0
Tuesday 11 Mar 2014 01:06

تحریک حماس! دہشتگرد یا مزاحمتی تحریک؟

تحریک حماس! دہشتگرد یا مزاحمتی تحریک؟
تحریر: صابر کربلائی
(ترجمان فلسطین فائونڈیشن پاکستان)


اسلامی مزاحمتی تحریک حماس فلسطین میں آزادیٔ بیت المقدس اور مظلوم فلسطینیوں کی غاصب اسرائیلی دشمن سے آزادی کی جنگ لڑ رہی ہے اور اس جنگ کو دو دہائیوں سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن اسلامی مزاحمتی تحریک روز اول سے غاصب اسرائیلی دشمن کے سامنے سینہ سپر ہے، تحریک حماس کے حوالے سے حال ہی میں کچھ ایسی چہ میگوئیاں بھی سننے میں آ رہی ہیں کہ جس میں حماس کو دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے اور کوشش کی جا رہی ہے کہ حماس کو دہشت گرد گروہ میں شامل کر دیا جائے، یہ بھی بڑی واضح بات ہے کہ حماس کا تعلق مصر میں معروف جماعت اخوان المسلمون سے ہے جس کے بانی امام حسن البناء تھے، امام حسن البناء ایک عظیم اسلامی رہنما تھے، انہوں نے اخوان المسلون کی بنیاد مصر میں ڈالی جس کے بعد اخوان کی شاخیں پوری دنیا میں مختلف ناموں سے پہچانی جاتی ہیں اور فلسطین میں اسلامی مزاحمتی تحریک حماس در اصل اخوان المسلمون ہی کا ایک حصہ ہے۔ تحریک حماس کی بنیاد 1987ء میں سرزمین انبیاء علیہم السلام فلسطین پر ڈالی گئی، ا س تنظیم کے بانی شہید شیخ احمد یاسین ہیں کہ جن کو غاصب اسرائیل نے ایک ڈرون میزائل حملے میں شہید کر دیا تھا، شیخ احمد یاسین کے بعد تنظیم کی ذمہ داری ڈاکٹر عبد العزیز رنتیسی نے سنبھالی اور اسرائیل نے ان کو بھی شہید کر دیا جس کے بعد تنظیم کے سیاسی شعبے کے سربراہ کی حیثیت سے خالد مشعل موجود ہیں، جبکہ اسماعیل ہنیہ فلسطینی پٹی غزہ میں فلسطین کے وزیراعظم ہیں اور ان کا تعلق بھی حماس کے ساتھ ہے۔

اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے اپنی تاسیس کے بعد سے دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کی ہے اور اب حماس ایک مزاحمتی تنظیم ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعت بھی ہے جس نے 2006ء کے عام انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کی تھی اور فلسطین میں حکومت سازی کی تھی تاہم اس موقع پر بھی عالمی سامراجی قوتوں اور غاصب صیہونی ریاست اسرائیل نے حماس کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا اور ظلم تو یہ تھا کہ حماس کے اثاثے منجمند کرنے کے ساتھ ساتھ یورپی یونین اور امریکہ سمیت دیگر مغربی قوتوں نے حماس کو دہشت گرد قرار دے دیا تھا۔ یہ بھی کوشش کی گئی کہ حماس کو حکومت بنانے کے عمل سے دور رکھا جائے اور اس عنوان سے غزہ کو ملنے والی بین الاقوامی امداد کو بھی روک لیا گیا اور اس موقع پر حماس تنہا ہو گئی تھی تاہم اس کڑے وقت میں ایران نے حماس کو حکومت چلانے اور بنانے کے لئے بھاری مالی تعاون کیا تھا جس کے بعد غزہ میں حماس حکومت قائم ہو سکی تھی۔

غزہ میں اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے حکومت تو قائم کر لی لیکن عالمی سامراج اور مغربی پنڈتوں کو یہ بات بالکل بھی پسند نہ آئی اور انہوں نے غاصب اسرائیل کے ذریعے 2008ء میں غزہ پر بڑا فضائی حملہ کر دیا جس کے نتیجے مین درجنوں کیا بلکہ سیکڑوں فلسطینی جام شہادت نوش کر گئے، غزہ کا محاصرہ کر لیا گیا جو تاحال جار ی ہے، اس حملے کے جواب میں حماس نے فلسطینیوں کا دفاع کیا اور دفاع کا یہ عمل 22 روز جاری رہنے کے بعد بالآخر اسرائیل کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور حماس کامیاب ہو گئی۔ حماس اپنی تاسیس کے بعد سے اب زیادہ طاقتور ہو چکی ہے اور مسلح بھی ہو چکی ہے اور صلاحیت رکھتی ہے کہ غاصب اسرائیلی دشمن کو کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جا سکے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اسرائیل کے ساتھ حماس کا موازنہ کیا جائے اور پوری دنیا میں ایک عام ریفرنڈم کیا جائے تو اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟ کیا دنیا کے لوگ یہ جواب دیں گے کہ اسرائیل کے مقابلے میں حماس دہشت گرد تنظیم ہے؟ یا ہھر اسرائیل کے ظلم و ستم اور اس کی جارحیت کی تاریخ جاننے کے بعد اسرائیل کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ اسرائیل ایک دہشت گرد اور غیر قانونی اور غیر انسانی ریاست ہے جسے صیہونیوں نے اپنے مفادات کی خاطر وجود میں لا کر دنیا کے وسائل پر قبضہ کرنے کی ناپاک منصوبہ بندی کی ہے۔ بہر حال جواب بہت ہی واضح ہے کہ غاصب اسرائیل کہ جو گذشتہ پینسٹھ برسو ں سے فلسطین کے مظلوم عوام بشمول معصوم بچوں، خواتین، جوانوں اور بزرگوں کو خطرناک اور مہلک ہتھیاروں سے قتل کر رہا ہے اس کے مقابلے میں اسلام کی قوت سے سرشار مٹھی بھر یہ حماس کے جوان کس طرح دہشت گرد قرار دئیے جا سکتے ہیں؟ کس نے امریکہ کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ اسرائیل جیسی سفاک ریاست کے جرائم کے سامنے سینہ سپر ہونے کے جرم میں کسی کو دہشت گرد قرار دے؟ آخر امریکہ نے آج تک اسرائیل مظالم کے باوجود اسرائیل کو دہشت گرد ریاست قرار کیوں نہیں دیا؟ آخر یہ پوری دنیا کیوں فلسطینیوں پر ہونے والے اسرائیلی مظالم پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے؟ اگر کسی نے اسرائیل کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر لی اور مزاحمت شروع کر دی تو کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ دہشت گرد بن گیا؟ نہیں ایسا نہیں ہونا چاہئیے! امریکہ سمیت یورپی ممالک کو چاہئیے کہ غاصب اسرائیل کی پشتیبانی چھوڑ دیں اور مسئلہ فلسطین کے عنوان پر دہرا معیار بھی ترک کر دیں۔

دہشت گردی میں اور مزاحمت میں بہت واضح فرق موجود ہوتا ہے، دہشت گردی وہ ہے جس میں معصوم انسانوں کو بے گناہ قتل کر دیا جائے او مزاحمت کا مطلب دہشت گردی کے خلاف اپنا دفاع کرنا اور اپنی جان وما ل، عزت و آبرو و ناموس کا تحفظ، شعائر اللہ کا تحفظ کرنا یہ سب مزاحمت اور جہاد میں ہے نہ کہ دہشت گردی کا حصہ ہے، بلکہ دہشت گردی وہ ہے جو غاصب صیہونی اسرائیل کر رہا ہے اور دہشت گردی یہ بھی ہے کہ امریکہ اور یورپ اسرائیلی دہشت گردی کی حمایت کر رہے ہیں۔ ہمارے معاشرو ں میں ہی رہنے والے چند نادان لوگ بھی امریکہ اور اسرائیل کے بہکاوے میں آ کر انہی کی زبان بولنا شروع کر دیتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر اپنے آقائوں کو خوش کریں، کیونکہ امریکہ اور اسرائیل سمیت ان کے ایجنٹ بھی یہی چاہتے ہیں کہ قتل و غارت ہو، مسلم ممالک کی سر زمینوں پر غاصب اسرائیل کا تسلط قائم ہو، اور اس کام کے لئے راہ ہموار کی جاتی ہے۔

مغربی پنڈتوں اور صیہونیوں نے لبنان کو اسرائیل کے شکنجے سے آزاد کروانے والی اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کو بھی دہشت گرد قرار دیا ، اور اب کوشش کر رہے ہیں کہ یورپی یونین بھی حزب اللہ کو دہشت گرد قرار دے ، مغربی پنڈتوں نے حزب اللہ کو بدنام کرنے کے لئے مذہب کا نام استعمال کیا لیکن ناکام رہے،اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حزب اللہ کہ جس کی لبنانی پارلیمنٹ میں دو درجن سے زائد نشستیں موجود ہیں اس کو کس طرح دہشت گرد قرار دیا جا سکتا ہے، حما س کہ جس کی غزہ میں حکومت قائم ہے آخر کس طرح دہشت گرد قرار دی جا سکتی ہے؟ امریکہ کو یہ بات جان لینی چاہئیے کہ امریکی اعلانات پر کسی کو دہشت گرد کہنے سے کوئی دہشت گرد نہیں ہو سکتا بلکہ امریکہ اپنی تسلی کے لئے یہ اعلانات کر رہا ہے اور اپنے ایجنٹوں سے کروا رہا ہے جس کا کوئی مقصد حاصل نہ ہو، مزاحمت مزید تقویت حاصل کر رہی ہے اور اسلامی مزاحمت ہی کی فتح ہو گی۔

حالیہ دنوں مصر میں بھی گذشتہ طویل عرصے سے جاری بحث کا خاتمہ مصری عدالت کے فیصلے کے ساتھ ہوا ہے کہ جس میں اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کو دہشت گرد قرار دیا گیا ہے اور اس تنظیم پر مصر میں پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ مصر ایک تاریخی ملک ہے اور یہاں کے باسی سمجھدار ہیں وہ یقینا ان باتوں پر بھروسہ نہیں کریں گے، ہو سکتا ہے کہ حماس کے بعض قائدین سے ماضی میں کچھ غلطیاں سرزد ہوئی ہوں لیکن کچھ غلطیوں اور کچھ افراد کی وجہ سے ہم پوری تنظیم اور اس کی قربانیوں کو فراموش نہیں کر سکتے، اس تحریک نے جدوجہد آزادی فلسطین کی خاطر سیکڑوں شہداء کی قربانی دی ہے اور انشاءاللہ یہ تحریک جاری و ساری رہے گی اور دشمن ہمیشہ ناکام رہے گا۔ تحریک کا سفر جاری رہے گا لوگ آتے جاتے رہیں گے۔ حماس اور حزب اللہ اسلام کے دو بازو ہیں جنہیں دنیا کی کوئی طاقت اسلام کے تن سے جدا نہیں کر سکتی۔
خبر کا کوڈ : 360174
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش