اسلام ٹائمز۔ ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبری سلام اللہ علیہا کے یوم وفات کی مناسبت سے دارالقرآن علامہ طباطبائی قم میں ایک مجلس عزا برپا ہوئی۔ اس مجلس سے خطاب کرتے ہوئے آیت اللہ العظمیٰ ناصر مکارم شیرازی نے ام المومنین کی حیات طیبہ پر روشنی ڈالی۔ ابنا نیوز کے مطابق آیت اللہ مکارم شیرازی نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی کو دو حصوں مکہ اور مدینہ میں تقسیم کیا اور کہا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعض ساتھیوں نے ان کی صرف مکہ کی زندگی کو درک کیا کہ جو مشکلات سے بھرپور دور تھا، لیکن بعض نے مدینہ کی زندگی کو بھی درک کیا کہ جس میں مکہ کی نسبت مشکلات کم تھیں۔ انہوں نے ام المومنین کی اسلام کے بارے میں اٹھائی جانے والی زحمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ حضرت خدیجہ سلام اللہ ان شخصیات میں سے ہیں کہ جنہوں نے صرف مکہ کا مشکل دور دیکھا۔
آپ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سب سے پہلے جانثاروں میں سے تھیں اور آپ کا کام یہ تھا کہ جب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے گھر تشریف لاتے تو آپ ان کے زخموں کو صاف کرتیں، چونکہ کفار نے اپنے بچوں کو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف اکسایا ہوا تھا، جو ان کو پتھر مارتے تھے۔ آیت اللہ مکارم نے کہا کہ ان سب مصائب میں سخت ترین دور شعب ابو طالب علیہ السلام کا زمانہ تھا۔ اس زمانے میں مسلمانوں پر مکمل پابندیاں عائد تھیں اور مشرکین کی جانب سے ہر قسم کا بائیکاٹ کیا گیا تھا، حتیٰ کھانے پینے کی اشیاء اور بات چیت بھی ختم کر دی گئی تھی۔
عظیم مفکر نے ام المومنین کی زندگی کے مختلف پہلووں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانب سے حضرت خدیجہ کبری سلام اللہ علیہا کا رشتہ مانگنے اور ان کی شادی سے متعلق بیان کی گئی حدیث کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ ہماری تحقیقات کے مطابق ام المومنین حضرت خدیجہ (س) کی عمر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے وقت چھبیس یا اٹھائیس برس تھی۔ یہ جو کہا جاتا کہ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ شادی کے وقت چالیس سال کی بیوہ تھیں، یہ ایک سازش تھی، جس کے تحت بعض لوگوں نے ام المومنین خدیجہ سلام اللہ کے مقابلے میں بعض دوسروں کو بڑا دکھانے کی کوشش کی۔ بنی امیہ نے اس جعلی خبر کو ترویج دینے میں اپنا کردار ادا کیا۔