0
Wednesday 13 Feb 2013 21:08

بڑھتی آبادی کس کے ‌‌‌فائدے میں

بڑھتی آبادی کس کے ‌‌‌فائدے میں
 تحریر: محمد علی نقوی
 
اکتوبر سن دو ہزار گیارہ میں دنیا کی آبادی سات ارب سے تجاوز کرچکی ہے اور سن دو ہزار پچاس تک دنیا کی آبادی میں مزید نو ارب کا اضا فہ ہوجائے گا۔ سات ارب کی آبادی نے لوگوں کو خوش فہمی کے ساتھ ہی ساتھ تشویش میں بھی مبتلا کر دیا ہے۔ بعض افراد اس مسئلہ کو منفی نظر دیکھتے ہیں اور آبادی میں اضافہ کی وجہ سے اقتصادی اور سماجی مسائل کو درپیش خطرات کے بارے میں خبر دار کرتے ہیں اور بعض افراد دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کو ایک غنیمت موقع قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس موقع سے صحیح فائدہ اٹھانا چاہئیے۔ اس سے پہلے کہ دنیا کی آبادی اس مقدار تک پہنچے ماہرین اور مفکرین نے دنیا کی بڑھتی ہوئی اس آبادی کے بارے میں خبردار کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ کرہ ارض کے محدود منابع و ذرائع کے پیش نظر دنیا کی آبادی جس رفتار سےبڑھ رہی ہے، اس سے مستقبل میں مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔
 
ماہرین کا کہنا تھا کہ دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کے نتیجہ میں دنیا میں ایک بڑا دھماکہ ہوگا، جس سے نہ صرف سطح زندگی میں کمی واقع ہوگی بلکہ ماحولیات کو بھی زبردست نقصان پہنچے گا۔ اس نظریے کے نتیجہ میں عالمی رائے عامہ کے فکری اور عملی طور پر آبادی کے کنٹرول کے بارے میں سخت اتحاد پیدا ہوگیا۔ اس طرح بڑھتی ہوئی آبادی دنیا کے لئے خطرناک سمجھی جانے لگی اور لوگوں کی توجہ کو اس طرف مبذول کرانے کے لئے سن انیس سو نواسی میں گیارہ جولائی کو عالمی یوم آبادی کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے۔ جس کے بعد بہت سے ممالک نے بڑھتی ہوئی آبادی کے کنٹرول، ماحولیات، آبادی، اقتصادی، سماجی، ثقافتی اور ماحولیاتی ترقی اور منابع کے اسباب و عوامل کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے لائحہ عمل تیار کرکے ان پر بھرپور توجہ دینے پر تاکید کی۔
 
اکتوبر سن دو ہزار گیارہ میں دنیا کی آبادی سات ارب سے تجاوز کرچکی ہے اور سن دو ہزار پچاس تک دنیا کی آبادی میں مزید نو ارب کا اضا فہ ہوجائے گا، کیونکہ سماجی، علمی اور اقتصادی مباحث ہمیشہ ایسے رہے ہیں جنہیں آبادی کے مسائل سے جدا نہیں کیا جاسکتا ہے اور آبادی کے بارے میں دقیق معلومات کے بغیر دوسرے پروگرامز انجام نہيں دئیے جاسکتے ہیں۔ اقوام متحدہ نے اپنی رپورٹ میں سن دو ہزار گیارہ میں دنیا کی آبادی کی صورت حال کے بارے میں تشویش کے بجائے اسے بہتر بنانے کے بارے میں توجہ دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس رپورٹ کے مطابق دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی ایک اعتبار سے مثبت سمجھی جاتی ہے۔ منجملہ سن انیس سو پچاس کے عشرے میں انسان کی متوسط عمر میں اڑتالیس سے اڑسٹھ سال اضافہ اور ولادت کے موقع پر ماؤں اور بچوں کی موت میں کمی انسان کی علمی اور فکری کوششوں کا نتیجہ شمار ہوتا ہے۔ 

اقوام متحدہ میں فنڈ برائے آبادی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر بابا اسوتوندے اسوتیمہین اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت کے بارے میں کہتے ہیں کہ انسان کے لئے یہ ایک بہترین موقع ہے۔ دنیا کی آبادی میں ایک ارب اسی کروڑ جوانوں کی آبادی ہے، انھیں ترقی اور نشو و نما کے لئے جگہ چاہئیے۔ نوے فیصد جوان ترقی پذیر ممالک میں رہتے ہیں، اگر ان کے لئے تعلیم اور ٹیکنیکل کام سیکھنے کے لئے اسباب فراہم ہوجائیں تو اقتصادی ترقی کے لئے ہمارے پاس ایک بڑی فوج ہوگی، البتہ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کی مشکلات جیسے امیر اور غریب ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلے اور شگاف، غذا، پانی، مکان اور روزگار تک دسترسی کے مسائل پر بھی توجہ دی گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے ماہرین کی نظر میں مہاجرین اور بڑے شہروں کے گرد و نواح میں رہنے والوں کی مشکلات بھی آبادی میں اضافے کے نتائج ہیں۔ بڑے شہروں کے اطراف کی آبادی اور غریبوں کی تعداد میں اضافے کی دلیل بھی آبادی کی بڑھتی ہوئی رفتار ہے، اور غریب ممالک میں بڑھتی ہوئی آبادی کے اخراجات حکومت کے اوپر عائد ہوتے ہیں، حکومت کی ترقی بھی رک جاتی ہے اور آیندہ آنے والی نسلیں بھی ہمیشہ غربت اور بھوک میں گرفتار رہ سکتی ہیں۔
 
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق سن دو ہزار پچاس تک افریقہ اور ایشیا کے ممالک شہری آبادی میں اضافہ کے لحاظ سے پیش پیش ہونگے۔ افریقہ کی شہری آبادی چار سو چودہ ملین سے بڑھکر ایک ارب دو سو ملین اور ایشیائی ممالک کی شہری آبادی ایک ارب نو سو ملین آبادی سے بڑھکر تین ارب تین سو ملین تک پہنچ جائے گی۔ اس طرح یہ دو براعظم چھیاسی فیصد شہری آبادی میں اضافہ کا تجربہ کریں گے۔ تیزی کے ساتھ بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر کیا افریقہ اور ایشیا عوام کو نئی تعلیمات اور رفاہی سہولیات فراہم کرسکیں گے؟ شہری آبادی میں اضافہ کے ساتھ ساتھ غربت و بےروزگاری سے مقابلے کے لئے روزگار، مکان، انرجی اور بنیادی تنصیبات کی ضرورت کے لئے اسباب فراہم کرنا ہوگا اور جھونپڑیوں میں رہنے والوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو روکنے اور ماحولیات کو تباہی و بربادی سے بچانے کے لئے اقدامات انجام دینے کی ضرورت ہوگی۔ 

ایسا لگتا ہے کہ اس وقت گذشتہ زمانے سے زیادہ اس زمانے میں ہمیں جوانوں کی تعلیم اور ان کی صحت و تندرستی کے لئے سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ سرمایہ کاری اقتصادی ترقی کے لحاظ سے آیندہ نسلوں کے لئے بہت ہی مفید اور مؤثر واقع ہوگی۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے نتیجہ میں جوانوں کے لئے پیش آنے والے مسائل و مشکلات کو کم کرنے کے لئے سرمایہ کاری اور صحیح پروگرام کی ضرورت کے ساتھ ساتھ دنیا میں متوسط لوگوں کے مسائل پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق کہا جا رہا ہے کہ سن دو ہزار پچاس تک انسان کی متوسط عمر ستتر برس ہوگی، اور ساٹھ برس سے زيادہ عمر کے لوگ بیس فیصد آبادی کو تشکیل دیں گے۔
 
اگرچہ انسان کی عمر کی بڑی اہمیت ہے، لیکن بڑھاپے میں زندگی کی کیفیت کی اہیمت کچھ زيادہ ہی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق سن دو ہزار بارہ میں لوگوں کی توجہ بوڑھے لوگوں کی طرف مرکوز ہوچکی ہے۔ ظاہر ہے کہ عمر میں اضافہ کے ساتھ ساتھ صحت و تندرست رہنے کے لئے مخارج بھی بڑھ جاتے ہیں، حالانکہ انسان کی عمر کا طولانی ہونا کافی اہیمت کا حامل ہے، اسی طرح بڑھاپے میں ان کی صحت و تندرستی کی بھی کافی اہمیت ہوتی ہے، تاکہ انسان بڑھاپے میں نہ صرف مشکلات سے دوچار نہ ہو، بلکہ سماج میں اپنے کردار کا تحفظ کرسکے۔ اس طرح بوڑھے لوگوں کا صحت مند ہونا گھر والوں اور ملکی اقتصاد کے لئے مالی منبع شمار ہوتا ہے اور مالی مشکلات سے محفوظ رکھتا ہے۔ دنیا کی آبادی کا بوڑھا ہونا بھی ایک بڑی سماجی تبدیلی ہے۔ اس لئے دنیا کے مختلف ممالک کو اپنے ملک کی صورت حال کے پیش نظر جائزہ لینا چاہئیے اور سرکاری پالیسیوں اور پروگرامز کے مطابق بڑھاپے کی وجہ سے پیش آنے والی مشکلات کی روک تھام کے لئے ضروری اقدام کرنا چاہئیں، چونکہ بڑھاپے میں پیش آنے والی مشکلات بہت زيادہ سنگین اور دشوار ہوتی ہیں، بلکہ اس کے سنگین اثرات سے سماجی نظام، روزگار اور صحت عامہ بھی متاثر ہو جاتے ہیں۔
 
بڑھتی ہوئی آبادی کے منفی اثرات بھی دیگر سماجی مشکلات کی طرح کسی ملک یا سرزمین تک محدود نہیں ہیں۔ اگر سامراجی طاقتوں سے مکمل چھٹکارہ نہ پایا گیا تو شاید مختصر مدت ميں تیسری دنیا کے ممالک کو قدرتی ذخائر سے غلط استفادے اور غلط پالیسیوں کے نتیجہ میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ فقر، اقتصادی بحران، غذاؤں کی کمی اور ماحولیات کی آلودگی جیسے مسائل عالمی مشکلات میں تبدیل ہوسکتے ہیں۔ اس طرح کی مشکلات کی روک تھام کے لئے عملی طور پر باہمی تعاون اور مشترکہ اقدامات انجام دینے کی سخت ضرورت ہے اور اسکے ساتھ ساتھ سامراجی طاقتوں کی مفاد پرستانہ پالیسیوں پر نظر رکھنی کی بھی اشد ضرورت ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ کی جنگ پسندانہ روش اور دوسرے ملکوں پر بالواسطہ اور بلاواسطہ قبضے کی خواہش کے پیـچھے بھی یہی سازش کارفرما ہے۔
خبر کا کوڈ : 239395
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش