0
Wednesday 13 Aug 2014 15:09
اسٹیبلشمنٹ صرف پنجاب کی بالادستی چاہتی ہے

بلوچستان میں گذشتہ انتخابات الیکشن نہیں بلکہ صاف و شفاف سلیکشن تھے، آغا حسن بلوچ

لاپتہ افراد کا معاملہ اسی طرح جاری ہے
بلوچستان میں گذشتہ انتخابات الیکشن نہیں بلکہ صاف و شفاف سلیکشن تھے، آغا حسن بلوچ
آغا حسن بلوچ بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی انفارمیشن سیکرٹری ہیں۔ آپ 10 فروری 1973ء کو کوئٹہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کوئٹہ سے حاصل کی اور بعدازاں بلوچستان یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی اور ایڈووکیٹ کے طور پر بھی خدمات سرانجام دیتے رہے۔  آپ نے گذشتہ انتخابات میں کوئٹہ این اے 260ء سے قومی اسمبلی کی نشست کیلئے حصہ لیا، لیکن بدقسمتی سے ناکام رہے۔ آپ سردار اختر جان مینگل کے انتہائی قریب ساتھی اور پارٹی کے سینئیر رہنماء کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ آغا حسن بلوچ سے بلوچستان کے موجودہ مسائل اور گذشتہ انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے حوالے سے ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ایک مختصر انٹرویو کیا، جو قارئین کے لئے پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: بلوچستان کا اصل مسئلہ کیا ہے اور بلوچ عوام کیا چاہتے ہے۔؟
آغا حسن بلوچ: مسئلہ بلوچستان سب کیلئے واضح ہے۔ ہماری عوام اپنے حقوق کیلئے جدوجہد کر رہی ہے اور اپنی خود مختاری چاہتے ہیں۔ جس طرح اقوام متحدہ نے دیگر اقوام کو ظلم و جور سے آزادی دلوائی ہے، اسی طرح بلوچ عوام بھی اپنی سرزمین پر اصل اختیارات کی خواہاں ہے۔

اسلام ٹائمز: بعض سیاسی جماعتوں کو آپکی خود مختاری والی سوچ سے اختلافات ہے، اس بارے میں کیا کہیں گے۔؟
اغا حسن بلوچ: اگر کسی کو ہماری جدوجہد اور سوچ سے اختلاف ہے تو یہ انکا ذاتی مسئلہ ہے۔ جو بیرون ملک جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہے ہیں وہ بھی بلوچ عوام کیلئے خود مختاری چاہتے ہیں، گرچہ وہ بلوچستان میں آزادی کی بات کرتے ہونگے۔ یہاں پر میں ایک اور بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ خود مختاری کا مطلب صرف صوبے کی آزادی نہیں۔ اگر نورالدین مینگل اور مہران بلوچ اقوام متحدہ جاتے ہیں تو وہ بھی خود مختاری کی بات کرتے ہے۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان کے حالات بلوچ عوام کو کس جانب لے جا رہے ہیں۔؟
آغا حسن بلوچ: دیکھئے! بنگلہ دیش کی صورتحال جو تھی، بلوچستان کی صورتحال بھی وہی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ پنجاب کے علاوہ کسی اور قوم کی خود مختاری اور ترقی کو نہیں دیکھ سکتی۔ جب بنگلہ دیش میں عوامی لیگ عام انتخابات میں الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوئی، تو انہوں نے بنگالیوں کا مینڈیٹ ماننے سے انکار کیا۔ آج اسی طرح بلوچستان کے حالات کشیدہ ہیں۔ وہ ہمارے سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کا قتل عام کر رہے ہیں۔ اب تک صرف ہماری جماعت سے 33 افراد کو قتل کیا جاچکا ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ اپنی جماعت کو بلوچستان کی سب سے بڑی نمائندہ جماعت کہتے ہیں، اب تک اپنی عوام کیلئے آپ نے کیا کیا ہے۔؟
آغا حسن بلوچ: ہماری جماعت سے خالصتاً بلوچستان کے عوام ہی وابستہ ہیں۔ صوبائی سطح ہو یا وفاقی سطح، ہم نے ہمیشہ اپنے صوبے کے جائز حقوق کی ترجمانی کی ہے۔ ہمارے سردار عطاءاللہ مینگل، سردار اختر جان مینگل بھی ریاستی دباؤ کا نشانہ بنے ہیں، لیکن اپنی آواز کو کبھی بھی نہیں دبایا۔

اسلام ٹائمز: آپ بلوچ اور پشتون کے درمیان رشتے کو کس طرح دیکھتے ہے۔؟
آغا حسن بلوچ: بلوچستان میں پشتون اور بلوچ قبائل سالوں سے ایک دوسرے کیساتھ یکجا زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے کی قبائلی روایات کا کھلے دل سے احترام ہے۔ ہماری جماعت میں بھی پشتون لوگ موجود ہیں، لیکن اسکا مطلب یہ نہیں کہ ہم افغان مہاجرین کے حوالے سے بھی انکا ساتھ دیں۔ صوبے میں غیر قانونی طور پر آباد ان مہاجرین کیخلاف ہم ہمیشہ تھے اور رہینگے۔ ایک اندازے کے مطابق صوبے میں 4 ملین مہاجرین رہ رہے ہیں اور بلوچستان نیشنل پارٹی واحد جماعت ہے جو ان کیخلاف آواز بلند کر رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: یو این ایچ سی آر کے مطابق افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد افغانستان میں جاچکی ہیں۔؟
آغا حسن بلوچ: نہیں، یہ بات بالکل غلط ہے۔ افغان مہاجرین اب بھی بلوچستان میں موجود ہیں اور یہاں تک کہ انہیں چار لاکھ کے قریب جعلی شناختی کارڈز بھی جاری کئے جاچکے ہیں۔ اسی بناء پر گذشتہ انتخابات میں ایک قوم پرست جماعت جعلی مینڈیٹ کے ذریعے اقتدار تک پہنچی۔ جسکی ہم نے بھرپور مذمت کی ہے۔

اسلام ٹائمز: اس سال کے آخر تک امریکی افواج کے افغانستان سے انخلاء سے خطے پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔؟
آغا حسن بلوچ: امریکہ کو اس سے قبل ہی افغانستان سے نکل جانا چاہیئے تھا، تاکہ ایک حقیقی جمہوریت کا قیام ممکن ہوتا، لیکن ایسا نہ کرنے کی وجہ سے مسائل میں مزید اضافہ ہوا۔ موجودہ سیاسی کشمکش سے بھی ملک پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ افغانستان کو ترقی کی جانب بڑھنا ہے تو تمام اقوام کو مل بیٹھ کر اپنے مسائل خود حل کرنے ہونگے۔

اسلام ٹائمز: کیا موجودہ حکومت اور سیاسی جماعتیں بلوچستان کے مسئلے کو حل کر پائینگی۔؟
آغا حسن بلوچ: کسی بھی سیاسی جماعت میں اتنی قابلیت نہیں کہ وہ بلوچستان کے مسائل کو حل کر پائے۔ چاہے وہ وفاق میں نواز حکومت ہو یا صوبے میں ڈاکٹر مالک یا پشتونخوا میپ ہوں۔ یہ جماعتیں تو اب تک بلوچستان میں آل پارٹیز کانفرنس ہی بلانے میں ناکام رہی ہیں، جبکہ دوسری جانب لاپتہ افراد کا معاملہ اسی طرح جاری ہے۔

اسلام ٹائمز: گذشتہ انتخابات کے حوالے سے آپکی جماعت کے کیا تحفظات ہیں۔؟
آغا حسن بلوچ: گیارہ مئی 2013ء کو بلوچستان میں الیکشن نہیں بلکہ صاف و شفاف سلیکشن تھے۔ سردار اختر مینگل کی نشست پر نتائج 27 دن بعض اضلاع میں چار اور بعض میں ایک ہفتے تک نتائج روکے گئے۔ جسکا مقصد بی این پر چھ نکات اور قومی حق خود ارادیت کی جدوجہد سے دستبردار ہونے کیلئے دباؤ ڈالنا تھا، لیکن سردار اختر مینگل نے ایسی تمام مخالفت کو رد کر دیا اور واضح کر دیا کہ پارلیمنٹ تک رسائی ہمارا مقصد نہیں۔ ہم پارلیمنٹ کو جدوجہد کیلئے محض ایک ٹول سمجھتے ہیں۔ مسائل کا حل پارلیمنٹ نہیں ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی کوشش تھی کہ 2013ء کے الیکشن کے بعد بی این پی کے حوصلے پست ہوں۔ لیکن بی این پی مزید مضبوط ہوچکی ہے۔ عوام کا بی این پی کیساتھ تعلق مزید گہرا ہوچکا ہے اور بی این پی ایک قومی پارٹی کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ ہماری جدوجہد بلوچ تشخص، ساحل، وسائل، قومی بقاء اور ناموس کی حفاظت کیلئے ہے۔ 21ویں صدی کے جدید تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے پارٹی کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا مقصد علمی، فکری اور نظریاتی سیاست کو فروغ دینا ہے۔ ہمارا بلوچ قوم کیساتھ رشتہ محض ووٹ اور مراعات کیلئے نہیں بلکہ خونی رشتہ ہے۔

اسلام ٹائمز: تحریک انصاف اور طاہ القادری کے جلسے میں شرکت کیلئے کونسے اقدامات کئے گئے ہیں۔؟
آغا حسن بلوچ: ہماری جماعت کے چیئرمین سردار اختر مینگل صاحب نے جماعت کو ہدایت کی ہے کہ گذشتہ انتخابات میں دھاندلی کیخلاف عمران خان کا بھرپور ساتھ دیں۔ ویسے تو انکے ساتھ ہمارے تحفظات ہے، کیونکہ شروع دن سے ہم یہی واویلا کر رہے ہیں کہ بلوچستان میں تاریخ کی بدترین دھاندلی کی گئی ہے، لیکن اس وقت کسی نے ہماری بات نہیں سنی۔ آج ملک کی بڑی جماعتیں بھی دھاندلی کے الزامات لگا رہی ہیں۔ لہذا ہم گذشتہ انتخابات میں دھاندلی کیخلاف عمران خان کے جلسے کا بھرپور ساتھ دینگے۔
خبر کا کوڈ : 404571
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش