1
Monday 21 May 2018 04:42

گورننس آرڈر ختم، گلگت بلتستان میں نیا نظام لاگو

گورننس آرڈر ختم، گلگت بلتستان میں نیا نظام لاگو
اسلام ٹائمز۔ گلگت بلتستان میں انتظامی اصلاحات کا نیا آرڈر نافذ کر دیا گیا، اس بات کا اعلان صوبائی وزیر قانون اورنگزیب ایڈووکیٹ اور مشیر اطلاعات شمس میر نے ہنگامی پریس کانفرنس کے ذریعے کیا۔ انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی سے منظوری کے بعد گلگت بلتستان آرڈر 2018ء کو باقاعدہ طور پر نافذ کر دیا گیا ہے، جس کے بعد گورننس آرڈر 2009ء ختم ہو جائے گا، اس کی جگہ پر نیا گورننس آرڈر لے گا۔ صوبائی وزیر قانون اور مشیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ قومی سلامتی کمیٹی میں تینوں مسلح افواج کے سربراہان نے بھی مجوزہ آرڈر کی توثیق کر دی تھی، جس کے بعد سے یہ نافذ کر دیا گیا ہے۔ نئے آرڈر کے تحت سٹیزن ایکٹ 1951ء کا اطلاق گلگت بلتستان پر بھی ہوگا، جس میں شرط ہے کہ کوئی بھی فرد گلگت بلتستان میں مستقل سکونت اور مقامی ڈومیسائل کے حصول کے بغیر گلگت بلتستان کا شہری نہیں کہلا سکتا۔ گلگت بلتستان کے شہریوں کو پاکستان کی اعلٰی عدالتوں تک رسائی ہوگی اور وہ پاکستان کی کسی بھی عدالت بشمول سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کرسکیں گے، صوبائی حکومت کو نئے اضلاع کے قیام کا اختیار حاصل ہو گا، صوبائی کابینہ میں وزراء کی تعداد 12 ہوگی، جبکہ چیف کورٹ میں ججز کی تعداد کو پانچ سے بڑھا کر سات کر دیا گیا ہے۔ نئے آرڈر کے مطابق گلگت بلتستان کونسل کے تمام اختیارات جی بی اسمبلی کو منتقل ہوگئے ہیں۔

منرلز، مائننگ، ہائیڈرو سمیت دیگر شعبوں میں قانون سازی کا اختیار صوبائی اسمبلی کو حاصل ہوگا، قانون ساز اسمبلی اپ گلگت بلتستان اسمبلی کہلائے گی، چیف کورٹ کا نام ہائیکورٹ ہوگا، ججوں کی تقرری کیلئے پانچ رکنی کمیٹی بنے گی، جس کی سفارشات کی روشنی میں وزیراعظم پاکستان ججز کی تقرری عمل میں لائیں گے، جبکہ سپریم اپلیٹ کورٹ کے چیف جج کے عہدے پر صرف سپریم کورٹ آف پاکستان کا ریٹائرڈ جج ہی تعینات ہوگا۔ ہائیکورٹ میں ججز کی تعداد وکلاء برادری کے مطالبے پر بڑھا دی گی ہے۔ جی بی کی اعلٰی عدالتوں میں ججز کی عمر کی حد بھی متعین کر دی گئی ہے، جو کہ پہلے موجود نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان اسمبلی کو اب قانون سازی کے حوالے سے وہ تمام حقوق میسر ہونگے، جو ملک کے دیگر صوبوں کی اسمبلیوں کو حاصل ہیں۔ گلگت بلتستان کونسل کے پاس موجود اختیارات سمیت منرلز، ہائیڈر، پاور اور سیاحت کا شعبہ بھی گلگت بلتستان اسمبلی کو منتقل کردیا گیا ہے، جس کی روشنی میں گلگت بلتستان اسمبلی قانون سازی کرسکے گی۔ گلگت بلتستان اسمبلی کو آئین پاکستان کے شیڈول فور کے تحت وہ تمام اختیارات منتقل ہوگئے ہیں، جو دیگر اسمبلیوں کے پاس ہیں۔ انہوں نے اس بات کی تردید کی کہ نئے آرڈر میں اختیارات کا منبع وزیراعظم کو بنا دیا گیا ہے، حقیقت یہ ہے کہ وزیراعظم کو جی بی میں وہی اختیارات حاصل ہونگے، جو دوسرے صوبوں میں حاصل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کو تمام مالیاتی اداروں بشمول ایکنک، ارسا میں نمائندگی حاصل ہوگی، ہر سیشن میں گلگت بلتستان کا نمائندہ موجود ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ نئے آرڈر کو تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے مرتب کیا گیا ہے، لیکن اپوزیشن منفی سیاست کر رہی ہے، جو شرمناک ہے۔ گلگت بلتستان آرڈر 2018ء کے حوالے سے جتنا منفی کردار اپوزیشن رہنماﺅں نے ادا کیا ہے، اس کی مثال نہیں ملتی ہے۔ اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لئے گلگت بلتستان کے قومی مفادات کا سودا کرنے کی کوشش کی ہے، جو لوگ پاکستان اور پاکستان کے آئین کو ماننے سے انکار کر رہے تھے، وہ لوگ آج پارلیمنٹ آف پاکستان کے سائے میں دھرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو کی پالیسی کو گلگت بلتستان کے عوام نے مسترد کر دیا ہے۔ دوسری جانب گلگت بلتستان حکومت کی جانب سے نئے آرڈر کے باقاعدہ نفاذ کے اعلان پر پر قانونی ماہرین شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیں، کیونکہ نئے آرڈر کی ابھی وفاقی کابینہ نے منظوری دینی ہے، جس کے بعد صدارتی آرڈر کے ذریعے نئے نظام کو نافذ کیا جانا ہے۔ وفاقی کابینہ سے منظوری اور صدر کی توثیق کے بغیر عجلت میں نافذ کرنے کی آخر کیا وجہ ہے؟ واضح رہے کہ 22 مئی کو وزیراعظم کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں گلگت بلتستان آرڈر 2018ء کی منظوری دی جائے گی، جس کے بعد یہ مسودہ صدر کے پاس جائے گا اور صدارتی آرڈر کے ذریعے نیا نظام نافذ العمل ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 726273
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش