2
0
Sunday 22 Jul 2018 21:12
ایم ایم اے کا اتحاد تکفیریوں کی مضبوطی کا باعث بنا ہے

تحریک انصاف کیساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ ایم ڈبلیو ایم کی اہم کامیابی ہے، ناصر عباس شیرازی

آغا رضا کے مقابلے میں امیدوار کھڑا کرنے پر پوری قوم دکھی ہے، اس پر مزید کچھ نہیں کہہ سکتا
تحریک انصاف کیساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ ایم ڈبلیو ایم کی اہم کامیابی ہے، ناصر عباس شیرازی
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید ناصر عباس شیرازی پیشہ کے اعتبار سے قانون دان ہیں اور لاہور ہائیکورٹ میں پریکٹس کرتے ہیں۔ قبل ازیں وہ ایم ڈبلیو ایم میں مرکزی سیکرٹری سیاسیات کے عہدے پر بھی کام کرچکے ہیں۔ ناصر شیرازی امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدر بھی رہ چکے ہیں، جبکہ انکا بنیادی تعلق پنجاب کے معروف ضلع سرگودھا سے ہے۔ انہوں نے تاریخ، بین الاقوامی تعلقات اور قانون میں ایم فل کیا ہے۔ آئی ایس او پاکستان کی مرکزی صدارت کے دوران متحدہ طلبہ محاذ کی قیادت بھی کرتے رہے ہیں۔ سید ناصر شیرازی ملکی اور عالمی حالات پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار ہیں، وہ اپنی تحریر و تقریر میں حقائق کی بنیاد پہ حالات کا نہایت درست اور عمیق تجزیہ پیش کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انٹرنیشنل ریلیشنز اور کرنٹ افیئرز سے دلچسپی رکھنے والے حلقوں میں انہیں بڑی پذیرائی حاصل ہے۔ انہوں نے ایم ڈبلیو ایم کے پلیٹ فارم سے سیاست میں نمایاں خدمات سرانجام دیں، ملت جعفریہ میں سیاسی شعور بیدار کرنے میں بھی ناصر شیرازی کا اہم کردار رہا ہے، شیعہ سنی وحدت کیلئے بھی انکی خدمات انتہائی نمایاں ہیں۔ اسلام ٹائمز نے مجلس وحدت کی سیاسی پالیسی اور آئندے کے لائحہ عمل پر ان سے ایک مفصل گفتگو کی ہے، جو پیش خدمت ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: ان انتخابات کے حوالے سے مجلس نے کیا اہداف رکھے تھے اور موجودہ صورتحال میں ان میں سے کتنے فیصد میں کامیابی ہونے جا رہی ہے۔؟
ناصر عباس شیرازی: 
مجلس کے اںتخابات کے حوالے سے جو اہداف ہیں، ان کی بنیادی تھیم یہ ہے کہ پاکستان کا اصل مسئلہ بیانیہ ہے، جس کی بنیاد پر پالیسی بنتی ہے، پاکستان میں جو قومی مفاد کے خلاف فیصلے ہوئے ہیں، پاکستان کو جو ایک مسلکی ریاست بنا دیا گیا ہے، پاکستان میں جو فرقہ وارانہ گروہ سرگرم ہیں، تکفیری سرگرم ہیں، تکفیری ماحول بنانے کی کوشش کی گئی ہے، یہ جو دہشت گردی ہوئی ہے، پاکستان میں جو بیرونی مداخلت بڑھی ہے، طالبانائزیشن ہے، پاکستان میں جو اقتصادی عدم استحکام بڑھا ہے، یہ جو عالمی اقتصادی اداروں اور آئی ایم ایف پر انحصار بڑھا ہے، کرپشن بڑھی ہے، اس کے پیچھے وہ ایک بیانیہ ہی ہے، جس کی وجہ سے یہ ملک مسائل سے دوچار ہوا ہے، دراصل ہماری جنگ اس مذکورہ بیانیہ کے خلاف ہے۔ ہماری اس الیکشن میں جنگ اس بیانیہ کے خلاف ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ مکتب اہلبیت کو سیاسی تنہائی سے نکال کر قومی دھارے میں لیکر آئیں، ہم مکتب اہلبیت کے ماننے والوں کو ہم خیال جماعتوں کے ساتھ اتحاد میں ڈھالنے کے لئے کوشاں ہیں، جس میں ایک شیعہ سنی اتحاد نظر آئے اور ایک اسٹریٹیجک اتحاد بھی نظر آئے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بات جو ہمارے نعروں میں موجود ہے کہ قائد و اقبال کا پاکستان وہ مضبوط اور قوی نظر آئے۔ ملک کی خارجہ پالیسی، اقتصادی پالیسی، کرپشن، دہشتگردی کے حوالے سے زیرو ٹالرنس کے حوالے سے نسبتاً زیادہ قربت پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ ہے۔

ایک بڑی سیاسی جماعت ہونے کے باوجود تحریک انصاف نے کسی اور جماعت کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں کی لیکن مجلس وحدت مسلمین کے ساتھ کی ہے۔ یہ جو اہداف ہیں، وہ ہمارے نظریاتی اہداف ہیں، جس کے لئے ہماری سیاسی جنگ ہے، وہ بیانیہ کی جنگ ہے، ہم نے ایک اتحادی ڈھونڈا ہے، اس کے علاوہ دیگر اہلسنت کی جماعتوں کو ڈھونڈا ہے، جو ہمارے ساتھ اتحادی ہیں اور اس بیانیہ کے حوالے سے ہمارے ساتھ کھڑی ہیں۔ ہماری کوشش یہ ہے کہ پاکستان سعودی اتحاد سے نکل آئے، پاکستان امریکہ اور سعودی چنگل سے نکل آئے، اپنے فیصلے خود کرے، اپنی اقتصادی حالت خود بہتر کرے۔ کرپشن اور کرپٹ لوگوں کے خلاف کارروائی ہوئی، ماڈل ٹاون کے مجرموں کو سزا ملے، ہمارے ساتھ جو ڈیرہ اسماعیل خان، پاراچنار اور کوئٹہ میں ہوا، جو دہشتگردی ہوئی اور افراد شہید ہوئے، اس میں اس ملت کو ریلیف ملے۔ قاتلوں کو سزا ملے، الحمدللہ اس بیانیہ کے حوالے سے اجتماعی ماحول بنا ہے، سیاسی جماعتیں ہمارے ساتھ کھڑی ہوئی ہیں، سپریم کورٹ نے پہلی بار ڈیرہ اسماعیل خان کے معاملے پر ازخود نوٹس لیا ہے، یہ چیزیں ہیں جو بیانیہ سے تعلق رکھتی ہیں۔

اسلام ٹائمز: اہم سوال یہ ہے کہ مجلس کو پارلیمنٹ میں کیا ملے گا، اس پر تفصیل سے بتائیں۔؟
ناصر عباس شیرازی:
جی میں اسی طرف آرہا ہوں، ہمارا ہدف یہ بھی تھا کہ پارلیمنٹ میں جائیں، مکتب اہلبیت کے ماننے والوں کو نمائندگی ملے۔ آپ دیکھیں کہ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ایک بڑی سیاسی جماعت نے ہمارے مقابلے میں اپنے امیدوار دستبردار کئے ہیں۔ ہمارے لئے تین طرح کی صورتحال بنی، نمبر ایک یہ کہ جہاں مجلس کا امیدوار خیمے کے نشان پر ہے، وہاں پی ٹی آئی نے اپنا امیدوار دستبردار کیا ہے، دوسرا یہ کہ جہاں مقامی قیادت نے محسوس کیا کہ ہمیں بلے کے نشان پر اپنا امیدوار کھڑا کرنا چاہیئے، وہاں بھی پی ٹی آئی نے اپنا امیدوار دستبردار کرکے مجلس کے امیدوار کو بلے کا نشان دیا ہے، یہ وجود کی بڑی قبولیت ہے، تاریخ میں پہلے ایسا نہیں ہوا۔ تیسرا یہ ہے کہ ہم نے اوپن سیٹیں بھی لی ہیں، جہاں آپس میں ایڈجسٹمنٹ نہ بھی ہوسکے، لیکن جہاں ہمارا اسٹریٹیجک مفاد ہے، وہاں ہم نے اپنی مرضی کے امیدوار کو سپورٹ کیا ہے، مطلب یہ کہ جہاں تکفیری کھڑا ہے، وہاں ہم نے اپنے اس امیدوار کو سپورٹ کیا ہے، جو اس کو ہرا سکتا ہے، اس کا تعلق خواہ کسی بھی جماعت سے ہو، یہ بھی ہم نے کیا ہے۔ جھنگ اور دیگر نشستوں پر ایسا ہی ہوا ہے۔ اسی طرح ہم نے صاحبزادہ حامد رضا کو سپورٹ کرنے کا اعلان کیا ہے، کیونکہ وہ ہمارے ہم خیال، دوست اور اتحادی ہیں، مخالفت میں پی ٹی آئی کا ہی امیدوار تھا لیکن ہم نے حامد رضا کو سپورٹ کیا، کیوں وہ ہمارا اسٹریٹیجک ساتھی ہے۔ ہم نے رواداری کا ماحول بنایا ہے، تکفیریوں کے خلاف بھی محاذ کھڑا کیا ہے اور مثبت لوگوں کو اسمبلیوں میں پہنچانے کا بھی اقدام کیا ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا یہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ زبردست ہوئی ہے؟، اسکے بدلے میں کوئی بندہ پارلیمنٹ میں جائے پائیگا۔؟
ناصر عباس شیرازی:
میں سمجھتا ہوں کہ یہ آئیڈیل سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوئی ہے۔ پی ٹی آئی سے سیٹ ایڈجسمنٹ کے نتیجے میں اگر وہ پنجاب میں 50 سیٹوں سے اوپر سیٹیں لیتی ہے تو ہمیں ایک خصوصی سیٹ بھی ملے گی اور اس کے لئے پاکستان میں سیاسی سفر کا آغاز کرنے والے شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی دختر جو اس وقت مجلس وحدت مسلمین کی شعبہ خواتین ونگ کی مسئول ہیں، ان کا نام دیا گیا ہے۔ اگر اللہ کا لطف شامل حال رہا اور بلوچستان اسمبلی اور سندھ سے بھی ایک ایک نشست لے لیتے ہیں تو یہ ایک ریکارڈ کامیابی تصور ہوگی۔ اگر ایسا نہ بھی ہوسکا تو ہم کئی جگہوں پر رنر اپ ہوں گے، جو آئندہ سیاست کے حوالے سے اہم چیز ثابت ہوگی۔ اگر اہداف کی بات کریں تو ہم تکفیریوں کو تنہا کرنے میں بہت حد تک کامیاب ہوئے ہیں، ہم ایم ڈبلیو ایم کا سیاسی تشخص بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں، اس کے علاوہ تین صوبوں میں ہمارے امیدوار مقابلے کی فضا بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں، یقینی طور پر وہ امیدوار اول اور دوئم کی پوزیشن پر آئیں گے۔ اس کے علاوہ ہم خیال جماعت سے سیاسی اشتراک بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں تو یہ سیاسی کامیابی ہی ہے۔

اسلام ٹائمز: ایک شیعہ جماعت متحدہ مجلس عمل میں بھی شریک ہے، اسکو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں، کہیں ٹکراو تو نہیں بن رہا۔؟
ناصر عباس شیرازی:
میں اس نام نہاد مذہبی اتحاد جس کا مقصد تکفیریوں کو مضبوط کرنا اور مجلس کو کمزور کرنا ہے یہ ہمارے بیانیہ کے خلاف وجود میں آیا ہے، ہم نے تکفیریوں کو سیاسی طور پر کمزور کرنے کے لئے نیا اتحاد بنایا ہے جبکہ ایم ایم اے کا اتحاد ان تکفیریوں کو تقویت پہنچا رہا ہے، سعودی بلاک کو مضبوط کرتا ہے، کوئٹہ کی صورتحال آپ کے سامنے ہے، ان لوگوں نے مجلس کے امیدوار کے خلاف اپنا امیدوار کھڑا کیا ہے، کیا ایسا کرنا چاہیئے تھا۔؟ یہ سوال ہم قوم پر چھوڑتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: مجلس وحدت بھی تو کچھ اچھا تاثر دیتی نا۔؟
ناصر عباس شیرازی:
کیا آپ دوستوں کے علم میں نہیں ہے کہ نگر کے ضمنی الیکشن میں ہم نے قربانی دی، امیدوار دستبردار کیا، ان کو سپورٹ کیا اور حتٰی الیکشن کمپین چلائی۔ اپوزیشن لیڈر کے لئے کیپٹن شفیع کی حمایت کی، اس سے بڑھ کر کیا اچھا تاثر دے سکتے تھے۔؟ آغا رضا کے مقابلے میں امیدوار کھڑا کرنے پر پوری قوم دکھی ہے اس پر مزید کچھ نہیں کہہ سکتا۔

اسلام ٹائمز: یہ جو عوامی تاثر ہے کہ جب مجلس وحدت یا کسی دوسری مذہبی جماعت کا نامزد کردہ شخص جیت نہیں رہا ہوتا تو اسکو ووٹ دینا ووٹ کو ضائع کرنا ہے، اس عوامی تاثر کو کیسے زائل کرسکتے ہیں۔؟
ناصر عباس شیرازی:
میں سمجھتا ہوں کہ سب سے اہم یہی ہوتا ہے کہ ایک جماعت کے امیدوار کے بارے میں یہ رائے ہو کہ یہ لوگ ہار جائیں گے، لیکن اس کے باوجود لوگ کھڑے ہوں، بھلے چند ہزار ہی ووٹ کیوں نہ ملیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈئی ہارٹ ووٹ آپ کے تشخص کے لئے ضروری ہے، یہ ووٹ جتنا جتنا بڑھتا جائے گا، اس کی قیمت اور ارزش بڑھتی جائے گی۔ سیاسی صورت میں یہ اس ووٹ کی قدر و قمیت ہے، جس کی بنیاد پر آپ سیاسی جماعتوں سے لے دے کرتے ہیں۔ آپ بھلے ہار جاتے ہیں لیکن اسی ووٹ پر ہی آپ سیاسی جماعتوں کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اسی ووٹ کے نتیجے میں ہی ہم نے سیاسی جماعتوں کی بلیک میلنگ ختم کی ہے، جو سمجھتی تھیں کہ تشیع کا ووٹ ہماری جیب کا ووٹ ہے، اسی ووٹ بینک نے ثابت کیا ہے کہ ایک بڑی تعداد مظلوموں کی ہر مشکل میں مجلس کے ساتھ کھڑی ہے۔ اس کے اندر جو تسلسل کے ساتھ اضافہ ہوا، وہ ایک دلیل بنی ہے، ایک بدترین کیفت میں جہاں وڈیرہ ازم، برادری ازم، جاگیرداروں کی مناپلی ہے، وہاں یہ ووٹ آپ کی شناخت بنتا ہے۔

یہ سیاسی سفر کی ابتدا ہے، یہ میراتھن ریس ہے، یہ کوئی 100 میٹر کی ریس نہیں ہے، جو ایک جھٹکے میں ختم ہو جائے گی۔ لمبی ریس میں آپ کو دہائیوں کی تیاری کرنا پڑتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم اس ووٹ کو اپنے ساتھ مربوط کرنے اور اس کی تعداد بڑھانے کے لئے اقدامات کرتے رہیں تو ہم جیت کی طرف جا سکتے ہیں۔ ہم اسمبلیوں میں اپنی نمائندگی کو بڑھانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ کا ایک حلقے میں پانچ ہزار ووٹ ہو اور دوسرے میں پچاس ہزار ہو تو یہاں io ووٹ اس حلقے میں مخالف کے ووٹوں کو پنتالیس اور حامی کے ووٹ کو پچپن ہزار کر دے گا۔ اس بنیاد پر آپ فیصلے سازی میں اہم ثابت ہوتے ہیں، اسی بنیاد پر سیاسی اہداف حاصل کرسکتے ہیں۔ اس کیفیت میں پڑنے والا ووٹ آئندہ کے لئے بارگین چپ ثابت ہوتا ہے۔ ہم نے مخدوم امین فہیم کے حلقے میں ضمنی الیکشن میں 17 ہزار ووٹ حاصل کئے تھے، اسی بنیاد پر ہی پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کرنے میں کامیاب ہوئے۔
 
خبر کا کوڈ : 739551
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

عمران خان، جو طالبان خان کے نام سے معروف هو چکا اور اسکی بڑی دلیل بابا طالبان کو کروڑوں کا فنڈ دینا اور طالبان کے حق میں لانگ مارچ کرنا جیسے کام کیے!!! کیا پهر بهی تم اس کی حمایت کرکے ملت کی خدمت اور تکفیروں اور طالبان کو روکنے کی بات کرتے ہو! تم خود کو مذهبی گروه سمجهتے هو جبکه عمران فحاشی عریانی کی ترویج اور خود کو سیکولار فکر کا مروج، کیا یه ایک مزاحیه اتحاد نہیں ہے؟!!!
Iran, Islamic Republic of
تمهاری کامیابی کی بات کا واضح ثبوت معاویه اعظم طارق کو طالبان خان یعنی عمران کا تازه خریدنا ھے، ھوگے تم کامباب!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
ہماری پیشکش