3
0
Saturday 23 Aug 2014 18:35

سیاست کی بساط پہ دھرنوں کی چال

سیاست کی بساط پہ دھرنوں کی چال
تحریر: طاہر یاسین طاہر

ہم جس طرز کی معاشرتی زندگی ’’جی‘‘ رہے ہیں اس میں جاگیرادانہ، سرمایہ دارانہ، صنعتکارانہ سیاست کاری اور ’’مولویانہ‘‘ بازی گری کا بڑا گہرا عمل دخل ہے۔ تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ برصغیر کی سرزمین نے محلاتی سازشوں کی خوب آبیاری کی۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر تحریک اور ہر احتجاج کے پیچھے خفیہ ہاتھ اور امریکی سازشیں ہی کارفرما ہوں۔ مانا کہ نظامِ مصطفٰی کی تحریک کے پیچھے ایک ہی مقصد تھا اور وہ بھٹو حکومت کا خاتمہ تھا۔ یہ سازش اس قدر گہری اور سفاکانہ انداز میں کی گئی کہ نہ صرف سامراج کو للکارنے والے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نہ رہی بلکہ ’’تحریکِ نظامِ مصطفٰی‘‘ بھٹو صاحب جیسے قومی رہنما کی زندگی بھی لے اڑی۔ اس تحریک کے بطن سے مگر ایک ایسے جنرل کے فہمِ اسلام کا ظہور ہوا، جسے جماعت اسلامی سمیت ان سارے ’’مقامی و بین الاقوامی مجاہدین‘‘ نے قبول کیا، جنھیں اس جنرل کی حکومت اور اس خطے میں اپنے مفادات کی حفاظت کرنا تھی۔ کیا ضیاءالحق کی حکومت آئینی تھی؟ کیا اس کے اقدامات سے بنیادی انسانی حقوق کی نفی نہیں ہوتی رہی؟ کیا جماعت اسلامی اور لال مسجد والے مولوی عبدالعزیز کے والد گرامی ضیاء حکومت کو اپنی فتوہ کاریوں سے ایک جواز فراہم نہیں کرتے رہے؟ کیا مدرسہ تعلیم القرآن کے مولوی غلام اللہ کے جنرل ضیاءالحق سے قریبی مراسم نہ تھے؟

یہ مولوی حضرات اور مذہبی سیاسی جماعتیں، جنرل ضیاءالحق کی حمایت میں اس حد تک چلی گئیں کہ اسے مردِ مومن کہنے لگیں۔ میاں نواز شریف صاحب اور ان کی کابینہ کے کم و بیش سارے وزیر مشیر اسی ضیائی دور کی سیاسی پیداوار ہیں۔ پاکستانی سیاسی تاریخ اور پاکستانی معاشرتی طرزِ حیات پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ ہمارے سیاست دان خواہ وہ کسی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں، اپنے اقتدار کے حصول یا پھر حاصل کئے ہوئے اقتدار کے تحفظ کے لیے امریکہ و جی ایچ کیو کی خوشنودی ان کی اولین ترجیح رہی، کیا یہ سچ نہیں۔ جنرل (ر) حمید گل اعتراف کرچکے ہیں کہ انھوں نے پی پی پی کے خلاف آئی جے آئی کا اتحاد تشکیل دیا تھا؟ سوال مگر یہ ہے کہ انھیں ایسا کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ وہ افغانستان میں ایک ’’اسلامی‘‘ ریاست کا خواب دیکھ رہے تھے۔ افغانستان میں امریکی مفادات کی لڑائی کو ’’جہاد‘‘ کہنے والے پاکستانی سیاست کی بساط پر ایسی الٹی چالیں چلنے لگے جو ملک میں سرمایہ دارانہ، صنعتکارانہ اور مولویانہ طرزِ سیاست کی بنیاد بنیں۔

افغانستان کے so called جہاد کے ایام سے لے کر آج تک کی خونریزی ہماری معاشرتی زندگی پر بری طرح اثر انداز ہو رہی ہے اور ہم عوامی فلاحی ریاست جو بہرحال ’’عوامی فلاحی سیاست‘‘ والی سوچ سے ہی ممکن ہوسکتی ہے، کے قریب تک بھی نہ پھٹک سکے، البتہ ہمیں مختلف جتھوں اور گروہوں کی سٹریٹ پاور کے نظارے دیکھنے کو ضرور ملے۔ منافقت و مکاری اور کس بلا کا نام ہے؟ کہ وہی عوامی نمائندے جو ہر انتخاب میں وعدہ کرتے ہیں کہ ہم عوام کی تقدیر بدل دیں گے، وہ اسمبلیوں میں پہنچتے ہی عوام کے بجائے اپنی اور اپنے عزیزوں کی تقدیر بدلنا شروع کر دیتے ہیں۔ مگر نئے انتخابات میں یہی لوگ نئے وعدوں کے ساتھ عوام کی امنگوں میں نقب لگاتے ہیں اور منتخب ہو کر ’’اپنے‘‘ کام میں لگ جاتے ہیں۔ 

تاریخ کے اوراق البتہ کسی کی ذہنی آسودگی کے لیے نہیں ہوتے، ان میں سبق ہوتا ہے، عبرت کی کہانیاں اور معاشرتی و سماجی زندگی کے عروج و زوال کی داستانیں۔ ہم مگر تاریخ سے من پسند اسباق یاد کرتے ہیں اور انھیں اپنی ’’کاٹ دار‘‘ گفت گو کا حصہ بنا کر اپنے تئیں ارسطو و افلاطون بن جاتے ہیں۔ وگرنہ اس سچ کو فراموش کیسے کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نون، حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں، اس نے ہمیشہ’’ڈنڈا بردار‘‘ سیاست کی۔ کیا میاں نواز شریف صاحب کی ’’آئین پرست‘‘ جماعت نے حالتِ اقتدار میں سپریم کورٹ پر حملہ نہیں کیا تھا؟ اور کیا ان کے حملے کے نتیجے میں چیف جسٹس آف پاکستان کو عدالت سے بھاگنا نہیں پڑا تھا؟ کیا میاں صاحب نے اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے اسامہ بن لادن سے محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت گرانے کے لیے رقم نہیں لی تھی؟ یعنی اس وقت میاں صاحب نے اقتدار حاصل کرنے کے لیے اسامہ بن لادن کی خدمات حاصل کی تھیں اور آج اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے اسی اسامہ بن لادن کی فکری اولاد سے اپنے حق میں مظاہرے کروا رہے ہیں۔

جمعہ کے روز کالعدم دہشت گرد تنظیموں نے راولپنڈی، اسلام آباد، لاہور و فیصل آباد سمیت ملک کے دیگر شہروں میں مظاہرے کئے؟ کیوں؟ اس لیے کہ اگر میاں نواز شریف کی حکومت چلی گئی تو پارلیمنٹ کے اندر ان کی حمایت کرنے والوں کی تعداد کم ہوجائے گی۔ کیا ایسا تماشا دنیا کے کسی بھی اور ملک میں ہوتا ہے کہ وہ کالعدم جماعتیں جو اپنی دہشتگردانہ اور ریاست مخالف سرگرمیوں کی وجہ سے ریاست کی طرف سے کالعدم قرار دی جائیں، وہی جماعتیں نام بدل کر ریاست کے دارالحکومت میں’’ریاست کے حق‘‘ میں مظاہرے کرتی پھریں؟ پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کے مظاہروں اور ان کے دھرنوں کی تو سمجھ آتی ہے۔ پی ٹی آئی کا مؤقف ہے کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔ بے شک ہوئی کہ یہ بات حکومتی جماعت کے ایک ’’نامور‘‘ وزیر اسمبلی میں تسلیم کرچکے ہیں کہ ہر حلقے میں چالیس سے پچاس ہزار ووٹ ’’نامعلوم‘‘ ہیں۔ 

عوامی تحریک آپریشن ضربِ عضب کے حق میں اپنا جلسہ منسوخ کرچکی تھی کہ 17جون کو منہاج القرآن پر پنجاب حکومت نے چڑھائی کر دی، اور چودہ افراد شہید کر دیئے گئے۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ ایسے دھاندلی زدہ الیکشن سے منتخب ہو کر آنے والی حکومت جعلی ہے۔ اسے ختم کرکے ایک نئی قومی حکومت تشکیل دی جائے اور دھاندلی کرنے والوں کو سزائیں دی جائیں۔ سب سے بڑھ کر انتخابات کے لیے بائیو میٹرک سسٹم لایا جائے۔ ان مطالبات میں بری چیز کیا ہے؟ عوامی تحریک البتہ پورے سسٹم کو لپیٹ کر انقلاب لانا چاہتی ہے۔ بے شک ڈاکٹر طاہر القادری کا ایجنڈا عام آدمی کے لئے بڑا پرکشش ہے۔ ویسا ہی پرکشش جیسا 70 کی دھائی میں عام آدمی کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کا منشور تھا۔ اس میں مگر غلط کیا ہے کہ حکومت کالعدم دہشت گرد تنظیموں کو سڑکوں پر لے آئی۔؟ یہ بحث اپنی جگہ بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ حکومت، پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کے مطالبات کو تسلیم کیوں نہیں کر رہی؟ یا پی ٹی آئی اور عوامی تحریک حکومتی مؤقف پر لچک کا مظاہرے کیوں نہیں کر رہیں ہیں۔
 
لیکن تازہ المیہ یہ ہے کہ حکومت مذاکرات کو نتیجہ خیز موڑ پر لانے کے بجائے کالعدم تنظیموں کو متحرک کرکے پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کو پیغام دینا چاہ رہی ہے کہ اگر اسلام آباد کو جلدی چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوئے تو ’’اسٹریٹجک اثاثے‘‘ ریاستی تحفظ کے نام پر تمھارے دھرنوں پر چڑھ دوڑیں گے۔ اس پیغام میں ایک اور پیغام بھی پوشیدہ ہے کہ اگر ’’فحاشی و شرک‘‘ کو ترک نہ کیا گیا تو ’’لال مسجد اور نون لیگ‘‘ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے والے تمھارے دھرنوں میں کود کر ’’سوئے جنت‘‘ بھی جاسکتے ہیں۔ سیاسی بساط پر مذاکرات کی چال چلنے کے بجائے مختلف زاویوں سے دھرنے کے شرکاء کو دھمکی آمیز پیغامات اس امر کا ثبوت ہیں کہ نون لیگ اپنی سرشت میں گندھی ہوئی ہٹ دھرمی سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ لیکن دھرنوں کی بساط پر کھیلی جانے والی سیاسی چالیں ڈنڈا برداد قوتوں کو آگے نہیں بڑھنے دیں گی۔ حکومت اپنے حق میں کالعدم تنظیموں کو مظاہرے کرنے سے روکے اور اگر اسے یہ زعم ہے کہ وہ دو تہائی اکثریت لے کر اقتدار میں آئی ہے تو پھر اسے عوام کے پاس ایک بار پھر جانے میں بھی کوئی خوف نہیں ہونا چاہیے۔
خبر کا کوڈ : 406317
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

bahoot khoob. ec mian koi shak nai k main brothers ki hakoomat kaaladdam tanzimeeon ki meharbani hy
Pakistan
Tahir Bhai, iss jumlay se mehzooz horaha hoo. irfan ali

اس پیغام میں ایک اور پیغام بھی پوشیدہ ہے کہ اگر ’’فحاشی و شرک‘‘ کو ترک نہ کیا گیا تو ’’لال مسجد اور نون لیگ‘‘ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے والے تمھارے دھرنوں میں کود کر ’’سوئے جنت‘‘ بھی جاسکتے ہیں۔
قارئین کا ممنون ہوں، جن کی پذیرائی میرا اثاثہ ہے۔ عرفان علی بھائی آپ کی محبتوں اور حوصلہ افزائی کا شکریہ
ہماری پیشکش