0
Friday 26 Sep 2014 20:54
امریکہ گلگت بلتستان کو اپنے لیے محاذ جنگ بنا رہا ہے

گلگت بلتستان کے طلباء کا سب سے بڑا مسئلہ معیار تعلیم اور تربیت کا فقدان ہے، زاہد مہدی

گلگت بلتستان کے طلباء کا سب سے بڑا مسئلہ معیار تعلیم اور تربیت کا فقدان ہے، زاہد مہدی
زاہد مہدی کا تعلق روندو ستک سے اور انکی رہائش حیدرآباد گنگوپی میں ہے۔ انہوں نے اپنی مذہبی سرگرمیوں کا آغاز امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان بلتستان ڈویژن میں بحیثیت ممبر کیا۔ حیدریہ یونٹ گنگوپی میں یونٹ صدر اور بعد میں ڈویژنل جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے دینی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ ان دنوں آپ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان بلتستان ڈویژن کے صدر ہیں اور قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی اسکردو کیمپس میں زیرتعلیم ہیں۔ اسلام ٹائمز نے انکے تنظیمی سال کے آخر میں ان سے ایک اہم انٹرویو کیا ہے جو اپنے محترم قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔

اسلام ٹائمز: بحیثیت میر کاروان ایک طلباء تنظیم میں آپ نے خدمات سرانجام دیں اور آپکا تنظیمی دور بھی اختتام پذیر ہے بتائیے گا کہ اس عرصے میں آپ کے لیے کس طرح کی مشکلات آئیں اور اپنے دور میں کونسے منفرد کاموں کو سرانجام دینے کی کوشش کی۔؟
زاہد مہدی: جی محترم! آپ کا بہت شکریہ کہ تنظیمی سال کے اختتام پر بھِی مجھ سے انٹرویو لیا۔ جیسا کہ آپ صحافی حضرات واقف ہیں کہ بلتستان میں طلباء تنظیموں میں آئی ایس او پاکستان کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اور آئی ایس او کی خدمات کسی سے کوئی ڈھکی چھپی نہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک طلباء تنظیم ہونے کے ناطے کچھ حدود ہوتی ہیں جنکے اندر رہ کر کام کرنا ہوتا ہے اور بعض اوقات انہی حدود کے اندر رہتے ہوئے تنظیم کا احیاء ممکن نہیں ہوتا تو ایسی صورت حال میں ہم نے وظیفے کو ملحوظ خاطر رکھ کر اپنی بساط سے بھی اونچی سرگرمیاں سرانجام دیں لیکن خدا کا شکر ہے کہ ہر محاذ پر تائید خداوندی رہی۔ جہاں تک آپ کے سوال کے دوسرے حصے کا تعلق ہے تو ظاہر ہے کہ مشکلات اور پریشانیاں حق کی دلیل ہیں اس بنا پر ہم کبھِی خوف کا شکار نہیں ہوئے۔ البتہ یہاں پر میں یہ بتاتا چلوں کہ بحیثیت طلباء تنظیم ہمارے احباب کے لیے یہ سب سے مشکل کام ہوتا ہے کہ اس سخت مقابلے کے دور میں کس طرح تنظیم اور تعلیم دونوں کو وقت دیں۔ ایک طرف دوستوں نے اپنے اپنے تعلیمی اداروں میں بھی سبقت لے جانی ہے اور دوسری طرف دیگر طلباء اور معاشرے کی اصلاح و تربیت کے لیے کوشش کرنی ہے یہ قدرے مشکل کام ہے لیکن آپ نے دیکھا کہ ہمارے ایسے بھی دوستوں کو جو یونٹ صدر کی حیثیت سے کام بھی سرانجام دیتے رہے اور گلگت بلتستان کی سطح پر میٹرک کے امتحانات میں دوسری پوزیشن لی۔ لہٰذا اس سال میری کوشش رہی کہ طلباء تنظیم کے ساتھ ساتھ تعلیم میں بھی غیرمعمولی خدمات سرانجام دوں۔ اس کام کے لیے ہم نے پری بورڈ امتحان کو پہلے سے زیادہ منظم طریقے سے کنڈک کیا، ورکشاپس کا انعقاد کیا اور طلباء کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے شب بیداریوں کا اہتمام بھی کیا گیا۔ اس سال مقابلوں، کانفرنسز اور شب بیداریوں کے علاوہ بحمدللہ سب سے اہم کام جو میں سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ پچاس کے قریب مستحق طلباء کے لیے سکالرشپ کا اجراء کیا گیا۔

اسلام ٹائمز: دینی طلباء تنظیم کے سربراہ کی حیثیت سے آپ یہ بتائے کہ بلتستان کو کس طرح کی مشکلات درپیش ہیں اور ہماری نئی نسل کو کس نگاہ سے دیکھتی ہے۔؟
زاہد مہدی: بلتستان میں عوام اور طلباء دونوں کو درپیش مشکلات میں سرفہرست معیاری تعلیم کا فقدان اور دینی ماحول کو خراب کرنے کے لیے کیے جانے والی سرمایہ کاریاں ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ تمام تعلیمی ادارے کرپشن کی آماجگاہ ہیں، کسی سے بھی معیار تعلیم سے اچھا رزلٹ کا توقع رکھنا عبث ہے جبکہ گورنمنٹ ان سرکاری تعلیمی اداروں پر سالانہ اربوں روپے خرچ کرتی ہے۔ اگر سرکاری تعلیمی ادارے تعلیم فراہم کرنے سے قاصر ہیں تو ایسے نام نہاد اداروں کو بند ہونا چاہیئے۔ اگر کوئی تعلییم مہیا ہے تو وہ نجی تعلیمی اداروں میں ہے لیکن وہاں پر ایک غریب باپ کا بچہ تعلیم حاصل کیسے کرے بھاری بھر کم فیس کے اخراجات کون برداشت کرے۔ یوں دیگر شہروں کی طرح بلتستان بھی مختلف طبقات میں تقسیم ہو رہا ہے۔ امیروں اور غریبوں کے لیے نظام تعلیم تک منفرد ہے ایسے معاشرے میں آپ کس طرح اچھائی کی توقع رکھ سکتے ہیں۔ اسی طرح بلتستان میں دینی ماحول کو خراب کرنے کے لیے غیر ملکی ایجنسیاں اور لیبر تنظیمیں بھی ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں۔ مغربی ایجنسیوں اور مشنری اداروں کے خزانوں کے منہ کھلے ہوئے ہیں اور یہاں پر بےدینی، فحاشی و عریانی کو عام کرنے کے لیے ہر طرف سے سازشوں کے تانے بانے بنے جاتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں مخلوط نظام تعلیم کو فروغ دیکر انڈین اور مغربی کلچر کو عام کرکے عریانی اور فحاشی کی محافل برپا کر کے نئی نسل کو تباہ و برباد کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ ایسے میں مذہبی تنظمیوں، شخصیات اور اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے ان  کے مقابلے کے لئے آمادہ ہو جائیں۔ ایک بات وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے ان بے راہ ریوں کے پیچھے امریکی تنظیمیں موجود ہیں اور ہمادی انتظامیہ کی غفلت کے علاوہ درونِ خانہ مفادات کے نتیجے میں کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے جبکہ آپ جانتے ہیں کہ جس آزادی کے ساتھ امریکی ادارے اس حساس ادارے میں کام کر رہے ہیں وہ خود ملکی سالمیت کے لیے خطرناک ہے لیکن حکومت کو اپنی بدعنوانیوں اور انتظامیہ کو انتظامی خود ساختہ بکھیڑوں سے فرصت کہاں۔
 
اسلام ٹائمز: بحیثیت طلباء تنظیم ان مسائل کو حل کرنے کے لیے آپکا کیا کردار رہا ہے۔؟

زاہد مہدی: طلباء تنظیم ہونے کے ناطے ہم نے اپنی بساط کے مطابق غریب اور مستحق طلباء میں سکالر شپ کا اہتمام کیا، سرکاری محکمہ تعلیم میں جاری بدعنوانیوں اور معیار تعلیم کے قتل عام کے خلاف آواز ہر فورم پر اٹھاتے رہے۔ باقی تنظیمی اسٹرکچر کو مضبوط کرنے کے علاوہ ان بے راہرویوں سے نئی نسل کو بچانے کے لیے دینی و فکری نشستوں کو عام کیا، تربیتی پروگرامز کا انعقاد کیا گیا۔ عوامی سطح پر جب تک شعور بیدار نہیں ہوتے کسی بھی مسئلے کو حل کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے چنانچہ بلتستان کی عوام میں شعور کو بلند کرنے اور نظریاتی تربیت کے لیے فکری مجالس و محافل کے انعقاد کی کوشش بھی ہوتی رہی۔ 

اسلام ٹائمز: آپ جانتے ہیں کہ یو ایس ایڈ کی چھتری تلے امریکہ گلگت بلتستان میں اربوں کے منصوبے پر کام کر رہا ہے اس کے پس پردہ کیا عزائم ہو سکتے ہیں۔؟
زاہد مہدی: امریکہ گلگت بلتستان کی حساسیت اور اسکی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر یہاں آیا ہوا ہے ورنہ انکو معلوم ہے کہ ہم انکے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ یہ لوگ جاسوسی کے مقاصد اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے آئے ہوئے ہیں، رہی بات اربوں ڈالر خرچ کرنے کی تو ظاہر ہے کہ یہاں پر اثر و نفوذ کے لیے منصوبے کا سہارا لینا انکی مجبوری ہے یہ میں بتاتا چلوں کہ خدمت انسانیت تو ان سے بعید ہے۔ ان کا یہاں آنا کئی مقاصد کی تکمیل کے لیے ہے۔ اول تو یہ علاقہ شیعہ نشین ہے اور نظریاتی طور پر امام خمینی (رہ) کے پیرو ہیں۔ دوئم اپنے اقتصادی رقیب چائنہ کو کمزور کرنے اور سوئم یہاں کے وسائل سے استفادہ حاصل کرنا چاہتا ہے، اور یاد رکھیں، وہ دن دور نہیں ہوگا کہ اس علاقہ میں بھی امن کے لیے لوگ ترسیں گے۔ یہ منطقہ بھی عراق و افغانستان کی مانند ہوگا جہاں خون کی قیمت پانی سے کم ہوگی کیونکہ جہاں امریکہ کا قدم پڑتا ہے وہاں بدامنی، فتنہ، فساد، قتل و غارت، دھماکے، فحاشی اور عریانی جنم لیتے ہیں۔ ہم سب کو مل کر ان کے عزائم کو ناکام بنانے کی ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز: آخر میں آپ سے سوال ہے کہ گلگت بلتستان کے مسقبل کے بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے۔؟

زاہد مہدی: گلگت بلتستان کے مستقبل کے حوالے سے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ یہاں کی ترقی و استحکام ملک کی ترقی و استحکام کے ساتھ مربوط ہے، ملک میں استحکام کے بغیر اس خطے میں بھی نہ تعلیمی ترقی ہو گی، نہ معاشی اور نہ تمدنی۔ میں کہوں تو اس وقت اس خطہ میں انتظامیہ اور حکومت کی نسبت سی آئی اے اور موساد کی سرگرمیاں یو ایس ایڈ کی شکل میں زیادہ ہیں اور مختلف فلاحی تنظیموں  اور عوام کے دلوں میں امریکہ جگہ پیدا کرنے میں مصروف ہے۔ اگر ان غیر ملکی اداروں پر نظر نہ رکھی جائے تو گلگت بلتستان کو پاکستان سے جدا کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگے گی۔ امریکہ چائنہ کی دشمنی کے لیے گلگت بلتستان کو محاذ جنگ بنانے جا رہا ہے اور جس تیزی کے ساتھ یہاں امریکی تنظیمیں کام رہی ہیں مجھے لگ رہا ہے کہ پاکستانی سکیورٹی اداروں نے گلگت بلتستان کو لیز پر دیا ہو اور امریکہ اسے اپنی کالونی بنانا چاہ رہا ہے۔ ان حالات میں مجھے تو گلگت بلتستان کا مستقبل انتہائی خطرناک دکھائی دے رہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 411799
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش