0
Sunday 13 Apr 2014 09:58

بھارت میں وزارت عظمیٰ کے تینوں امیدواروں کا پس منظر

بھارت میں وزارت عظمیٰ کے تینوں امیدواروں کا پس منظر
   

  انڈیا میں 16ویں لوک سبھا (ایوان زیریں) کے انتخاب کے لیے 9 مراحل میں انتخابات کا آغاز ہو چکا ہے۔ 7 اپریل 2014ء سے 12مئی 2014ء تک ہونے والے یہ الیکشن ملکی تاریخ کے سب سے طویل عام انتخابات ہیں جن میں لوک سبھا کے 543 ارکان منتخب کیے جائیں گے۔ نتیجے کا اعلان 16مئی کو ہوگا۔ 543 منتخب ارکان کے ایوان میں کسی بھی جماعت یا اتحاد کو حکومت بنانے کے لیے کم از کم 272 ارکان کی ضرورت ہوگی۔ بھارتی تاریخ میں لڑے جانے والے سب سے بڑے انتخابات میں وزارت عظمیٰ کے امیدوار کے طور پر کانگریس نے راہول گاندھی، بی جے پی نے نریندر مودی اور عام آدمی پارٹی نے اروند کجریوال کو سیاست کے اکھاڑے میں اتارا ہے، اب یہ بھارتی عوام پر ہے کہ وہ کس کے حق میں فیصلہ دیتے ہیں۔ 

راہول گاندھی: 
 بھارت کے موجودہ انتخابات میں راہول گاندھی انڈین نیشنل کانگریس کی سیاست کے محور و مرکز ہیں۔ وہ بھارت کی سابق وزیراعظم اندرا گاندھی کے بیٹے سابق وزیراعظم راجیو گاندھی کے ہاں 19 جون 1970ء کو دہلی میں پیدا ہوئے، بھارت کے اس اہم سیاسی خاندان میں پیدا ہونا ہی گویا ان کی تقدیر پر سیاست کی مہر ثبت کر گیا۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم ماڈرن اسکول اور دہرادون کے دون اسکول سے حاصل کی۔ اس کے بعد سینٹ اسٹیفن کالج میں داخلہ لیا وہاں سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک چلے گئے اور انٹرنیشنل ریلیشنز اور ڈیویلپمنٹ اسٹڈیز میں رولنز اور کیمبرج یونیورسٹیز سے ڈگریاں حاصل کیں۔ اس کے بعد انھوں نے لندن میں ایک بزنس فرم مانیٹر گروپ کے ساتھ کام شروع کر دیا۔ اس سارے عرصے کے دوران سکیورٹی مسائل کی وجہ سے ان کی مصروفیات کو خفیہ رکھا گیا، کیوں کہ اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کے قتل کے بعد پورے خاندان کو شدید سکیورٹی خدشات لاحق ہو گئے تھے۔

تاہم جب راہول گاندھی وطن واپس لوٹے تو عوام کی توقعات کے مطابق سیاست میں حصہ لینے لگے اور 2004ء میں اترپردیش امیٹھی میں اپنی آبائی سیاسی سیٹ سے لوک سبھا کا الیکشن لڑا اور کامیابی حاصل کی اور اب بھی وہیں سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ 24دسمبر 2007ء کو انھیں انڈین نیشنل کانگریس کا جنرل سیکرٹری منتخب کر لیا گیا۔ اسی طرح انھیں انڈین یوتھ کانگریس اور نیشنل اسٹوڈنٹس یونین آف انڈیا کی چیئرمین شپ بھی سونپ دی گئی۔

وہ عوام میں پارٹی کو پاپولر بنانے کے لیے بھرپور طریقے سے متحرک رہے۔ پارٹی کے سینیر ممبر نے ان کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے انھیں پارٹی میں مزید آگے لے جانے کی سفارش کی یوں انھیں انڈین نیشنل کانگریس کا نائب صدر منتخب کر لیا گیا، جو ان کی والدہ، پارٹی کی صدر سونیا گاندھی کے بعد سب سے اہم عہدہ ہے۔ کانگریس نے سیاسی مہمات کے دوران ان کی عوام میں مقبولیت اور سیاسی فہم کو دیکھتے ہوئے انھیں موجودہ الیکشن میں پارٹی کی طرف سے وزارت عظمیٰ کے امیدوار کے طور پر پیش کیا ہے۔ 
 
نریندر مودی: 
نریندر مودی 1950ء میں مہسانا (گجرات) کے علاقے واڈنگر میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے سیاسیات میں ماسٹر ڈگری حاصل کی۔ بچپن ہی سے ہی جھکاؤ ہندو تنظیم آر ایس ایس کی جانب تھا جس پر دہشت گردی کے الزامات بھی ہیں۔ گجرات میں آر ایس ایس کی جڑیں کافی گہری تھیں۔ مودی 17 سال کی عمر میں احمدآباد پہنچے اور آر ایس ایس کے رکن بن گئے۔ سیاست میں فعال ہونے سے پہلے مودی برسوں تک آر ایس ایس کے پرچارک رہے۔ 80ء کی دہائی میں مودی بی جے پی کی گجرات شاخ میں شامل ہوئے، 1988ء میں گجرات شاخ کے جنرل سیکرٹری بنائے گئے۔
 
1995ء میں پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اور پانچ ریاستوں کے انتخابی انچارج بنائے گئے۔ 1998ء میں جنرل سیکرٹری (برائے تنظیمی امور) بنے۔ اس عہدے پر اکتوبر 2001ء تک رہے۔ پھر ان کی قسمت کا ستارہ چمکا اور 2001ء میں کیشو بھائی پٹیل کو وزیراعلیٰ کے عہدے سے ہٹانے کے بعد انھیں ریاست گجرات کی وزارت اعلیٰ دے دی گئی۔

نریندر مودی کے وزیراعلیٰ بننے کے تقریباً پانچ ماہ بعد ہی گودھرا ریل حادثہ ہوا جس میں کئی ہندو کارسیوک اپنی جان ہار گئے۔ اس کے فوراً بعد فروری 2002ء میں گجرات میں مسلمانوں کے خلاف فسادات بھڑک اٹھے۔ ان فسادات میں حکومت کے مطابق 1000 سے زیادہ اور برطانوی ہائی کمیشن کی ایک آزاد کمیٹی کے مطابق تقریباً 2000 افراد جاں بحق ہوئے جن میں زیادہ تر مسلمان تھے۔ اس پر مودی کو اس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کی ناراضی کا سامنا بھی کرنا پڑا، تاہم نائب وزیراعظم ایڈوانی نے انھیں بچا لیا۔ 

مودی نے کبھی فسادات کے بارے میں کوئی افسوس ظاہر کیا نہ ہی کسی طرح کی معافی مانگی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ فسادات کے چند مہینوں کے بعد ہی جب دسمبر 2002ء میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں مودی نے کام یابی حاصل کی تھی تو انھیں سب سے زیادہ فائدہ انہی علاقوں میں ہوا تھا جہاں سب سے زیادہ فسادات ہوئے تھے۔ اس کے بعد 2007ء کے اسمبلی انتخابات میں انہوں نے گجرات کی ترقی کو ایشو بنایا اور کامیابی حاصل کی۔ پھر 2012ء میں بھی نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی گجرات اسمبلی کے انتخابات میں فاتح رہی۔

گجرات فسادات کو مغربی ذرائع ابلاغ نے بھی1947ء کے بعد سب سے خوفناک فسادات قرار دیا تھا۔ ریاست کے وزیراعلیٰ نریندر مودی کے بارے میں واضح شواہد سامنے آئے کہ یہ آگ و خون کا کھیل انہی کے اشارے پر کھیلا گیا۔ بعدازاں جب مودی انتظامیہ کے خلاف گواہان عدالتوں میں پہنچے تو مودی انتظامیہ ایک بار پھر حرکت میں آئی اور چن چن کر ہر ایسے فرد کو قتل کر دیا گیا جس کی وجہ سے مودی سرکار پھنس سکتی تھی۔ زیادہ تر پولیس مقابلوں میں مار ڈالے گئے۔ 

اب کے بار اسی نریندر مودی کو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے امیدوار برائے وزیراعظم نامزد کر دیا ہے۔ اگرچہ بی جے پی ان دنوں نریندرمودی کے بارے میں تاثر درست کرنے کی کوشش کر رہی ہے مگر ان کا سابقہ ریکارڈ انھیں انتہا پسند ہندو ظاہر کرتا ہے۔ نریندر مودی نے ’’گجرات میں ترقی‘‘ کا پروپیگنڈا کر کے بھارت کے بڑے بڑے تاجروں اور صنعت کاروں کو اپنے ساتھ ملا لیا یوں انھیں بی جے پی کی طرف سے وزارت عظمیٰ کا امیدوار بننے میں کافی مدد ملی۔ مودی اپنے آپ کو ایک ایسے ہندو ہیرو کے طور پر پیش کر رہے ہیں جو ملک کے اندر اور باہر دشمنوں سے نبردآزما ہے۔

اروند کجریوال: 
بھارت میں عام آدمی پارٹی ان دنوں خاصی مقبول ہو رہی ہے حالانکہ تھوڑا ہی عرصہ پہلے لوگ اس پارٹی کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے تھے، مگر بھارت کے ریاستی انتخابات میں عام آدمی پارٹی کی کام یابی نے سب کو چونکا دیا اور اب اس پارٹی کی طرف سے اروند کجریوال وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہیں۔ عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کجریوال 16 اگست 1968ء کو بھارت کے صوبے ہریانہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا بچپن اور لڑکپن شمالی بھارت کے علاقوں سونی پت، غازی آباد اور حصار میں گزرا۔ 

انھوں نے میکنیکل انجینئرنگ میں ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد سرکاری ملازمت اختیار کرلی۔ اروند نے بھارتی انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتے ہوئے ہر ممکن کوشش کی کہ عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کی جائیں۔ انھیں اس سلسلے میں اپنی اہلیہ سیتا دیوی کا بھی بھرپور ساتھ حاصل رہا۔

دسمبر1999ء میں سرکاری ملازمت کے دوران ہی اروند کجریوال نے ’’پری ورتن‘‘ کے نام سے تحریک شروع کی جس کا مقصد مختلف معاملات میں عوام کو آگاہی فراہم کرنا اور انکم ٹیکس، بجلی اور راشن کے معاملات میں موجود بدعنوانیوں کے راز فاش کرنا تھا۔ اس کے علاوہ اطلاعات تک رسائی کے قانون کو عوام تک پہنچانے کے لیے بھی اروند نے کافی کوششیں کیں اور انا ہزارے کے ساتھ مل کر ’’جن لوک پال بل‘‘ متعارف کرانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ 

تاہم عوام کی خدمت اور سرکاری ملازمت سے بندھے رہنا بہت مشکل تھا۔ اس لیے انھوں نے 2012ء میں سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے کر ’’عام آدمی پارٹی‘‘ کی بنیاد رکھی جس کا باقاعدہ افتتاح 26 نومبر 2012ء کو کیا گیا۔ اروند ان 5 بھارتی سیاست دانوں میں شامل ہیں جو سوشل میڈیا فیس بک اور ٹوئٹر پر سب سے زیادہ موضوع بحث رہتے ہیں۔

اروند کی خوش قسمتی ہے کہ سوشل میڈیا پر انھیں موضوع بحث بنانے والے ان کے بارے میں مثبت خیالات ظاہر کرتے ہیں۔ سرکاری اور سیاسی مصروفیات کے ساتھ ساتھ انھوں نے ’’سوراج‘‘ کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی۔ انھیں زندگی کے مختلف ادوار میں بہت سے ایوارڈز اور اعزازات سے بھی نوازا گیا۔
 
2004ء میں کجریوال کو اشوکا فیلو (Ashoka Fellow) ایوارڈ ملا۔ حکومتی امور میں شفافیت لانے کے لیے 2005ء میں اروند کو ’’ستیندرا کے ڈوبے میموریل ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا۔ پرعزم اور متاثرکن قیادت کے اعتراف میں 2006ء میں ’’ریمون میگ سے سے‘‘ ایوارڈ دیا گیا، اسی سال عوامی خدمات کے اعتراف کے طور پر ’’انڈین آف دی ایئر‘‘ کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ 2009ء میں کھڑگ پور انسٹی ٹیوٹ میں انھیں ایک اور ایوارڈ دیا گیا، 2010ء میں انھیں اکنامک ٹائمز ایوارڈ ملا جب کہ 2011ء میں انا ہزارے کے ساتھ انھیں انڈین آف دی ایئر کا اعزاز حاصل ہوا۔
خبر کا کوڈ : 372333
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش