0
Sunday 31 Aug 2014 22:01
اب حکومت کے کسی جھانسے میں نہیں آئیں گے

امریکہ پر واضح کرتے ہیں کہ ہمارے معاملات میں مداخلت سے باز آجائے، محمود الرشید

دنیا کی کوئی طاقت اس بزدل، کرپٹ، بدمعاش اور بدخصلت حکومت کو نہیں بچا سکتی
امریکہ پر واضح کرتے ہیں کہ ہمارے معاملات میں مداخلت سے باز آجائے، محمود الرشید
میاں محمودالرشید رکن پنجاب اسمبلی ہیں اور 3 بار وہ پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوچکے ہیں۔ 1988ء سے 1990ء کے عرصے میں بھی ایم پی اے رہے۔ آپ 5 سال پاکستان تحریک انصاف لاہور کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ محمود الرشید گذشتہ 10 سال سے پی ٹی آئی کے ساتھ وابستہ ہیں۔ محمود الرشید نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز جماعت اسلامی سے کیا۔ اسلامی جمہوری اتحاد کے پلیٹ فارم سے 1988ء میں پی پی 127 سے انتخابات میں حصہ لیا، جس میں وہ فتح یاب ہوئے۔ 1990ء میں دوبارہ میاں محمود الرشید اسلامی جمہوری اتحاد کے پلیٹ فارم سے منتخب ہوئے۔ 2000ء میں میاں محمود الرشید نے پاکستان تحریک انصاف جوائن کر لی۔ اس وقت وہ پاکستان تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے ایم پی اے منتخب ہو کر پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہیں۔ اسلام ٹائمز نے لاہور میں ان کے ساتھ ایک مختصر نشست کی، جس کا احوال اپنے قارئین کے لئے پیش کر رہے ہیں۔ (ادارہ)
                                           
اسلام ٹائمز: گذشتہ شب جو کچھ اسلام آباد میں ہوا اس حوالے سے کیا کہیں گے۔؟

میاں محمود الرشید: اسلام آباد میں نہتے، معصوم اور بے گناہ کارکنوں کو پر جو بربریت کے پہاڑ توڑے گئے، اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، حکمرانوں نے رات اسلام آباد میں اپنی بربریت سے سیاسی خودکشی کی ہے اور اب حکومت کا جانا نوشتہ دیوار ٹھہر گیا ہے۔ اب دنیا کی کوئی طاقت اس بزدل، کرپٹ، بدمعاش اور بدخصلت حکومت کو نہیں بچا سکتی۔ نواز شریف نے خود پولیس کو نہتے شہریوں پر تشدد کا آرڈر دیا اور خود جا کر رائے ونڈ میں جاتی عمرہ کے محلات میں بیٹھ کر معصوم لوگوں پر ہونے والا تشدد دیکھ کر محظوظ ہوتے رہے، وزیر داخلہ جو یزید وقت ہے، چوہدری نثار علی خان، اس نے پولیس کو خصوصی طور پر ٹاسک دیا کہ بے گناہ شہریوں کو عبرت کا نشان بنا دو، انہیں اسلام آباد میں آکر دھرنے میں بیٹھنے کا سبق سکھا دو، آپ کو ترقی دونگا اور 3 ماہ کی اضافی تنخواہ بھی دی جائے گی۔
پولیس والوں نے تو پہلے انکار کر دیا کہ وہ اپنے بہن بھائیوں پر لاٹھی چارج نہیں کریں گے، لیکن بعد میں جب پولیس اہلکاروں کو لالچ دیا گیا تو کچھ اہلکار رضا مند ہوگئے اور اکثریت اپنے انکار پر قائم رہی، جس کی مثال سب کے سامنے ہے کہ جب عوامی تحریک کے کارکنوں نے پیش قدمی کی تو پولیس اہلکاروں نے راستہ دے دیا۔ لیکن اچانک ان پر لاٹھی چارج اور شیلنگ شروع کردی گئی۔ یہ شیلنگ اور لاٹھی چارج کرنے والے پولیس اہلکار نہیں بلکہ مسلم لیگ نون کے کرائے کے گلو بٹ تھے۔ گلو بٹوں نے شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنایا اور ایسی ٹیئر گیس استعمال کی گئی جو اقوام متحدہ کے چارٹرڈ میں منع ہے۔ پاکستان نے اقوام متحدہ کے ایک چارٹرڈ پر دستخط کئے ہوئے ہیں اور اس کی چارٹرڈ کی خلاف ورزی کے مرتکب ان حکمرانوں کو اب مزید اقتدار میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔ یہ بدمعاش ہیں، یہ دہشت گردوں کے سرپرست اور خود بھی دہشت گرد ہیں۔

اسلام ٹائمز: تو کیا اس بربریت کیخلاف تحریک انصاف کوئی اقدام کرے گی۔؟
میاں محمود الرشید: جی بالکل، ہم اس بربریت کا مقدمہ وزیراعظم، وزیر داخلہ اور آئی جی اسلام آباد کے خلاف درج کرائیں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم براہ راست اس بربریت اور پولیس گردی کے ذمہ دار ہیں۔ آپ دیکھیں کہ جب ڈاکٹر طاہرالقادری نے پیش قدمی کا اعلان کیا تو انہوں نے کارکنوں کو ہدایت کی کہ پرامن رہیں، پرامن رہیں، پرامن رہیں اور دعا کے ساتھ انہوں نے سفر شروع کیا، اسی طرح پی ٹی آئی کے قائد عمران خان نے بھی کارکنوں کو پرامن رہنے کی تلقین کی۔ تو اس طرح ہمارے دونوں جماعتوں کے کارکن پرامن تھے، انہوں نے صرف وزیراعظم ہاؤس کے سامنے جا کر دھرنا دینا تھا۔ لیکن پولیس میں شامل کئے گئے گلو بٹوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور نہتے کارکنوں پر چڑھ دوڑے۔
آپ خود اندازہ لگائیں، جنہوں نے بدامنی پھیلانی ہوتی ہے، جنہوں نے تشدد کرنا ہوتا ہے وہ خواتین اور بچوں کو ساتھ لے کر جاتا ہے؟ ڈاکٹر طاہرالقادری کے کارکن ہم سے پہلے روانہ ہوئے۔ ان کے ساتھ خواتین اور چھوٹے چھوٹے بچے تھے۔ لیکن پولیس کے گلو بٹوں نے خواتین کا احترام کیا نہ معصوم بچوں کا لحاظ کیا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ہسپتالوں سے زخمی کارکنوں کو بھی پولیس اٹھا کر جیلوں میں ڈال رہی ہے، اب تک ہماری اطلاع کے مطابق 11 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں، جن میں 3 خواتین ہیں لیکن پولیس نے ایمبولینسوں میں لاشیں ڈال کر غائب کر دی ہیں، تاکہ پتہ نہ چل سکے۔ لیکن ہم حکومت پر واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ اب وہ اقتدار میں مزید نہیں رہ سکتے۔ ہم انہیں اقتدار کے ایوانوں سے نکال باہر کرکے ہی دم لیں گے۔ ہم نے اب کسی بات پر سمجھوتہ نہیں کرنا، ہم حکومت کے مذاکراتی ڈرامے کو بھی جان چکے ہیں۔ اس لئے ہم اب حکومت کے کسی جھانسے میں نہیں آئیں گے۔ عمران خان نے اعلان کر دیا ہے کہ ہم نواز شریف سے استعفٰی لے کر ہی واپس جائیں گے، اس کے سوا کوئی آپشن قبول نہیں۔

اسلام ٹائمز: صحافیوں پر بھی تو تشدد کیا گیا۔ اس حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
میاں محمود الرشید: صحافیوں پر تشدد کا منصوبہ بہت پہلے بن چکا تھا اور اس کی منصوبہ بندی وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید اور وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے نواز شریف کی سرپرستی میں بنایا تھا، جس میں کہا گیا کہ ایک چینل کے سوا باقی تمام چینلز کے نمائندگان کو تشدد کا نشانہ بنایا جائے اور انہیں سچ بولنے اور سچ کا ساتھ دینے کی کڑی سزا دی جائے، اس مقصد کے لئے بھی پولیس کو خریدا گیا اور آپ نے مختلف ٹی وی چینلز کی فوٹیج میں دیکھا ہوگا کہ مخصوص اہلکار ہی صحافیوں پر تشدد کر رہے ہیں جبکہ اکثر پولیس اہلکار صحافیوں کو بچا رہے ہیں۔ صحافیوں کو ان کی گاڑیوں سے گھسیٹ کر نکالا گیا اور ان پر وحشیانہ تشدد کیا گیا۔ حکمرانوں کا یہ اقدام آزادی صحافت پر حملہ اور ننگی جارحیت ہے۔
صحافی اپنے پریس کارڈ دکھاتے رہے، اس کے باوجود انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس تشدد میں اے آر وائی اور سماء ٹی وی کو خصوصی طور پر ٹارگٹ کیا گیا جبکہ دوسرے چینلز بھی پولیس گردی کی زد میں آگئے۔ پولیس نے صحافیوں پر تشدد کرکے اپنے تابوت میں آخری کیل ٹھونک لی ہے۔ اب وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق مگر مچھ کے آنسو رو رہے ہیں۔ پولیس آکر صحافیوں کے ساتھ ہمدردی کرکے پولیس والوں کو دکھاوے کا ڈانٹ کر یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ حکومت اس تشدد میں ملوث نہیں، جبکہ منافقت کی انتہا ہے کہ وہ وزیراعظم جس نے 2 دن قبل پولیس کو یہ حکامات جاری کئے کہ صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جائے وہی جھوٹا وزیراعظم اسلام آباد پہنچنے پر صحافیوں پر تشدد کی مذمت کر رہا ہے۔ یہ جمہوریت ہے؟ بے گناہ خواتین اور بچوں پر تشدد کیخلاف وزیراعظم نے ایک حرف تک نہیں بولا، تو اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ خواتین اور بچے دہشت گرد تھے اور ان کے خلاف حکومت کا تشدد درست اقدام تھا۔

ہم نواز شریف پر واضح کر دیتے ہیں کہ اب آپ کی منافقت نہیں چلے گی۔ آپ نے قوم کے ساتھ قدم قدم پر دھوکہ کیا ہے۔ بربریت کے یہ مظاہرے اب تمہاری سیاسی موت ثابت ہوں گے۔ چھوٹے شریف نے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ذمہ دار مجھے ٹھہرایا گیا تو ایک سکینڈ میں استعفٰی دے دوں گا۔ اب تو نہ صرف وہ ذمہ دار قرار پا چکا ہے بلکہ اس کے خلاف تو مقدمہ بھی درج ہوچکا ہے لیکن اس جھوٹے وزیراعلٰی نے ابھی تک استعفٰی نہیں دیا۔ کسی غریب کے خلاف مقدمہ درج ہوتا تو پولیس اس کا پورا خاندان اٹھا لیتی، لیکن اس مقدمے میں چونکہ اعلٰی شخصیات ہیں، اس لئے تاحال کسی کو بھی گرفتار نہیں کیا گیا۔ یہ جمہوریت کا اصل چہرہ ہے جس سے خود بخود نقاب الٹ چکی ہے، اور ہم اسی جمہوریت کے خلاف نکلے ہیں۔ ہم ایسی جمہوریت نہیں چاہتے جس میں امیر کے لئے قانون اور ہو، غریب کے لئے اور۔ ہم ایسی دوغلی جمہوریت پر لعنت بھیجتے ہیں۔ عمران خان نے کہا ہے کہ ہم ایسی جمہوریت کو سات سلام کرتے ہیں، ہم آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہیں، حقیقی جمہوریت نافذ کریں گے، جس جمہوریت کے ثمرات نچلی سطح پر بھی عوام تک پہنچیں گے۔ ملک میں تمام شہری برابر حقوق حاصل کرسکیں گے۔ دہشت گردوں کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔ مذہبی منافرت کو ختم کر دیا جائے گا اور ہمارا نیا پاکستان ایک مثالی ریاست ہوگا۔

اسلام ٹائمز: دہشتگردی کے حوالے سے آپکی بات واقعی درست ہے، اس سے ملک کو بہت نقصان پہنچا ہے، قیمتی جانیں اور اعلٰی ترین دماغ ہم نے فرقہ واریت اور دہشتگردی کی بھینٹ چڑھتے دیکھے ہیں، تو آپکے نئے پاکستان میں فرقہ پرست قوتوں کا کیا سٹیٹس ہوگا۔؟

میاں محمود الرشید: نئے پاکستان میں تمام مکاتب فکر اور تمام مذاہب کو برابری کی بنیاد پر حقوق ملیں گے۔ ہم فرقہ پرست مولویوں کا ناطقہ بند کر دیں گے۔ عوام میں اتنا شعور بیدار کریں گے کہ وہ خود فرقہ پرست ملاؤں کا محاسبہ کریں گے۔ جب ایسی صورت حال ہوجائے گی تو کوئی فتنہ باز مولوی ہمارے ملک کو نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ ہم پاکستانی ہیں، پاکستان کو ہم نے ایک فلاحی اسلامی ریاست کے طور پر بنایا تھا لیکن بدقمستی سے ضیاءالحق جیسے آمر نے پاکستان کو فرقہ پرستی اور دہشت گردی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں جھونک دیا۔ اس حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کی پالیسی واضح ہے، ہم ملک میں امن و امان کا قیام کریں گے۔ تمام مکاتب فکر ایک دوسرے کا احترام کریں گے اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو بھی مذہبی آزادی ہوگی۔ جو نظریہ قائداعظم محمد علی جناح نے دیا تھا ہم پاکستان میں وہی حقیقی نظریہ لاگو کریں گے۔ جب پاکستان سے دہشت گردی اور فرقہ پرستی کا خاتمہ ہوجائے گا تو یہ ایک مثالی ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے میں ابھرے گا، انشاءاللہ۔

اسلام ٹائمز: آزادی اور انقلاب مارچ کی منزل تو ایک ہے لیکن کیا نئے پاکستان میں بھی دونوں پارٹیاں ساتھ ساتھ ہوں گی۔؟

میاں محمود الرشید: جی بالکل، ہم نئے پاکستان میں بھی ساتھ ساتھ ہوں گے۔ ہم دونوں جماعتوں کا مقصد ان ظالم، جابر اور کرپٹ حکمرانوں سے نجات ہے اور ہمارا نئے پاکستان کا ویژن بھی تقریباً ایک ہی ہے۔ اس لئے ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب نے جو ویژن دیا ہے وہی عمران خان کا بھی ہے۔ اس لئے انشاءاللہ ہم نئے پاکستان میں متحد رہیں گے اور ایک مثالی ریاست بنائیں گے۔ نئے پاکستان میں شدت پسندوں اور دھوکے باز، جھوٹے، کرپٹ حکمرانوں کی کوئی جگہ نہیں۔ یہ حکمران بہت جلد ملک سے بھاگیں گے، لیکن ہم انہیں بھاگنے نہیں دیں گے۔ ان کے ساتھی تو فرار ہوچکے ہیں۔ نجم سیٹھی بھی فرار ہے، میاں منشا بھی فرار ہیں اور بھی لوگ جو ان کے دست و بازو تھے وہ ملک سے فرار ہوچکے ہیں، ان کے وزراء بھی ٹکٹیں کروا چکے ہیں لیکن انقلاب کے بعد یہ فرار نہیں ہوسکیں گے۔ دوسرا بھارت نواز شریف کے ایما پر ہی سرحدوں پر جھڑپیں کر رہا ہے۔ اس کا یہ اقدام بھی بہت جلد بے نقاب ہوجائے گا۔ حکمران جو کچھ کر رہے ہیں وہ اپنے خلاف چارج شیٹ تیار کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: اگر نواز شریف استعفٰی نہیں دیتا تو آپ کا لائحہ عمل کیا ہوگا۔؟
میاں محمود الرشید: پہلی بات تو یہ ہے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے، یہ زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکیں گے، یہ بھاگ جائیں گے، ہمارے کارکنوں کے حوصلے بلند ہیں۔ ہمارے بہادر کارکنوں کے جذبوں کے سامنے یہ بزدل حکمران زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکیں گے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ وزیراعظم مستعفی ہوں، قومی حکومت بنائی جائے اور الیکشن میں ہونے والی دھاندلی کی تحقیقات کرائی جائیں اور اس دھاندلی میں جتنے لوگ ملوث پائے جائیں ان تمام کو قرار واقعی سزائیں دی جائیں، تاکہ وہ نشان عبرت بن سکیں۔ ہم ان کرپٹ اور چور عناصر کا محاسبہ کریں گے۔ دوسری بات ہمارا آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہوگا، تو اس حوالے سے ہمارے قائد عمران خان اس لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔ ہم نے ملک گیر دھرنوں کی کال دے دی ہے اور پولیس اہلکار اس حوالے سے بربریت کا مظاہرہ کر رہے ہیں لیکن حکومت کے سارے حربے ناکام ہوجائیں گے اور وہ اپنے عزائم میں ناکام ہوجائیں گے۔

اسلام ٹائمز: کہتے ہیں امریکی حمایت کی وجہ سے نواز شریف ڈٹے ہوئے ہیں، امریکہ نے کہا ہے کہ استعفٰی نہ دیں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔؟
میاں محمود الرشید: دیکھیں جی! جب عوام کا سونامی اٹھتا ہے تو امریکہ جیسی سپر طاقتیں بھی خس و خاشاک کی طرح بہہ جاتی ہیں۔ پہلے تو امریکہ کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کرے، امریکہ کی سیکرٹری خارجہ نے بیان دے کر ہمارے معاملات میں ٹانگ اڑانے کی کوشش کی ہے جس کی ہم مذمت کرتے ہیں۔ امریکہ بتائے کہ پاکستان نے بھی کبھی وہاں کی کسی جماعت کی حمایت کی ہے، جو آج امریکہ نواز لیگ کی پشت پر کھڑا اسے تھپکیاں دے رہا ہے؟ امریکہ پر ہم واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے معاملات میں مداخلت نہ کرے۔ اگر امریکہ اسی طرح اس حکومت کی پشت پناہی کرتا رہا تو ہم سمجھیں گے کہ امریکہ بھی کرپٹ اور دھاندلی کی پیداوار حکومت کا حامی ہے۔
خبر کا کوڈ : 407578
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش