0
Monday 9 Jun 2014 20:47

یوریشین یونین، عالمی سطح پر ابھرتا ہوا طاقت کا ایک نیا محور

یوریشین یونین، عالمی سطح پر ابھرتا ہوا طاقت کا ایک نیا محور
تحریر: شعیب بہمن

اسلام ٹائمز – 29 مئی 2014ء جمعرات کے دن روس، بیلاروس اور قازقستان کے صدور مملکت نے قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں ایک مشترکہ اجلاس کے دوران ایک نئے اقتصادی اتحاد "یوریشین یونین" کو تشکیل دینے کے معاہدے پر دستخط کئے۔ یہ نیا اقتصادی اتحاد جو روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کے بقول امریکہ اور یورپی یونین کی اقتصاد کے مقابلے میں ایک بڑا چیلنج ثابت ہو سکتا ہے، اپنی تشکیل کے قانونی مراحل طے کرنے اور تین رکن ممالک کی پارلیمنٹس میں مربوطہ معاہدے کی حتمی منظوری کے بعد یکم جنوری 2015ء کو رسمی طور پر معرض وجود میں آ جائے گا۔ ایسے وقت جب روس اس نئے اقتصادی اتحاد میں شمولیت کو ایک ایسی بالکل نئی اقتصادی پالیسی قرار دے رہا ہے جو تمام یوریشین ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے توقع کی جا رہی ہے کہ مغربی طاقتیں بھرپور انداز میں اس کے مقابلے میں آ کھڑی ہوں گی اور مختلف راستوں سے اسے ٹھیس پہنچانے کی کوشش کریں گی۔

کسٹم یونین سے یوریشین یونین تک:
ہم خیال ممالک کے درمیان ایک نئے اقتصادی اتحاد کی تشکیل کا منصوبہ سب سے پہلے 1994ء میں قازقستان کے صدر نور سلطان نظربایف کی جانب سے سامنے آیا۔ اگرچہ اس وقت اس منصوبے کو خاطرخواہ پذیرائی حاصل نہ ہوئی لیکن روس میں ولادیمیر پیوٹن کے برسراقتدار آنے اور ملک کی اندرونی صورتحال اور خارجہ پالیسی کے مستحکم ہو جانے کے بعد کریملن اس منصوبے کے لیڈر کے طور پر سامنے آیا۔ صدر ولادیمیر پیوٹن نے اپنے ایک مقالے میں نئے دوران صدارت میں متوقع خارجہ پالیسیوں کو واضح کرتے ہوئے ایک ایسے نئے اتحاد کے قیام کا عزم ظاہر کیا جس میں سابقہ سوویت یونین سے علیحدگی اختیار کرنے والی آزاد ریاستیں شامل ہوں اور اس کا نام "یوریشین یونین" تجویز کیا۔ آخرکار تین ممالک روس، بیلاروس اور قازقستان کی جانب سے یورپ – ایشیا اقتصادی اتحاد کی تشکیل کا ابتدائی معاہدہ دسمبر 2011ء میں طے پایا۔ ساتھ ہی یہ بھی طے پایا کہ یہ نیا اقتصادی اتحاد کسٹم یونین کی بنیاد پر تشکیل دیا جائے گا۔ لہذا اس یونین کے اہداف و مقاصد کو بیان کرتے ہوئے اعلان کیا گیا کہ شارٹ ٹرم میں 2012ء سے ان تین ممالک کے درمیان انجام پانے والی تجارت میں حائل تمام رکاوٹوں اور محدودیتوں کو برطرف کر دیا جائے گا۔ اسی طرح یہ بھی طے پایا کہ لانگ ٹرم میں سابقہ سوویت یونین سے علیحدگی اختیار کر لینے والی باقی آزاد ریاستوں جیسے یوکرائن، آرمینیا، کرغزستان اور تاجکستان وغیرہ کیلئے بھی اس اتحاد میں شمولیت کا زمینہ فراہم کیا جائے گا۔ اگرچہ ولادیمیر پیوٹن آرمینیا کی رضایت حاصل کرنے میں کامیابی سے ہمکنار ہو گئے ہیں لیکن یوکرائن میں رونما ہونے والے بحران نے کچھ حد تک ان کے اس آئیڈیا کی تکمیل میں رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں۔

یوریشین یونین کی خصوصیات:
اس میں کوئی شک نہیں کہ یوریشین یونین کا قیام روس کیلئے بھی فائدہ مند ثابت ہو گا اور یوریشین خطے کے باقی ممالک بھی اس سے بھرپور فائدہ اٹھائیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس اقتصادی اتحاد کے قیام سے ایک طرف تو خطے میں روس کی معاشی سرگرمیوں میں خاطرخواہ تیزی آئے گی اور دوسری طرف خطے کے ممالک کا ایکدوسرے کے بارے میں موقف بھی بہتر ہو جائے گا۔ یاد رہے کہ یکم جنوری 2015ء اس نئے اقتصادی اتحاد کی تشکیل کے بعد مذکورہ بالا تین ممالک کے درمیان فری ٹریڈنگ، سروسز، سرمایہ کاری اور انسانی قوت کی آزاد آمدورفت کا سلسلہ بھی شروع ہو جائے گا۔ اسی طرح یہ نئی اقتصادی یونین انرجی، صنعت، ٹرانسپورٹ اور زراعت کے شعبوں میں ایک ہماہنگ پالیسی اختیار کرے گا جس کے نتیجے میں 2015ء تک گیس اور تیل کی مشترکہ مارکیٹس معرض وجود میں آئیں گی۔ اس کے علاوہ بڑی سطح پر اقتصادی سرگرمیوں کے میدان میں معین شدہ اہداف میں یوریشین خطے میں ایسے مضبوط صنعتی، تجارتی اور ٹرانسپورٹیشن مراکز کا قیام بھی شامل ہے جن کے ذریعے جدید ٹیکنولوجی سے مربوط پروڈکٹس کو بیرونی مارکیٹس تک ارسال کرنا ممکن بنایا جا سکے گا۔

لہذا یوریشین اقتصادی یونین اپنے رکن ممالک کو بین الاقوامی منڈیوں میں رقابت بڑھانے کا موقع فراہم کرے گا جس کے نتیجے میں ان ممالک میں اقتصادی رونق پیدا ہو گی۔ یوریشین یونین کی سیاسی صلاحیتوں سے صرف نظر کرتے ہوئے اقتصادی میدان میں اس کی مندرجہ ذیل خصوصیات بیان کی جا سکتی ہیں:

۱۔ روس، بیلاروس اور قازقستان 170 ملین آبادی پر مشتمل ایک عظیم منڈی کو معرض وجود میں لائیں گے،

۲۔ روس، بیلاروس اور قازقستان کی جی ڈی پی تین کھرب ڈالر کے قریب ہے،

۳۔ دنیا کے تمام قدرتی گیس کے ذخائر کا پانچواں حصہ اور دنیا کے خام تیل کے ذخائر کا 15 فیصد روس اور قازقستان میں پایا جاتا ہے۔

مختصر یہ کہ یوریشین یونین دنیا میں موجود قدرتی وسائل خاص طور پر انرجی کے ذخائر کا ایک بڑا حصہ اپنے اندر لئے ہوئے ہو گا۔ مزید یہ کہ اگر سابق سوویت یونین سے علیحدگی اختیار کر لینے والی تمام آزاد ریاستیں اس یونین میں شمولیت اختیار کر لیتی ہیں تو یہ اتحاد دنیا میں ایک طاقتور اقتصادی اور سیکورٹی بلاک کی صورت میں ابھر کر سامنے آئے گا جو بہت حد تک یورپی یونین سے مشابہ ہو گا۔ حتی اس نئے اقتصادی بلاک میں یورپی یونین کے ساتھ رقابت کرنے کی بھی بھرپور صلاحیت موجود ہو گی۔

یوریشین یونین کو درپیش چیلنجز:
اگرچہ ولادیمیر پیوٹن کے ذہن میں یوریشین یونین کی تشکیل کا آئیڈیا بہت حد تک یورپی یونین کو دیکھتے ہوئے پیدا ہوا ہے لیکن اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ اس اتحاد کو خطے میں ھمسوئی اور ہماہنگی کے ایک اعلی نمونہ ہونے کے ناطے بہت زیادہ مشکلات اور چیلنجز کا سامنا ہے یہ کہا جا سکتا ہے کہ روس کا طاقتورترین شخص ولادیمیر پیوٹن یوریشین یونین کی تشکیل سے مختلف قسم کے اہداف و مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ولادیمیر پیوٹن کی نظر میں یوریشین یونین کا قیام ایک طرف مشترکہ تجارتی منصوبوں کے اجراء اور یوریشین خطے میں واقع تمام ممالک کے اندر موجود صلاحیتوں کے درمیان مثبت رقابت کی ایجاد کا باعث بنے گا اور دوسری طرف اس کے ذریعے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی تمام مطلوبہ شرائط کو پورا کرنے میں بھی بہت مدد ملے گی۔

موجودہ حالات میں یوریشین یونین کی تشکیل سے متعلق معاہدے پر روس، بیلاروس اور قازقستان کے صدور مملکت کی جانب سے دستخط کئے جانا درحقیقت ان مغربی ممالک کو وارننگ کے مترادف سمجھا جا رہا ہے جو یوکرائن کے بحران سے متعلق کریملن کی خارجہ پالیسی کے خلاف روس کو اقتصادی پابندیوں میں مزید شدت کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ روس یوریشین یونین کے قیام سے درحقیقت مغربی طاقتوں کو یہ دکھانا چاہتا ہے کہ اگر امریکہ اور یورپ روس کے ساتھ اقتصادی تعاون کیلئے تیار نہ ہوں تو اس کے پاس عالمی سطح پر اقتصادی سرگرمیاں انجام دینے اور اس میدان میں ان سے رقابت کرنے کیلئے اور بھی راستے موجود ہیں۔ بہرحال ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ یوریشین یونین کے قیام سے متعلق معاہدے پر سربراہان مملکت کے دستخط ولادیمیر پیوٹن کی اس آرزو کے تحقق کی جانب ایک اہم قدم ہے جس کا مقصد گذشتہ صدی میں سابق سوویت یونین کے زوال جیسے ناگوار جیوپولیٹیکل حادثے کا جبران کرنا ہے۔ مستقبل قریب میں تشکیل پانے والے یوریشین یونین کو مندرجہ ذیل دو بڑے چیلنجز کا سامنا ہو سکتا ہے:

۱۔ یوریشین یونین کو درپیش پہلا بڑا چیلنج یہ ہے کہ سابق سوویت یونین سے علیحدگی اختیار کر کے آزاد اور خودمختار ہونے والی بعض ریاستیں روس کی جانب سے خود پر دوبارہ تسلط قائم کئے جانے کے امکان سے شدید پریشان اور خوفزدہ نظر آتی ہیں۔ اسی طرح بعض دوسری ریاستیں یوریشین یونین میں شمولیت کو یورپی یونین کے ساتھ اپنے روابط کیلئے نقصان دہ تصور کرتی ہیں۔ البتہ چونکہ پہلے مرحلے پر یوریشین یونین ایسے ممالک پر مشتمل ہے جن میں بہت کم باہمی اختلافات پائے جاتے ہیں لہذا اس مرحلے پر یوریشین یونین اس چیلنج سے روبرو نظر نہیں آتی۔ لیکن اس کے باوجود تشکیل کے ابتدائی مراحل میں اس نئے اقتصادی اتحاد کی راہ میں موجود سب سے بڑی رکاوٹ رکن ممالک کے اندرونی مسائل خاص طور پر ان کی جانب سے یہ پریشانی ہے کہیں مستقبل میں روس ان پر اپنا تسلط قائم نہ کر لے اور اپنے مفادات کی خاطر ان کے مفادات کو نظرانداز کرنا شروع نہ کر دے۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ یوکرائن میں سابق صدر یانوکوویچ کے مخالفین نے اسی ایشو کو بہانہ بنا کر ان کے خلاف اتنا پروپیگنڈہ کیا کہ وہ اقتدار کو چھوڑ کر ملک سے فرار ہونے پر مجبور ہو گئے۔

یوکرائن میں سیاسی بحران رونما ہونے سے قبل روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن اس بات پر امیدوار دکھائی دیتے تھے کہ وہ یوریشین یونین میں شمولیت کی خاطر یوکرائن اور سابق سوویت یونین سے علیحدگی اختیار کرنے والی دوسری آزاد اور خودمختار ریاستوں کی رضامندی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ لیکن یوکرائن میں جنم لینے والے سیاسی بحران نے ان کے اس ہدف کے سامنے سنجیدہ مشکلات اور رکاوٹیں کھڑی کر ڈالی ہیں۔ اس وقت صرف کرغزستان، تاجکستان اور آرمینیا جو خود معاشی بدحالی کا شکار ہیں یوریشین یونین میں رکنیت حاصل کرنے پر تیار نظر آتے ہیں جبکہ دوسری ریاستیں جیسے آذربائیجان، ترکمانستان اور ازبکستان جو قدرتی وسائل سے مالامال اور بڑی آبادی والے ممالک ہیں نے یوریشین یونین میں شمولیت کی جانب کوئی خاص جھکاو ظاہر نہیں کیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے واضح انداز میں اعلان کیا ہے کہ اگرچہ وہ چاہتے ہیں کہ سابق سوویت یونین سے علیحدگی اختیار کرنے والی آزاد ریاستوں کو "یوریشین یونین" میں شمولیت اختیار کرنے کی ترغیب دلائیں لیکن ان کا مقصد ہر گز یہ نہیں کہ سابق سوویت یونین سے مشابہ کوئی نیا فیڈریشن ایجاد کیا جائے۔ ان خیالات کے اظہار کی وجہ روس کے بعض ہمسایہ ممالک اور سابق سوویت یونین سے علیحدگی اختیار کرنے والی آزاد ریاستوں میں پائے جانے والی شدید پریشانی اور خوف میں مضمر ہے۔ اسی وجہ سے روس کے صدر نے حال ہی میں تین ممالک کے صدور مملکت کی جانب سے یوریشین یونین کے قیام سے متعلق معاہدے پر دستخط کو ایسی اقتصادی ہماہنگی اور تعاون کا آغاز قرار دیا ہے جس سے ان ممالک کی سیاسی خودمختاری پر کوئی آنچ نہیں آئے گی۔

۲۔ یوریشین یونین کو درپیش دوسرا بڑا چیلنج یہ ہے کہ مغربی طاقتیں اس منصوبے کو ناکامی کا شکار کرنے کیلئے کسی بھی کوشش سے دریغ نہیں کریں گی۔ مغربی طاقتیں اچھی طرح جانتی ہیں کہ یوریشین خطہ ہر قسم کی شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم اقتصادی مشکلات اور بحرانوں سے نمٹنے اور ان پر قابو پانے کی بھرپور صلاحیتوں کا حامل ہے اور یہ صلاحیتیں اس وقت ابھر کر سامنے آئیں گی جب اس خطے کے ممالک کے درمیان حقیقی طور پر ہماہنگی اور تعاون کی فضا قائم ہو جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف روس یوریشین یونین کی تشکیل کو ایک ایسی مکمل طور پر نئی اقتصادی پالیسی قرار دیتا ہے جو یوریشین خطے کے تمام ممالک کو اپنی لپیٹ میں لینے پر قادر ہے تو دوسری طرف مغربی طاقتیں اپنی پوری طاقت کے ساتھ اس کے خلاف میدان میں اتر آئی ہیں اور مختلف طریقوں سے اس پر کاری ضرب لگانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مغربی سیاسی تھنک ٹینکس یوریشین یونین جیسے اقتصادی اتحاد کو ایک ایسے دشمنانہ منصوبے کے طور پر دیکھ رہے ہیں جو نہ صرف سابق سوویت یونین کے زیر اثر علاقوں میں مغربی اثرورسوخ کا مقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت کا حامل ہے بلکہ پوری دنیا میں مغربی نفوذ کا رقیب ثابت ہو سکتا ہے۔

لہذا یوکرائن کا بحران ان دو مغربی اور روسی اقتصادی ماڈلز کے درمیان ٹکراو کا پہلا سنجیدہ قدم جانا جا سکتا ہے۔ اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ مغرب کی جانب سے یوکرائن کو یورپی یونین میں شمولیت اختیار کرنے جبکہ روس کی جانب سے یوریشین یونین میں شامل ہونے کی ترغیب دلائی جا رہی ہے۔ جبکہ یوکرائن درمیان میں ایک سرگردان جزیرے کی مانند کبھی اس طرف تو کبھی اس طرف جھکاو کا شکار ہوتا نظر آتا ہے۔ دوسری طرف ہمیں مغرب کی جانب سے وسطی ایشیائی ریاستوں میں بھی بدامنی اور عدم استحکام پھیلانے کی کوشش کرنے کا منتظر رہنا چاہئے۔ جیسا کہ حال ہی میں تاجکستان کے حالات اور ارومچی میں دہشت گردانہ اقدامات دیکھنے کو مل رہے ہیں جو اس منظرنامے کے عملی ہونے کی ابتدائی علامات تصور کی جا سکتی ہیں۔

یوریشین یونین کے نقطہ نظرات:
اگرچہ یوریشین یونین کے مخالفین کی بھرپور کوشش ہے کہ وہ اسے سابق سوویت یونین جیسے نئے اتحاد کی مانند قرار دیں لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یوریشین یونین اور سابق سوویت یونین میں کوئی خاص شباھت نہیں پائی جاتی۔ کیونکہ یوریشین یونین میں مختلف ریاستوں کے آپس میں اتحاد کی نوعیت اور اسی طرح یوریشین یونین کے اہداف و مقاصد سابق سوویت یونین سے یکسر مختلف نظر آتے ہیں۔ یوریشین یونین کے اہداف و مقاصد پہلے مرحلے پر سابق سوویت یونین سے علیحدگی اختیار کرنے والی آزاد اور خودمختار ریاستوں کے درمیان اقتصادی روابط کی بحالی اور ان میں فروغ اور ایک مشترکہ کسٹم سرحد کو ایجاد کرنا ہے تاکہ تجارتی سرگرمیوں میں مزید آسانی اور سہولت لائی جا سکے۔

اسی طرح یوریشین یونین کے قیام کا دوسرا بڑا ہدف عالمی اقتصاد میں قانونی مساوات اور چندگانگی کو ایجاد کرنا ہے۔ اس وقت عالمی اقتصادی ڈھانچے کا صرف ایک مرکز و محور ہے جس کی بنیاد ڈالر اور امریکہ کے معاشی تسلط پر استوار ہے۔ لہذا یوریشین یونین کا قیام دنیا میں ایک نئے اقتصادی محور کے معرض وجود میں آنے کا باعث بن سکتا ہے۔ اگر اس پہلو سے دیکھا جائے تو یوریشین یونین کے قیام کو عالمی نظام میں طاقت کے ایک نئے محور کی تشکیل قرار دیا جا سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 390478
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش