0
Tuesday 16 Sep 2014 13:31

سیلاب کی تباہ کاریاں اور حکومتی ترجیحات!

سیلاب کی تباہ کاریاں اور حکومتی ترجیحات!
تحریر: طاہر یاسین طاہر

 دیکھ سیلاب کو بیاباں میں
کیسے سر کو جھکا کے چلتا ہے

لاریب میر تقی میر کے زمانے میں بھی سیلاب آتا ہوگا، بے طرح آتا ہوگا اور تباہی بھی لاتا ہوگا۔ کیا کوئی دو سو برس ادھر آنے والا سیلاب تباہی نہیں لاتا تھا؟ اگر لاتا تھا تو پھر میر نے یہ کیوں کہا کہ ’’بڑا تابع فرماں قسم‘‘ کا سیلاب ہے جو سر کو جھکا کے چلا جا رہا ہے۔ یہ ایک اور طرح کی ادبی بحث پھوٹ پڑے گی۔ بہت کچھ لکھنے کو جی چاہتا ہے، کئی ایک فوری نوعیت کے واقعات نے جنم لیا، خبریں منظرِ ِعام پر آئیں، سب سے بڑھ کر پنجابی دہشت گردوں کی جانب سے ’’رجوع الی الحکومت‘‘، سب پہ یک بار نہیں لکھا جاسکتا۔ طبیعت ہے کہ سنبھل نہیں رہی تھی۔ معدے میں السر، چھوٹی آنت میں سوجن اور اینڈو سکوپی کے باعث گلے میں اٹھنے والا درد۔ اب مگر ڈاکٹر شعیب شفیع کی محنت قدرے رنگ لا رہی ہے۔ پہلے تو کیفیت یہ رہی
بیٹھتا ہوں تو درد اٹھتا ہے
درد اٹھتا ہے بیٹھ جاتا ہوں


اب مگر ڈاکٹر کی دوا کے ساتھ ساتھ دوستوں کی محبت و خلوص بھری دعائیں کام دکھا رہی ہیں۔ بڑی خواہش کہ عصمت اللہ معاویہ کی ’’توبہ کاری‘‘ پہ لکھوں، آئی ایس پی آر کا تازہ بیان بھی سامنے ہے، لیکن ٹی وی کا بٹن جوں ہی آن کرو پانی ہی پانی۔ ایک مولوی صاحب وعظ فرما رہے تھے، ایسے کئی ایک 2005ء کے زلزلے والے دنوں میں بھی اپنی کج فہمی کو دانش سمجھ رہے رہے تھے۔ کیا سیلاب اس لئے آیا کہ ڈی چوک میں پی ٹی آئی والے میوزک پہ ’’رقص‘‘ کرتے ہیں؟ کیا سیلاب اس لئے آیا کہ ڈاکٹر طاہر القادری ’’جدہ‘‘ والوں کے مہمان پہ برس رہے ہیں؟ اللہ کو غضب آیا اور آسمان چھم چھم برس پڑا؟ کس کس کی بات سنی جائے؟ کیا پنجاب میں گناہ زیادہ کئے جاتے ہیں کہ پہلے سیلاب پنجاب میں آیا؟ پھر پانی کو خیال آیا کہ گناہ گار تو سندھ میں بھی بستے ہیں۔ پانی نے ادھر کا رخ کر لیا۔ کسی مولوی کا خاندان کسی زلزلے یا سیلاب کی نذر کیوں نہیں ہوتا؟ کیا یہ سارے کے سارے پارسا ہیں۔؟
رہا کروٹیں ہی بدلتا زمانہ
وہی میں، وہی در، وہی آستانہ

صوفی تبسم کو کیا پڑی تھی زمانے کے ساتھ اپنے آپ کو بدلنے کی؟ کچھ بھی نہیں، کچھ بھی نہیں بدلا، نہ صوفی تبسم کے عہد میں در و آستانہ بدلا نہ آج۔ غریب پہ جو کل بیت رہی تھی، وہی آج ہے۔ محسن نے کیا کم آنسو بہائے۔؟
محسن غریب لوگ بھی تنکوں کا ڈھیر ہیں
ملبے میں دب گئے کبھی پانی میں بہہ گئے


تازہ دکھ مگر یہ ہے کہ سیلابی ریلا پنجاب میں تباہی کے ’’زخم‘‘ نقش کرنے کے بعد سندھ کے راستے سمندر سے بغل گیر ہونے چلا ہے۔ مگر اس سمندری وصال سے پہلے نہ جانے کتنی زندگیاں سیلابی ریلے کی آدم خور موجوں کی نذر ہوجائیں گی۔ انٹر نیٹ پہ تازہ صورتحال سرچ کرنے چلا تو پہلے ہی صفحے نے دم بخود کر دیا۔ چاہا تھا کہ سیلاب آنے کی سائنسی وجوہات پہ ایک کالم لکھوں، مگر اندر سے شاعر ہوں۔  لاشوں، آہوں اور سسکیوں کی خبریں شاعر کو تحقیق کی طرف نہیں جانے دے رہیں۔ بس میر درد کا شعر ہے اور لٹے پٹے ’’غریب الوطن‘‘ انسان۔ ہر ایک کے چہرے پہ لکھا ہے
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

بے شک ہر کوئی اس زندگی کے ہاتھوں مر چلا ہے۔ سیلاب کی تباہ کاریوں کی ایک جھلک یہ ہے۔ سیلابی ریلا جن راستوں سے گزرتا ہوا راجن پور پہنچا، وہ راستے زندگی سے پناہ مانگتے ہیں۔

جنوبی پنجاب میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے کے بعد اب سیلاب صوبہ سندھ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ پنجاب میں حالیہ سیلاب سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 232 ہوچکی ہے، جبکہ 386 افراد اس سے زخمی ہوئے ہیں، 34 ہزار مکانوں کو نقصان پہنچا ہے اور مجموعی طور پر لگ بھگ تین ہزار دیہات متاثر ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ 16 لاکھ 81 ہزار ایکڑ رقبہ زیر آب آگیا ہے۔ تریموں پر اس وقت نچلے درجے کا سیلاب ہے جبکہ پنجند سے بھی پانی میں کمی ہو رہی ہے۔ شیر شاہ پل پر ابھی بھی چار لاکھ کیوسک پانی موجود ہے، جو بتدریج کم ہو رہا ہے۔ انتظامیہ کی جانب سے مظفر گڑھ شہر کو بچانے کے لیے دو آبہ فلڈ بند میں دو شگاف ڈالے گئے ہیں، جبکہ مظفر گڑھ کے حفاظتی بند اور لنک کینال میں خودبخود شگاف پڑنے سے بستی مراد آباد اور ٹھٹھہ احمد پور سیال کے آٹھ دیہات مکمل طور پر زیر آب آگئے ہیں۔ اس وقت پانی کا رخ پنجند سے آگے گدو بیراج کی طرف ہے اور پنجاب میں اس کی سطح مسلسل کم ہو رہی ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ اب ملتان اور مظفر گڑھ کے علاوہ تمام متاثرہ اضلاع میں بحالی کا کام شروع کیا جا رہا ہے، جبکہ پنجاب ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے ترجمان خالد نواز کے مطابق سیلاب سے ضلع راجن پور اور رحیم یار خان کے متاثر ہونے کا امکان نہیں اور ایک دو روز میں صورتحال مکمل طور پر کنٹرول میں آجائے گی۔ تاہم ملتان اور مظفر گڑھ میں اس وقت بھی امدادی کارروائیاں جاری ہیں، جن میں فوج، ضلعی انتظامیہ، ریسکیو 1122 اور مقامی رضاکار حصہ لے رہے ہیں۔ سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ضلع جھنگ ہے، جہاں بڑے پیمانے پر لوگوں کو نقل مکانی کرنا پڑی۔ قدرتی آفات سے نمنٹنے والے صوبائی ادارے کے مطابق حالیہ سیلاب کے دوران متاثرہ علاقوں سے پانچ لاکھ سے زائد افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے، جبکہ ریسکیو 1122 کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر رضوان نصیر کے مطابق ان کے ادارے نے حالیہ سیلاب کے دوران 50 ہزار چھ سو افراد کی زندگیاں بچائی ہیں۔ پنجاب حکومت نے ہر سیلاب زدہ ضلعے میں ایک صوبائی وزیر اور سیکرٹری کو تعینات کیا ہے کہ وہ نقصان کا تخیمنہ لگا سکے، جس کے مطابق ان اضلاع میں بحالی کا کام کیا جائے گا۔ 

صوبہ سندھ کے علاقے کندھ کوٹ سے تقریباً پندرہ کلومیٹر دور واقعے ٹوڑھی بند سے اس وقت سیلابی پانی ٹکرا رہا ہے، جس وجہ سے کچے کے کئی دیہاتوں کا زمینی رابطہ منقطع ہوگیا ہے اور اب یہ رابطہ صرف کشتی کے ذریعے بحال ہے۔ دو ہزار دس کے سیلاب میں ٹوڑھی کے مقام پر حفاظتی بند کو شگاف پڑنے کے باعث بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی تھی، جس کے نتیجے میں لاکھوں لوگ بے گھر ہوگئے تھے۔ کشمور سے سکھر تک سرکاری اعداد و شمار کے مطابق آٹھ لاکھ سے زائد لوگ بستے ہیں، لیکن یہاں پبلک ٹرانسپورٹ کا کوئی نام و نشان نہیں۔ ٹوڑھی بند کے علاقے میں بھی عام دنوں میں لوگ پک اپ پر سفر کرتے ہیں، جس کا کرایہ پچاس روپے وصول کیا جاتا ہے۔ کشتی پر قریبی گاؤں سے حفاظتی بند تک لانے کا کرایہ فی فرد پچاس روپے ہے۔ اگر اس کے ساتھ موٹر سائیکل ہے تو پچاس روپے اضافی اور اگر دودھ کے ڈبے ہیں تو تیس روپے اضافی فی ڈبہ خرچہ ادا کیا جاتا ہے۔ کندھ کوٹ شہر بنیادی طور چاولوں کی منڈی اور دیگر اشیاء ضرورت کی مارکیٹ ہے۔

یہ اعداد و شمار میں نے انٹر نیٹ سے لیے۔ سوال مگر یہ ہے کہ، 2009/2010ء میں بھی ایک تباہ کن سیلاب آیا تھا، قدرتی آفات سے نمٹنے والا ادارہ اس وقت بھی موجود تھا لیکن ’’بڑے‘‘ لوگوں نے اپنی زمینیں بچانے کے لیے جو کیا اور جس طرح لوگ بے گھر ہوئے، وہ آج تک آباد نہ ہوسکے۔ پھر یہی بڑے لوگ فوٹو سیشن کے لیے سیلابی پانی میں جاتے اور سیاسی منافقت کا اظہار کرتے ہوئے کہتے کہ ہم اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے، جب تک ایک ایک متاثرہ فرد کی مدد نہیں ہوجاتی۔ میاں نواز شریف صاحب اس وقت وزیراعظم ہیں۔ جناب کا فرمانا ہے کہ سیلابی پانی کا آخری قطرہ سمندر میں گرنے تک سیلاب متاثرین کے ساتھ رہیں گے اور انھیں گھر بنا کر دیں گے۔ کیا کسی ایک سیاسی جماعت نے بھی کہا کہ اب ہمیں ڈیم بنا لینے چاہئیں؟ کیا انھوں نے بنگلہ دیش سے سبق نہیں سیکھا؟ کہ وہ ہم سے الگ ہوتے ہی سیلاب کو روکنے میں کامیاب ہوگیا، کیوں؟ اس لیے کہ انھوں نے ڈیم بنائے۔ حکمتِ عملی اپنائی اور لاشوں پر سیاست نہیں کی۔ قدرتی آفات ہمارے حکمران طبقے کے لئے لاٹری ہوتی ہیں۔ مرنے والوں کی قیمت لگائی جاتی ہے۔ کیا واقعی قیمت؟ نہیں بولی اور بس۔
گن تو لینے دو بے کفن لاشیں
بے صدا بام و در بھی دیکھیں گے


حکومت کی ترجیحات مگر اور ہیں۔ پی ٹی آئی، پاکستان عوامی تحریک۔ ’’پارلیمنٹ کا بچاؤ اور آئین کا تحفظ ‘‘ کیا کالعدم تنظیمیں جو سیلابی تباہ کاریوں میں حکومت سے بڑھ کر حکومتی سیل کا کام کر رہی ہیں، کوئی عدالت، کوئی سول سوسائٹی، کوئی این جی او، کوئی اللہ والا ان کالعدم تنظیموں کی ’’سرگرمیوں‘‘ کی طرف بھی دیکھتا ہوگا؟ کیا صرف حافظ سعید لشکرِ طیبہ والا سیلاب کو بھارتی سازشیں ہی کہہ کر ہر سال اپنے تکفیری ایجنڈے کو نکل کھڑا ہوا کرے گا؟
قائم تھی یوں تو درد کی محفل جگہ جگہ
ہم ہی سنا سکے نہ غمِ دل جگہ جگہ

سیلاب فطری طور پر تباہی لاتا ہے، مگر کیا حکومت اپنی ترجیحات تبدیل کر پائے گی، یا صرف لاشوں کی ’’بولی‘‘ لگا کر اگلے سیلاب یا زلزلے کا انتظار کرے گی؟ کیا جاپان جتنے زلزلے دنیا کے کسی اور ملک میں آتے ہیں؟ حکومتیں مگر قومی مفادات کے حوالے سے اپنی ترجیحات طے کرتی ہیں نہ کہ ذاتی مفادات کے ترازو میں ہر چیز کو تولتی ہیں۔
خبر کا کوڈ : 409972
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش