0
Monday 25 Aug 2014 17:57

مسجد اقصٰی کی آتشزدگی کے 45 سال بعد

مسجد اقصٰی کی آتشزدگی کے 45 سال بعد
تحریر: عرفان علی 

ماہ اگست جاری ہے۔ پاکستان میں انقلاب و آزادی مارچ دھرنوں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ ’’انقلابیوں‘‘ کی توجہ ایک ایسے انقلاب پر ہے جسے بندہ انقلاب نہیں سمجھتا۔ لیکن اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت انقلاب کے سوا! ہم اپنی توجہ کو غزہ، عراق و دیگر ممالک میں امت اسلامی کو درپیش مشکلات سے ہٹا نہیں سکتے۔ زندگی اسی کا نام ہے۔ اس لئے اپنا رخ سوئے القدس کرتے ہیں۔ غزہ پر صہیونی جارحیت سے 45 سال پہلے کا یہ اہم سانحہ کوئی کیسے بھول سکتا ہے۔؟

یہ عظیم سانحہ 21 اگست 1969ء کو رونما ہوا، جب صہیونی حکومت نے ایک منظم سازش کرکے آسٹریلیا کے صہیونی ڈینس مائیکل روہن کے ذریعے بیت المقدس میں مسجد اقصٰی کو آگ لگا دی۔ ناجائز و غاصب صہیونی اسرائیلی حکومت کے فائر بریگیڈ کا عملہ آگ بجھانے کے لئے آیا تو اس نے پانی کے بجائے گیسولین کا چھڑکاؤ کیا، جس سے مزید آگ بھڑکی اور سب کچھ تباہ ہوگیا۔ بیت المقدس پر صہیونی حملوں کی ایک طویل تاریخ ہے۔ 1928ء میں بھی غیر فلسطینی صہیونی یہودیوں نے مغربی دیوار پر قبضے کی کوشش کی جو فلسطینیوں نے ناکام بنا دی تھی۔ 1930ء میں برطانوی سامراج نے جس کا فلسطین پر کنٹرول تھا، اس معاملے کی تحقیقات کروائیں تو رپورٹ میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ الاقصٰی کمپاؤنڈ کے مغرب میں تعمیر کی گئی دیوار غیر قانونی ہے اور یہ تعمیر کرنے والوں کی ملکیت نہیں بلکہ یہ بھی الاقصٰی کمپاؤنڈ کا ہی حصہ ہے۔ یہودیوں کی جانب سے دیوار کے قریب عبادات میں استعمال ہونے والی اشیاء رکھنے سے اس پر یہودی ملکیت ثابت نہیں ہوتی۔

صہیونی افواج میں شامل یہودی ریبائی شلومو گورین نے 1967ء میں مسجد اقصٰی کی حرمت پامال کرتے ہوئے فساد کروائے۔ پھر 1969ء کا سانحہ رونما ہوا تو اس کے مرتکب مجرم کو نفسیاتی مریض ظاہر کرکے علاج کے لئے داخل کروا دیا گیا اور بعد ازاں بغیر کسی سزا کے وہ علاج کے بعد آزاد ہوگیا۔ پھر 1970ء میں صہیونیوں کا گروہ ٹیمپل ماؤنٹ فیتھ فل زبردستی مسجد اقصٰی کے احاطے میں گھسا۔ مسلمان فلسطینیوں نے انہیں پیچھے دھکیلا تو صہیونی افواج نے ان پر فائرنگ کی۔ صہیونی فیتھ فل گروپ مسجد اقصٰی کو مسمار کرنے کے لئے بنایا گیا تھا۔ 1976ء میں صہیونی عدالت نے یہودیوں کو مسجد اقصٰی میں عبادت کی اجازت دے دی۔ مسلمانوں کے شدید احتجاج پر بعد ازاں یہ اجازت منسوخ کر دی گئی۔

1979ء میں مسجد اقصٰی کے ایک داخلی راستے پر صہیونی انتہا پسندوں نے قبضہ کرلیا اور فلسطینی نمازیوں پر اسلحہ تان کر انہیں عبادت کے لئے اندر نہیں جانے دیا۔ 1980ء کے عشرے میں بھی یہ سلسلہ شدت کے ساتھ جاری رہا۔ اگست 1981ء میں ایک اسرائیلی ہیلی کاپٹر مسجد اقصٰی کے اوپر نچلی پرواز کرتا رہا، تاکہ نمازی اندر خطبہ سننے نہ جاسکیں۔ 1981ء میں ہی یہودی تہوار کے موقع پر مسجد اقصٰی سے اذان کو ممنوع قرار دیا گیا۔ اس کے بعد یہ انکشاف ہوا کہ مسجد اقصٰی کی بنیادوں کو کمزور کرنے کے لئے اس کے نیچے سرنگیں کھودی گئی تھیں۔ 1982ء میں ایک جعلی بم پارسل ایک گیٹ پر رکھا گیا۔ اس میں صہیونیوں کی طرف سے دھمکیاں بھی لکھی گئی تھیں۔ القدس پر فائرنگ کی گئی، دو مسلمان شہید کئے گئے۔ اس سال ایک صہیونی اسرائیلی مسجد اقصٰی کو بم سے اڑانے کی سازش کرتے ہوئے پکڑا گیا لیکن بغیر کسی سزا کے آزاد کر دیا گیا۔ دیگر صہیونی گروہوں نے پمفلٹ تقسیم کرکے یہودیوں کو مسجد اقصٰی پر قبضے کے لئے اکسایا۔

مسجد اقصٰی کو مسمار کرکے یہودی ٹیمپل کی تعمیر کے لئے فنڈز جمع کرنے کے لئے 1983ء میں ٹیمپل ماؤنٹ فنڈ اسرائیل، یورپ اور امریکا میں قائم کیا گیا۔ اسی سال مسجد اقصٰی کے داخلی راستے پر دھماکہ خیز مواد برآمد ہوا، 4 مسلح یہودی کمپاؤنڈ میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہوئے پکڑے گئے جنہیں 6 ماہ بعد رہا کردیا گیا۔ 1984ء میں آدھی رات کے وقت سیڑھیاں لگا کر اندر داخل ہونے کی کوشش کی گئی اور پورے سال فلسطینیوں کو خوفزدہ کرنے کے لئے مسلح صہیونی داخلی راستوں پر پٹرولنگ کرنے لگے۔ 1988ء، 1990ء، 1996ء، 1997ء، 2000ء، 2004ء، 2006ء، 2008ء، 2010ء میں، 2011ء سے 2014ء تک کوئی سال ایسا نہیں گذرا جس میں مسجد اقصٰی کی حرمت کی پامالی اور سرنگ کھودنے یا آنسو گیس کی شیلنگ اور فائرنگ کے واقعات رپورٹ نہ ہوئے ہوں۔

مسجد اقصٰی میں آتشزدگی کے بعد ستمبر 1969ء میں آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس کا قیام عمل میں آیا۔ عرب لیگ کی طرح یہ تنظیم او آئی سی بھی آزاد فلسطینی ریاست کے قیام اور القدس کو اس کا دارالحکومت قرار دیتی ہے۔ لیکن اس نے بھی عملی طور پر اس عظیم ہدف کے حصول کے لئے کوئی مثبت کام نہیں کیا۔ انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ فلسطین کی مظلوم مائیں رو رو کر پوچھتی ہیں کہ عالم اسلام اور عالم عرب کہاں ہیں؟ غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کا سلسلہ جاری ہے۔ عرب لیگ اور او آئی سی خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہیں۔ مسجد اقصٰی کی آزادی کی جنگ کی صف اول کے مجاہدین کی سرزمین غزہ پر اسرائیلی جارحیت ماہ رمضان المبارک میں شروع ہوئی لیکن افسوس کہ عرب بادشاہوں کو رمضان کا تقدس بھی یاد نہ رہا۔

مسجد اقصٰی اور القدس یعنی گنبد صخریٰ آج صہیونیوں کے نرغے میں ہے۔ غزہ میں دو ہزار سے زائد فلسطینی شہید کئے جاچکے ہیں۔ مغربی کنارے کے فلسطینی غزہ کے محصور بھائیوں سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے اسرائیلی افواج کے سامنے تن کر کھڑے ہیں۔ مسلمانان عالم کا اوقیانوس یوم القدس پر میدان عمل میں تھا اور احتجاج کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ عرب بادشاہوں کی خیانت کے باوجود غزہ سے اسرائیل پر جو راکٹ برسائے جا رہے ہیں، وہ اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ فلسطینیوں کے ایسے دوست اور مددگار زندہ ہیں جو قدس کی آزادی تک جاری رہنے والی اس جنگ میں ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 406623
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش