3
Tuesday 19 Jun 2018 19:04

مسئلہ چاند کا (2)

مسئلہ چاند کا (2)
تحریر: سید میثم ہمدانی
meesamhamadani@gmail.com

حقیقت تو یہ ہے کہ اسلام کے اکثر اجتماعی احکام حکومتی مسائل میں سے ہیں۔ عید کا ہونا یا نہ ہونا تقلیدی مسئلہ نہیں ہے کہ جس میں حتما مجتہد سے پوچھا جائے ہاں اس مسئلہ کے فقہی مبانی ضرور تقلیدی ہیں۔ جیسا کہ رویت ہلال یا رائے منجم، چشم مسلح اور اتحاد افق وغیرہ۔ ان مسائل میں مجتہد کے فتوی کے ضرورت ہے لیکن اس کے بعد جہاں مصداقی بات ہے وہاں تقلید نہیں ہے، یعنی آیا چاند نظر آیا یا نہیں آیا؟ اس بات میں تقلید نہیں ہو گی، اس کیلئے مجتہدین نے کلی اصول بیان کر دیئے ہیں ان کے مطابق خود مکلف کی ذمہ داری ہے کہ ان کی تشخیص دے۔
 
جہاں تک یہ بات ہے کہ رویت ہلال طریقی ہے یا موضوعی تو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ چاند کو دیکھنا خود موضوع نہیں ہے۔ اسی وجہ سے اگر ایک علاقے میں بادل ہوں یا مثال کے طور پر ہوا میں مٹی کے ذرات یا کوئی ایسی رکاوٹ ہو کہ جس سے چاندکو نہ دیکھا جاسکے لیکن اس بات کا اطمینان حاصل ہو جائے کہ اول ماہ شوال کا چاند نظر آگیا ہے تو عید ثابت ہو جائے گی اور اس دن روزہ رکھنا حرام ہوگا جبکہ اگر رویت موضوع ہوتا تو جب تک چاند نظر نہ آتا عید کا اعلان نہیں کیا سکتا تھا۔ اسی بنا پر اتحاد افق کی بنیاد پر اگر ایک علاقہ میں چاند نظر آجائے تو دوسرے علاقے میں جو اس علاقے کے ساتھ چاند کے نظر آنے یا نہ آنے کے حوالے سے مساوی ہے اول ماہ ثابت ہو جائے گا جبکہ اگر چاند کی رویت موضوع ہوتی تو یہ بات قابل قبول نہیں تھی۔ لیکن اس بات سے یہ مطلب بھی نہیں نکل سکتا کہ اگر کسی ماہر نجومی کی رائے کے مطابق کلینڈر ترتیب دے دیا جائے تو بغیر رویت کے ماہ شوال کے آغاز کو معتبر جان لیا جائے چونکہ رویت ہلال طریقی ہے۔ یہاں اس بات کی طرف توجہ رہنی چاہیئے کہ اگر رویت ہلال طریقی بھی ہو تو یہ ایسا طریق ہے کہ جو منصوص ہے اور شائد اس کو "صم للرویہ و افطر للرویہ" کی بنا پر محصور بھی کہا جاسکتا ہے چونکہ نص روایت میں "صم و افطر" کا طریق بھی بیان کر دیا گیا ہے۔ بہرحال یہ اجتہادی بحث ہے جس کو اپنے مقام پر ہی  بیان ہونا چاہیئے یہاں جو بات کہی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ فقہی اجماع بین علمائے امامیہ و عامہ رویت، اول ماہ کے اثبات کیلئے بنیادی حیثیت رکھتی ہے اور کسی بھی فقیہ نے رویت کو کلینڈر کے ساتھ تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دی۔ حتی کہ ایسے مجتہدین جو روئیت کو چشم مسلح کے ساتھ معتبر جانتے ہیں ان کی بھی شرط یہ ہے کہ یہ چشم مسلح، عنوان رویت کی نفی نہ کرے۔ اگر چشم مسلح کی وجہ سے عنوان رویت ختم ہو جائے تو یہ شہادت معتبر نہیں ہے اسی لئے عرض ہوا تھا کہ اگر کسی خاص ٹیکنالوجی کے ذریعے آسمان کے اسکین کے ذریعے چاند کے ہونے یا بقول دیگر وجود چاند کو  ثابت کیا جائے تو چونکہ یہ رویت نہیں ہے لہذا معتبر نہیں ہے۔
 
افق:      فقہی مسائل میں سے ایک مسئلہ یہ ہے کہ آیا چاند اور سورج کا طلوع اور ان کی رویت یا ان کا غروب پوری زمین کیلئے ایک ہی ہے یا مختلف ہے؟  یہاں فقہا کے درمیان ایک اصطلاح رائج ہے جسے (اتحاد الآفاق) اور  (اتحاد الافق) کہا جاتا ہے۔ یہ ایک علمی مسئلہ ہے جو مفصل انداز میں بیان ہوا ہے۔ اس بارے میں مفصل کتب بھی موجود ہیں کہ جنکے بارے میں اس مقالہ میں بات کرنا ممکن نہیں ہے لہذا ہم عام فہم زبان میں سادہ طریقے سے اتحاد افق کے بارے میں بات کریں گے۔
 
 فقہ اہلسنت کے اندر بھی افق (مطلع) کے مسئلہ میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اہلسنت کے مشہور فقہی حکم کے مطابق اگر چاند ایک جگہ نظر آجائے تو تمام علاقوں کیلئے معتبر ہے جبکہ جناب ابوحنیفہ اور شافعی مکتب کا نظریہ امامیہ مکتب کے مشہور نظریہ کے قریب ہے؛ یعنی چاند کا کسی ایک شہر میں رویت ہونا اس شہر کیلئے اور اس کے اطراف میں موجود نزدیک شہروں اور متحد الافق شہروں کیلئے معتبر ہے۔
 
فقہ امامیہ میں بعض علما اس بات کے قائل ہیں کہ اگر کرہ ارض پر کسی بھی جگہ چاند دیکھا جائے تو اس بنا پر پوری دنیا میں اور تمام ممالک میں جو چاند دیکھے جانے والے علاقے کے ساتھ رات میں یا اسکے بعض حصے میں مشترک ہوں عیدالفطر ہو گی چاہے یہ علاقے چاند کے دیکھے جانے والے علاقے سے مشرق میں واقع ہوں یا مغرب میں۔ اس نظریہ کو آیت اللہ خوئی اور بعض دیگر مجتہدین کا نظریہ کہا جاتا ہے جبکہ اسی نظریہ میں بعض مجتہدین حتی رات کی شرط کو بہت ختم کرتے ہوئے  چاند کو پوری دنیا کیلئے معتبر قرار دیتے ہیں۔ پس اس بنا پر کہیں بھی چاند نظر آنے کی صورت میں  اگلے دن پوری دنیا کے لوگ عید الفطر منائیں گے اس کو غیرمشہور قول کہا جاتا ہے۔ اس نظریہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں اتحاد افق کی شرط موجود نہیں ہے۔ اس نظریہ کو اتحاد الآفاق کہا جاتا ہے۔
 
بعض علما اتحاد افق کی شرط کو قبول کرتے ہوئے اس بات کے قائل ہیں کہ اگر  ایک شھر میں چاند نظر آجائے تو اس کے مغرب میں واقع شہروں میں بھی عیدالفطر ہو گی۔
 
فقہ امامیہ میں مشہور نظریہ کےمطابق اگر ایک شہر میں چاند نظر آئے تو یہ چاند صرف اسی شہر کیلئے اور اس کے اطراف میں موجود علاقوں اور  ایسے شہر جو  چاند نظر آنے والے شہر کے افق کے ساتھ متحد ہوں معتبر ہے۔
 
اس نظریہ کو اتحاد افق کا نام دیا جاتا ہے۔ قارئین کو اس نظریہ سے مزید آشنائی کیلئے ہم بعض مجتہدین کے فتاوی پیش کئے دیتے ہیں۔
 
امام خمینی علیہ الرحمہ کے مطابق اگر  ایک شہر میں اول ماہ ثابت ہو جائے تو یہ دوسرے شہر کے لوگوں کے لئے فائدہ مند نہیں ہے، مگر یہ کہ یہ دونوں شہر ایک دوسرے سے نزدیک ہوں یا انسان کو علم ہو کہ ان دونوں شہروں کا افق ایک ہے۔ (مسئلہ نمبر 1735)
 
آیت اللہ سید علی خامنہ ای کہتے ہیں کہ رویت ہلال میں اتحاد افق شرط ہے۔
 
آیت اللہ سیستانی مسئلہ نمبر 1735 میں فرماتے ہیں کہ اگر ایک شہر میں اول ماہ ثابت ہو جائے تو  ایسے دوسرے شہر کہ جو اس شہر کے ساتھ افق میں متحد ہیں،ان کیلئے اول ماہ ثابت ہو جائے گا۔ یہاں اتحاد افق سے مراد یہ ہے کہ اگر پہلے شہر میں چاند نظر آجائے تو دوسرے شہر میں بھی اگر  مثلا بادل وغیرہ جیسی کوئی رکاوٹ موجود نہ ہو تو اسکو  دیکھا جاسکتا ہے۔
 
پس اگر دیکھا جائے تو فقہ شیعہ میں تمام مراجع عظام متحد الافق شہروں میں چاند نظر آنے پر ان تمام شہروں میں عید الفطر کے ثابت ہونے کو قبول کرتے ہیں۔ لہذا عام طور پر  یہ فکر کہ اتحاد افق کے مسئلہ میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے صحیح نہیں ہے۔ قارئین گرامی ذرا غور فرمائیں غیر مشہور نظریہ کے نزدیک کہیں بھی چاند کا نظر آنا پوری دنیا کیلئے معتبر ہے اور اتحاد افق کی شرط کے مطابق جن علاقوں کا افق ایک ہو وہاں کہیں بھی چاند کا نظر آنا معتبر ہے، پس یہ کہنا صحیح ہے کہ ایسے علاقے جن کا افق ایک ہے وہاں فقہائے امامیہ کے اجماع کے مطابق کہیں بھی چاند کا نظر آنا باقی علاقوں کیلئے معتبر ہو گا۔
 
افق کی تشخیص:      اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ افق سے کیا مراد ہے؟ افق کی تعریف کیا ہے؟

آیت اللہ خامنہ اتحاد افق کے بارے میں اپنے  جدید ترین فتوی میں کہتے ہیں کہ اتحاد افق سے مراد ایسے شہر ہیں کہ جو چاند کے نظر آنے یا نہ آنے کے اعتبار سے مساوی ہوں اور  اس کی تشخیص مکلف کی ذمہ داری ہے۔
 
 بعض علما اتحاد افق کہ تعریف یوں کرتے ہیں کہ ایسے شہر، ملک یا علاقے کہ جو  رات یا رات کے بعض حصے میں مشترک ہوں۔
 
 اسی طرح ایک تعریف کے مطابق ایسے شہر جو ایک دوسرے سے نزدیک ہوں ان کو بہ اصطلاح "ھم افق" کہا جاتا ہے یعنی ان کا افق ایک ہے۔
 
 ایک اور تعریف کے مطابق جو علم افلاک کو مدنظر رکھ کر گئی ہے اور جس کو اکثر فقہی کتب میں بھی پیش کیا گیا ہے اتحاد افق سے مراد ایسے شہر اور علاقے ہیں جو  ایک ہی خط(علم ہیئت و افلاک کے مطابق) پر واقع ہوں۔
 
اگر آپ دنیا کے نقشے کا مشاہدہ کریں تو اس پر آپ کو دو قسم کے خطوط نظر آئیں گے۔ ان میں سے بعض افقی ہیں اور بعض عمودی ہیں۔ افقی خطوط کو عرض جغرافیائی کہا جاتا ہے اور عمودی خطوط کو طول جغرافیائی کہا جاتا ہے۔ طول جغرافیائی زمین کے دونوں قطب میں ایک دوسرے کے ساتھ مل جاتے ہیں اور یہ خطوط جس حد تک خط استوا کے نزدیک ہوتے جاتے ہیں ایک دوسرے سے دور ہوتے جاتے ہیں۔ بالفاظ دیگر زمین کے گرد قطبین کے درمیان کھنچے ہوئے فرضی خطوط طول البلد کہلاتے ہیں۔ یہ خط استوا پر عموداً واقع ہوتے ہیں اور طول البلد کا ہر خط قطب شمالی سے شروع ہوتا ہے جو خط استواء کو قطع کرتا اور قطب جنوبی پہ جا کر ختم ہو جاتا ہے۔ ان خطوط کی مدد سے کسی بھی معیاری نقشے پر کسی مقام کا پتہ لگایا جاتا ہے۔ طول البلد کو انگریزی میں Longitude کہتے ہیں۔ قطبین کو poles کہتے ہیں۔ اور خطِ استوا کو equator کہتے ہیں۔ طول البلد کو نصف النہار بھی کہتے ہیں۔ نصف النہار اولیٰ (prime meridian ) انگلستان کے مقام گرینویچ (Greenwich) سے گزرتا ہے۔

اس تعریف کے مطابق اتحاد افق سے مراد ایسے شہر ہیں جو ایک طول جغرافیایی اور ایک خط پر واقع ہوں، یا عرض حغرافیائی میں ان کا فاصلہ کم ہو اس طرح کہ اگر پہلے شہر میں چاند کو دیکھا جائے تو دوسرے شہر میں کسی مانع یا رکاوٹ کے نہ ہونے کی بنا پر چاند کو دیکھا جاسکے۔ پس اس بنا پر اگر دو شہر جیسے قم اور تہران جو ایک طولی خط پر واقع ہوں گے کہا جائے گا کہ یہ افق میں متحد ہیں (رسالہ امام خمینی رہ (محشی)، گردآورندہ بنی ہاشمی خمینی، سید محمد حسین، جلد ۱، ص 926 مسئلہ 1735،  ذیل نظر آیت اللہ سیستانی و ص 986، س 839، دفتر انتشارات اسلامی، قم، چاپ ہشتم، 1424 قمری) ۔
 





بعض ماہرین علم نجوم و افلاک اتحاد افق کیلئے اس تعریف کو قبول نہیں کرتے۔ ان کے بقول ایک افق پر موجود شہروں کو معین کرنے کیلئے ضروری ہے کہ بہت زیادہ پیچیدہ حساب کتاب جس میں سورج کی حرکت، چاند کی حرکت، چاند کے کروی شکل ہونے کی وجہ سے اس کے سورج کے مقابلے میں موجود ہونے اور ان سب کا زمین کے مختلف مقامات سے کس زاویے پر ہونے اور زمین کی حرکت کے ساتھ تناسب کے بعد متحد الافق شہروں کا انتخاب کیا جانا ممکن ہے۔
 
اس ساری بحث کو پیش کرنے کا مقصد یہ بیان کرنا نہیں ہے کونسا شھر کس افق پر موجود ہے بلکہ اس بات کی کوشش کرنا ہے کہ افق کو کیسے تشخیص دیا جاسکتا ہے؟ مثال کے طور پر اگر سعودی عرب میں چاند نظر آجائے تو آیا اتحاد افق کے فتوی کی بنیاد پر پاکستان میں یہ چاند معتبر ہو گا یا نہیں؟ اگر پاکستان میں چاند نظر آئے تو آیا یہ چاند ایران میں یا بالعکس اگر ایران میں چاند نظر آجائے تو یہ چاند پاکستان میں معتبر ہو گا یا نہیں؟
 
یہاں سوال کیا جاتا ہے کہ مجتہد سے پوچھا جائے کہ ہماری عید ہے یا نہیں ہے؟ یعنی عام زبان میں درحقیقت اسی سوال کا جواب مجتہد سے مانگا جاتا ہے۔ جبکہ مجتہد کا کام فقہی اور شرعی طور پر حکم کو بیان کرنا ہے اب اس حکم کی تطبیق کیسے ہو گی یہ کام خود مکلفین کی ذمہ داری ہے۔ مکلف یا خود اس علم کا ماہر ہو یا علم کے ماہر سے رجوع کرے۔
 
بعض ماہرین کے نزدیک اگر شوال کا چاند ایران میں نظر آجائے  تو اتحاد افق کی بنیاد پر یہ چاند افریقہ، شمالی اور جنوبی امریکہ، یورپ کے جنوب میں واقع ممالک، ایشیا میں واقع افغانستان، پاکستان، ویتنام، لائوس میانمار، ہندوستان کے شمال مشرقی اور غربی علاقوں کے علاوہ تمام شہروں اور بعض دیگر علاقوں میں بھی عید فطر کا اطلاق ہو گا اور وہاں اول ماہ شوال کا اثبات ہو جائے گا۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ کہ اگر اس ماہرانہ رائے کو قبول کیا جائے تو اول شوال نہ صرف آیت اللہ خامنہ ای کی نظر سے بلکہ تمام شیعہ فقہا جو مشہور نظریہ اتحاد افق کے قائل ہیں ان تمام کی نظر ان تمام ممالک میں ایک ہی دن ہو گی۔ من جملہ آیت اللہ خامنہ ای اور  آیت اللہ سیستانی (چشم مسلح و غیر مسلح کی رعایت کے ساتھ) ان کے مطابق ان تمام علاقوں میں عید الفطر کا اطلاق ہو گا۔

جاری ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 
خبر کا کوڈ : 732330
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش