5
1
Monday 10 Mar 2014 19:50

امریکی اتحاد کی نئی سرد جنگ اور پاکستان

امریکی اتحاد کی نئی سرد جنگ اور پاکستان
تحریر: عرفان علی

امت مسلمہ اور پاکستانی ذرائع ابلاغ بھلے یوکرائن میں جاری بحران کو اہمیت نہ دیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس بحران نے خطے سمیت پوری دنیا کو ایک نئی عالمی سرد جنگ کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ اس اہم ترین عالمی ایشو پر لکھنے کی اہم ترین وجہ ماضی کی وہ سرد جنگ ہے جو پاکستان کے لئے جتنی تباہ کن ثابت ہوئی شاید ہی کسی اور ملک کے لئے ہوئی ہوگی۔ آج بھی پاکستان اسی سرد جنگ کی عالمی صف بندی میں مغربی ممالک کے اتحاد میں شمولیت کی سزا بھگت رہا ہے۔ یورپی یونین سے جی ایس پی پلس کا تمغہ تجارت پانے والی نواز لیگی حکومت اور ہمارے دفتر خارجہ کو اس حوالے سے حکمت عملی بنانے میں تاخیر اس لئے بھی نہیں کرنا چاہئے کہ یورپی ممالک اور خاص طور پر جرمنی اور ہالینڈٖ توانائی کے شعبے میں روس پر انحصار کرتے ہیں اور سرد جنگ ان کے اقتصادی روابط پر اثر انداز ہوئی تو پاکستان اور یورپی ممالک کے اقتصادی تعلقات پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے یا منفی، پاکستانی مصنوعات کے خریداروں کی تعداد کم ہوگی یا زیادہ، اس پر غور و خوض کی ضرورت ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ مجموعی طور پر اس نئی سرد جنگ کے پاکستان اور مغربی ممالک کے تعلقات پر کیا اثرات ہوں گے۔

خارجہ پالیسی ساز پاکستانی اداروں اور شخصیات کو معلوم ہے کہ پرامن اور غیر فوجی حل کی تجویز بیان کر دینے سے غیر جانبداری کا تاثر تو قائم ہوسکتا ہے لیکن اس بیان سے اس بحران کے منفی نتائج سے بچا نہیں جاسکے گا۔ بعض سیاستدانوں کو بھارت امریکی اتحاد میں شامل نظر آتا ہے لیکن اس نے کھل کر روس کی حمایت کی ہے۔ بشار الاسد کی شامی حکومت بھی روس کے موقف کی تائید کر رہی ہے۔ نواز لیگی حکومت مغرب کے سب سے اہم اتحادی سعودی عرب کی حلیف ہے جو شامی حکومت کی بدترین مخالف ہے۔ اوروں کو چھوڑیئے خود امریکہ میں اہم شخصیات اس بحران پر انتہائی تشویش میں مبتلا ہیں اور لڑائی کے بجائے مفاہمت کی تجویز دے رہے ہیں۔ کیا ہمارے پالیسی ساز اداروں اور شخصیات نے سابق امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کا موقف سنا ہے۔

ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز جون میک کین ، سارہ پالن اور گراہم لنڈسے کو انہی کی پارٹی کے رابرٹ گیٹس نے خبردار کیا ہے کہ وہ اس بات کا خیال رکھیں کہ روسی صدر پیوٹن کے ہاتھ میں کھیل جیتنے والے پتے ہیں اور ان سینیٹرز کے اشتعال انگیز بیانات سے امریکی پالیسی کی کامیابی ممکن نہیں ہوگی بلکہ اس پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ ان کا رد عمل تھا۔ ملاحظہ فرمائیں کہ ڈیموکریٹک پارٹی کی امریکی حکومت پر بش کی ری پبلکن پارٹی اس مسئلے پر کتنی جذباتی ہو رہی ہے۔ سابق صدارتی امیدوار میک کین کے مطابق اوبامہ حکومت کی خارجہ پالیسی اتنی کمزور ہے کہ اب کوئی امریکی طاقت کو خاطر میں نہیں لاتا۔ ان کے ساتھ نائب صدارت کی خاتون امیدوار سارہ پالن نے کہا تھا کہ لوگ پیوٹن کو دیکھتے ہیں تو انہیں لگتا ہے کہ وہ ریچھوں سے لڑتا ہے اور تیل کے لئے کھدائی کرتا ہے اور اوبامہ انہیں ایسا شخص نظر آتا ہے جو بعض خواتین کی مانند تنگ چھچھوری جینز پہن کر گول مول اور کھوکھلی باتیں کرکے لمبی ہانکتا ہے۔ سینیٹر لنڈسے کا کہنا تھا کہ قوت فیصلہ سے محروم کمزور صدر کی وجہ سے جارحیت کرنا آسان ہوگیا ہے۔

امریکی رائے عامہ پر اثر انداز معروف کالم نگار ہیرولڈ میئر سن کا کہنا ہے کہ پڑوسی ممالک میں مداخلت کرنا اور دوسروں کو اپنے پڑوسی ملکوں میں فوجی اور سیاسی مداخلت نہ کرنے دینا، اس پالیسی کا بانی امریکہ ہے، جس کے صدر جیمز مونرو نے لاطینی امریکی ممالک کے بارے میں یہ نظریہ وضع کیا تھا اور جو مونرو ڈاکٹرن کی اصطلاح کے تحت 190 سال تک نافذالعمل رہا۔ پچھلے سال نومبر میں وزیر خارجہ جون کیری نے کہا کہ مونرو ڈاکٹرن کا دور ختم ہوا۔ لیکن میئرسن نے عراق پر امریکی یلغار کی مثال بھی دی اور کہا کہ اگر روس غیر ملکی سرحد کا احترام نہیں کرتا تو کیا ہوا، امریکہ کب غیر ملکی سرحدوں کو خاطر میں لاتا ہے۔ نیویارک ٹائمز سے وابستہ اقتصادی امور کے ماہر فلائڈ نورس نے خبردار کیا کہ نئی سرد جنگ ماضی سے مختلف ہوگی کیونکہ اب فریقین کے مابین اقتصادی تعلقات ہیں تو نقصان بھی دونوں کا ہوگا، جرمنی اور ہالینڈٖ سمیت یورپی ممالک کا توانائی کے شعبے میں روس پر انحصار زیادہ ہے۔ اس لئے کمپرومائز ہی دونوں کے مفاد میں ہے۔

سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے بھی یہی تجویز دی ہے۔ انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ انہوں نے چار امریکی جنگیں دیکھی ہیں، جو بڑے جوش و خروش اور عوامی حمایت سے شروع تو ہوئیں، لیکن لوگ بھول جاتے ہیں کہ وہ ختم کیسے ہوئیں، ان میں سے تین میں امریکہ یکطرفہ طور پر دستبردار ہوا تھا۔ اس لئے وہ کہتے ہیں کہ پالیسی کی کامیابی کا معیار جنگ کا خاتمہ ہوتا ہے نہ کہ آغاز۔ انہوں نے مغربی ممالک کو سمجھایا ہے کہ یوکرائن روس کے لئے کوئی غیر ملک نہیں۔ روس کی تاریخ یہاں سے شروع ہوئی، صدیوں یہ علاقہ روس کا حصہ رہا اور معروف روسی صدر خروشچیف بھی یوکرائن میں پیدا ہوئے، روسی جنگ آزادی کی کئی لڑائیاں یہاں لڑی گئیں، تاہم انہوں نے روس کو بھی مشورہ دیا کہ کرائمیا کو اپنا حصہ نہ بنائے۔

امریکی ایوان صدر وائٹ ہاؤس کی کوریج کرنے والے پیٹر بیکر نے امریکی سیاسی حلقوں کی رائے بیان کی ہے کہ وہاں بحث کا موضوع یہ ہے کہ کونسی امریکی شخصیت یا ادارہ یوکرائن بحران کا ذمے دار ہے۔ بعض امریکی اس ناکامی کا ملبہ انٹیلی جنس اداروں پر ڈال رہے ہیں کہ انہوں نے روس کے ردعمل کو کیوں نظر انداز کر دیا تھا۔ بائیں بازو کے سیاستدان کہہ رہے ہیں کہ جارج بش کی عراق پر یلغار نے یہ نظیر قائم کی تھی جس پر روس آج عمل پیرا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے روسی صدر کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے دس نکات کا تذکرہ کیا، لیکن روسی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس بیان کو حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش اور امریکہ کا دوہرا معیار قرار دے کر مسترد کردیا۔ انہوں نے کہا کہ شرمناک طریقے سے واقعات کی یکطرفہ غلط تشریح کی ہے اور عوام کے قتل عام اور دیگر واقعات کو نظر انداز کر دیا ہے حالانکہ ان کے شواہد موجود ہیں۔

آج امریکہ اور یورپ کے تجزیہ نگار بھی یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ اس نئی سرد جنگ میں روس زیادہ مضبوط پوزیشن میں ہے۔ جیسا کہ جرمنی اور ہالینڈ کے بارے میں پہلے ہی تذکرہ کیا جاچکا ہے۔ مشرقی یورپ کے تقریباً سارے ملک روس کی قدرتی گیس کے خریدار ہیں۔ معروف دانشور جارج فرائیڈ مین نے اس موضوع پر آج سے چھ سال قبل کہا تھا کہ روس کی یہ گیس ہیروئن کی طرح ہے، جو ایک بار استعمال کرتا ہے اسے بعد میں اس نشے کی لت پڑجاتی ہے۔ روس پر اقتصادی پابندیوں کا نقصان روس سے زیادہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو ہوگا۔ صرف گیس ہی نہیں دیگر شعبوں میں بھی روس کی حیثیت ایسی ہے کہ اس سے دوری اختیار نہیں کی جاسکتی۔

عالمی سیاست کی اس نئی صف بندی میں پاکستان کہاں کھڑا ہے، اس سوال کا جواب موجودہ حکمران، دفتر خارجہ اور خارجہ پالیسی کے ماہرین ہی دیں گے، لیکن تباہی و بربادی لانے والی تاریخ اگر اپنے آپ کو دہرانے لگے تو عقلمندی کا تقاضا ہے کہ تاریخ کی اس تکرار کی زد میں آنے سے بچیں۔ موجودہ پاکستانی حکومت پر ویسے بھی جنرل ضیاء کی باقیات ہونے کا الزام ہے۔ جنرل ضیاء کے دور حکومت میں امریکہ کی زیر قیادت مغربی اتحاد کے مفاد میں بنائی گئی افغان پالیسی پچھلی سرد جنگ کی وہ فاش غلطی ثابت ہوئی کہ اس پالیسی کے تحت ریاست پاکستان کے اتحادی بننے والے ’’نان اسٹیٹ ایکٹرز‘‘ اب طالبان کے خونی روپ میں ریاست پاکستان ہی کے خلاف صف آرا ہیں۔ عرب ممالک کی طرح آج بھی پاکستان کی خارجہ پالیسی میں امریکہ و یورپی ممالک پر انحصار کیا جا رہا ہے، جس کے بارے میں انگریزی کی اصطلاح میں سارے انڈے ایک ہی باسکٹ میں ڈال دیئے گئے ہیں۔ یہی وقت ہے کہ پاکستان سمیت دیگر مسلمان ممالک عملی طور پر اپنی غیر جانبداری کو ثابت بھی کریں اور امریکہ و مغرب کے اتحاد سے علیحدگی اختیار کرلیں۔
خبر کا کوڈ : 360093
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
Salam. Bar waqt aur durust tajzia pr aap ka shukria
Pakistan
Thanks a lot. u r really a good writer on current affairs. no other person paid attention to Pakistani position on the issue
.
Pakistan
zabardast aur acha likha hay. ham friends ko yeh parhnay ka mashwara daingay
ماشاءاللہ، بہت اچھا اور معلوماتی کالم، خدا جزائے خیر دے
سلام
پاکستان کے نام نہاد محب وطن حلقے خاموش کیوں ہیں، اب بتائیں کہ امریکی و مغربی اتحاد میں کب تک شامل رہیں گے اور کب تک مزید نئے طالبان دہشتگرد اس طرح وجود میں لائے جائیں گے، جیسا کہ افغان پالیسی کے ذریعے وجود میں لائے گئے تھے۔
ہماری پیشکش