0
Saturday 27 Jan 2018 20:11

نقیب نے کہا کہ پولیس والے الزام لگا رہے ہیں کہ تم حکیم اللہ محسود کے گن مین ہو، مقتول کے دوست کا بیان

نقیب نے کہا کہ پولیس والے الزام لگا رہے ہیں کہ تم حکیم اللہ محسود کے گن مین ہو، مقتول کے دوست کا بیان
اسلام ٹائمز۔ مقتول نقیب اللہ محسود کے دوست حضرت علی نے کہا کہ میں نے نقیب سے پوچھا کہ آخر بات کیا ہے؟ تو اس نے کہا کہ پتا نہیں کیا بات ہے؟ بس اتنا کہہ رہے ہیں کہ تم لوگ حکیم اللہ محسود کے گن مین ہو۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے حضرت علی کا کہنا تھا کہ نقیب اللہ میرا فیس بک پر دوست تھا اور اس کے ساتھ تقریب میں ملاقات ہوئی اور وہ ایک اچھا دوست بن گیا، میں اور میرا ایک اور دوست قاسم ایک دن کراچی کپڑے لینے آئے ہوئے تھے، تو نقیب نے مجھے میسج کیا کہ مجھے تمہاری بہت یاد آرہی ہے مجھے ملنے آ جاو، جب ہم اسے ملنے پہنچے تو وہاں ایک ویٹر آیا جسے نقیب نے چائے کا آرڈر دیا تھا، اتنے میں 5 سے 6 لوگ آئے جو سادہ کپڑوں میں ملبوس تھے انہوں نے ہمیں کہا کہ چلو ہمارے ساتھ گاڑی میں بیٹھو، نقیب نے ان سے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ اس پر میں نے کہا کہ انہیں ہم پر کوئی شک ہوا ہے تو کوئی پوچھ گچھ کرنی ہوگی۔ حضرت علی نے کہا کہ وہ لوگ ہمیں ایک کمرے میں لے گئے جہاں ہمیں علیحدہ علیحدہ بٹھا دیا گیا، بعد میں میرے پاس آئے تو ہمیں کہا کہ تیار ہوجاو ہمیں تم کو جنت میں بھیجنا ہے، میں نے کہا کہ آخر بات کیا ہے؟ وہ مجھ سے نقیب کے بارے میں پوچھنے لگے، آخرکار ہماری آنکھوں پر پٹی باندھ کر ہمیں ایک گاڑی میں بٹھا کر ایک نامعلوم مقام پر لے گئے اور وہ وہاں جا کر ہمارے ہاتھ کھول دیئے گئے اور ہم سے کہا گیا کہ جب افسر آئیں تو اپنی آنکھیں بند رکھنا۔ علی نے مزید کہا کہ افسر نے آکر مجھ سے میرے آباو اجداد کے متعلق پوچھا اور چلا گیا، صبح ہوئی تو ہمیں کھانا دیا گیا اور نقیب کو آنکھوں پر پٹی باندھ کر باہر لے گئے اور اسے مارتے رہے۔

علی نے بتایا کہ ہمیں باری باری مارتے رہے، آنکھوں پر پٹی باندھی گئی اور منہ میں کپڑا ڈالا، جبکہ آنکھ اور ناک میں نسوار ڈالر کر کان سے پانی ڈالتے رہے جو سیدھا میدے میں جاتا تھا، یہی نہیں ٹیبل پر لٹا کر پاوں ہاتھ اور گردن سے باندھ کر ہم پر بدترین تشدد کیا جاتا تھا، میں نے پولیس والے کہا کہ تم سیدھی طرح کہہ دو کہ ہماری زندگی خراب کرنا چاہتے ہو تو میں کہہ دوں گا کہ ساتھ والا قبرستان پورا میں نے ہی بھرا ہے، لیکن میرا اتنا کہنے کے بعد بھی پولیس والے مارتے رہے اور یہی کہتے رہے کہ بتاو کیا کرتے ہو تم؟ یہاں کیا کرنے آئے تھے؟ اگلی صبح بھی نقیب کو باہر لے گئے اور اسے مارنا شروع کردیا۔ حضرت علی نے کہا کہ میں نے نقیب سے پوچھا کہ آخر بات کیا ہے؟ تو اس نے کہا کہ پتا نہیں کیا بات ہے؟ بس اتنا کہہ رہے ہیں کہ تم لوگ حکیم اللہ محسود کے گن مین ہو، بعد میں مجھ سے پولیس والے نے آکر پوچھا کہ تم کیا کررہے ہو؟ تو میں نے کہا کہ کھانا کھا رہا ہوں، تو اس نے کہا کہ کھالو مگر بعد ازاں انہوں نے ہمیں آہستہ آہستہ مارنا بند کر دیا اور ان کا رویہ بھی ٹھیک ہوگیا۔ پھر ایک دن مجھے اور میرے دوسرے دوست قاسم کی آنکھوں پر پٹی باندھی اور گاڑی میں بٹھا کر لایا گیا اور چھوڑ دیا گیا، جب ہم گھر پہنچے تو ہم سے گھر والوں نے پوچھا کہ نقیب کہاں ہے؟ اس سوال سے قبل ہم لوگ یہ ہی سمجھتے رہے تھے کہ نقیب کو چھوڑ دیا گیا ہے کہ لیکن ایسا نہیں ہوا اور پھر خبر چلی کہ نقیب کو مار دیا گیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 700213
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش