0
Monday 15 Sep 2014 09:20

آفات و سیلاب، دھرنے اور ایک قوم بننے کا خواب!

آفات و سیلاب، دھرنے اور ایک قوم بننے کا خواب!
تحریر: ارشاد حسین ناصر

ہمارا پیارا پاکستان اس وقت کئی بحرانوں اور مسائل کا شکار نظر آرہا ہے، ایک طرف لانگ مارچز اور پھر دھرنوں کے نتیجہ میں سیاسی افق پر بحرانی کیفیت نے ملک کو جام کر رکھا ہے، دوسری طرف سیلاب کی تباہ کاریاں، لاکھوں لوگوں کی بربادی اور تباہی، فصلوں کی تباہی، انسانی جانوں کا ضیاع، مال مویشی اور گھروں میں پڑے قیمتی ترین سامان کا بہہ جانا کسی قیامت سے کم نہیں، ملک کا اتنا وسیع علاقہ یعنی آزاد کشمیر سے لیکر پنجاب کی آخری حد تک اور اب سندھ میں داخل ہوتے سیلابی ریلوں کی تباہی کا حساب تو خیر بہت بعد کی بات ہے، شائد حکومت اس کا اندازہ لگا سکے مگر ہم جو دیکھ رہے ہیں اور میڈیا کے ذریعے سن رہے ہیں وہ قیامت کی خبر دیتی ہیں، کتنے گھر اجڑ گئے، کیسے کیسے اجڑے اور حکمران اپنی موج مستیوں، کرپشن اور لوٹ مار میں مصروف آخر یہ کب تبدیلی آئے گی ۔۔۔یا خدا! ان مظلوموں کی اب سن لے، ان بےکسوں کی تکلیفوں کو اب ختم کردے، نااہل حکمران اس پاکستانی قوم کا ہی مقدر کیوں؟ یہ آفات کیا کم ہیں کہ ستاسٹھ سال سے یہ حکمران ہم پر مسلط ہیں اور ہمیں لوٹ رہے ہیں، ہمیں برباد کر رہے ہیں ہمارے پیارے وطن کو بے خانماں و برباد کر رہے ہیں پھر یہ تباہ کن زلزلے، یہ سیلاب کی تباہ کاریاں ۔۔ اے خدایا اس قوم کو مسرت و خوشی کا کوئی لمحہ نصیب کر دے۔

ایک ماہ سے جاری پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد کے سامنے پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک و اتحادیوں کے تاریخی دھرنوں نے جہاں سیاسی ماحول میں گرمی پیدا کرنے کیساتھ ساتھ بحرانی کیفیت سے دوچار کیا ہوا ہے وہاں اقتصادی صورتحال کے بگاڑ کا سبب بھی بنے ہوئے ہیں۔ اقتصادی ماہرین اور حکومت اس حوالے سے کئی ارب روپے کے ملکی نقصان کے دعوے کرتے نظر آتے ہیں، اس بات میں کوئی شک بھی نہیں کہ آپ مارکیٹ میں جائیں تو تاجر اس کی گواہی دینگے کہ کاروباری مندی کا سایہ اس بار عید الفطر کے بعد سے مسلسل چھایا ہوا ہے، اسلام آباد جو ملک کا دارالحکومت ہے میں اہم ترین جگہ پردھرنوں کے باعث مملکت و حکومت کئی مسائل سے دوچار ہے، یہاں کے باسی اور سرکاری ملازمین کو بہرحال بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، دراصل حکومت کی نااہلی اور غلط حکمت عملی کے باعث ہی یہ دھرنے اس قدر طویل ہوئے، اگر حکومت شروع دن سے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا مطالبہ تسلیم کر لیتی جو انہوں نے چار انتخابی حلقوں میں تحقیقات کروانے سے متعلق کیا تھا تو عوام کو مطمئن کیا جا سکتا تھا، ان کے من پسند چار انتخابی حلقوں میں تحقیقات سے دھاندلی کا پتہ چل جانے سے انہیں مطمئن نہ کرنے کے باعث شکوک و شبہات کا دروازہ کھلا اور وقت گذرنے کیساتھ ساتھ کئی نئے انکشافات بھی سامنے آتے گئے جو عمران خان کے موقف کی تقویت کا باعث بنے۔

اب صورتحال سب کے سامنے ہے کہ ہر روز ایک نیا انکشاف سامنے آ رہا ہے جس سے عوام و خواص اس نتیجہ پر پہنچ گئے ہیں کہ الیکشن 2013ء میں بدترین دھاندلی ہوئی تھی، جس کا مقصد نواز لیگ کو کرسی اقتدار تک پہنچانا تھا، بدقسمتی سے اس دھاندلی کی کہانی اعلیٰ عدلیہ کے بغیر نامکمل تھی جس کیلئے ایسے تقدس مآب ہستیوں کو چنا گیا جو عدلیہ کے ماتھے کا جھومر بنے دکھائی دیتی تھیں، جن کیلئے عوام نے بےحد قربانیاں دی تھیں۔ اس صورتحال میں ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ موجودہ حالات میں سب سے زیادہ اگر کسی محکمہ کا وقار ختم ہوا ہے تو وہ عدلیہ ہے، عدلیہ نے جو عزت چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی تحریک سے کمائی تھی آج اس میں ایک سو اسی درجے کا فرق آ چکا ہے۔ اگر عدلیہ کا وقار اور اعتماد قائم ہوتا تو شائد یہ نوبت بھی نہ آتی، احتجاج کرنے والی پارٹیاں عدلیہ سے رجوع کرتیں اور اپنا کیس عدلیہ کے ذریعے لڑتیں، انہیں عدلیہ پر اعتماد ہوتا تو ان دھرنوں کی نوبت نہ آتی۔ جس طرح سابق دور میں چیف جسٹس نے معمولی باتوں پر ازخود نوٹس لئے اور اپنے تئیں عوامی مسائل کو حکومت کی بجائے عدلیہ کے ذریعے حل کرنے کی کوششیں کیں اور پانچ سالہ پاکستان پیپلز پارٹی کے وزراء کو عدالتوں میں گھسیٹتے نظر آئے مگر اس دور میں عدلیہ ایک کیس میں چودہ افراد کے قتل اور نوے افراد کو زخمی کرنے کے باوجود پرچہ درج نہیں کرا سکی اب پرچہ درج ہوا ہے تو کسی کو گرفتار کرنے کیلئے کوئی نوٹس سامنے نہیں لائی۔۔؟

دوسری طرف ہم دیکھیں تو پاکستان عوامی تحریک کے قائد علامہ طاہر القادری کے گھر اور مرکز پر پولیس کے وحشیانہ حملے اور چودہ بےگناہ لوگوں کی لاشیں گرانے اور نوے لوگوں کو گولیوں سے چھلنی کرنے کا واقعہ حکمرانوں کی فرعونیت و استبداد کا پتہ دیتا ہے، کسی بھی مہذب ملک میں ایسا نہیں ہو سکتا کہ پولیس کو استعمال کرتے ہوئے بےگناہوں کے خون سے ہولی کھیلنے کی اجازت دے دی جائے، ماڈل ٹاؤن میں پیش آنے والا واقعہ کا کسی بھی طرح سے کوئی جواز نہیں بنتا تھا۔ کوئی بھی انصاف پسند اور حالات سے باخبر انسان حکومت و پولیس کے گھڑے ہوئے جواز کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہو سکتا۔ وزیراعلٰی نے اس واقعہ کے بعد اٹھنے والی انگلیوں کو دیکھتے ہوئے ہی یہ کہا تھا کہ اگر پنجاب حکومت ملوث ہوئی تو وہ استعفٰی دے دینگے، انہی کے بنائے ہوئے جسٹس علی باقر نجفی پر مشتمل یک رکنی کمیشن نے تحقیقات کے بعد پنجاب حکومت کو ملوث قرار دے دیا ہے، اس کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ کو عوام اور میڈیا کے سامنے کھولنے سے حکومت اگرچہ کترا رہی ہے مگر اس کے مندرجات میڈیا میں آ چکے ہیں اس کے بعد پنجاب حکومت کا قائم رہنا سوالیہ نشان ہے جب کہ مقتولوں کی ایف آئی آر کٹوانے کیلئے بھی احتجاج کا جواز حکمرانوں نے ہی فراہم کیا ہے جو انصاف کی فراہمی میں مسلسل رکاوٹ بنتے آ رہے ہیں اور عوام کا اعتماد کھو رہے ہیں۔

یہ بات قابل غور ہے کہ پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان تحریک انصاف کے احتجاجی مارچ اور دھرنوں کو پس پردہ قوتوں کی سازش قرار دیا گیا اور مختلف سیاسی و سماجی حلقوں کی طرف سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ اس ساری تحریک و احتجاج کے پس پردہ اسٹیبلشمنٹ ہے جو مارشل لاء لگانے کی خواہش مند ہے، اس کے ساتھ یہ تاثر بھی آیا کہ اصل مقصد جنرل پرویز مشرف کو ملک سے باہر بھجوانے کیلئے پریشر ڈالنا ہے۔ اگر حکمران ایسا کرنے پر آمادہ ہو جاتے تو انہیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتے، اگر ان الزا مات کو درست مان لیا جائے اور اس کے پس پردہ اسٹیبلشمنٹ کی مارشل لاء لگانے کی سازش کو تسلیم کر لیا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ماڈل ٹاؤن میں چودہ بےگناہ مرد و زنان کو گولیوں سے بھون کر موت کی نیند سلانے کی سازش کس نے کی، گلو بٹوں کو کون لایا۔ ایف آئی آر کے اندراج میں رکاوٹ کون بنا، لاہور کو کنٹینرز کے ذریعے بند کرنے اور چار دن تک محصور رکھنے کا فیصلہ کس نے کیا؟ اسلام آباد میں دونوں احتجاجی جماعتوں نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ اتنے دن تک مسلسل پرامن احتجاج کر کے ایک ریکارڈ قائم کر دیا مگر یہ بات حکومت کے حق میں بہتر نہیں تھی، لہذٰا اس نے منظم سازش کے تحت پرامن احتجاج کو پرتشدد بنانے کی کوشش کی اور پی ٹی وی اور پارلیمنٹ پر حملہ کی ڈرامہ بازی کی، جس سے میڈیا میں اصل ایشو سے توجہ ہٹائی گئی۔

اب آپ خود دیکھیں کہ کس طرح تصویریں اخبارات میں شائع کر کے انعامات کا اعلان کر کے گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ مجلس وحدت مسلمین، پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے کئی کارکنان کو اسلام آباد، راولپنڈی اور ملک کے مختلف شہروں سے گرفتار کر کے استبدادی کلچر کا ثبوت دیا جا رہا ہے۔ ایک طرف مذاکرات کا طویل سلسلہ اور دوسری طرف مذاکراتی کمیٹیوں کے اراکین کی گرفتاریاں آخر حکمران مسائل کو حل کرنے کیلئے سنجیدہ کب ہوں گے۔ اصولی طور پر ان دھرنوں و احتجاج کو ختم کروانے کی ذمہ داری حکمرانوں کی ہی بنتی ہے ان کو کسی بھی شرط پر ختم کروا کے سیلاب کی تباہ کاریوں کا مقابلہ کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہونا چاہیئے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ حکمران فرعونیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوام پر ظلم و استبداد کر رہے ہیں ایسے حکمرانوں کو کیسے حق حکومت دیا جا سکتا ہے جو اپنے عوام سے ہی دشمنی کر رہے ہوں، جو کرپشن کے ریکارڈ قائم کر رہے ہوں، جنہیں اپنے خاندان کے علاوہ انیس کروڑ انسانوں میں سے کوئی اہل نظر نہ آتا ہو، جن کی اپنی دولت بیرون ممالک اور بزنس و سرمایہ کاری دوسرے ممالک میں ہو رہی ہو ان سے مملکت کیلئے کسی خیر کی توقع رکھنا عبث ہی ہو گا۔ دھرنوں کے مستقبل کے بارے تو کچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ جو قومیں مسلسل جدوجہد کرتی ہیں انہیں مقصد میں ضرور کامیابی حاصل ہوتی ہے اور اپنا حق حاصل کر کے ایک دن تبدیلی کی صبح ضرور دیکھتی ہیں، پاکستانی قوم جو اس وقت شدید ترین سیاسی و حکومتی بحران کے ساتھ ساتھ سیلابی آفت ناگہانی سے بھی دوچار ہے انہیں ہر ایک مسئلہ کے حوالے سے قیام پاکستان اور 2005ء کے بدترین زلزلے کے وقت دیکھنے کو ملا تھا۔
اسی جذبہ و احساس کی ضرورت ہے۔ مجھے یاد ہے زلزلہ کے وقت ہم سب ایک قوم بن گئے تھے ایک ہی جذبہ تھا،ایک ہی ہدف و منزل تھی اور ہمیں ایک دوسرے پر بےپناہ اعتماد تھا، ہم میں مصیبت و آفت کا مقابلہ کرنے اور بحالی کا جذبہ دیدنی تھا جس کی مثالیں دنیا میں دی گئی تھیں۔ ایسا اعتماد اور جذبہ جو ایک قوم ہونے کی نشاندہی کرتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 409756
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش