یہ سلسلہ اور سزاؤں کا عمل اگر صرف نواز شریف اور شریف خاندان تک محدود رہا تو صورتحال آنے والے حالات میں خطرناک ہو سکتی ہے اور حالات حکومتوں کے بس میں نہیں رہیں گے۔ ہم نے بار بار کہا ہے کہ یہ یکطرفہ کاروائیاں اور غیرمنصفانہ فیصلے ملک کے مستقبل کیلئے درست نہیں ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا نیب جیسے اداروں کو اپنا کام نہیں کرنا چاہیئے، اب تو پشاور میٹرو پہ بھی تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا؟
شہباز شریف:
یہ میں بارہا کہہ چکا ہوں کہ ہمیں اداروں سے کوئی اختلاف نہیں، لیکن غیر منصفانہ فیصلوں کی تائید تو کسی طور پر نہیں کی جا سکتی۔ آپ کو پتہ ہے کہ نوازشریف کے خلاف فیصلہ سرینا کے لفافے میں آیا تھا۔ یہ فیصلہ ان فیصلوں کا تسلسل ہے جو جمہوریت کےخلاف آتے رہے ہیں۔ عدالتی فیصلے میں تسلیم کیا گیا کہ نواز شریف اور ان کے خاندان نے کرپشن نہیں کی۔ نیب کورٹ کا فیصلہ انصاف کا سیاسی قتل ہے، جسے پوری قوم نے مسترد کیا ہے، نواز شریف کے خلاف یہ فیصلہ کوئی نیا نہیں، بلکہ پہلے بھی صدارتی آررڈ کے تحت اس طرح کے فیصلے آتے رہے۔ مسلم لیگ (ن) اور نواز شریف نے پہلے بھی ایسے فیصلوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اب بھی کریں گے۔ جہاں تک اداروں میں اصلاحات کی بات ہے، اب تو اسلام آباد ہائیکورٹ کے معزز جج صاحب نے بھی کہہ دیا ہے کہ موجودہ ملکی حالات کی 50 فیصد ذمہ داری عدلیہ اور باقی 50 فیصد دیگر اداروں پر عائد ہوتی ہے۔ جج صاحب نے یہ بھی کہا ہے کہ مخصوص طاقتور ادارے نے چیف جسٹس کو کہا ہے کہ نواز شریف اور ہماری بیٹی کو انتخابات تک باہر نہیں آنے دینا۔ انہوں نے تو باقاعدہ محکمہ زراعت کا نام لیا ہے کہ وہ انتخابات میں مداخلت کر رہے ہیں، اب جسٹس شوکت صدیقی تو کسی پروپیگنڈہ سے متاثر نہیں ہیں، انہوں نے جو کچھ کہا ہے اسکی تحقیقات ہونی چاہیئیں، وہ تو خود اعلٰی ترین ادارے سے تعلق رکھتے ہیں، اتنا ذمہ دار آدمی جب کوئی بات کرتا ہے تو اس کے بارے میں مکمل تحقیق ہونی چاہیئے، ورنہ ادارے ساکھ کھو بیٹھیں گے اور ملک عدم استحکام کا شکار ہو جائیگا، سلامتی بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے، ترقی کا عمل جب رکتا ہے تو ملک کی بنیادیں کمزور ہوتی ہیں۔ اسی طرح دیکھ لیں کہ پاکستان کی عدالتوں میں ہزاروں کیس مکمل ثبوتوں کے ساتھ زیر التواء ہیں، لیکن مسلم لیگ (ن) کے امیدواران کے مقدمات کے فیصلوں میں خاص تیزی دکھائی جا رہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نواز شریف پر عمران خان کا بنیادی الزام کرپشن کا تھا، لیکن احتساب عدالت کے فیصلے کے صفحہ 171 پر جج صاحب کے الفاظ گواہی دے رہے ہیں کہ کرپشن ثابت نہیں ہوئی، اس طرح عمران خان کا الزام غلط ثابت ہوا اور نواز شریف کی سچائی ثابت ہوئی۔

یہی راولپنڈی میں نارکوٹکس کا فیصلہ دیکھ لیں، حنیف عباسی کا فیصلہ انصاف کے اصولوں پر مبنی نہیں، عین انتخابات سے چند دن قبل آدھی رات کو اس قدر عجلت میں فیصلہ سنانا ہی ساری کہانی بیان کر رہا ہے۔ حنیف عباسی کو سزا ملنے سے ثابت ہوگیا کہ (ن) لیگ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، (ن) لیگ کا ووٹر ایسے فیصلوں سے گھبرانے والا نہیں ہے، ایفی ڈرین کیس کا فیصلہ الیکشن کے بعد بھی سنایا جا سکتا تھا، الیکشن کے اتنے قریب رات کے اس پہر فیصلہ سنائے جانے پر سوالیہ نشان ہے، آئین و قانون سے ہمیں امید ہے لیکن ایسے فیصلوں سے یہ امید بھی دم توڑ جائے گی، حنیف عباسی سات سال سے کیس کا فیصلہ کرنے کی درخواست کرتے رہے، لیکن ان کے اوپر فیصلے کی تلوار لٹکائے رکھی گئی، سات سال فیصلہ موخر کر کے اب سنایا گیا، ایسے فیصلوں سے تمام چیزیں عیاں ہو چکی ہیں، حنیف عباسی کیخلاف فیصلہ بہت ناانصافی پر مبنی ہے، حنیف عباسی سے الیکشن لڑنے کا حق چھینا گیا ہے، ایفی ڈرین کیس کا فیصلہ اس وقت آنا اس بات کا ثبوت ہے کہ حنیف عباسی الیکشن جیت رہے تھے۔ پچھلے دو ڈھائی سال سے حنیف عباسی عدالت سے درخواست کر رہے تھے کہ میرا کیس سنا جائے اس کو جلدی نمٹایا جائے، لیکن اے این ایف اس کو لٹکا رہی تھی اور پھر اگست کی تاریخ لی گئی اور پھر انتخابی مہم کا آغاز ہوا، تو حنیف عباسی کے خلاف درخواست دی گئی کہ اس کا فیصلہ الیکشن سے پہلے کیا جائے، یہ صاف نظر آرہا ہے کہ یہ فیصلہ سیاسی نوعیت کا سنایا ہے جج صاحب نے، فیصلہ سامنے آنے سے پہلے ہی متنازع ہو چکا ہے، اس سے مسلم لیگ (ن) کے بیانیہ کو تقویت دی گئی ہے، نواز شریف کے جیل جانے سے اُن کے بیانیہ کو اتنی تقویت نہیں ملی جتنی اس فیصلے سے ملی ہے۔ میاں نواز شریف اور مریم نواز کو انتخابات سے قبل سزا سنائی گئی اور اب حنیف عباسی کو سزا سنا دی گئی ہے، جبکہ میاں نواز شریف اور مریم نواز کی اپیلوں کو انتخابات کے بعد تک ملتوی کر دیا گیا ہے۔ ہم جمہوریت پہ ایمان رکھتے ہیں، ان سازشوں کا مقابلہ کرینگے، میں مسلم لیگ کے تمام امیدواروں، کارکنان اور ووٹرز سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ان مذموم مقاصد کو ناکام بنانے کے لئے 25 جولائی کو باہر نکلیں شیر پر مہر لگائیں اور ووٹ کی طاقت سے ان سب ہتھکنڈوں کو ناکام بنا دیں۔ اب تو خود ججز کہہ رہے ہیں کہ عدلیہ کی آزادی سلب ہو چکی ہے اور اب یہ بندوق والوں کے کنٹرول میں آگئی ہے۔ میرے خیال میں اب بھی وقت ہے کہ تمام ادارے اپنے دائرہ کار میں رہیں، اسی میں ملک کا مفاد مضمر ہے۔

اسلام ٹائمز: نون لیگ کے سیاسی مخالفین کا کہنا ہے کہ جب نواز شریف کسی مشکل میں آتے ہیں تو دہشتگردی شروع کر دی جاتی ہے، اس الزام پہ کیا ردعمل دینگے کہ بھارت سمیت عالمی قوتیں فوج کو بدنام کرنے کیلئے نواز شریف کا ساتھ دے رہی ہیں؟
شہباز شریف:
جس نے بھی یہ کہا ہے وہ دشمن کی زبان بول رہا ہے، میاں نواز شریف کی آمد اور گرفتاری ہمارے لئے اور پاکستان کے عوام کیلئے کربناک ہے، دوسری طرف پاکستان کے دو صوبوں پختونخواہ میں بنوں اور بلوچستان میں مستونگ کے مقامات پر دہشتگردی کے واقعات نے ملک بھر میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے اور لگ رہا ہے کہ کچھ قوتوں کو پاکستان کے اندر پرامن انتخابی عمل ہضم نہیں ہو پا رہا اور وہ دہشتگردی کے واقعات رونما کر کے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل چاہتے ہیں، انہیں ناکام بنانے کے لئے ضروری ہے کہ 25 جولائی کو پرامن انتخابی عمل مکمل ہو اور ایک منتخب حکومت قائم ہو اور عوام اپنی فورسز کے پیچھے کھڑے ہو کر دہشت گردی ختم کرنے کیلئے، پر امن پاکستان کیلئے اپنا کردار ادا کریں اور اس کے لئے اصل ضرورت اتحاد یکجہتی کی ہے انتشار اور خلفشار کی نہیں، جس کے لئے سیاسی قیادت کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ نواز شریف کا قصور ملک کو اندھیروں سے نکالنا، دہشت گردی خاتمہ کرنا ہے۔ اب عمران خان کہہ رہے ہیں کہ عالمی سازش کے تحت ان کے اقتدار کے راستے میں رکاوٹ ڈالی جا رہی ہے، اس کا مطلب ہے انکا مطمع نظر بھی حکومت کی کرسی ہے، ورنہ وہ پاکستان کی بات کرتے، یہ نواز شریف تھے جنہوں نے عالمی طاقت امریکہ کے صدر کی اربوں ڈالر کی آفر ٹھکرا کر ایٹمی دھماکے کئے، جس طرح ذوالفقار بھٹو کو اسلامی ایٹم بم کے جرم میں سزا دی گئی، ہر عقلمند خود دیکھ سکتا ہے کہ بیرونی قوتیں کس کا ساتھ دے سکتی ہیں، اور کس کی مخالف ہیں۔

جہاں تک بھارت کا تعلق ہے، پاکستان کا کوئی دشمن نمبر ایک ہے تو وہ بھارت ہے، ہمارا سب سے بڑا ایشو کشمیر ہے، آج کشمیری مظالم کی چکی میں پس رہے ہیں، سوائے نواز شریف کے پاکستان میں کوئی لیڈر نہیں جو کشمیریوں کا درد محسوس کر سکتا ہو، انہوں نے دنیا کے ہر فورم پر کشمیر کی بات کی ہے، برہان وانی شہید کا نام لیا ہے، عالمی ضمیر کو جھنجھوڑا ہے، موجودہ انتخابات پاکستان کیلئے حساس مرحلہ ہیں، یہ الیکشن اس لئے بھی بہت اہم ہے کیونکہ اس نے مستقبل کی راہ دکھانی ہے۔ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ دشمن ہماری شہ رگ پر وار کر رہا ہو، ہمارے کشمیری بھائیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہو اور ہم سکون سے بیٹھے رہیں۔ میرے خیال میں کشمیر کا مسئلہ مشرقی اور مغربی جرمنی کی طرح حل ہو سکتا ہے، جس طرح مشرقی جرمنی معاشی طور پر خوشحال ہوا، تو مغربی جرمنی اس کے ساتھ جا ملا، اسی طرح اگر پاکستان معاشی طاقت بن جاتا ہے تو کشمیر ہماری جھولی میں آن گرے گا، کشمیر کی آزادی کیلئے بھی پاکستان کا مضبوط اور مستحکم معاشی طاقت بننا ناگزیر ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کو ایشیاء کا ٹائیگر صرف (ن) لیگ کی قیادت بنا سکتی ہے، اسی لئے پاکستان کو معاشی زبوں حالی کا شکار رکھنے کیلئے ہردلعزیز رہنماء کو جیل میں ڈال دیا گیا ہے تاکہ پاکستان کی ترقی کا خواب پورا نہ ہو۔

اسلام ٹائمز: عابد باکسر عدالت میں پیش ہوئے ہیں اور انہوں الزام عائد کیا ہے کہ جعلی مقابلوں کے علاوہ آپ نے ڈاکٹر طاہرالقادری کو قتل کروانے کا منصوبہ بنایا تھا، اسکی تردید کیسے کرینگے؟
شہباز شریف:
میرا عابد باکسر سے کوئی تعلق نہیں، عدالت دودھ کا دودھ پانی کا پانی کردے گی، یہ پری پول دھاندلی کا حصہ ہے اور اس پری پول دھاندلی کا ذمہ دار الیکشن کمیشن ہے، اسکا نوٹس لیا جانا چاہیئے، کسی ایک جماعت کو ٹارگٹ کرکے احتساب نہیں کیا جا سکتا، عمران خان ہی عابد باکسر کی باتیں کرتے ہیں، اس سے پتا چلتا ہے کہ عابد باکسر کے پیچھے دراصل کون ہے؟۔ پاکستان کے عوام شعور رکھتے ہیں، وہ جھوٹے الزامات اور انکے پس پردہ سازشوں کو جانتے ہیں۔ جو کچھ وہ چاہ رہے ہیں وہ نہیں ہونیوالا، کسی قیمت پر۔
خبر کا کوڈ : 739378
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش