0
Thursday 14 Aug 2014 23:37

مزاحمت فلسطین کیخلاف سازشیں

مزاحمت فلسطین کیخلاف سازشیں
تحریر: صابر کربلائی

عالمی سامراجی قوتوں بالخصوص امریکہ اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ فلسطینی مزاحمت حماس سمیت جہاد اسلامی فلسطین اور القسام جیسی مجاہد تنظیموں کو اسلحہ سے پاک کر دیا جائے اور کئی ایک ایسے مواقع سامنے آئے ہیں جس میں ان عالمی دہشت گردوں نے مزاحمت فلسطین کو غیر مسلح کرنے کی گھناؤنی کوششیں کی ہیں، بات صرف امریکہ اور اسرائیل تک محدود ہو تو ٹھیک ہے سمجھ میں آتی ہے کہ وہ مزاحمت فلسطین کو غیر مسلح کرنا چاہتے ہیں لیکن بات اب آگے بڑھ کر ہمارے کچھ عرب حکمرانوں اور عرب مسلم ممالک تک جا پہنچی ہے کہ جو امریکی اور اسرائیلی ایجنڈے کے مطابق اس پروگرام پر سرگرم عمل ہیں۔

حال ہی میں کسی نے ایک فلسطینی عہدیدار سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کا سعودی عرب کا دورہ اور شاہ عبداللہ سے ہونے والی خصوصی ملاقات منسوخ ہو گئی ہے؟ اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ’’Its the Cold‘‘۔سوال کرنے والے نے اصرار کرتے ہوئے پوچھا کہ ’’یہ ایک سیاسی سرد مہری ہو سکتی ہے؟‘‘۔ یہ ایک سادہ سی بات ہے کہ سعودی بادشاہ سے ہونے والی کوئی ملاقات منسوخ کی جائے تو یہ یقیناً کسی خاص وجہ کے تحت ہو سکتا ہے ورنہ ایسا نہیں کیا جا سکتا، تاہم یہاں اگر ہم یہ کہہ دیں کہ شاہ عبداللہ جو کہ مختلف قسم کی بیماریوں میں بھی مبتلا ہیں ان کی بیماریوں کی وجہ بتا کر بھی اس ملاقات کو منسوخ کیا جانا ایک وجہ بتائی جا سکتی ہے۔ بہرحال وجہ تو کچھ بھی ہو سکتی ہے اور نتیجہ یہ ہے کہ محمود عباس کا سعودی عرب کا دورہ اور شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز سے ہونے والی ملاقات منسوخ ہو چکی ہے۔

ریاض انتظامیہ یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ حماس جو کہ اخوان المسلمون کی ایک شاخ ہے کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات قائم نہ رکھے جائیں اور تمام دروازے حماس کے لئے بند کر دئیے جائیں اور تحریک حماس کے ساتھ براہ راست کسی قسم کا کوئی چینل استعمال میں نہ رکھا جائے، یہی وجہ ہے کہ ریاض نے فلسطین میں مختلف پارٹیوں اور جماعتوں کے ساتھ تعلقات کو جدید کیمپ میں کہ جس میں سعودی عرب، ترکی، قطر اور مصر شامل ہے، خیر یہ اتنا برا بھی نہیں ہے۔ بات صرف یہاں تک نہیں ہے بلکہ ریاض ایک طرف ہے تو انقرہ اور دوحہ ایک طرف، اسی طرح مصر الگ سائیڈ پر ہے۔ انقرہ کے پہلے ہی حماس اور مصر کے ساتھ اچھے تعلقات نہیں ہیں، اور حماس کو ریاض اور مصر میں بھی خوش آمدید نہیں کہا گیا۔ یہاں پر مقصد صرف اس جدید کیمپ کہ جس میں چاروں ممالک سعودی عرب، قطر، مصر اور ترکی موجود ہیں کا مزاحمت کے ساتھ تعلق بیان کرنا نہیں ہے، اسی طرح دوسری طرف ریاض اور تہران کے مابین بھی کسی قسم کی مفاہمت کا کوئی موقع نہیں ہے بالخصوص ایسے حالات میں کہ جب داعش (ISIS, ISIL) نامی دہشتگرد گروہ کہ جسے عرب ممالک کی جانب سے مالی اور مسلح معاونت فراہم کی گئی ہے اور اب وہ شام کے بعد عراق کے شمالی علاقوں میں دہشت گردی انجام دے رہا ہے، ایسے حالات میں تہران اور ریاض کے مابین حالات مفاہمت کے نہیں ہو سکتے۔

معلومات کے مطابق سعودی عرب نے محمود عباس کو ایک عجیب و غریب پیش کش کی تھی جس پر اس ملاقات میں کہ جو منسوخ ہو گئی بات چیت کیا جانا تھا، اس پیشکش میں کہا گیا تھا کہ سعودی عرب اور عرب امارات کے ممالک کی افواج کو غزہ کراسن پر موجود رفح بارڈر پر تعینات کیا جائے تاکہ یہ افواج جہاد اسلامی فلسطین اور اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے خلاف کریک ڈاؤن میں اپنا کردار ادا کریں اور اس طرح حماس اور جہاد اسلامی کو غیر مسلح کیا جائے۔ یہاں یہ بات زیر غور رہنی چاہئیے کہ فلسطینی پہلے ہی محمود عباس کو مشورہ دے چکے ہیں کہ وہ ایک معاہدے کے تحت اپنے سپاہیوں کو رفح کراسنگ پر تعینات کریں تاکہ غزہ کے لوگوں کو ضروریات زندگی کی اشیاء کی فراہمی میں کسی حد تک مدد گار بنایا جائے۔

محمود عباس کو اس بات کا احساس ہو گیا کہ ریاض کی جانب سے پیش کش کو قبول کرنا محمود عباس کے لئے سیاسی خودکشی کے مترادف ہو گی اور ایسے حالات میں کہ جب غزہ پر غاصب صیہونی جارحیت کا آغاز ہو چکا ہے اور اسلامی مزاحمت حماس غاصب اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کرنے کے بجائے مزاحمت کا فیصلہ کر چکی ہو، تاہم اس پیش کش کو قبول کرنے کا واضح مطلب یہ ہے کہ محمود عباس کے خلاف فلسطین میں سول نافرمانی کا آغاز اور ساتھ ساتھ الفتح اور حماس کے مابین ہونے والے مفاہمتی عمل کو سبوتاژ کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محمود عباس کو ریاض کی اس پیشکش کی معلومات ملنے کے بعد انہوں نے امان سے جدہ جانے کا فیصلہ ترک کر دیا اور سعودی عرب کا دورہ منسوخ کرتے ہوئے شاہ عبداللہ سے ہونے والی ملاقات کو بھی منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا اور امان سے واپس رملہ پہنچ گئے۔

محمود عباس کہتے ہیں کہ غاصب اسرائیل کی غزہ پر جاری دہشت گردی اور مظالم کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ فلسطینی مفاہمتی عمل کو ختم کرنا ہے، یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ عباس نے اسرائیل جارحیت کے مقابلے میں فلسطینیوں کے اتحاد پر زور دیتے ہوئے مسئلہ فلسطین کو اندرونی مسائل میں الجھائے جانے اور سیاسیی کشمکش کا شکار بنانے کے بجائے اس مسئلے کی خاطر متحد جدوجہد کرنے پر زور دیا ہے۔ یہاں ایک اور حیران کن بات سامنے آئی ہے کہ 23 جولائی 2014ء کو قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد نے سعودی عرب کا دورہ کیا اور شاہ عبداللہ سے ملاقات کی، یہ ملاقات دو گھنٹے سے زیادہ نہ چلی کیونکہ شیخ تمیم بن حماد شاہ عبداللہ کے ساتھ جاری ملاقات کو نامکمل ہی چھوڑ کر واپس چلے گئے، دراصل قطری امیر امید کے ساتھ تھے کہ شاید مستقبل میں ریاض کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کئے جائیں گے تاہم ملاقات کے دوران ان کو اندازہ ہوا کہ ان کے بھائی ریاض میں بالکل تبدیل نہیں ہوئی ہیں۔اس ملاقات میں قطری امیر نے محسوس کیا کہ سعودی بادشاہ یہ سمجھتے ہیں کہ گلف میں بسنے والی دیگر عرب ریاستیں کچھ بھی نہیں ہیں بلکہ سب کچھ ریاض ہے اور امارات کی ریاستیں صرف ایک سیٹلائٹ کا کام انجام دینے کے لئے ہیں۔

حماس اور جہاد اسلامی فلسطین کو امریکی اور اسرائیلی ایماء پر مصر کے امن منصوبے کے تحت غیر مسلح کرنے کی منصوبہ بندی کی معلومات بھی قطری امیر کو شاہ عبداللہ سے ہونے والی ملاقات میں موصول ہوئیں، جس سے ان پر ظاہر ہوا کہ ریاض اور عرب امارات مل کر مصری امن منصوبے کی آڑ میں اسلامی مزاحمتی تحریک حماس اور جہاد اسلامی کے خلاف میدان تیار کر رہے ہیں۔سعودی حکمران کوشش کر رہے تھے کہ اس منصوبے کو محمود عباس پر لازم کر یں تاہم محمود عباس نے اس پیش کش اور منصوبے کی پہلے ہی خبر مل جانے کی وجہ سے دورہ منسوخ کر دیا۔ ریاض کا یہ منصوبہ بالکل صائب ارکات کے اس اعلان سے متصادم ہے کہ جس میں 12جولائی کو انہوں نے خالد مشعل اور محمود عباس کی ملاقات کے بعد اعلان کیا تھا جس کا نام اسرائیلی جارحیت کا خاتمہ رکھا گیا تھا اور مطالبہ کیا گیا تھا کہ غزہ کا صیہونی اسرائیلی محاصرہ ختم کیا جائے۔

دوسری جانب تمام تر حالات اور واقعات کے بعد بھی ریاض نے مصر کی جانب سے پیش کئے جانے والے نام نہاد امن منصوبے کی مکمل حمایت کی ہے، حتٰی کہ مصر کی جانب سے پیش کردہ امن فارمولے میں غزہ پر جاری صیہونی اسرائیلی جارحیت تک کی مذمت بھی نہیں کی گئی ہے۔ تاہم خفیہ اور واضح دونوں ہی طریقوں سے مصر کا فارمولا امریکی اور غاصب اسرائیلی خواہشات کی ترجمانی کرتا ہے کہ جس میں فلسطینیوں کے حقوق تک کی بات نہیں کی گئی ہے۔ اس فارمولے کا خفیہ اور پس پردہ مقصد بھی وہی ہے جو غاصب اسرائیل کا ہے کہ فلسطینی مزاحمت کو تباہ کر دیا جائے اور
اس کے لئے اسرائیل نے غزہ پر بڑے پیمانے پر جنگ مسلط کر رکھی ہے۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مصر کا فارمولا ہو یا پھر ریاض اور امارات کی جانب سے کی جانے والی پیش کش ہو، ان تمام کے اندر ہمیں امریکی اور اسرائیلی نقطہ نظر صاف صاف دکھائی دے رہا ہے۔ ایک سابق اسرائیلی ملٹری عہدیدار اور موجودہ سیاسی و ملٹری معاملات کے ادارے کے اہم ترین سرکردہ رہنما Amos Gilad نے کہا ہے کہ ’’ہمارا مصر، سعودی عرب اور امارات ممالک کے ساتھ سکیورٹی تعاون بےنظیر ہے، اور یہ بہترین موقع ہے کہ جس میں عرب اور امارات عرب ریاستوں کے ساتھ سکیورٹی تعاون بڑھایا جا سکتا ہے‘‘۔ کیا یہ اندھرے میں چھلانگ لگانے والی بات ہے؟ نہیں ایسا تو نہیں لگتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور معلومات ہے جو اس سے بھی کہیں بڑھ کر ہے۔

ایک اور کالم جو David Hearst نے لکھا ہے اور اس کا عنوان ہے Attack on Gaza by Saudi Royal، اور یہ کالم 20جولائی کو ’’ورلڈ پوسٹ ‘‘ میں شائع کیا گیا ہے۔ اس کالم میں صیہونی اسرائیلی انتظامیہ کے سابق وزیر جنگ Shaul Mofaz اور اس کے کامیاب ساتھی David Ayalon کی اس گفتگو پر تبصرہ کیا گیا ہے جس میں انہوں نے خفیہ طور پر عربوں کے ساتھ اسرائیل کے سکیورٹی تعاون اور حماس سمیت جہاد اسلامی فلسطین کو غیر مسلح کرنے کی منصوبہ بندی کے متعلق گفتگو کی ہے جسے David Hearst نے کالم میں لکھا ہے۔

20جولائی کو ہی Mofaz نے ایک حیرت انگیز بیان جاری کیا ہے جس میں سعودی عرب اور عرب امارات کی جانب سے حماس اور جہاد اسلامی سمیت دیگر فلسطین مزاحمتی گروہوں کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ Mofaz نے اسرائیلی ٹی وی چینل TV-10 کو دئیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ اسرائیل کبھی بھی غزہ میں مزاحمتی گروہوں کو ختم نہیں کر سکتا یا پھر یہ کہ اسرائیل پورے غزہ پر قابض ہو جائے اور ان مسلح گروہوں کا خاتمہ جنگ کے ساتھ کرے۔ Mofaz نے مزید کہا کہ یا پھر یہ کہ سعودی عرب اور عرب امارات اسرائیل کے اس منصوبے کی تکمیل میں اپنا کردار ادا کریں تو یہ ممکن ہو سکتا ہے۔

دوسری جانب 14 جولائی کو اسرائیلی روزنامے یدعوت احرنوت نے سرکاری ذرائع سے خبر کا حوالہ ظاہر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اسرائیل نے اقوا م متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک منصوبہ پیش کرنے کا ارادہ کیا ہے جس میں غزہ کو دوبارہ بنانے اور غزہ کے لوگوں کو واپس آباد کرنے کے لئے 50بلین ڈالر کی رقم مختص کی گئی ہے تاہم اس کے بدلے میں انہیں حماس سمیت جہاد اسلامی اور دیگر مزاحمتی گروہوں کا خاتمہ چاہئیے۔اخبار نے سرکاری ذرائع کو ظاہر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اسرائیل کو حماس اور جہاد اسلامی کو ختم کرنے اور ان کو غیر مسلح کرنے کے لئے عالمی سطح پر ضمانت دار چاہئیے ہیں اور اسرائیل کاکہنا ہے کہ وہ ممالک جنہوں نے شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے معاملے پر اسرائیلی موقف کی حمایت کی تھی وہ اگر ضمانت دیں تو اسرائیل کے لئے زیادہ بہتر ہے۔

اب سعودی عرب اور عرب امارات مصر کی جانب سے پیش کئے جانے والے فارمولے کو ریجنل سطح پر اور بین الاقوامی سطح پر حمایت کر رہے ہیں جبکہ ایسے وقت میں کہ عالمی برادری غزہ میں جنگ بندی کی باتوں پر کان ہی دھرنے کو تیار نہیں ہے، اور کود امریکی ریاست کے وزیر جان کیری بھی پہلے کی نسبت اب جنگ بندی کے معاملے میں کافی سست دکھائی دے رہے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ اسلامی مزاحمتی تحریک حماس اور جہاد اسلامی سمیت فلسطین مزاحمت کے گروہ بالکل اس بات پر راضی نہیں ہے کہ وہ غیر مسلح ہو جائیں اور پورے فلسطین پر غاصب اسرائیل قابض ہو جائے، مزاحمتی گروہوں نے واضح طور پر مطالبات پیش کر دئیے ہیں کہ جب تک غزہ کا محاصرہ ختم نہیں کیا جاتا مزاحمت کا سلسلہ جاری رہے گا کیونکہ یک طرفہ جنگ غاصب اسرائیل نے مسلط کی ہے اور فلسطینی مزاحمت کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنا دفاع کریں۔

آج حماس، اور جہاد اسلامی کے مسلح ونگ پہلے سے زیادہ طاقتور ہیں اور اس بات کا اندازہ غاصب اسرائیلی دشمن کو بھی ہو چکاہے،اور یہی وجہ ہے کہ مزاحمتی گروہوں نے غاصب اسرائیلی دشمن کے ساتھ میدان میں فیصلہ کن جنگ کا فیصلہ کر لیا ہے،حماس اور مزاحمتی گروہوں کے قریبی ذرائع نے محمود عباس کی بھی تعریف کی ہے کہ جنہوں نے فلسطینیوں کے اتحاد اور اسلامی مزاحمت کے دفاع کے لئے نہ صرف پہلی مرتبہ اپنے راکٹوں کو اسرائیل کی طرف داغا ہے بلکہ عرب ریاستوں کی حماس اور جہاد اسلامی کے خلاف جاری سازشوں کا پردہ چاک کرنے پر بھی خراج تحسین پیش کیا ہے۔ عرب ممالک کو چاہیئے کہ اگر فلسطینی مزاحمت کی حمایت نہیں کر سکتے یا مدد نہیں کر سکتے تو کم سے کم مزاحمت فلسطین کے خلاف اپنی ناپاک سازشوں کا سلسلہ بند کردیں کیونکہ مزاحمت فلسطین نے کبھی بھی ان عربوں سے نہ تو پیسہ مانگا ہے، نہ ہی اسلحہ مانگا ہے اور نہ ہی ان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی فوجوں کو فلسطین کی مدد کے لئے بھیجیں تو اس لئے ان عربوں کو بھی چاہیئے کہ فلسطین اور مزاحمت فلسطین کے خلاف اپنی سازشوں کا سلسلہ بند کر دیں۔
خبر کا کوڈ : 404616
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش