0
Saturday 29 Mar 2014 20:23

فائنل ملاقات کے چرچے

فائنل ملاقات کے چرچے
تحریر: محمد علی نقوی

امریکی صدر باراک اوباما اور سعودی عرب کے بادشاہ عبداللہ بن عبدلعزیز کی ملاقات کا چرچا آج کل زباں زدخاص و عام ہے۔ علاقائی اور عالمی ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق امریکی صدر باراک اوباما اور سعودی عرب کے بادشاہ عبداللہ نے جمعہ کے روز دارالحکومت ریاض میں اہم اور اسٹریٹجک اختلافات کے بارے میں بات چیت کی ہے۔ اوباما کے ساتھ  انکے وزیر خارجہ جان کیری اور قومی سلامتی کی مشیر سوسن رائس بھی موجود تھیں۔ دو گھنٹے سے زائد وقت پر مشتمل اس ملاقات میں  ایران کا ایٹمی پروگرام خصوصی طور پر زیر بحث رہا۔  باخبر ذرائع کے مطابق امریکی صدر باراک اوباما نے اس ملاقات میں شاہ عبداللہ کو یقین دلایا کہ امریکہ ایران کے ساتھ کوئی برا معاہدہ نہیں کرے گا۔ امریکی صدر کے اس بیان نے مبصرین کی توجہ سات اپریل کو ویانا میں ہونے والے ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے مذاکرات کی جانب مبذول کر دی ہے کہ جن کا مقصد ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں ایک جامع معاہدے تک پہنچنا ہے۔

باراک اوباما نے اپنے اس دورے کے دوران کہ جو دو ہزار نو سے لے کر اب تک سعودی عرب کا ان کا پہلا دورہ ہے، اس بات کو واضح کرنے کی کوشش کی کہ امریکہ اور سعودی عرب کے اسٹریٹجک مفادات بدستور ایک دوسرے کے ساتھ مضبوطی سے جڑے ہوئے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کے حکام کے بقول ایران اور شام کے بارے میں اوباما اور شاہ عبداللہ نے بہت دیر تک گفتگو کی، جس کی وجہ سے دوسرے مسائل پر بات چیت کرنے کا موقع نہیں ملا اور انسانی حقوق کا مسئلہ بھی ان مسائل میں شامل تھا کہ جن پر بحث نہیں ہوئی۔ البتہ اوباما کے سعودی عرب کے دورے کے دوران اس بات کی توقع بھی نہیں تھی کہ اوباما اس سلسلے میں کوئی بات بھی کرتے، کیونکہ انہوں نے اپنے ملک کے اقتصادی مفادات کو سعودی عرب کے عوام کے حقوق پر ترجیح دی ہے۔ بظاہر اوباما کے اس دورے کا اصل مقصد سعودی عرب کو اس بات کا یقین دلانا تھا کہ وہ بدستور امریکہ کا تاریخی اتحادی ہے۔
 
لیکن اس وقت علاقے میں تین اہم تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ شام میں طاقت کا توازن بشار الاسد حکومت کے حق میں تبدیل ہو رہا ہے، امریکہ مشرق وسطٰی میں ساز باز مذاکرات کی گرہ کھولنے میں تعطل کا شکار ہوچکا ہے، ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے درمیان ایٹمی مسئلے پر ابتدائی معاہدہ ہوچکا ہے اور جامع معاہدے تک پہنچنے کے لیے بات چیت کا عمل جاری ہے۔ ان تینوں تبدیلیوں نے امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات پر گہرا اثر ڈالا ہے اور یہ تبدیلیاں علاقے میں سعودی عرب کے کردار کے ساتھ سازگار نہیں ہیں۔ سعودی عرب اگرچہ گذشتہ کئی دہائیوں سے ہمیشہ امریکہ کی علاقائی پالیسیوں کا تابع رہا ہے، لیکن وائٹ ہاؤس کی نظر میں 1945ء میں امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والے تیل کے بدلے سکیورٹی کے معاہدے کے حالات بدل گئے ہیں۔ اسی بنا پر امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے حالیہ چند مہینوں کے دوران کئی بار مشرق وسطٰی کے علاقے کا دورہ کیا، تاکہ وہ علاقے میں موجود حقائق کے بارے میں سعودی عرب کی سوچ کو تبدیل کرسکیں۔
 
امریکی حکام نے اس اعتماد سازی کے مرکزی نقطے کو ایران کے ایٹمی مسئلے پر مرکوز کیا ہے، تاکہ بزعم خود ایک تیر سے دو شکار والی پالیسی سے علاقے میں امریکہ کی پوزیشن کو محفوظ رکھنے کے لیے سعودی عرب کی رضامندی اور خوشنودی حاصل کرنے کے ساتھ ہی ساتھ ایران کے ایٹمی پروگرام پر علاقے کے عرب ممالک کی تشویش کے بہانے ویانا میں ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے مذاکرات کے نئے دور سے قبل ایران پر دباؤ کا جواز پیش کرسکیں۔ عالمی اور علاقائی مبصرین کا یہ کہنا ہے کہ امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں جو خلیج آچکی ہے، وہ آسانی سے پر ہونے والی نہیں ہے، امریکہ صرف اور صرف اپنے قومی مفادات کے لئے کسی ملک سے تعلقات استوار کرتا ہے، یا کسی ملک کو اپنے اھداف کے حصول کے  لئے استعمال کرتا ہے، امریکہ نے ابھی تک سعودی عرب کو اپنے مزموم مقاصد کے لئے بری طرح استعمال کیا ہے اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ امریکہ کو اب سعودی عرب کے تیل کی بھی زیادہ ضرورت نہیں رہی ہے، کیونکہ وہ کینیڈا، میکسیکو اور دوسرے ممالک سے اپنی ضروریات کو پورا کرسکتا ہے۔ اسی طرح جدید ٹیکنالوجی کی بدولت اس نے اپنی توانائی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے کچھ اور ذرائع بھی پیدا کر لئے ہیں۔

خطے کی سیاست پر نظر رکھنے والے مبصرین جانتے ہیں کہ سعودی عرب اس وقت کس پریشانی سے گزر رہا ہے۔ شام میں اس کی منشاء پوری نہیں ہوسکی اور شام پر فضائی حملے کا ارادہ امریکہ نے آخری مرحلے میں اس وقت منسوخ کر دیا، جب اسے یقین ہوگیا کہ شام میں حکومت کی تبدیلی کے نتیجے میں انتہا پسند عناصر برسراقتدار آئیں گے، جو آخر کار خطے میں مزید انتہا پسندی کے فروغ میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ امریکہ کے اس اقدام کی وجہ سے سعودی عرب اور امریکہ کے دیرینہ تعلقات متاثر ہوئے، جسکا بحال ہونا اتنا آسان نہیں ہے۔ باراک اوباما نے ایک ایسے وقت سعودیہ کا دورہ کیا ہے کہ روئٹر نے ایک تجزیے میں لکھا ہے کہ سعودی عرب کا روایتی حریف قطر امریکہ سے تعلقات بہتر بنانے کے لئے اس سے بڑی مقدار میں ہتھیار خرید رہا ہے اور اس عمل نے سعودیہ کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ دوحہ کی وزارت دفاع کے جمعرات کے دن سامنے آنے والے ایک بیان میں آیا ہے کہ قطر نے امریکہ کی بیس مختلف کمپنیوں سے سات ارب اور چھ سو ملین ڈالر کا معاہدہ کیا ہے۔
 
قطر اور بعض دوسرے عرب ممالک اپنے اندرونی خطرات کی پیش نظر جدید ترین ہتھیار خرید رہے ہیں اور امریکہ بھی بعض ممالک سے اختلافات کے باوجود ان کو ہتھیار فروخت کر رہا ہے۔ امریکہ اور برطانیہ نے گذشتہ چند سالوں میں خلیج فارس کے ان ممالک کو اربوں ڈالر کا اسلحہ فروخت کیا ہے اور اس سے بڑے اقتصادی مفادات حاصل کئے ہیں۔ امریکہ اور مغربی ممالک اقتصادی مفاد حاصل کرنے کے لئے خطے میں ایران فوبیا کا پرچار کرتے ہیں اور ان ممالک کو نئے نئے ہتھیار خریدنے پر تیار  کرتے ہیں، اس سے جہاں انکی اسلحے کی صنعت کو فائدہ پہنچتا ہے، وہاں اسرائیل کے ایٹمی ہتھیاروں کے انباروں کی طرف سے بھی رائے عامہ کی توجہ کم ہوجاتی ہے۔
 
سعودی عرب نے امریکی صدر کے دورے سے پہلے اپنا وزن بڑھانے کے لئے یہ کوشش ضرور کی تھی کہ کہ امریکہ کو یہ باور کرائے کہ وہ مغرب کا محتاج نہیں ہے اور وہ مشرقی ممالک کا بھی اتحادی بن سکتا ہے اسی حوالے سے سعودی حکام نے ہندوستان اور پاکستان وغیرہ کے پے در پے دورے بھی کئے، لیکن سعودی عرب شاید بھول رہا ہے کہ یہ ممالک بھی کسی نہ کسی حوالے سے امریکی زلف گرہ گیر کا شکار ہیں۔ علاقے کی بدلتی صورت حال اور  واشنگٹن ریاض پالیسیوں کی ناکامی کی وجہ سے مشرق وسطٰی کو نئے چیلنجوں کا سامنا ہے اور اب امریکہ پہلے کیطرح سعودی عرب کا ساتھ نہیں دے سکتا، کیونکہ ایران اور پانچ جمع ایک کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی وجہ سے صورت حال بدل چکی ہے۔ اسی بنا پر سعودی عرب بھی پہلے کیطرح اپنی پالیسیوں کو آگئے نہیں بڑھا سکتا ہے، کیونکہ اسے مختلف داخلی بحرانوں کا بھی سامنا ہے۔
خبر کا کوڈ : 367212
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش