0
Thursday 5 Jul 2018 21:55

تحریک طالبان پاکستان افغان طالبان کا حصہ تھی جسے پاکستان نے بنایا تھا، افغان سفیر

تحریک طالبان پاکستان افغان طالبان کا حصہ تھی جسے پاکستان نے بنایا تھا، افغان سفیر
اسلام ٹائمز۔ پاکستان میں تعینات افغان سفیر ڈاکٹر عمر زخیلوال نے الزام لگایا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان افغان طالبان کا حصہ تھی جسے پاکستان نے بنایا تھا۔ یہ الزامات اس وقت سامنے آئے جب افغان سفیر اور پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے سابق ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل اطہر عباس کے درمیان اسلام آباد میں منعقدہ ایک سیمینار میں گرم جملوں کا تبادلہ ہوا۔ افغان سفیر کا کہنا تھا کہ طالبان کو پاکستان نے بنایا اور تحریک طالبان پاکستان کے پاس ملک کے مختلف علاقوں کا کنٹرول تھا جبکہ لال مسجد پر بھی طالبان کا کنٹرول تھا۔ افغان سفیر کے ریمارکس پر جنرل (ر) اطہر عباس کا کہنا تھا کہ پاکستان نے کبھی افغان حکومت پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ہمیشہ سیاسی عمل سے امن کے لئے کوششیں کی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان کی طرح پاکستان بھی اس قسم کی مشکلات سے گزرا ہے، افغان تنازعہ سے پاکستان اور پاکستانی عوام کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ پاکستان میں تعینات بھارتی ہائی کمشنر اجے بساریا نے امید ظاہر کی ہے کہ 2018ء کے عام انتخابات کے بعد پاک بھارت تعلقات میں بہتری آئے گی۔ اسلام آباد میں اس ہی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے اجے بساریا کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے تعلقات 1999ء کے بعد سے کشیدگی شکار تھے تاہم ہمیں امید ہے کہ پاکستان میں عام انتخابات کے بعد پاک بھارت تعلقات میں بہتری آئے گی۔ رواں سال مارچ میں دفتر خارجہ اور بھارتی وزارت خارجہ کے امور کی جانب سے اعلان کئے جانے والے معاہدے کا حوالہ دیتے ہوئے بھارتی ہائی کمشنر کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک میں مشترکہ معاہدہ طے پا گیا ہے کہ دونوں اطراف کے سفارتکاروں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے گا۔

اس بیان کے تحت پاکستان اور بھارت میں سفارتکاروں اور سفارتی عملے کے ساتھ برتاؤ کے ضابطہ اخلاق 1992 کے مطابق پاکستان اور بھارت باہمی طور پر اس بات پر رضامند ہوئے ہیں کہ وہ سفارتکاروں اور سفارتی عملے کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کو حل کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کا مشترکہ دشمن غربت ہے، دونوں ممالک کے عوام ایک دوسرے کے دشمن نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی کے واقعات سے پاک بھارت مذاکرات کا عمل متاثر ہوا ہے، اب ہمیں چھوٹے قدم اٹھا کر اعتماد کی بحالی کے عمل کے لئے کام کرنا ہوگا۔ خیال رہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اس معاملے پر مذاکرات کا آغاز تب ہوا جب پاکستانی سفارتکاروں کو نئی دہلی میں ہراساں کئے جانے کے مختلف واقعات کے بعد بھارت میں پاکستانی ہائی کمشنر سہیل محمود کو مشاورت کے لئے اسلام آباد واپس بلا لیا گیا تھا، اسی دوران بھارت کی جانب سے بھی اسلام آباد میں ان کے سفارتکاروں کے ساتھ برتاؤ کے حوالے سے شکایت دیکھنے میں آئی تھی۔ پاکستان کی جانب سے کہا گیا تھا کہ 7 سے 23 مارچ کے درمیان پاکستانی سفارتکاروں اور ان کے اہلخانہ کو ہراساں کرنے کے 50 سے زائد واقعات رونما ہوئے تھے۔ دوسری جانب بھارت کی جانب سے دعوٰی کیا گیا تھا کہ پاکستان میں مبینہ طور پر ان کے سفارتکاروں کے ساتھ برا سلوک کرنے پر دفتر خارجہ کو احتجاجاً 15 مرتبہ خط بھیجا تھا۔
خبر کا کوڈ : 735953
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش