3
0
Wednesday 26 Mar 2014 11:36

پاکستان میں ملت تشیع کی سب سے بڑی مشکل کسی منصوبہ بندی کا نہ ہونا ہے، ڈاکٹر علی مرتضٰی زیدی

پاکستان میں ملت تشیع کی سب سے بڑی مشکل کسی منصوبہ بندی کا نہ ہونا ہے، ڈاکٹر علی مرتضٰی زیدی
ڈاکٹر علی مرتضٰی زیدی کا بنیادی تعلق شہر قائد کراچی سے ہے، ایران کے مقدس شہر قم سے فارغ التحصیل ہیں۔ اپنے منفرد تجزیئے، تبصرے اور دلائل کے ساتھ اپنی بات کو منوانا اِن کا خاصہ ہے۔ دنیا بھر میں سید علی مرتضٰی زیدی کی مجالس اور حالات حاضرہ پر تبصروں کو خاصی پذیرائی نصیب ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ اکثر و بیشتر مختلف ممالک میں قومی و بین الاقومی حالات پر مختلف سیمینارز سے خطاب کرتے ہیں۔ ان کے تجزیئے حقائق کے قریب تر ہوتے ہیں اور چیزوں کا حقیقت پسندانہ انداز میں تجزیہ پیش کرتے ہیں، جنہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اسلام ٹائمز نے ان سے ایک انٹرویو کیا ہے، جس میں پاکستان اور خطے کی مجموعی صورتحال پر کچھ سوالات پوچھے گئے ہیں، یہ انٹرویو قارئین کے استفادے کیلئے پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: نواز حکومت میں بالخصوص ملت تشیع کیلئے کیا مسائل دیکھتے ہیں، دوسرا ریجن میں کیا تبدیلی دیکھ رہے ہیں۔؟

علی مرتضٰی زیدی: میرے خیال میں ملت تشیع کی سب سے بڑی مشکل کسی منصوبہ بندی کا نہ ہونا ہے۔ حکومت چاہے نواز شریف کی ہو یا کسی اور کی، جب ہم ملت تشیع کی بات کرتے ہیں تو پاکستان کے اندر ہماری ایک ذمہ داری ہے کہ ہم اسلام کی صحیح تصویر جو آئمہ اطہار علیہ السلام نے پیش کی ہے، اسے صحیح معنوں میں پیش کریں، ہمارے لئے یہ ایک چیلنج ہے جس سے نبردآما ہونے کیلئے ہمارے پاس لمبے عرصے کیلئے منصوبہ بندی اور اہداف متعین ہونا چاہئیں، تاکہ وہ راستہ طے ہوسکے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس قسم کے کام انجام نہیں ہو پا رہے، اس کی وجہ سے جو بھی رولنگ پارٹی ہوتی ہے وہ کہیں نہ کہیں اپنے مفادات کیلئے پلاننگ کر رہے ہوتے ہیں اور ہم اس کا حصہ بننے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ میں نواز شریف کی حکومت کو اس سے ہٹ کر نہیں دیکھتا، سب حکومتیں ایسا ہی کرتی ہیں، البتہ نواز شریف کی سعودی عرب اور بحرین کے ساتھ خاص توجہ ہے، جو حالیہ دنوں میں ہم نے دیکھا ہے، اس کی وجہ سے ہم شائد یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے لئے سنگین چیلنجز ہونگے، اس میں شائد شیعیت کا تحفظ بھی مسئلہ نظر آئے، لیکن مجھے لگتا ہے کہ اگر ہم بڑے مسئلے یعنی منصوبہ بندی والے مسئلے کو حل کرلیں تو یہ ہمارے لئے کوئی ایشو نہیں ہوگا۔

اسلام ٹائمز: دو ہزار چودہ میں افغانستان سے نیٹو فورسز نکل رہی ہیں، اسکے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔؟

علی مرتضٰی زیدی: ہم لوگ کافی عرصہ تک افغانستان کو اپنا ڈومین ہی سمجھتے رہے ہیں، تزویراتی (اسٹریٹیجک) منصوبہ بندی کرنے والوں نے ہمیشہ افغانستان کو اپنا ڈومین سمجھے رکھا ہے، اس کی وجہ سے انہوں نے کافی مداخلت بھی کی، وہ پالیسی جو اسٹریٹیجک ڈیبپتھ (Strategic Depth) کے نام سے مشہور تھی، اس میں کافی ملوث رہے۔ اب کیونکہ امریکہ اور نیٹو فورسز جانے والی ہیں اور اب جو مشکل آنے والی ہے وہ یہ کہ جن پارٹیز کے ساتھ آپ کے تعلقات اچھے نہیں تھے، اب وہ رولنگ پارٹی ہیں اور جن کے ساتھ (طالبان وغیرہ) آپ نے اپنے تعلقات اچھے بنائے تھے وہ بھی آپ کے کنٹرول سے باہر نکلتے نظر آرہے ہیں۔ افغانستان میں نیٹو فورسز نکلنے کے بعد ایک چیلنج ہوگا، جسے یہ لوگ دو تین طریقوں سے دیکھ پائیں گے، ایک مثال کے طور پر یہ کہ جتنی بھی ملیٹنسی (شدت پسندی) ہے، اسے دوبارہ افغانستان بھیجا جائے، تاکہ اگلے ملک سے مذہبی انتہاء پسندی سے جان چھوڑا لی جائے۔ میرے خیال میں یہ کچھ بھی کریں گے، بہرحال کچھ نہ کچھ قیاس رہے گا، یا یہ کہ خدانخوستہ پاکستانی حکومت افغانستان کی ملیٹنسی کو اور بڑھانے کا سبب بن رہی ہو، یہ کریں یا کوئی اور کرے، ہم افغانستان کے ہمسائے ہونے کے ناطے اس کے اثرات لینگے۔

اسلام ٹائمز: حالیہ مذاکرات کا نتیجہ کیا دیکھتے ہیں، اور کیا اس عمل سے امن قائم ہوسکے گا۔؟

علی مرتضٰی زیدی: بظاہر مجھے جو نظر آتا ہے وہ یہ کہ آپ جب ایک پارٹی کو لمبی مدت تک شدت پسندی میں مشغول رکھتے ہیں اور آپ یہ سب کچھ خاص اہداف کے تحت کر رہے تھے تو اس کے بعد جب آپ ان کو کہیں کہ اسلحہ چھوڑ دیں اور پرامن شہری بن جائیں تو یہ کافی مشکل ثابت ہوتا ہے۔ اگر مذاکرات سے یہ نیتجہ نکلتا کہ طالبان کے اندر سے شدت پسندی اور انتہاء پسندی ختم ہوجاتی پھر تو بہت ہی اچھا تھا، لیکن بدقسمتی سے وہ ذہنیت ختم نہیں ہو رہی بلکہ ہم انہی کو کہیں نہ کہیں اکاموڈیٹ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور وہ بھی انکی تمام تر شدت پسندیوں کے ساتھ قبول کر رہے ہیں۔ میرے خیال میں کامیابی نصیب نہیں ہو پائے گی۔

اسلام ٹائمز: سعودی ولی عہد اور بحرین کے بادشاہ کا دورہ پاکستان، کیا کہیں خارجہ پالیسی میں شفٹ نظر آرہا ہے۔؟

علی مرتضٰی زیدی: پالیسی میں تبدیلی اس حد تک آئی ہے کہ زرداری صاحب کے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں تھے، تو نواز شریف کے آنے سے وہ تعلقات اچھے ہوگئے ہیں، یہ چیز تو سمجھ آرہی ہے۔ اگر تو خارجہ پالیسی میں میجر شفٹ کی بات کر رہے ہیں کہ پاکستان پہلے کسی ایک ٹریک پر تھا اور اب کسی اور ٹریک پر چل پڑا ہے تو میرے اپنے خیال میں ایسا نہیں ہوا۔ میرا سوال یہ ہے کہ جب پیپلزپارٹی کی حکومت آئی تھی اور زرداری صاحب بھی تھے تو جو ملک کے اندر اسٹریٹیجک لیول پر بہت ساری چیزوں کو ڈیل کر رہے تھے، کیا ان کے ہاتھ سے تمام چیزیں نکل گئی تھیں اور وہ پیپلزپارٹی کے ہاتھ میں آگئی تھی،؟ عموماً ایسا نہیں ہوتا، ملک کے جو بہت بڑے اسٹریٹیجک فیصلے ہوتے ہیں، وہ ادارے نہیں لے رہے ہوتے جو بار بار تبدیل ہو رہے ہوتے ہیں، وہ فیصلے کہیں اور طے پا رہے ہوتے ہیں۔ میرا اپنا خیال یہ ہے کہ یہ کوئی بڑا شفٹ نہیں ہے، ہاں افراد کے تبدیل ہونے سے کچھ چیزیں تبدیل ہوتی ہیں اور وہ تبدیل ہوئی ہیں۔ سعودی عرب کے پاکستان میں کچھ لوگوں سے تعلقات اچھے ہیں اور وہ اقتدار میں آگئے ہیں، اس بات پر سعودی عرب خوش ہے۔ بحرین کے کچھ مفادات تھے، وہ حاصل ہوئے ہیں اور یہ مفادات پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں حاصل ہوئے ہیں، اس وقت تو نواز شریف کی حکومت نہیں تھی تو اس کا مطلب صاف ہے کہ ان کے پیچھے فیصلے کچھ اور لوگ کر رہے ہوتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: تو میرا آپ سے یہ سوال ہوگا کہ وہ لوگ کون ہیں، جو یہ فیصلے کرتے ہیں۔؟

علی مرتضٰی زیدی: کوئی بھی ہوسکتا ہے، ہمارے ہاں مشہور ہے کہ اس طرح کے اسٹریٹیجک فیصلے آرمی کیا کرتی ہے، تو میرے خیال میں وہی لوگ ہونگے، یا پھر کوئی اور بھی ہوسکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: تو پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ جو سرد مہری کا شکار ہوا ہے، اس کے پیچھے بھی یہی عوامل کارفرما ہیں یا کچھ اور بھی ہے۔؟

علی مرتضٰی زیدی: یہ عوامل بھی ہوسکتے ہیں، میرے اپنے خیال میں جب وہ سرمہری کا شکار نہیں بھی ہو رہی تھی، تب بھی کوئی گرمی نہیں تھی، تب وہ اسٹریٹیجک کارڈ کے طور پر استعمال ہو رہا تھا۔ مثال کے طور پر جب پاکستان امریکہ کو کچھ چیزیں بتانا چاہ رہا ہو کہ ہم آپ سے تعلقات خراب بھی کرسکتے ہیں، تب یہ پائپ لائن منصوبے پر زیادہ توجہ دینے لگتے ہیں۔ اسی طرح چائنہ کے دورے پر نکل جاتے ہیں۔ اس طرح کی چیزیں جو پاکستان کے ڈیپلومیٹس یا اسٹریٹیجسٹ ہیں، وہ اپنے طور پر کر رہے ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں پاکستان کو یہ بات سوچنی پڑے گی کہ اس کے لمبی مدت کے مفادات کن چیزوں میں ہیں اور یہ جو چھوٹی قسم کی چیزوں کے اندر مفادات ہیں، اس سے ملک کے مستقبل کو نہیں سنبھالا جاسکتا۔

اسلام ٹائمز: مشرق وسطٰی بالخصوص شام کو کہاں دیکھتے ہیں اور ایران کے جنیوا ڈائیلاگ کو کہاں دیکھ رہے ہیں۔؟
علی مرتضٰی زیدی: شام کا ایشو جیسے کہ ہم سب جانتے ہیں کہ سعودی عرب اس سے دستبردار نہیں ہو رہا، یہ تو سمجھ آرہا ہے کہ مذہبی انتہا پسندی اور شدت پسندی سے اپنے آپ کو پیچھے ہٹانا چاہ رہے ہیں، جیسے ہم نے دیکھا کہ بندر بن سلطان کو شام کی فائل سے علیحدہ کر دیا گیا ہے، لیکن وہ شام سے الگ ہو رہے ہوں، ایسا کچھ نظر نہیں آ رہا۔ میرا اپنا خیال یہ ہے کہ وہ شام کے اندر لبرل فورس کو مزید طاقتور کرنے کی کوشش کریں گے، اس میں پاکستان بھی اپنا رول ادا کرنے کی کوشش کریگا، تو شام بہرحال فی الحال اس مشکل میں رہے گا، البتہ جو کچھ انہوں نے القاعدہ کے ذریعہ سے کرنے کی کوشش کی ہے، اس کا شام کی حکومت کو بہت فائدہ ہوا ہے، اس سے سیریا حکومت کی طاقت میں مزید اضافہ ہوا ہے، جیسا آپ نے ابھی حال ہی میں دیکھا ہے کہ لبنان کے بارڈر پر جو قبضے کئے ہوئے تھے، وہ سب واپس لے لیے گئے ہیں تو شام کی حکومت اس وقت کافی مضبوط پوزیشن میں ہے، البتہ شام کا ایشو ختم نہیں ہوا، یہ مختلف لیول پر مختلف انداز میں چلتا رہے گا۔

اسلام ٹائمز: ایران کے امریکہ کے ساتھ جنیوا میں ہونیوالے مذاکرات، کیا اس سے ایران کو کوئی ریلیف ملے گا۔؟

علی مرتضٰی زیدی: جہاں تک ریلیف کی بات ہے تو وہ انہیں ابھی ملنا شروع ہوا ہے، اس حوالے سے میرا اپنا خیال ہے کہ دونوں کو بریدنگ اسپیس کی ضرورت ہے، امریکہ ایران کیساتھ دشمنی کے اندر اتنا آگے گیا ہے کہ امریکہ کو کچھ نصیب نہیں ہوا، امریکہ کی معیشت شائد اس دشمنی کو مزید برداشت نہیں کرسکے گی۔ ایران کو بھی بریدنگ اسپیس کی ضرورت ہے، ایران نے گذشتہ تیس سالوں میں بہت ٹف ٹائم اٹھایا ہے، میرے خیال میں دونوں پلیرز اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ اب دونوں کو بریدنگ سپیس ملنی چاہیے۔ جارہانہ رویہ ترک کرنا ہوگا، تب جاکر مستقل بنیادوں پر تعلقات میں بہتری آسکتی ہے۔

اسلام ٹائمز: تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ایران جارحانہ انداز اپناتا رہا ہے، دوسرا یہ کہ ایران کے بارے میں ایک رائے قائم کی جاتی ہے کہ ایران کا موقف سخت گیر رہا ہے۔؟

علی مرتضٰی زیدی: نہیں میں نے جارحانہ کا لفظ امریکہ کیلئے کہا ہے۔ جہاں تک سخت گیر موقف کی بات ہے تو آپ کی تشریح پر منحصر ہے، اگر کوئی اپنے اصولوں کی وجہ سے سخت ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ بہت سخت آدمی ہے۔
خبر کا کوڈ : 365881
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
Whenever i read any interview on islam times, its more focusing on international politics , which has nothing to do with the development, planning needed for the shia muslims in pakistan in general and for rest of the humans in Pakistan. Well i found no intrest in such folks, when youths are dying in Karachi and Pakistan and A.M.Z is giving me angles on international politics. For God sake open eyes and _set a colabartive agenda to save demotivated youths and their lives. Stay out of the box of this SUC and MWM politics and write to unite nation on a single plateform. Can write much on it but do not find courage to say more words.

Dishearted,
Raza
آغا صاحب امریکہ کے ساتھ ساتھ ایران کو بھی پلیرز کی صف میں کھڑا کر رہے ہیں، ماشاءاللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کیا واقعاً مرتضٰی زیدی صاحب کی نظر میں ایران کا سانس گھٹ رہا ہے کہ جو اسے بریدنگ اسپیس کی ضرورت ہے؟؟؟ کیا آغا زیدی پر یہ واضح نہیں ہے کہ آج ایران کا جو قابل فخر مقام ہے وہ اسی ٹف ٹائم کے باعث ہے،،، کہ ایران نے مصیبتوں کو مواقعوں میں تبدیل کرکے اپنا مقام دنیا سے منوایا ہے، ناصرف سانس لے رہا ہے بلکہ دنیا بھر کے مستعضعفین کی سانسوں اور حوصلوں کو بھی بحال رکھا ہوا ہے ۔۔۔۔۔۔ اور کیا واقعی آغا مرتضٰی زیدی، ایران اور امریکہ کے درمیان مستقل بنیادوں پر تعلقات میں بہتری چاہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ تو آغا یہ بھی بتا دیں کہ حضرت امام خمینی رہ کے اس قول کا کیا ہوگا کہ جس میں انہوں نے فرمایا کہ جس دن امریکہ ہم سے راضی ہو جائے وہ دن یوم سوگ ہے۔۔۔۔۔ ؟؟؟؟ عجب ہے کہ آغا زیدی بھی اس قسم کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ واضح طور پر بتا چکے ہیں کہ پاکستانی تشیع کے مسائل کا حل ولی فقیہ (رہبر معظم آیت اللہ سید علی الحسینی خامنہ ای) کی پیروی میں پنہا ہے،،،، اور رہبر معظم پاکستانیوں کے مسائل کا حل بتا چکے ہیں اور وہ ہے "وحدت"
ہماری پیشکش