11
0
Tuesday 27 May 2014 13:45

مجلس وحدت مسلمین کیلئے چیلنج

گلگت بلتستان کی سیاست کے بدلتے رنگ اور ایم ڈبلیو ایم کی اثر پذیری کا مشاہداتی تجزیہ
مجلس وحدت مسلمین کیلئے چیلنج
تحریر: ارشاد حسین ناصر

پاکستان کے انتہائی حساس جغرافیائی خطے جنہیں پہلے شمالی علاقہ جات کہا جاتا تھا اور اب صوبہ گلگت بلتستان کہا جانے لگا ہے، کے مرکزی شہر اسکردو میں تاریخی مقام یادگار چوک میں ایک بڑا اسٹیج لگا ہوا ہے، جہاں سے مختلف قومی و ملی ترانوں سے لوگوں کے دلوں گرمایا جا رہا ہے، ایک جوش، ولولہ اور جذبہ ہے، ایک امید ہے جس کی کرنوں نے ماحول کو روشن کیا ہوا ہے، سڑسٹھ برس سے مسلسل ظلم و ستم، تعصب و تنگ نظری، سازشوں اور نااہلی و کرپشن کے شکار عوام جوق در جوق یادگار چوک کی طرف رواں دواں ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں پرچم وحدت ہے، یہ پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہراتے آگے بڑھ رہے ہیں، ان کے نعروں میں عزم و ہمت اور استقامت یقین کی حد تک صاف دکھائی دے رہی ہے، یہ یقین قیادت کی دیانت پر ہے، قیادت کی استقامت پر ہے اور قیادت کے اخلاص و سچائی پر ہے، یہ یقین مسلسل استحصال کے شکار حقوق سے محروم لوگوں کا یقین ہے۔ وقت جیسے جیسے آگے بڑھ رہا ہے ماحول میں ایک چاشنی اور جاذبیت دیکھی جا رہی ہے، ایسی جاذبیت جس سے ہر کوئی جلسہ گاہ کی طرف کھینچا چلا آ رہا ہے۔
 
آج 18 مئی ہے اور مجلس وحدت مسلمین بلتستان ڈویژن کے زیراہتمام عوامی بیداری، کرپشن، لوٹ مار، استحصال، حقوق سے محرومی کیخلاف اور ملکی سلامتی و استحکام کیلئے ایک عظیم الشان پروگرام بعنوان "بیداری ملت و استحکام پاکستان کانفرنس" منعقد کیا جا رہا ہے۔ دوپہر 1بجے کانفرنس شروع کرنے کا وقت دیا گیا ہے مگر قافلوں کی آمد سے ایسا لگ رہا ہے کہ جلسہ گاہ وقت سے پہلے ہی بھر جائے گی، ہر کوئی چاہتا ہے کہ اسے اپنے محبوب قائدین کی ایک جھلک قریب سے دیکھنے کو مل جائے اور وہ ان کے خطابات کو اچھی طرح سماعت کرسکے۔ لہٰذا عوام کا جم غفیر جو مختلف علاقوں سے قافلوں کی صورت میں آتا ہے، فرنٹ پر آنے کی کوشش کرتا ہے۔ علماء کرام کی قیادتوں میں آنے والے مختلف علاقوں کے قافلوں کو اسٹیج سے خوش آمدید کہا جا رہا ہے اور یہ تاکید کی جا رہی ہے کہ علماء کرام کو فرنٹ پر پہنچنے کیلئے راستہ دیں۔ ابھی وقت مقرر نہیں آیا مگر شگر، کھرمنگ، خپلو سے آنے والے قافلوں سے جلسہ گاہ بھر چکی ہے، تا حد نگاہ انسانوں کے سر ہی نظر آ رہے ہیں، اور پھر روندو سے آنے والے قافلے جس میں دیگر تمام علاقائی قافلے بھی شامل ہیں، جلسہ گا پہنچ گیا ہے۔ ہزاروں افراد پر مشتمل یہ ستم رسیدوں کا اجتماع ابھی سے ریکارڈ توڑ چکا ہے۔

کانفرنس کے آغاز سے پہلے ہی پنڈال لوگوں سے کھچا کھچ بھر چکا تو لوگوں کا جوش و خروش قابل دیدنی تھا، ان کے جذبات و احساسات قابل رشک تھے، ان کے شعار اور نعرے قابل غور تھے، ایسا لگ رہا تھا کہ استحصال کی چکی پسے عوام کو بڑے عرصہ کے بعد کوئی مسیحا مل گیا ہے، ایسا مسیحا جو ان کی مشکلات اور مسائل حل کرنے کی جدوجہد کو کامیابی کے کنارے تک پہنچا سکتا ہو، جو بیچ چوراہے میں چھوڑ کر جانے والا نہ ہو، جو انہیں دشمنوں کے نرغے سے باحفاظت نکال کر لے جائے۔ یہ مسیحا اب کی بار کسی شخصیت کی شکل میں سامنے نہیں آیا تھا بلکہ قومی پلیٹ فارم مجلس وحدت مسلمین کی شکل میں دیکھا جا رہا تھا، لوگوں کو مجلس وحدت مسلمین سے توقعات اور امیدیں تھیں، اسی وجہ سے یہاں کے عوام، بچوں، بوڑھوں، جوانوں الغرض زندگی کے تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے عام و خواص کو اپنے پیغام کی جاذبیت اور کشش میں مبتلا کر دیا تھا۔
 
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہاں کے عوام فطری طور پر علماء پسند ہیں اور علماء کے زیر سایہ ہی اپنے حقوق کے حصول کی جدوجہد میں کوشاں ہیں، مگر جو عقیدت اس دن ہم نے مجلس وحدت کی ملکی و مقامی قیادت سے دیکھی، وہ کسی بھی طور نظرانداز نہیں کی جا سکتی۔ بالخصوص جب پروگرام کاا ختتام ہوا تو عوام نے علامہ ناصر عباس جعفری کی قیادت بارے جن جذبات کا اظہار کیا اور عقیدتوں کے پھول برسائے وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ ان مناظر کو دیکھ کر بہت سے احباب کی آنکھیں شدت جذبات سے بھیگ گئیں، اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ یہاں کے سیکرٹری جنرل آغا سید علی رضوی کی قیادت کو بھی عوام نے کھلے دل سے نہ صرف تسلیم کیا ہے بلکہ بھرپور اعتماد کا اظہار کیا ہے، ایسا لگتا ہے کہ اس وقت یہاں کے عوام کی نبضیں آغا علی رضوی چلا رہے ہیں۔

جو قارئین گلگت بلتستان کی جغرافیائی اہمیت، سیاحت، سیاست، حکومت اور یہاں کے معاشرے و سوسائٹی کے مجموعی دینی و سماجی رجحان سے واقف ہیں اور یہاں کے حالات میں دلچسپی رکھتے ہیں، انہیں گذشتہ چند برسوں سے فرقہ وارانہ دہشت گردی اور بڑھتے ہوئے شدت پسندانہ رجحانات نے خاصا پریشان کر رکھا تھا۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، اس خطے کا تعارف یہاں کے بلند و بالا برف پوش پہاڑوں کی نسبت سے ہوتا تھا، یہاں کے خوبصورت سرسبز و شاداب باغوں اور بہاروں سے ہوتا تھا، یہاں کا تعارف گرم و سرد، صاف و شفاف چشموں اور پورے ملک کو سیراب کرنے والے دریاؤں کے پانیوں سے ہوتا تھا، یہاں کا تعارف آسمان کی بلندیوں کو چھوتے پہاڑوں میں دفن قیمتی ذخائر اور دفینوں کی نسبت سے ہوتا تھا، یہاں کا تعارف پر امن، معتدل، خوش مزاج، مہمان نواز، وفا شعار لوگوں کی نسبت سے ہوتا تھا، چند برسوں سے اس خطے اور یہاں کے عوام کو دہشت گردوں و شدت پسندوں کی طرف سے قاتلانہ حملوں اور خوں آشام وارداتوں کی نسبت سے ہی پہچانا جانے لگا۔

یہی وہ خطرات تھے جس کی طرف سے ہم اپنے کالموں، مضامین اور مختلف ذرائع سے ارباب اختیار کو متوجہ کر رہے تھے، اور چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ اس کا کچھ علاج کریں، مگر حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی اور اس ملک و خطے کیساتھ یہ ظلم روز بروز بڑھتا ہی رہا، جس کے باعث یہاں کی سیاحت کا جنازہ نکل گیا۔ لوگوں سے ان کا روزگار چھن گیا، عالمی سطح پر یہاں کے خوبصورت، دلفریب نظاروں کا لطف اٹھانے کیلئے آنے والوں نے اس خطے سے منہ موڑ لیا، سونے پہ سہاگہ جو ٹوٹا پھوٹا سیٹ اپ یہاں پر قائم کیا گیا اس میں بھی صاحبان اختیار (اگرچہ وہ بھی بے اختیار ہیں) ان کو بنایا گیا جنہیں اس خطے کی عوام کی برسوں کی محرومیاں ختم کرنے میں کوئی دلچسپی نہ تھی بلکہ وہ کرپشن کے دلدادہ اور لوٹ مار میں وسیع تجربات رکھتے تھے، ان کی کرپشن، لوٹ مار اور نااہلیت عوام کی محرومیوں میں اضافہ کا باعث بنے، گویا مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی والی صورتحال نے ماحول کو جکڑے رکھا ہے۔

یہ سب کچھ یہاں چل رہا ہے اور ہر ایک اس کو دیکھ رہا ہے، یہاں کے 20 لاکھ لوگ قیام پاکستان سے لیکر آج تک مسلسل استحصال اور سازشوں کا شکار چلے آ رہے ہیں، بنیادی آئینی حقوق سے لیکر تعلیم و ترقی اور بنیادی انسانی و معاشرتی سہولیات کے حوالے اس خطے کے عوام حکومتوں کی طرف سے شروع دن سے ہی نظر انداز کئے گئے ہیں، پاکستان کے ان مخلص محبان اور فطری مدافعان کی مایوسیوں کو اسٹیبلشمنٹ، حکمرانوں اور سیاست مداروں کی طرف سے امید میں بدلنے کی کوئی حکمت عملی سامنے نہیں آئی، بلکہ منظم سازش کے تحت یہاں کے باشرف، غیور اور دین سے گہرا لگاؤ رکھنے والے عوام کو باہمی جھگڑوں اور فرقہ وارانہ تعصبات میں الجھا کر اپنا الو سیدھا کیا گیا ہے، اگر کسی نے آئینی حقوق دینے کے دعوے کئے تو فقط نمائشی اقدامات تک محدود نظر آئے۔ سوال یہ ہے کہ اس خطے کے عوام کو کب تک اس ظلم کی چکی میں پیسا جائے گا،کب تک ان کے نام پر لوٹ مار اور کرپشن کا بازار گرم رہیگا۔ کب تک پاکستان کی محبت کے شکار ان وفا شعار عوام کو ان کے بنیادی آئینی حقوق سے محروم رکھا جاسکتا ہے، کب تک سازشیں رو بہ عمل رہیں گی۔۔؟

جن لوگوں کو عوام نے اپنے قیمتی ووٹ کے ذریعے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچایا، انہوں نے غریب عوام کو حاصل واحد گندم سبسڈی بھی ختم کرنے کا اعلان کیا تو عوام و خواص نے اس مسئلہ پر احتجاج کا فیصلہ کیا، مجلس وحدت مسلمین نے اس عوامی مسئلہ پر عوامی ایکشن کمیٹی تشکیل دی، جس میں تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں کو شریک کیا اور اسکردو یادگار چوک کو تحریر اسکوائر بنا دیا، یہ عوامی دھرنا مسلسل بارہ دن تک جاری رہا۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے مجلس وحدت مسلمین 18 مئی کو استحکام پاکستان کانفرنس منعقد کرنے کا اعلان کرچکی تھی، جس کی تیاریاں شروع کر دی گئی تھیں، مگر بارہ روزہ احتجاجی دھرنوں کی بدولت یہ کام رک گیا تھا، اسکردو یادگار چوک میں بارہ روزہ عوامی دھرنوں نے یہاں کی سماجی صورت حال یکسر بدل دی، وہ فرقہ واریت جس نے ملکی سیاحت کا جنازہ نکال کے رکھ دیا تھا، ان دھرنوں سے اس کا جنازہ نکل گیا۔

مجلس وحدت مسلمین کے وحدت آفرین اور وسیع ترین کردار کی بدولت گندم سبسڈی کا مسئلہ تو حل ہوا، فرقہ واریت اور دہشت گردی کی فضا بھی اتحاد و وحدت، اخوت اور باہمی اعتماد میں بدل گئی، چلاس اور دیامر سے خیر سگالی کے طور پر وفود سکردو میں آئے تو ان کا پرتپاک استقبال ہوا، ان کے اعزاز میں تقاریب منعقد کی گئیں اور انہیں پھولوں کے ہار پہنائے گئے، ایسے ہی یہاں کے علماء اور عمائدین کو چلاس، دیامر میں دعوت دی گئی، دس رکنی وفد جب ان علاقوں میں گیا جنہیں دشمن کا علاقہ کہا جاتا تھا، اور جہاں پر اس مکتب کا کافی نقصان ہوا تھا، اب اسی علاقہ میں وفد کا استقبال کیا گیا، بازار میں اتحاد و وحدت پر تقاریر کی گئیں، اور استقبالیئے دیئے گئے۔ یہاں کے علماء نے بتایا کہ چند لوگ ہیں جو شرپسندی کرتے ہیں، مجموعی طور پر لوگ اس شدت پسندی و جہالت کیخلاف ہیں اور ان شدت پسندوں سے ان کے اپنے علاقے والے بھی ایسے ہی تنگ ہیں جیسے آپ لوگ۔

یہ وہ حاصل تھا جسے کروڑوں روپے لگا کر بھی کوئی نہیں پاسکتا تھا، اس وحدت، اعتماد اور پرامن فضا کی اس خطے کو ضرورت ہے، یہی بات تھی جو ایک عوامی ایشو پر دونوں طرف کے لوگوں کی سمجھ میں آگئی ہے، بڑھتی ہوئی دہشت گردی اس خطے کا اولین مسئلہ تھا، جس کا جنازہ نکل گیا ہے۔ لوگ جانتے ہیں کہ باہمی اعتماد کی جو فضا پیدا ہوئی ہے، اس سفر کا نتیجہ خوشحالی ہے، ترقی ہے، تعمیر ہے، محبتیں ہیں، اخوت ہے، بھائی چارہ ہے۔ ایک دوسرے کا احساس ہے، خدا کرے کہ یہ جذبے سلامت رہیں، تاکہ محرومیوں اور استحصال کا بھی خاتمہ کیا جاسکے۔ اسی وسیع کردار کی وجہ سے عوام نے مجلس وحدت مسلمین سے توقعات اور امیدیں وابستہ کر لی ہیں، بیداری ملت واستحکام پاکستان کانفرنس ان عوامی توقعات اور امیدوں میں منعقد ہوئی ہے۔ عوام نے بارہ روزہ کامیاب دھرنوں کے بعد اس کانفرنس میں شرکت کرکے بھرپور انداز میں مجلس وحدت کے ہاتھوں کو مضبوط کیا ہے۔

18 مئی کو استحکام پاکستان کانفرنس، جس میں بلاشبہ ہزاروں لوگ شریک ہوئے، ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ کتنے لوگ تھے، ہاں یہ ضرور کہتے ہیں کہ عوامی سروے میں لاہور کے صحافیوں نے بزرگ و عمر رسیدہ افراد سے یہ سنا کہ ان کی زندگی میں آج تک کوئی سیاسی یا مذہبی اجتماع اتنا بڑا نہیں ہوا، یہ ایک ریکارڈ قائم ہوا ہے، جس نے مجلس وحدت مسلمین سے آگے بڑھنا ہے، اسے اس سے بڑا جلسہ تو کرنا پڑے گا۔ کانفرنس کا حسن جہاں مقررین کی خوبصورت ٹو دی پوائنٹ تقاریر تھیں، وہاں اسٹیج پر بیٹھے قائدین کا وہ گلدستہ بھی نہایت اثر پذیر تھا، جس کی خوشبو کی مہک عوام محسوس کر رہے تھے۔ منہاج القرآن کے علماء ونگ کے جناب فرحت عباس شاہ صاحب، سنی اتحاد کونسل کے جناب صاحبزادہ حسین رضا اور سید جواد الحسن کاظمی، اہلسنت اسکردو کے رہنما مولانا بلال زبیری صاحب جو دھرنوں میں بھی مسلسل حاضر رہے، نور بخشی علماء، اہلحدیث علماء سب پھولوں کے تازہ گلدستے کی مانند اکٹھے نظر آ رہے تھے، جو بے حدمتاثر کن تھا۔

کانفرنس میں ابتدائی تقریر مجلس وحدت مسلمین بلتستان کے سیکرٹری جنرل آغا سید علی رضوی نے کی، انہوں نے سب علماء کرام، عوام و خواص، شیعہ و سنی، نور بخشی علماء و عوام کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے خوش آمدید کہا۔ سنی و شیعہ قائدین نے مجلس وحدت مسلمین کی قیادت پر اپنے بھرپور اعتماد کا اظاہار کیا اور یہاں کی محرومیوں کے خاتمہ کیلئے کی جانے والی کوششوں اور جدوجہد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں بھرپور ساتھ دینے کا اعلان بھی کیا۔ مولانا بلال زبیری نے کانفرنس میں اپنی گفتگو میں یہ کہہ کر انگشت بدندان کر دیا کہ مجلس وحدت مسلمین ان کی جماعت ہے، علامہ ناصر عباس جعفری اور آغا سید علی رضوی ہماے قائد ہیں، ہم ان کے حکم کے پابند ہیں، یہ جذبے لائق تحسین و تقلید ہیں، ان جذبات کی قدردانی کی ضرورت ہے، ان خیالات کو دوسروں تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔

استحکام پاکستان کانفرنس میں کی جانے والی تمام تقاریر بےحد خوبصورت تھیں، جن کے بارے یہ کہا جاسکتا ہے کہ کسی ایک مقرر نے بھی کوئی سطحی گفتگو و جھول نہیں دکھایا، ہر ایک نے اپنے طے شدہ اور منتخب موضوع کو ہی پیش کیا، اس سے بڑھ کر اور کیا بات ہوسکتی ہے کہ کسی ایک مقرر کی تقریر کو کسی دوسرے نے دہرایا (Repeet) نہیں۔ سامعین مختلف مقررین کی تقاریر سے خوب لطف انداز ہوتے رہے اور اٹھ اٹھ کر داد و تحسین دیتے رہے۔ کانفرنس میں کی جانے والی تمام تقاریر نے عوام کے دل جیتنے میں اہم کردار ادا کیا، عوام کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کو دیکھ کر کسی کو آپے سے باہر ہوتے نہیں دیکھا گیا،جو کہ سلجھے ہوئے لوگوں کی علامت ہے۔ کسی مقرر نے کسی کے خلاف بالخصوص شیعہ علماء کونسل اور اس کی قیادت کو کسی طنز کا نشانہ نہیں بنایا، کسی کو تنقید کے تیر سے زخمی نہیں کیا، یہ حکمت عملی بھی کامیاب ٹھہری، وحدت کا شعار بلند کرنے والوں کی طرف سے ایسا ہی کیا جانا چاہیئے تھا۔

مجلس وحدت مسلمین مسلسل عوام میں حضور سے ہی ان کے دل جیت رہی ہے، پہلے گندم سبسڈی کے ایشو پر بارہ روزہ دھرنا اور اب عوامی پروگرام اور اجتماع کے ذریعے حقوق کے حصول کی جدوجہد میں تیزی اس سفر کی جانب بڑھنا ہی ہے جس کی منزل بہرحال آئینی حقوق کا حصول ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اس وقت عوام نے مجلس وحدت مسلمین کے پلیٹ فارم سے جو پیغام سنا ہے، اسے قلب و نظر سے قبول کیا ہے اور انہیں اس پلیٹ فارم سے اپنے مسائل کا حل دکھائی دے رہا ہے، اپنی مشکلات اور بنیادی حقوق کے حصول کی منزل قریب دکھائی دے رہی ہے، خصوصی طور پر آئندہ الیکشن جو اکتوبر میں ہونگے، ان میں مجلس وحدت مسلمین کو عوامی اعتماد حاصل ہوگا، ایسے میں قائدین کو عوامی جذبات و احساسات کی قدر کرنا ہوگی، ان کی توقعات پر پورا اترنے کیلئے ایم ڈبلیو ایم کو ایسے امیدواران سامنے لانے ہونگے، جن کا ماضی بے داغ ہو اور جو ماحول کو دیکھ کر قلابازیاں کھا کر نہ آئے ہوں بلکہ عوام یہ توقع رکھتی ہے کہ مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان میں نئے چہرے متعارف کروائے گی، جو پڑھے لکھے اور تعلیم یافتہ ماہرین ہونگے۔
 
اب یہ امتحان اور آزمائش کی کیفیت ہے کہ ایم ڈبلیو ای م اپنے نعروں پر عمل پیرا ہو کر دکھا پاتی ہے یا رائج سیاست اور اس کے اصولوں کی پاسداری کرتی ہے۔ اس لحاظ سے مجلس وحدت پاکستان ایک چیلنج بن چکی ہے، ان جماعتوں اور سیاست دانوں کیلئے جو گلگت بلتستان میں ایک عرصہ سے وارد سیاست ہیں اور ان میں موجودہ حکومت کے لوگ اور جماعت بھی شامل ہے جبکہ پاکستان میں وفاق میں اس وقت مسلم لیگ نون برسر اقتدار ہے، جس کو الیکشن دھاندلی کا وسیع تجربہ ہے۔ مجلس وحدت مسلمین اگر دوسروں کیلئے ایک چیلنج بن کر سامنے آئی ہے تو اسے بھی یہ چیلنج درپیش ہے کہ وہ عوامی توقعات پر کس طرح پورا اترتی ہے، اس لئے کہ اس سے عوامی توقعات کا گراف بہت بلند سطح پر دیکھا جا رہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 386699
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

پهر آنکھ کهل جاتی ہے اور سارا خواب تعبیر کی حسرت لئے ختم ہوجاتا ہے۔
Pakistan
سلام
ارشاد بھائی بہت اعلٰی تحریر لکھی ہے اور بہت ہی اچھا تجزیہ پیش کیا ہے۔ اللہ مزید توفقیات خیر دے۔
آمین
Pakistan
ماشاءاللہ
بہت خوب
Pakistan
nice! good
Pakistan
ماشاءاللہ ناصر بھائی
خوب محنت کی ہے، تاہم میثم بھائی اور فدائی بھائی و دیگر دوستوں سے مزید معلومات لینے کی ضرورت تھی۔
United States
نہایت اعلٰی تجزیہ۔
انشاءاللہ مجلس وحدت مسلمین کا مستقبل انتہائی تابناک ہے۔ عوام کا حقیقی ترجمان ہونے کا حق ادا کیا ہے۔ امید ہے آئندہ بھی عوامی مسائل کو حل کرتی رہے گی۔
ناصر ملت کے لیے ڈھیر ساری دعائیں۔
عباس حسینی
ماشاءاللہ ارشاد بھائی
اب بھی آنکھیں نہ کھلیں تو انہیں اندھا سمجھ کر معاف کر دیا جائے۔
میں بذات خود مجلس وحدت مسلمین سے اختلاف رکھتا ہوں اور نمائندہ ولی فقیہ قائد ملت اسلامیہ کا ایک ادنٰی سا جان نثار ہوں، لیکن حقائق سے منہ نہیں پھیرونگا۔ مجلس وحدت مسلمین نے تاریخی کارنامہ سرانجام دیا ہے گو کہ میرا ان سے کوئی تعلق نہیں، امید ہے کہ بزرگان زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے قدم اُٹھائیں گے۔ اسلامی تحریک کے مشیروں سے گزارش ہے کہ میں نہ مانوں والی پالیسی ترک کرکے فیصلے کئے جائیں، تاکہ بڑوں کی عزت بھی رہے اور نوجوانوں کی حوصلہ افزائی بھی ہو۔
ماشاءاللہ ارشاد بھائی واقعاً آپ نے حق اداء کیا، واقعاً مجلس وحدت مسلمین کے بارے میں آج کل مجلس کے مخلصین کٰل پاکستان میں عموماً اور گلگت بلتستان میں خصوصاً بالاخص بلتستان میں قدرے زیادہ فکر مند ہیں، کیونکہ مجلس کی قیادت کے اخلاص و تقویٰ کی وجہ سے ملت تشیع اس سے اپنی امیدیں لگائے بیٹھی ہے، ایسے میں مجلس کی مقبولیت کو دیکھ کر ایسے لوگوں نے بھی مجلس کے ساتھ چلنے کا رخت سفر باندنا شروع کر دیا ہے کہ جو کل تک مجلس کے وجود تک کو تسلیم کرنا گوارا نہیں کر رہے تھے (خصوصا گلگت بلتستان میں)، آج کل مجلس کے جلسوں کی زینت بنتے نظر آرہے ہیں، مخلص اور جنہوں نے مجلس کو اس مقام تک لانے میں قربانیاں دی ہے ان کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم اس تلخ تجربے سے دو مرتبہ پہلے گزر چکے ہیں، شہید قائد کے بعد اور دوسری بار آقای فاضل کے انتخاب کے بعد، جب ابن الوقت، موسمی اور مفاد پرست لوگوں نے مخلص، نظریاتی اور قانون پرست لوگوں کی جگہ کو پرکیا۔ خدارا خدارا ہوشیار رہئے۔ فاعتبرو ا یا اولی الابصار-
مہدی علی
Pakistan
Masha allah. Bht khoob. MWM haqeeqt men shia ar sunni wahdt pr kam kr rhi hy ar shia millt k liy kabl e Qadr khidmat anjam dy rhi hy. Hm allama raja nasir abbas jafri sahib ki kamyabi k liy dil ki gehrai sy dua goo hen... Sayd fazal abbas naqvi chicha vtni DST sahiwal punjab PK
ہماری پیشکش