3
0
Friday 8 Mar 2013 00:10
صارفین کا ٹویٹر پر دلچسپ مناظرہ

کیا سعودی شوریٰ کونسل کی تمام خواتین ارکان "طوائف" ہیں؟

کیا سعودی شوریٰ کونسل کی تمام خواتین ارکان "طوائف" ہیں؟
رپورٹ: ایس این حسینی

سعودی عرب میں ایک متنازعہ مذہبی عالم نے سوشل میڈیا کی ویب سائٹ پر حال ہی میں سعودی شوریٰ کونسل کی رکنیت کا حلف اُٹھانے والی خواتین کے لیے کھلے عام توہین آمیز الفاظ استعمال کئے ہیں۔ معاشرے کی ایسی معزز خواتین کے لیے “طوائفیں” اور “معاشرے کی غلاظت” جیسے اہانت آمیز الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جو تعلیمی اور فنی ماہرین ہیں۔ اور جنہوں نے چند دن پہلے ہی شاہ عبداللہ کی طرف سے جاری کیے گئے ایک شاہی فرمان کے تحت سعودی شوریٰ کونسل کا حلف اُٹھایا ہے۔ سعودی مذہبی عالم نے اپنا یہ بیان ٹویٹر پر جاری کیا ہے اور اسکا یہ ٹوئیٹ بہت تیزی سے سوشل میڈیا نیٹ ورک کے ذریعے پھیلتا چلا گیا، اور اس کا اپنا ہیش ٹیگ بھی بن گیا جو ٹوئیٹ کئے گئے کسی خاص موضوع کے لیے بنایا جاتا ہے۔ تاہم سعودی عرب میں ٹویٹر کے صارفین کی بڑی تعداد نے شوریٰ کونسل کی خواتین اراکین پر کیے گئے اس حملے کی شدید مذمّت کی ہے۔

واضح رہے ایک شاہی حکم کے تحت گذشتہ ماہ کونسل کے تحریری قانون کے اندر دو آرٹیکلز میں ترمیم کی گئی اور شوری کونسل میں خواتین کے لیے 20 فیصد کوٹہ مختص کیا گیا اور شاہ عبداللہ نے 30 خواتین کو منتخب کرکے مشاورتی اسمبلی میں شامل کیا تھا۔ اس کونسل کے اراکین نے پچھلے ہفتے ہی حلف اُٹھایا تھا۔ اس سے قبل سعودی عرب کے بادشاہ عبداللہ کے حالیہ احکامات، جن میں خواتین کی شورٰی کونسل میں شمولیت اور خواتین کی سماجی ترقی کے لیے پہلی مرتبہ ایسا اقدام اُٹھایا ہے، یورپی یونین نے انکا خیر مقدم کیا تھا۔ 

العربیہ نیوز چینل کی ایک رپورٹ کے مطابق وزارت امور اوقاف کے رکن احمد العابد القدر نے شوریٰ کونسل میں خواتین کی شمولیت اختیار کرنے اور ان کے کردار کے حوالے سے اپنے اعتراضات کا اظہار اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ سے یوں کیا۔ “یہ لوگ سوچتے ہیں کہ وہ ان “طوائفوں” کو اقتدار میں شریک کرنے کیلئے قانونی جواز فراہم کرکے مفتی کا مذاق اُڑا سکتے ہیں، میں ایک فریبی نہیں ہوں اور یہ فریبی مجھے بے وقوف نہیں بنا سکتے۔ جب ٹویٹر استعمال کرنے والے افراد نے اپنے غم و غصہ کا اظہار کیا، تو عابد القدر نے کہا “ہم نے سنا اور پڑھا ہے کہ بہت سے لوگ خدا کی شان میں گستاخی کرتے ہیں، اسی طرح رسول پاک صلی اللہ علیہ (وآلہ) وسلم کی تضحیک کرتے ہیں، اور جو لوگ خواتین اراکین کا دفاع کر رہے ہیں، کیا انہوں نے اس وقت اپنے غصے کا اظہار کیا تھا۔” اسی طرح کنگ سعود یونیورسٹی میں سابق ٹیچنگ اسسٹنٹ ڈاکٹر صالح الصغیر نے خواتین اراکین کی شوریٰ کونسل میں شمولیت کی مذمت کرتے ہوئے اپنے ٹویٹر میسج میں لکھا کہ “یہ گستاخ (خواتین) میک اپ کرکے شوریٰ کونسل میں معاشرے کی کیا نمائندگی کریں گی؟ او میرے خدا، نہیں! یہ سب معاشرے کی نجاست ہیں۔”

خیال رہے کہ الصغیر کی جانب سے یہ پہلا متنازعہ بیان نہیں ہے، وہ مذہبی عالم نہیں بلکہ ایک میڈیکل ڈاکٹر ہیں، لیکن اپنے انتہا پسند مذہبی خیالات کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ گذشتہ سال انہوں نے میڈیکل کالجوں میں طلبا اور طالبات کے درمیان مکمل طور پر علیحدہ علیحدہ تدریس پر زور دیا تھا۔ انہوں نے ایک مذہبی پروگرام میں شرکت کے دوران کہا تھا کہ “آخر خواتین کو ملازمتیں کیوں دی جائیں، جبکہ ہم مرد ملازمت کرکے اپنے خاندان کی کفالت کر رہے ہیں۔” صغیر کے ٹویٹر پر کئی ہزار فالوورز ہیں اور وہ خواتین کی ملازمت، خواتین کی ڈرائیونگ اور خواتین کی مرد مریضوں کی دیکھ بھال کے مخالفت کے حوالے سے مشہور ہیں۔

اس کے علاوہ ابھی کچھ دن پہلے، ایک اور متنازعہ سعودی مذہبی عالم نے خواتین کی شوریٰ کونسل میں شمولیت کے فیصلے کی شدید مذمّت کی تھی۔ انہوں نے یہ بیان شوریٰ کونسل کی دو اراکین کے مقامی سعودی روزنامے میں شائع ہونے والے ایک انٹرویو کے جواب میں دیا تھا، جس میں ان دونوں نے انکشاف کیا تھا کہ وہ سعودی عرب میں خواتین کی ڈرائیونگ پر پابندی کو زیر بحث لانا چاہتی ہیں۔ شیخ النصیر العمر نے ٹویٹر پر اپنے پیغام میں سعودی معاشرے میں “سیکولر اقدار” کے غلبے کی مذمت کرتے ہوئے لکھا تھا کہ “بگاڑ سے کسی چیز کی شروعات ہونگی تو نتیجہ بھی بگاڑ کی صورت میں ہی نکلے گا۔” شوریٰ کونسل میں خواتین کی شمولیت کے "مخالف بیان" پر بہت سے لوگوں نے سخت ردّعمل کا اظہار کیا۔ مثلاً ماہا الشہری جو مصنفہ بھی ہیں، نے ٹویٹر پر لکھا۔“ اس طرح کے بیانات ایک طرح سے اخلاقی جرم ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ وہ اسکے لئے کچھ قوانین وضع کرے تاکہ ایسے لوگوں کی تربیت ہو سکے اور ان کو اخلاق کی تمیز ہو سکے۔” ٹویٹر کے ایک اور صارف عبدالرحمان الصوبیہی نے ٹوئیٹ کیا۔ “ہر طرح کی بیماریوں کا علاج دواؤں سے کیا جا سکتا ہے، سوائے حماقت کے۔” 

ایک صارف نے ٹویٹر پر لکھا۔ “یہ جہالت ہے، اس لیے کہ اس کا تعلق اسلام سے نہیں۔” آگے وہ لکھتا ہے “مسئلہ یہ ہے کہ یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں خدا کی طرف سے استثنیٰ حاصل ہے۔” مفتی صاحبان کو اپنی طرف سے ایک مشورہ دیتے ہوئے ٹویٹر کے ایک اور صارف نے اپنے جذبات کا اظہار یوں کیا۔ "خدا را دین اور مذہب کے نام پر اسلام کو جتنا بدنام کیا بس کافی ہو گیا۔ دنیا بھر میں اسلام کے نام پر مسلمانوں کا جتنا خون تم لوگوں نے بہایا، کافی ہے۔ ایک اور نے یوں ٹویٹ کیا۔ "آج کل جگہ جگہ کلمہ طیبہ پڑھنے والوں حتی کہ نمازیوں کو مساجد کے اندر خاک و خون میں غلطان کیا جا رہا ہے۔ کتنی مساجد اور مقامات مقدسہ کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کیا گیا، اور اسلام کو پوری دنیا کے لئے ایک خوفناک دین کے نام سے متعارف کرایا گیا، یہ تمہی جیسے مولویوں کی سیاہ کاری ہے۔ ایک صارف نے درجہ بالا جذبات کے حق میں کچھ یوں لکھا ہے۔ "ان مولیوں کے خیال  میں اگر مسلمانوں کا قتل روا بلکہ واجب ہے، تو کیا رسول اللہ (ص) سے یہ لوگ کچھ زیادہ دین کے پاسبان یا عالم ہیں۔ رسول اللہ (ص) نے اپنے دور میں میدان جنگ کے علاوہ کبھی کسی غیر مسلم کا خون نہیں بہایا ہے۔ جو خود رسول اللہ کے منکر ہوا کرتے تھے، حتی کہ بعض صحابہ کرام کو جنگ کے دوران مخالفین کے ایسے فرد کے قتل سے منع کیا، جس نے میدان چھوڑ کر فرار کا راستہ اختیار کیا۔ 

وزارت امور اوقاف کے رکن احمد العابد القدر کے اس چیلنج اور طعنے کے جواب میں، کہ بہت سے لوگ خدا کی شان میں گستاخی کرتے اور رسول پاک صلی اللہ علیہ (وآلہ) وسلم کی تضحیک کرتے ہیں، چنانچہ جو لوگ خواتین اراکین کا دفاع کر رہے ہیں، کیا انہوں نے اس وقت اپنے غصے کا اظہار کیا تھا۔” ایک صارف نے یوں اظہار خیال کیا۔
ہم جہاں تھے لیکن تم سے بہتر مقام پر تھے، مگر تم بتاو کہ تم کہاں تھے، تم نے صرف سنا اور پڑھا ہے مگر دیکھا نہیں کہ کروڑوں مسلمانوں نے کس طرح اپنے جذبات کا اظہار کیا، تم مولویوں کا تو اس حکومت میں آدھا حصہ ہے، بتاؤ تم نے کیا کیا؟ تم تو خود توہین کرنے والوں کے سرپرستوں اور آقاؤں کے گود میں بیٹھے ہو۔ ہمارا احتجاج کیا اثر کر سکتا ہے، تم دو کہ تم نے اس میں اپنی طرف سے کتنا حصہ ڈالا ہے۔ اور اگر اس بندہ ناچیز رپورٹر کو صحیح طریقے سے عربی آتی تو میں بھی ٹویٹر کے توسط سے اس مولوی صاحب سے یہ کہتا کہ تمہاری غیرت فلسطین میں اسرائیلیوں کے ہاتھوں اور کشمیر میں بھارت کے ہاتھوں قتل ہونے والے مسلمانوں کے حق میں کیوں نہیں جاگتی، اور اس بڑھ کر یمن، مصر، لیبیا، عراق، شام، تیونس اور ہمارے وطن عزیز پاکستان میں مسلمانوں بلکہ تم وہابیوں کے ہاتھوں، مسلمانوں کے قتل عام پر تمہاری غیرت کیوں نہیں جاگتی؟ تم کشمیر اور فلسطین میں قاتل اور جارح کفار کے خلاف فتویٰ کیوں نہیں دیتے، جبکہ تمہارے فتویٰ کا صرف ایک ہی محور ہے کہ جو بھی مسلمان تمہارے عقائد سے اختلاف رکھے تو اسے واجب القتل قرار دیکر اسکا خون مباح قرار دیتے ہو۔ 
خبر کا کوڈ : 244911
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

En zehni bimaar saudi muftiyon aur en Bimaar muftiyon k neem tandrust pairokaron ko kam az kam itna pata hona chahiye tha,keh Hazrat Aka Mohammad Mustafa(S.A.W.W) ki Hayat e Tayaba me Masjid me Mardon k Sath Aurtain bhi Namaz parhti thein,bahd me janab hazrat umar ne masjid me Aurton ka Dakhila band krwa diya aur Masjid ki Islam me kiya ehmiyat hai is ka bhi en ko pata hona chahiye , lekan Afsos k sath en zehni bimaar wahabiyon ka deen o mazhab sirf en ki bimaar zehniyat aur kamzaor ilm aur ghalt mahni jaat k gird ghoumta hai, aur bas yahin tk mehdood hai. Jis ne is dunya me fasaad barpa kr rakha hai. Yeh loag Mufsid fil Arz hain.
saudiwn ka khob nqsha khencha ha.ap k sit sy aik arz hy ki saudion k ley b as me jaga rako jis tarah on k sites me hmaray ley kafi gnjaish di jati hy, sheoon ko baghir kisi waja k bad nam krty han, ap haqiqat b nahi lek sakty. saudion he k hathon pr milat ka khon hy. ap aisi chezoon pr wqt srf krty ho. tho kuch wqt saudi wahabi un ky ley b rako
سلام اچھا ہے کافی
ہماری پیشکش